Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 32

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر32)
سلفی حضرات کے نزدیک  "ایصال ثواب" کی شرعی حیثیت جو ان کی کتب اور ویب سائٹ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں-
قرآن خوانی اور دیگر  ایصال ثواب  کی مروجہ شکلوں نے موجودہ دور میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے جس میں علماء سنی بریلوی اور بعض سنی دیو بندی حضرات کثرت سے مبتلاہیں۔ ۔
ایصال ثواب کو کچھ لوگ بالکل ناجائز قراردیتے ہیں اورکچھ لوگ اسے جائز قراردیتے ہیں۔مناسب ہے کہ نفس قرانی خوانی پر کچھ لکھنے سے قبل قرآن خوانی کے مروجہ طورطریقوں پر بات کرلی جائے۔
  غیرشرعی ایصال ثواب
1: شادی بیاہ کے موقع پر علماء اورطلباء کو بلاکر قرآن پڑھایاجاتاہے اوران کی ایک وقت کھانے کی دعوت کی جاتی ہے اورکچھ روپے دیئے جاتے ہیں۔اگریہ بات مدرسہ کے علماء اورطلباء کو معلوم ہو کہ وہاں نہ روپے ملیں گے اورنہ کھاناملے گاتوکوئی بھی نہ جائے ۔لہذا اس طرح کی قرآن خوانی کےعدم جواز میں کسی کوبھی شک نہیں ہوناچاہئے۔
2:شادی بیاہ سے زیادہ کسی کی موت کے بعد قرآن خوانی کااہتمام کرایاجاتاہے اورکمال تویہ ہے کہ یہ قرآنی خوانی علماء ایسی ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ان کو توبہ کرنا چاہئے۔
3:موت کے کچھ عرصہ بعد کی مختلف رسمیں ہیں۔ساتواں، تیسواں، چالیسواں برسی اور پتہ نہیں کیاکیا۔ان میں بھی قرآن پڑھنے کیلئے علماء حضرات کو کرایہ پر طلب کیاجاتاہے -
4:پاک و ہند میں کچھ یہ بھی رواج ہے کہ کچھ لوگ اپنے دوکان ومکان میں حصول برکت کیلئے یوں ہی کسی عالم اورحافظ کومقرر کرلیتے ہیں کہ ہم تمہیں اتنا ماہانہ دیں گے روزآکر قرآن پڑھ جایاکرو۔یہ شکل بھی عدم جوازکی ہے۔کیونکہ قرآن کو اجرت لے کر پڑھناجائز نہیں ہے۔
شرعی ایصال ثواب:
احادیث میں جن طریقوں سے مردوں کو ایصال ثواب پہنچانے کی بات آئی ہے وہ شرعی اورپسندیدہ ہیں۔احادیث میں ایصال ثواب کی کئی شکلیں ذکر کی گئی ہیں ۔ایصال ثواب کی کچھ شکلیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔
1:صدقہ جاریہ یعنی کہیں کنواں کھدوا دیا،مسجد تعمیر کرادی یا رفاحی عام کا کوئی ایساکام کردیا جس کی بدولت عوام الناس مدت دراز تک فائدہ اٹھاتے رہیں۔اسی تعلق سے وقف کا مسئلہ بھی آتاہے کہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے کوئی زمین وقف کردی،کوئی عمارت وقف کردی۔اس سے عامۃ المسلمین فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
2:علم نافع:یعنی کوئی کتاب ایسی تصنیف وتالیف کردی یاکچھ ایسے علمی کام انجام دیاکہ بعد والے نسلاً بعد نسل اس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔مثلادیکھئے محدثین نے حدیث کی کتابیں تالیف کیں۔اب اس کا ثواب ان کو اس وقت تک پہنچتارہے گاجب تک ان کتابوں سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
    ائمہ اربعہ اورفقہاء کرام نے مسائل کااستنباط کیا۔ان کو اس وقت تک ثواب ملتارہے گاجب تک ان کے مسائل سے لوگ استفادہ کرتے رہیں گے۔
    مفسرین اوردیگر دینی علوم پر لکھنے والوں نے جوکچھ لکھاتوجب تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں گے لوگوں کواس سے فائدہ ملتارہے گا۔داعیان دین جن کی کوششوں سے لوگوں نے اپنی قدیم گمراہی والامذہب چھوڑ کر مذہب اسلام اختیار کیا توان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کے نیک عمل کا ثواب ان کو بھی ملتارہے گا۔
    مجاہدین نے اپنی جانیں دے کر سرحد اسلام کی جو حفاظت کی تواسلامی مملکت کے اندر رہنے والے لوگ جو چین وسکون سے ہیں ان کے نیک عمل کا ثواب بھی مجاہدین کو ملتارہے گا۔
3:نیک اولاد:قرآن وحدیث میں اس قسم کی دعائیں موجود ہیں جس سے خدا سے نیک اولاد کا سوال کیاگیاہے۔نیک اولاد انسان کیلئے سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔اگرکہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ وہ دنیاکی ہی جنت ہے۔انسان نیک اولاد اورنیک بیوی کی بدولت دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹتاہے۔کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی اولاد جونیک عمل کرتی ہے تواس کا ثواب بھی اسے ملتارہے گا۔اس کے علاوہ مزید فائدہ یہ ہے کہ نیک اولاد والدین کو انتقال کے بعد بھی یاد رکھتی ہے اوراس کے لئے دعائے خیرکرتی رہتی ہے۔جس کی بدولت شہرخموشاں میں آباد لوگوں کا مرتبہ بلند ہوتارہتاہے۔
    حدیث میں آتاہے کہ کسی شخص کا مرنے کے بعد درجہ بلند کردیاجاتاہے وہ پوچھتاہے کہ اے اللہ میرادرجہ اوررتبہ بلند کردیاگیااس کی کیاوجہ ہے توجواب ملتاہے کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے دعااوراستغفار کا ہدیہ بھیجاہے اوریہ اسی کا ثمرہ ہے۔
    عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْه ِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ : أَنَّى هَذَا ؟ فَيُقَالُ :باسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ (سنن ابن مانہ بسند صحیح)
   4:صدقہ کرنا۔اگرمرنے والوں کی جانب سے صدقہ کیاجائے تواس کا ثواب بھی ان کو پہنچتاہے اورملتاہے۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیااورمیراخیال ہے کہ اگرانکو مہلت ملی ہوتی تووہ صدقہ وخیرات کرتیں تواگرمیں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔ حضورپاکؐ نے فرمایا۔ہاں
    عن أمّ المؤمنين عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا ( أي ماتت فجأةً ) وَ أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا ؟ قَالَ : نَعَمْ (البخاري 1388)
    اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ کا بھی واقعہ ہے کہ انکی غیرموجودگی میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیاانہوں نے اس تعلق سے حضورپاک سے پوچھاکہ اگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ہاں ۔اس پر انہوں نے اسی وقت اپناباغ جس کانام مخراف تھاصدقہ کردیا۔
    عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا ، أَنَّ سَعدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِي اللَّه عَنْهما تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَ هُوَ غَائِبٌ عَنْهَا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَ أَنَا غَائِبٌ عَنْهَا أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( نَعَمْ ) قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ ( اسم لبستان كان لها صَدَقَة ٌ عَلَيْهَا .(صحیح البخاری )
اسی طرح مسلم ،سنن نسائی اورابن ماجہ میں ہے ایک شخص نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میرے والد کاانتقال ہوگیاہے۔انہوں نے کچھ مال چھوڑاہے اوراس مال کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ہے تو کیااگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیایہ ان کیلئے کفارہ ہوگا۔آنحضرت ﷺؑ نے فرمایاہاں۔
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أَبِي مَاتَ ، وَ تَرَكَ مَالاً وَ لَمْ يُوصِ ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ ؟ قَالَ : نَعَمْ.
  تنبیہ:مشہور حدیث تویہی ہے کہ جب انسان مرجاتاہے تواس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں ہاں تین عمل کاثواب اسے ملتارہتاہے۔
 ” جب انسان مرجاتا ہے تو اس سے اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ، سوائے تین چیزوں کے :صدقہ جاریہ یا وہ علم جس کے ذریعے مخلوق کو  فائدہ حاصل ہو یا اس کے لیے دعا کر نے والی نیک اولاد “۔ [ مسلم ]
پودا لگانا یا کھیتی کرنا :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو مسلمان کوئی پودا لگاتا، یا کھیتی کرتا ہے ، اس سے پرندے ، یا انسان ، یا جانور جو کچھ کھائیں گے ، اسکی وجہ سے ا سکو صدقہ کا ثواب ملے گا “ [متفق علیہ ]
ضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ :” جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوکر فرماتے : ” اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو، اور اس کے لیے ( اﷲ تعالیٰ سے ) ثابت قدمی مانگو ، اس لیے کہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا “ ۔ [ ابوداؤد ، اورعلامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ]
٭ قبرستان کی زیارت اور میت کے لیے دعائے مغفرت: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے :اَلسَّلاَمُ عَلٰی اَھلِ الدِّیَارِ مِنَ المؤُ مِنِینَ وَالمُسلِمِینَ وَیَرحَمُ اللّٰہُ المُستَقدِمِینَ مِنَّا وَالمُستَاخِرِی وَاِنَّا اِن شَائَ اللّٰہُ بِکُم لاَحِقُونَ ۔ترجمہ :”سلامتی ہو اِن گھروں میں رہنے والے مومنوں اور مسلمانوںپر، اوراللہ تعالی رحم کرے ہم سے پہلے فوت ہونے والوں پر اور پیچھے رہنے والوں پر۔ اور ہم بھی اگراﷲ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔“[رواہ مسلم]امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” تمام علماءکا اس بات پر اتفاق ہے کہ دُعا مُردوں کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچتا ہے “
شیخ جمال الدین القاسمی  فرماتے ہیں : ” دوستی اور بھائی چارگی کا حق یہ ہے کہ میت کی زندگی اور وفات کے بعد بھی اس کے لیے ہر اس چیزکی دعا کرے جسے انسان اپنے آپ ، اہل وعیال اور اپنے متعلقین کے لیے پسند کرتا ہے ، اور اسی طرح دعا کرے جس طرح وہ اپنے لیے کرتا ہے “۔
٭ میت کے حق میں مسلمانوں کی دعا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ”ایک مسلمان کی دعا،اپنے مسلمان بھائی کے لیے، اس کی عدم موجودگی میںمقبول ہوتی ہے ، اس کے پاس ایک فرشتہ متعین کردیا جاتا ہے ، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے کسی بھلائی کی دعا کرتا ہے تو متعین فرشتہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تجھے بھی اسی طرح ملے “۔[رواہ مسلم]
اور حضرت ابو قتادة رضی اللہ عنہ کی روایت جو ایک میت کی جانب سے قرض کی ادائیگی کے بارے میں ہے ، جب انہوں نے اس کی جانب سے اس کا قرض ادا کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اب اس پر اس کی چمڑی ٹھنڈی ہوگئی “۔ ( یعنی اب اس کے جسم کو سکون ملا ہے ) [ رواہ الحاکم وصححہ البانی ]شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : ”اس حدیث سے  معلوم ہوا کہ قرض کسی بھی شخص کی جانب سے ادا کیا جاسکتا ہے ، قرض کی ادائیگی اولاد ہی کے لیے مخصوص کرنا ضروری نہیں“۔[ مجموع الفتاویٰ : 24/311]
فرمانِ الٰہی ہے : ﴾ وَ نَکتُبُ مَاقَدَّمُوا وَآثَارَہُم ﴿ [ےٰس ٓ: 12]ترجمہ : ” اور جو کام انہوں نے کیے ہیں اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں ، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں “۔امام ابن کثیررحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ” جو کام انہوں نے خود کئے ہیں اور جن کاموں کے اثرات انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ، وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں اور اسی پر ہم انہیں بدلہ دیں گے ، اگر اچھے ہوں تو اچھا ، اگر برے ہوں تو برا بدلہ دیا جائے گا “۔
طبرانی کی مرفوع حدیث میں تین کی جگہ چارکاذکر ہے اوراس میں سرحد کی نگرانی کرنے والے کااضافہ ہے۔ بزار کی حضرت انس سے مرفوع روایت میں 7کاذکرہے۔اسی طرح ابن ماجہ،ابن خزیمہ اورابن عساکر کی روایت میں مزید کچھ چیزوں کا تذکرہ ہے۔ حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ تمام روایات سے حاصل شدہ کی تعداد 11تک پہنچتی ہے اوروہ یہ ہیں۔

    1:علم جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے
    2:نیک اورصالح اولاد کی دعا
    3:کھجور کا درخت لگادیناجس سے دوسرے مستفید ہوتے رہیں
    4:صدقہ جاریہ
    5:قرآن پاک جو وراثتامنتقل ہوتارہے
    6:سرحد کی نگرانی
    7:کنواں کھدواناجس سے ضرورت مندوں کوپانی ملتارہے
    8:نہرجاری کرانا
    8:سرائے تعمیر کراناجس سے مسافروں کو فائدہ ہو
    9ذکرکیلئے کوئی عمارت تعمیر کرادینا
    10:قرآن پاک کی تعلیم کیلئے مدرسہ بنادینا
    11:مسجد بنادینا
(شرح السیوطی علی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کسی کو قرآن پڑھ کر بخشا ہو اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسانہیں کیاتویہ عمل بدعت ہے اورکل بدعۃ ضلالۃ ہے-
   2:اصل عبادت میں توقیف ہے ۔یعنی جب تک عبادت کے سلسلے میں نص صریح نہیں ہوگی ۔تب تک اس کے عدم جواز کے بارے میں ہی کہاجائے گا۔
  3:قرآن پاک میں ہے لیس للانسان الاماسعی اورایصال ثواب میں غیر کادخل ہے انسان کا اپناکوئی دخل نہیں ہے۔
4:حدیث پاک میں ہے اذامات ابن آدم انقطع عملہ الابثلاث۔مطلب یہ کہ جب انسان مرگیاتوتمام اعمال کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔اب صرف تین اعمال ہی ایسے ہیں جس کاثواب اس تک پہنچے گا۔ اگراس کے علاوہ دیگر اعمال کا بھی ثواب پہنچے گا توپھرالابثلاث کا کوئی مطلب نہیں۔
الشیخ محمد صالح المنجد لکهتے ہیں
علمائے کرام کے فوت شدگان کو ایصال ثواب کے بارے میں دو اقوال ہیں:
1- جو بھی نیک عمل میت کیلئے ہدیہ کیا جائے تو وہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اس میں تلاوت قرآن، روزہ، نماز، وغیرہ دیگر عبادات شامل ہیں۔
2- میت تک کسی بھی نیک عمل کا ثواب نہیں پہنچتا، صرف انہی اعمال کا ثواب پہنچ سکتا ہے، جن کے بارے میں دلیل موجود ہے، یہی موقف راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: ( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) اور انسان کیلئے وہی ہے جس کیلئے اس نے خود جد و جہد کی۔[النجم:39]
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان مر جائے تو اسکے تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرتی ہو) مسلم: (1631)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپکے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ، آپکی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپکی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص انکی طرف سے قربانی ، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرام کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔
اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرمان باری تعالی: ( وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"اسی آیت سے امام شافعی اور انکے موقف کی تائید کرنے والوں نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ فوت شدگان تک تلاوت قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا؛ کیونکہ تلاوت انہوں نے خود نہیں کی، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کام کیلئے ترغیب نہیں دلائی، اور نہ انکے کیلئے اسے اچھا قرار دیا، اور نہ ہی اس کام کیلئے واضح یا اشارۃً لفظوں میں رہنمائی فرمائی ، آپ کے کسی صحابی سے بھی ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے، اگر یہ کام خیر کا ہوتا تو وہ ہم سے پہلے کر گزرتے۔
عبادات کے معاملے میں شرعی نصوص کی پابندی کی جاتی ہے، اسی لئے عبادات کے متعلق قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی، جبکہ دعا اور صدقہ کے بارے میں یہ ہے کہ یہ میت کو پہنچ جاتا ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے"
( تفسير ابن كثير: 4/ 258 )
اور اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ تمام نیک اعمال کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے تو میت کیلئے مفید ترین عبادت "دعا" ہے، تو ہم ایسے اعمال جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے، انہیں چھوڑ کر ایسے اعمال کے پیچھے کیوں جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کئے، آپکے کسی صحابی نے نہیں کئے!؟ حالانکہ ہر قسم کی خیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کرام کے راستے پر چلنے میں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے تلاوتِ قران، اور صدقہ کا ثواب زندہ یا فوت شدہ ماں کو ہدیہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"تلاوت قرآن کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، کہ تلاوت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں، راجح یہی ہے کہ تلاوت کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا، کیونکہ اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے؛ ہمارے علم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ میں سے آپکی زندگی میں فوت ہونے والی بیٹیوں کی طرف سے ایسا نہیں کیا، اور نہ ہی صحابہ کرام نے ایسا کیا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ مؤمن ان امور میں مشغول نہ ہو، اور زندہ ہوں یا فوت شدہ کسی کیلئے تلاوت ، اور نماز مت پڑھے، ایسے ہی انکی طرف سے نفل روزے مت رکھے؛ کیونکہ ان تمام امور کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور عبادات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے ثابت ہوچکا ہے اسی پر عمل کیا جائے وگرنہ توقف اختیار کریں۔
جبکہ صدقہ کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس سے زندہ ہوں یا مردہ سب کو فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح دعا سے بھی ، مسلمانوں کا اس پر بھی اجماع ہے، زندہ کے بارے میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صدقہ سے مستفید ہوگاچاہے وہ اپنی طرف سے کرے یا کسی کی طرف سے، اسی طرح دعا کرنے سے بھی فائدہ ہوگا، چنانچہ جو شخص اپنے والدین کیلئے انکی زندگی میں دعا کرے تو دعا سے اسکے والدین کو فائدہ ہوگا، اسی طرح انکی طرف سے انکی زندگی میں صدقہ کرنا بھی مفید ہوگا، اسی طرح اگر والدین نہایت بوڑھے ہوچکے ہیں، یا اتنے بیمار ہیں کہ انکی شفایابی کی امید نہیں ہے، تو ایسی صورت میں انکی طرف سے حج کرنا بھی انکے لئے مفید ہوگا، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "فریضہ حج میرے والد پر انتہائی بڑھاپے کی حالت میں فرض ہوچکا ہے، لیکن وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو کیا میں انکی طرف سے حج کر لو؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انکی طرف سے تم حج کرو) ، ایک اور واقعے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھا ہے، حج نہیں کرسکتا ، اور نہ سفر کی مشقت برداشت کر سکتا ہے، تو کیا میں انکی طرف سے حج اور عمرہ کر سکتا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو)، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوت شدگان، یا انتہائی بوڑھے عاجز افراد کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔
چنانچہ صدقہ ،دعا، میت کی طرف سے حج یا عمرہ، اور اسی طرح میت کے ذمہ واجب روزے بھی رکھے جاسکتے ہیں چاہے یہ واجب روزے نذر، کفارہ ، یا رمضان کے روزے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: (جو شخص مر گیا اور اس کے ذمہ واجب روزے تھے اسکی طرف سے اسکا ولی روزے رکھے گا)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔ اس معنی اور مفہوم کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں۔
لیکن جس شخص نے رمضان کے روزے سفر، یابیماری کی وجہ سے چھوڑے، اور وہ انکی قضا دینے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تو اسکی طرف سے قضائی نہیں دی جائے گی، اور نہ ہی کھانا کھلایا جائے گا؛ کیونکہ وہ معذور ہے"انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا کوئی آدمی مالی صدقہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کو اجر میں شریک بنا سکتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ جائز ہے کہ ایک شخص مالی صدقہ اپنے والد، ماں، بھائی یا کسی بھی مسلمان کی طرف سے نیت کرتے ہوئے کرے، کیونکہ [اللہ کے ہاں]اجر بہت زیادہ ہے، چنانچہ صرف اللہ کیلئے پاک مال سے دئے جانے والے صدقہ کا اجر بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ )
ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگوں کی مثال اس بیج کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں، اور ہر بالی میں 100، 100 دانے ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر نوازتا ہے، اور اللہ تعالی وسعت والا، اور جاننے والا ہے۔ [البقرة:261]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری کو اپنی اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے عید پر قربان کیا کرتے تھے"
"فتاوى شيخ ابن عثيمين"
مندرجہ بالا وضاحت کے بعد یہ عیاں ہوگیا ہے کہ آپکی طرف سے والدین کو ذکر کا ثواب ہدیہ کرنا راجح موقف کے مطابق درست نہیں ہے، چاہے آپکے والدین زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہوں، آپکے لئے نصیحت یہ ہے کہ آپ انکے لئے کثرت سے دعا کریں، صدقہ کریں، کیونکہ خیر و بھلائی تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کی اتباع ہی میں ہے۔
https://islamqa.info
تمام روایات صرف اور صرف اللہ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہی اچھی لگتی ہیں۔ صرف روایات اور فتاوی لوگوں کے رسم و رواج کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے حکم کی نہیں۔
ان بیانات سے بخشش کی دعا کرنا تو ثابت ہے لیکن اپنے اعمال کا ثواب دوسروں کو پہنچے یہ نہیں ثابت ہے۔ ایک شخص‌تمام عمر گناہ اور ظلم کرتا رہا۔ اس کے پاس موقع تھا کہ وہ درستگی کرلیتا۔ اب مر گیا ، اس کی اولاد نے اس کے لئے 50 ملاں بلائے جنہوں نے 50 قرآن پڑھ کر بخشوا دیا، چلو چھٹی ہوئی۔ ایسا کیسے ممکن ہے ، نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی وعدہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے گناہ اپنے اعمال و ثواب سے بخشوا سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے واضح فرما دیا ہے کہ وہ رسولوں سے کیا ہوا اپنا وعدہ نہیں توڑیں‌گے۔
دوبارہ عرض ہے کہ بخشش کی دعا کرنا ایک سے زائید آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن کسی کے اعمال بد کو کو قران پڑھ کر ثواب کی ترسیل سے مٹانے کی آیات پر اب تک میری نظر سے ایک بهی آیت یا حدیث نہیں گزری۔ اگرکوئی صاحب عنایت فرمائیں تو بہت نوازش ہوگی۔ اور یہ عقدہ بھی حل ہو جائے گا۔ ورنہ تو یہ لگتا ہے کہ بخشش کی دعا کو کھینچ تان کر اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ وہ گناہوں کو بعد والوں کے اعمال کے ثواب سے مٹانے کا نظریہ بن گئی ہیں۔
ایصالِ ثواب کا نعم البدل اللہ نے ہمیں ان قرآنی آیات میں دیا ہے جس میں نہ رقم خرچ ہوتی ہے اور نہ کوئی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔
فرمایا:-
اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ Ċ۝ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ď۝
جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اسکے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کیلئے بخشش مانگتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو انکے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور انکی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔
سورت غافر آیت نمبر 8-7
ان آیات سے بخونی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے نیک اور ایمان والے لوگوں کے لیے مغفرت، جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی دعا کرتے ہیں جو اللہ کے حضور سچی توبہ کرتے ہیں اور اس کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ اپنی دعا میں اہلِ ایمان کے ان والدین، شریکِ حیات اور اولاد بھی شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے نیکی کی راہ کو اپنایا ہو گا۔
اب غور کرنے کی بات ہےکہ اللہ کے وہ فرشتے جو معصوم ہیں اللہ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور ہر وقت اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء میں لگے رہتے ہیں اگر وہ اہلِ ایمان کے لیے دعا کریں تو کیا اللہ ان کی دعاؤں کو رد کر دے گا۔ کیا ان فرشتوں کی دعاؤں کے بعد بھی ان اہلِ ایمان کے لیے جو نیک عمل بھی کرتے ہوں ہم جیسے گنہگاروں کے من گھڑت '' ایصالِ ثواب '' کی بھی گنجائش باقی ہے۔
اور اگر ہم بدکاریوں اور گناہوں میں ڈوبے رہیں اور اللہ کے احکامات کی مطلق پرواہ نہ کریں تو کیا ہمارا یہ من گھڑت '' ایصالِ ثواب '' ہم کو نجات دلا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
فرمایا:-
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے۔
سورت طور آیت نمبر 21
اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ آخرت میں ہم ایمان والوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی نیک اولاد کو جنت میں ملا دیں گے یعنی اگر اولاد نیکی اور درجے میں کم ہے تو ان کے درجات بڑھا کے ان کے نیک والدین کے ساتھ اپنے فضل اور رحمت سے ملا دیں گے۔ اسی طرح یہی معاملہ والدین پر بھی قیاس کر لیں اور ان دونوں کے اعمال میں کوئی کمی نہیں ہو گی کیوں کہ اولاد اپنے والدین کی کمائی ہوتی ہے۔ لیکن والدین اور اولاد دونوں کا نیک ہونا شرط ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو نیکی کی راہ پر چلانا ہو گا اور وہ ایصالِ ثواب جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ سرا سر قرآن و سنت کے خلاف تو ہےہی مگر عقل کے بھی خلاف ہے۔
جاری ہے.....
گروپ ہذا میں شامل ہونے کیلئے 0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...