Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 159

(اسلام اور خانقاہی نظام)
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 159)
وسیلہ کی حقیقت:
قبل اس کے کہ یہ بتایا جائے کہ وسیلہ کی شریعت مطہرہ میں کیا حقیقت ہے ضروری ہے کہ لفظ وسیلہ کی تشریح کر دی جائے۔  وسیلہ مصدر ہے باب ضرب یضرب سے تقرب حاصل کرنے کے معنی میں اور وسیلہ کے لغوی معنی مرتبہ۔ درجہ۔ سبب۔  تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہیں
(ملاحظہ ہو مصباح اللغات۔قاموس۔ لسان العرب )
وسیلہ کا معنی و مفہوم:
لغوی طور پر وسیلہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی ذات تک رسائی یا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو۔لغت  عرب کی قدیم اور معروف کتاب ’’الصحاح‘‘ میں ہے: الوسيلة : ما يتقرب به إلی الغير.’’وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے۔‘‘
 (الصحاح تاج اللغة و صحاح العربية لأبي نصر إسماعيل بن حماد الجوهري المتوفیٰ 393ھ، باب اللام، فصل الواو، مادة وسل : 1841/5، دارالعلم للملايين، بيروت، 1407ھ)
مشہور لغوی اور اصولی، علامہ مبارک بن محمد المعروف بہ ابن الاثیر جزری ( 544 – 606 ھ ) لکھتے ہیں :في حديث الأذان : اللھم آت محمدا الوسيلة، ھي في الأصل : ما يتوصل به إلی الشيء ويتقرب به، وجمعھا : وسائل، يقال : وسل إليه وسيلة وتوسل والمراد به في الحديث القرب من الله تعالیٰ، وقيل : ھي الشفاعة يوم القيامة.”اذان (کا جواب دینے کی فضیلت) والی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ اے اللہ ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ دے۔ وسیلہ اصل میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔ اس کی جمع وسائل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں کی طرف وسیلہ بنایا۔ حدیث  نبوی میں وسیلے سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن ہونے والی شفاعت ہے۔“
(النھایة فیی غریب الحدیث والأثر، باب الواو مع السین، مادة وسل :555/5، المکتبة العلمیة، بیروت، 1399 ھ )
مشہور لغوی، علامہ ابوالفضل محمد بن مکرم بن علی، المعروف بہ ابن منظور افریقی (م : 711 ھ) لکھتے ہیں : الوسيلة : المنزلة عند الملك، والوسيلة : الدرجة، والوسيلة : القربة.’’وسیلہ سے مراد بادشاہ کے ہاں مقام و مرتبہ ہے۔ اس کا معنی درجہ اور قربت بھی ہوتا ہے۔‘‘ 
(لسان العرب، حرف اللام، فصل الواو، مادة وسل : 724/11، دار صادر، بيروت، 1414 ھ )
تفسیر جامع البیان میں
اَلْوَسِیْلَۃُ اَی الْقُرْبَۃُ بِطَاعَتِہٖ
یعنی وسیلہ سے مراد عبادت کے ساتھ اللہ تعالی کی قربت تلاش کرنا ہے اور تفسیر جلالینؔ میں ہے
اَلْوَسِیْلَۃُ مَا یُقَرِّبُکُمْ اِلَیْہٖ مِنْ طَاعَتِہٖ
یعنی اس کے تقرب کا وسیلہ وہ اطاعت ہے جو اللہ کے نزدیک کرے۔
تفسیر خازنؔ میں ہے
اَلْوَسِیْلَۃُ یَعْنِیْ اُطْلُبُوْا اِلَیْہِ الْقُربَ بِطَاعَتِہٖ وَالْعَمَلِ بِمَا یُرْضٰی
یعنی وسیلہ سے مراد ہے کہ بذریعہ عبادت اور نیک کاموں کے اللہ تعالی کا قرب تلاش کرو۔
امام الدنیا فی التفسیر حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے۔
’’وسیلہ اللہ تعالی کی قربت کا نام ہے اس میں کسی مفسر کو اختلاف نہیں۔ ‘‘
اور تفسیر مدارک میں ہے :
اَلْوَسِیْلَۃُ ھِیَ کُلُّ مَایَتَوَکَّلُ بِہٖ اَیْ یَتَقَرَّبُ مِنْ قَرَابَتِہٖ۔
یعنی وسیلہ اس کام کو کہتے ہیں جسکے ساتھ اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو۔
تفسیر کبیر میں ہے :
فَالْوَسِیْلَۃُ ھِیَ الَّتِیْ یُتَوَسَّلُ بِھَا اِلَی الْمَقْصُودِ فَکَانَ الْمُرَادُ طَلَبُ الْوَسِیْلَۃَ اِلَیْہِ فِیْ تَحْصِیْلِ مَرْضَاتِہٖ وَ ذٰلِکَ بِالْعِبَادَۃِ وَالطَّاعَاتِ
وسیلہ وہ ہے جس کے ذریعہ سے منزل مقصود تک پہنچا جائے پس اس وسیلہ سے مراد وہ وسیلہ ہے جو اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے میں کام آئے یہ وسیلہ عبادت اور اطاعت کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ تمام حوالے اس آیت کی تفسیر پر متفق ہیں کہ وسیلہ سے مراد اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہو سکیں۔  اب ہم لفظ ’’وسیلہ کی مزید تشریح اللہ تعالی کے کلام ہی سے پیش کرتے ہیں۔
اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلیٰ رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ
یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ خود اللہ تعالی کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں جو ان میں بہت نزدیک ہے اور اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔  (پارہ ۱۵)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو کوئی اللہ سے زیادہ نزدیک ہے اتنا ہی وہ اللہ کی طرف زیادہ وسیلہ کا طالب ہے مثلاً نبی کریم ﷺ اللہ تعالی کے بہت نزدیک ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سا وسیلہ ہے جس کے طالب نبی کریم ﷺ بھی ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ وسیلہ کے شرعی معنی جس کے ذریعے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اس سے مراد نیک اعمال اور طاعت الٰہی ہے-
جیسا کہ :فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ﴾ (المائده : 35:5 )’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے بالاتفاق یہی فرمایا ہے کہ حقیقت میں آدمی کا وسیلہ اس کے نیک اعمال ہیں۔ نیک عمل اللہ تعالی کی رضا مندی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...