Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 28

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 28)
اب ہم تینوں مکاتب فکر کی طرف سے مختصر ضمیمہ پیش کرتے ہیں
سنی بریلوی عالم اپنی کتب و ویبسائٹ میں لکهتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں اور بشر بھی-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن اور حدیث پاک میں نور بھی کہا گیا ہے اور بشر بھی۔ ہاں قرآن وحدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے کبھی کسی نبی کو اپنے جیسا بشر کہا ہو۔ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں بھی سرکار کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ اس میں قصور جہالت کا ہے یا ان متعصب لوگوں کا جو ادب و احترام سے ہٹ کر نبی کو اپنے جیسا بشر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی شازش و اتباع میں ایسا ہو رہا ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و محبت ختم ہو جائے۔ اس کی نشاندہی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔
'وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو'
جبکہ قرآن کریم نے نبی کو بشر بھی کہا ہے، نور بھی کہا ہے، ان میں کوئی تعارض نہیں۔ اس کا منکر قرآن کا منکر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں بے مثل نور، بشر بھی ہیں بے مثل بشر۔ البتہ جس ذات پاک کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ ترین صفات سے نوازا ہے اس کو صرف بشر کہنا اس پر اصرار و تکرار کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی صفات کا منکر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی و رسول ماننے سے انسان مسلمان کہلاتا ہے۔ صرف بشر بشر کا قول کفار کا ہے اہل ایمان کا نہیں۔ ہم اہل ایمان ہیں۔ کوئی قرآن و حدیث سے ثابت کرے کہ اہل ایمان اپنے نبی کو اپنے جیسا بشر کہہ کر مسلمان ہوتے تھے یا ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ نور و بشر کا نہیں مسئلہ ادب و بے ادبی کا ہے۔ اللہ بھی نور ہے، ملائکہ بھی نور ہیں، حور وغلمان بھی نورہیں، سورج بھی نور ہے قرآن بھی نور ہے، نبی بھی نور ہے ایمان بھی نور، ہماری آنکھ بھی نور ہے، ہماری عقل بھی نور ہے، افسوس آج کے لوگ کا عجب حال ہے۔
بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
'تنگ بر ما رہگزار دین شد است
ہر لئیمے راز دار دین شد است'

قرآن و حدیث اور علماء و محدثین، فقہاء و صوفیا سب نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کہا اور مانا ہے مثلاً قرآن میں دیکھئے:

قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌo

المائده، 5: 15

’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔‘‘
يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَo
الصف، 61: 8
’’یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کواپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘
وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاo
الاحزاب؛ 33: 46
’’اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔‘‘
اسی طرح کتب سیر، احادیث، تفاسیر اور بائبل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور فرمایا گیا ہے مثلاً ابن ہشام، 1: 144 ، تاریخ الامم و الملوک الطبری، 576 ، صحیح مسلم، مشکوٰۃ، 513، 515، 517 میں سورج و چاند جیسا چہرہ فرمایا۔
انجیل برناباس شائع کردہ جماعت اسلامی، البدایہ والنہایہ میں بھی آپ کا نور ہونا ثابت ہے لہٰذا ہر مسلمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور مانتا ہے۔ نور کے مقابلہ میں ظلمت ہے یعنی اندھیرا اور تاریکی۔ کوئی مسلمان سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یہ گستاخی نہیں کر سکتا۔ جب آپ کی نورانیت ثابت ہے تو آپ غور کریں کہ یہ نورانیت کہاں سے آئی تو قرآن میں جواب ہے کہ
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
النور، 24: 35
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے)۔‘‘

تو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہوئی اس لئے آپ کو نور من نور اللہ بھی کہنا قرآن و سنت اور بائبل کی رو سے جائز ثابت ہوا جبکہ منکرین کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کے خلاف ایک دلیل بھی نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا انکار کسی مسلمان کو نہیں لیکن نورانیت اور بشریت میں تضاد ثابت کرنا نری جہالت ہے۔ نور کے مقابلہ میں ظلمت یعنی اندھیرا اور تاریکی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی ہیں اور یہی اللہ کی قدرت کا کمال ہے۔ پس شریعت کے دلائل سے نورانیت کا انکار کرنا جہالت و تعصب کے سوا کچھ بھی نہیں۔
زمین وآسمان سب کچھ اللہ کے نور سے پیدا ہوا ہے۔
یہاں عکس کی بات ہو رہی ہے، اللہ کی ذات نور حقیقی ہے اور کائنات اس کا عکس ہے۔ نور کوئی جزو نہیں ہے۔ نور سے مراد عکس ہے، نور کوئی مادہ نہیں ہے اور سورہ اخلاص میں جس چیز کے بارے میں بیان کیا گیا وہ مادہ کی بات ہو رہی ہے۔ وہاں اولاد کی نفی کی گئی، وہاں والد ہونے کی نفی کی گئی کیونکہ یہ ساری چیزیں حقیقت ہیں مادی ہیں اور اجزاء ہیں۔ نور سے مراد والد یا اولاد نہیں بلکہ اس سے مراد اللہ کا عکس ہے۔
کوئی صحیح العقیدہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا انکار نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث اور ائمہ اسلام کی تصریحات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باقی بھی تمام انبیائے کرام صلٰوۃ اﷲ و سلامھم کی بشریت قطعاً ثابت ہے۔ اس کا انکار کفر ہے اور کوئی مسلمان کافر نہیں ہو سکتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام کی بشریت و آدمیت ان آیات میں واضح کئی گئی ہے۔
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلاَّ بَشَرًا رَّسُولاً.
’’فرما دیجئے : میرا رب (ان خرافات میں الجھنے سے) پاک ہے میں تو ایک انسان (اور) اﷲ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں‘‘۔
بنی اسرائیل، 17 : 93
سورۃ المئومنون میں فرمایا :
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ.
’’اور ان کی قوم کے (بھی وہی) سردار (اور وڈیرے) بول اٹھے جو کفر کر رہے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیوی زندگی میں (مال و دولت کی کثرت کے باعث) آسودگی (بھی) دے رکھی تھی (لوگوں سے کہنے لگے) کہ یہ شخص تو محض تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے، وہی چیزیں کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی کچھ پیتا ہے جو تم پیتے ہو‘‘۔
المومنون 23 : 33
وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ.
’’اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو پھر تم ضرور خسارہ اٹھانے والے ہو گے‘‘۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو حق کی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی ان کو بشر کہہ کر نبی ماننے سے انکار کر دیا۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ.
’’سو انہوں نے (بھی یہی) کہا کہ کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم کے لوگ ہماری پرستش کرتے ہیں‘‘۔
فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ.
’’پس انہوں نے (بھی) ان دونوں کو جھٹلا دیا سو وہ بھی ہلاک کیے گئے لوگوں میں سے ہو گئے‘‘۔
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ.
’’تم فرماؤ اس ظاہر صورت انسانی میں تو میں تم جیسا آدمی ہی ہوں مجھے وحی آتی ہے‘‘۔
الکھف 18 : 110
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہ السلام بشر تھے آپ کی بشریت کا انکار کفر ہے کہ قرآن کا انکار ہے مگر صرف بشر ہی نہ تھے بلکہ آپ ایسے بشر تھے جن کو وحی کی گئی اور جس بشر کو وحی کی جائے وہ نبی ہوتا ہے جیسے سربراہ ملک۔ بشر ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور اس وصف میں کوئی اس کی برابری نہیں کر سکتا ہر بشر بادشاہ نہیں ہوتا ہمارا وزیر اعظم انسان ہوتا ہے مگر ملک میں ایک ہی ہوتا ہے اس جیسا دوسرا اس وصف میں اس کا شریک نہیں ہو سکتا نبی انسان اور بشر ہوتا ہے مگر نبوت و رسالت ایسی صفتیں ہیں جن کی بنا پر کوئی دوسرا ان جیسا نہیں ہوتا۔ جب کسی بشر اور انسان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت لگ جائے تو وہ تمام انسانوں سے ممتاز ہو جاتا ہے وحی والا آدمی رسول ہوتا ہے نبی ہوتا ہے دوسرا آدمی ہزار فضیلت رکھتا ہو نبی کی مثل نہیں ہوتا جب عالم اور جاہل برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں، مومن اور کافر برابر نہیں، نیک اور بد برابر نہیں پھر نبی اور غیر نبی کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ ہاں ظاہری شکل وصورت میں، کھانے پینے میں، تندرست اور بیمار ہونے میں، بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں، بعض امور میں ظاہری مشابہت و مماثلت موجود ہے لیکن فضائل کو نظر انداز کر کے مماثلت کی رٹ لگانے سے تو کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فضائل و کمالات والوں کو عام آدمی کی طرح کہتے رہنا دراصل ان کے فضائل و کمالات کا انکار۔ ان سے بغض و حسد اور منافقت کی علامت ہے۔ آپ فوجی افسر کو کیپٹن۔ میجر، کرنل، بریگیڈئر اور جنرل نہ کہیں اور محض انسان کہتے رہیں۔ صدر، وزیراعظم سیکرٹریز اور دوسرے عہدیداروں کو صرف ان کے ناموں سے پکاریں اور ان کے عہدوں کا ذکر نہ کریں۔ ماں باپ، چچا، تایا، استاد، محدث، مفسر، مورخ، سائنس دان، عالم، فقہیہ، ولی کو آدمی ہی کہتے رہیں اور ان کو ان محترم ناموں سے نہ بلائیں جو ان کمالات کے آئینہ دار ہیں تو آپ نے گویا ان صاحبان کمال کے فضل و کمال کا انکار کیا ہے لہذا انبیائے کرام آدمی ہیں، بشر ہیں مگر یہی کچھ نہیں وہ رسول ہیں، نبی ہیں اللہ کے محبوب ہیں۔ اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ مخلوق خدا کی نجات کا ذریعہ ہیں، مقبول شفاعت ہیں، ماذون من اللہ ہیں۔ اللہ کے بنانے سے تمام دنیا کے حاکم غیر مشروط ہیں، مطاع ہیں امر ہیں، نہی ہیں، حلال و حرام کرنے والے ہیں، متبوع ہیں، مصطفی ہیں، مرتضی ہیں، مجتبی ہیں بشر تھے مگر رسول بشر نہ کہ عام بشر۔ وہ بشر ہونے کے ساتھ نور تھے اور ہیں کسی بریلوی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ بشر نہیں ہر ایک کو موت آنی ہے نبی ہو یا غیر نبی مگر رسول کی موت بھی نرالی ہے اور حیات بھی۔
أًمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنَّ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُم وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ.
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اُن لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے (کہ) اُن کی زندگی اور ان کی موت برابر ہو جائے۔ جو دعویٰ (یہ کفّار) کر رہے ہیں نہایت برا ہے‘‘۔
الجاثیہ 45 : 21
جب نیک و بد برابر نہیں ہوسکتے تو نبی اور غیر نبی کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ گو شکل و شباہت، کھانے پینے، سونے، اور بیماری، تندرستی میں ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں برابر نہیں۔ بڑا بنیادی فرق ہے۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
تاریخ اشاعت: 2014-01
http://www.thefatwa.com
مزید معلومات اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں
جاری......
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ مستورات کیلے علیحدہ گروپ موجود ہے
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...