Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام168

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 168)
علامہ سبکی کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کا تعلق آپ کی حیات و وفات دونوں حالتوں سے ہے۔اس تفسیر کا باطل ہونا تو نہایت واضح ہو چکا ہے۔ سبکی   کی تفسیر کا تقاضا یہ ہے اور ان کے ایک دوسرے قول کا مطلب بھی یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں (دنیاوی زندگی کے ساتھ ) زندہ ہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو خود یہی بات اس کی تفسیر کو ردّ کرنے کے لیے کافی ہے۔وہ اس طرح کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرنا شریعت میں جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو اس کا حکم فرماتے اور ان کو اس کی ترغیب دیتے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے سچے متبعین سب بڑھ کر اس کی طرف رغبت اور سبقت کرتے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، ان میں سےکسی ایک سے بھی کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی یہ منقول نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر استغفار طلب کرنے، شکایت کرنے یا کچھ مانگنے آئے ہوں۔صحابہ میں سے صرف سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آنا ثابت ہے اور وہ بھی صرف سفر سے واپسی پر آپ کو اور آپ کے صاحبین ( ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کو سلام کہنے کے لیے آتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ قطعاً کچھ بھی نہیں کرتے تھے۔ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نافع کے سب عظیم شاگرد عبیداللہ بن عمر العمری ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سوائے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے، کسی بھی صحابی کو نہیں جانتے جو ایسا کرتا ہو۔ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ صحابہ کرام کا طریقہ کامل ترین طریقہ ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعظیم انہوں نے کی، اس سے بڑھ کر کوئی تعظیم کر ہی نہیں سکتا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و قیمت کو صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی نہیں پہچان سکتا۔جو شخص صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا، وہ یا تو (نعوذباللہ ) ان سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو گا ( اور ایسا ممکن ہی نہیں ) یا پھر ایک بدعت کا مرتکب ہو گا (اور یقیناً ایسا ہی ہو گا)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو ایک جگہ جمع دیکھا، وہ باہم مل کر ایک ذکر کر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر انہوں نے فرمایا: یا تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو یا پھر ایک گمراہی کے مرتکب ہو (مسند الدارمي 68/1، 69، وفي نسخة بتحقيق حسين سليم اسد : 286/1، 287، وسنده حسن)۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبر مبارک پر آنے والے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کرنا ممکن ہوتا یا شریعت میں اس کا جواز ہوتا تو آپ کی کمال شفقت و رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے والے اللہ کی رحمت و رافت اس چیز کی متقاضی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں اپنی امت کو ترغیب دیتے اور خیرالقرون کے لوگ اس میں سبقت کرتے۔سبکی کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں كچھ خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی لیکن یہ آیت اپنی علت کے اعتبار سے عام ہے۔۔۔تو یہ بات درست ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ جو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں گناہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں استغفار کی درخواست لے کر حاضر ہوا، اس کی توبہ قبول کر لی گئی۔ رہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبر مبارک پر آنے کی، تو اس کا بطلان ہماری گزشتہ معروضات سے معلوم ہو چکا ہے۔سبکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس آیت کریمہ سے علمائے کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و وفات دونوں حالتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار طلب کرنے کا عموم سمجھا ہے۔ہمارا اس سے سوال ہے کہ اسلاف امت اور ائمہ اسلام میں سے کس نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے؟ ہمیں صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ اربعہ یا اہل حدیث و تفسیر میں سے کسی ایک شخص سے بھی دکھا دو کہ اس نےاس آیت سے وہ عموم سمجھا ہو جو تم نے ذکر کیا ہے یا اس نے اس پر عمل کیا ہو یا اس کی طرف رہنمائی کی ہو۔ تمہارا سارے علمائے کرام کے بارے میں اس آیت سے یہ عموم سمجھنے کا دعویٰ صریح باطل اور جھوٹا دعویٰ ہے۔۔۔ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 317۔321) اس آیت کریمہ کے متعلق ہم علامہ فہامہ، محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ (م :۱۲۵۲۔۱۳۲۶ ھ) کی فیصلہ کن گفتگو پر بات کو ختم کرتے ہیں۔ ایک شخص احمد بن زینی دحلان (م : ۱۳۰۴ ھ) نے اسی مسئلے پر الدررالسنية في الرد علي الوھابيةنامی ایک رسالہ لکھا تھا، علامہ موصوف نے اس کا بھرپور علمی ردّ کیا۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں :
جاری ہے....
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...