Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کو مذہبی مسالک، 34

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 34)
ماورائے مسلک کا ایصال ثواب کے متعلق شرعی نقطہ نظر:
ماورائے مسلک کا نقطہ نظر بهی تقریباً سلفی حضرات کے مشابہ ہے-
ایصال ثواب:
مسلمانوں کی بڑی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ ہم دعا کے ذریعے سے اپنی نیکیوں کا اجر اپنے مرحوم اعزہ کو دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اس تصور کے مطابق ایک شخص یا کچھ لوگ کوئی نیک عمل کرتے ہیں ۔ پھر یہ دعا کی جاتی ہے کہ اس نیک عمل کا اجر فلاں مرحوم یا فلاں فلاں مرحوم کو عطا کیا جائے۔ ہمارے ہاں، اس کام کے لیے کچھ رسوم بھی رائج ہیں اور ان میں یہ عمل بڑے اہتمام سے کیا جاتا ہے۔
یہ مسئلہ دور اول ہی سے موضوع بحث ہے۔ چنانچہ اس بات پر توسب متفق ہیں کہ میت کواخروی زندگی میں ہمارے دو طرح کے اعمال سے فائدہ پہنچتاہے ۔ایک دعاے مغفرت، دوسرے وہ اعمال خیر جو میت کی نیابت میں کیے جائیں۔نیابت سے مراد یہ ہے کہ مرنے والااس عمل میں کسی نہ کسی نسبت سے شریک ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً یہ کہ مرنے والے نے کوئی کام شروع کیا ہوا تھا اور تکمیل نہیں کر سکا، کوئی نذر مانی ہوئی تھی پوری نہیں کر سکا یا کوئی قرض تھا جسے وہ ادا نہیں کر سکا وغیرہ۔
البتہ، اس میں اختلاف ہے کہ مرنے والے کی نسبت کے بغیر عمل کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔مراد یہ ہے کہ میت کے اعزہ واقارب اپنے طور پر کوئی نیکی کا کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اس عمل کا ثواب فلاں کو دے دیا جائے۔مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ دعا کرنا درست ہے اور کیا یہ دعا قبول بھی ہوتی ہے، یعنی میت کو یہ ثواب واقعی دے دیا جاتا ہے۔ایک گروہ کی راے میں ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے۔ دوسرے گروہ کی راے میں ان کا جواب نفی میں ہے۔
یہ اختلاف بعض روایات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جس کے باعث یہ اختلاف رونما ہوا ہو۔ قرآن مجید پوری وضاحت سے ہر شخص کے اپنے عمل ہی کے مقبول یا غیر مقبول ہونے کے اصول کو واضح کرتا ہے ۔ اس کے نزدیک کوئی دوسرا شخص اس باب میں کسی دوسرے کے کام نہیں آسکتا،البتہ کچھ روایات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ایصال ثواب ممکن ہے۔ قرآن مجید اور ان روایات میں واضح تضاد ہے۔ اس تضاد کو مختلف طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔بہرحال، امت میں دو آرا موجود ہیں: ایک راے کے مطابق ایصال ثواب ممکن ہی نہیں ہے۔ اس راے کے حاملین اس موضوع سے متعلق بعض روایات کی توجیہ کرتے ہیں اور بعض روایات کو درست قرار نہیں دیتے۔ دوسری راے کے مطابق ایصال ثواب ممکن ہے۔ دور اول میں اس راے کے بعض حاملین صرف انھی اعمال سے ایصال ثواب مانتے تھے جن میں نیابت جائز (ا) ہے، لیکن بعد میں اس بات پر عام اتفاق ہے کہ ہر طرح کی عبادت کا ثواب میت کو دیا جا سکتا ہے( ۲ )۔ آیندہ صفحات میں اس موضوع سے متعلق قرآن مجیدکی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں گے اور اصل حقیقت واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ تصور براہ راست آخرت سے متعلق ہے۔ اخروی نجات کن اصولوں پر ہو گی اور اس کے حصول کے لیے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ایصال ثواب کے تصور سے ان سوالوں کا جواب بنیادی طور پر تبدیل ہو جاتا ہے۔ آخرت ہماری زندگی کا اصل ہدف ہے ۔ اگر اس کے بارے میں ہمارے تصور میں کوئی غلطی واقع ہو جاتی ہے تو یہ چیز براہ راست ہمارے عمل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ہمارا عمل ہی ہمارے انجام کا ضامن ہے، لہٰذا اس تصور کی صحت اور عدم صحت کا طے کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے عمل کو صحیح خطوط پر استوار کر سکیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ تصور صدیوں میں بہت سی رسوم کو جنم دے چکا ہے۔ معاشرتی رسوم بالعموم بے رحم سماج کا ہتھیار بن جاتی ہیں اور معاشرے کے افراد اس کے ستم کا شکار ہوتے رہتے ہیں، یہ رسوم بھی یہی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارا موقف اس صورت حال کی اصلاح میں کچھ کردار ضرور ادا کرے گی۔
اجر کا اصول:
قرآن مجید میں بہت سی باتیں زیر بحث آئی ہیں، لیکن جس بات کو سب سے زیادہ پر اثر طریقے اور سب سے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، وہ آخرت کا معاملہ ہے۔ قیامت کیسے ہوگی۔ اس میں مجرموں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ اس میں نیکوکاروں کو کیا صورت حال پیش آئے گی۔ جہنم میں کون لوگ ڈالے جائیں گے۔ جنت میں کسے بھیجا جائے گا۔ کیا کیا چیزیں شہادت دیں گی۔ سفارش، رشوت اور فدیہ، جیسی مدد گار چیزیں کس طرح بے حقیقت ہو جائیں گی۔ کس طرح میزان لگے گی۔ اس میں کس چیز کو وزن حاصل ہوگا۔ کس طرح چھوٹی سے چھوٹی نیکیاں اور برائیاں ریکارڈ کی گئی ہیں اور قیامت میں ہر شخص کو ان سے کیسے سابقہ پیش آئے گا۔ یہ موضوع قرآن کے بنیادی ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ ایصال ثواب کی بحث بھی اسی موضوع سے متعلق ہے۔ آخرت کے ضمن میں یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ کیا ہم مرنے والوں کے کچھ کام آسکتے ہیں۔ یہ سوال اس قاعدے سے متعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کیسے عطا ہوتا ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب یہ متعین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کس اصول پراجر دیتے ہیں تویہ خود بخود واضح ہو جائے گا کہ ایصال ثواب ممکن ہے یا نہیں۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن مجید میں ایصال ثواب کے حوالے سے براہ راست کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں( ۳ )میں اس طرح کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ یہی معاملہ اہل کتاب(۴) کا ہے، لہٰذا قرآن مجید میں یہ بات براہ راست زیر بحث آنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔چنانچہ ہم آخرت کے بارے میں قرآن مجید کے اصولی موقف کی روشنی ہی میں طے کریں گے کہ ایصال ثواب کی حقیقت کیا ہے۔اس حوالے سے قرآن مجید کی متعدد آیات پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن قرآن مجید کی تین آیات اجر کے اصول کو پوری طرح متعین کر دیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ قدیم سے یہی آیات اس بحث کے ضمن میں نقل کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سر عنوان کی حیثیت سورۂ نجم کی آیت کو حاصل ہے:
وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی.(۵۳:۳۹)
’’ اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے سعی کی۔‘‘
مولانا مودودی مرحوم ایصال ثواب کے قائل ہیں ۔ اس آیت کے اطلاقات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا، اپنے عمل کا پھل پائے گا۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پا سکتا،الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی وعمل کے بغیر کچھ نہیں پا سکتا۔‘‘(تفہیم القرآن۵ /۲۱۵)
مولانا مرحوم کا یہ استنباط بالکل درست ہے اور اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایصال ثواب کی قرآن مجید میں کوئی گنجایش نہیں ہے، اس لیے کہ جن اعمال کے ثواب کا ایصال کیا جاتا ہے، وہ اس بندے کے اپنے اعمال نہیں ہوتے۔ سورۂ یٰس میں ہے:  فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(۳۶:۵۴)
’’آج کے دن کسی جان پر کوئی ظلم نہیں ہو گااور تم کو بس وہی بدلے میں ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘
اس آیت سے بھی یہ بات واضح اصول کے طورپر سامنے آتی ہے کہ اجر ہو یا سزا، دونوں کا باعث خود کرنے والے کا عمل ہے۔’ کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا‘ سے مراد یہی ہے کہ کسی کو کسی ناکردہ جرم کی سزا نہیں ملے گی۔ ’اپنے عمل ہی کی جزا ملے گی ‘سے مراد یہ ہے کہ کوئی سفارش اور حمایت کسی کے اجر میں کوئی اضافہ نہ کر سکے گی۔ایصال ثواب اپنی حقیقت میں سفارش بھی ہے اور حمایت بھی۔سورۂ بقرہ میں ہے:

    لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَااکْتَسَبَتْ.(۲: ۲۸۶)

    ’’ہر ایک پائے گا جو کمائے گا اور بھرے گا جو کرے گا۔‘‘
یہی بات ایک دوسرے اسلوب میں سورۂ زمر میں بھی آئی ہے:

    اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلاَ یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.(۳۹:۷)

    ’’اگر تم ناشکری کرو گے تو خدا تم سے بے نیاز ہے۔ اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری کا رویہ پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم اس کے شکرگزار ہو گے تو اس کو تمھارے لیے پسند کرے گا۔ اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ پھر تمھارے رب ہی کی طرف تمھاری واپسی ہے۔ تو وہ تمھیں ان کاموں سے آگاہ کرے گا جو تم کرتے رہے ہو۔ وہ سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے۔‘‘

یہ آیات بھی اجر اور سزا کے بارے میں اسی اصول کو بیان کرتی ہیں جو ہم سورۂ نجم اور سورۂ یٰس کی آیات کے تحت رقم کر چکے ہیں۔قرآن مجید کی متعدد آیات(۵)؂میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید کے کسی بھی مقام پر اس کے برعکس کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ آزمایش کے لیے ضروری تھا کہ انسان کو خیر وشر کے اختیار کرنے کی کامل آزادی دی جائے۔ ظاہر ہے، اس کے نتیجے میں نیک وبد ہر طرح کے اعمال ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ایک عادل وحکیم ہستی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے طے کیا کہ جب سارے انسان اس آزمایش سے گزر جائیں گے تو وہ ایک یوم حساب منعقد کریں گے اور ہر نیکی کی جزا اور ہر برائی پر سزا دیں گے، لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے رحمت کا معاملہ کیا ہے۔ توبہ اور تلافی اور نیکیوں کے ذریعے سے برائیوں کے اتلاف کا پورا موقع انسان کو دیا تاکہ وہ اگر کسی وجہ سے برائی کر لے تو اسے اللہ کے فضل وعنایت سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع حاصل ہو۔ نیکی کو دس اور برائی کو ایک شمار کرنا(۶)،توبہ کے پورے قانون کو تفصیل سے بیان کرنا(۷)؂اور نیکیوں سے برائیوں کے خاتمے(۸)؂کے قانون کو بیان کرنا اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کی تفصیل ہے ۔ یہ اور دوسرے مواقع جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور مغفرت کا ذکر کیا ہے، کہیں بھی یہ بات بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گنہ گار بندوں پر یہ عنایت بھی کی ہے کہ ان کے بعد زندہ لوگ، اگر چاہیں تو نیکیاں کریں اور ان کا ثواب مرنے والوں کے نام کر دیں، میں اپنی رحمت وعنایت سے ان نیکیوں کا اجر انھیں بھی دے دوں گا۔
یہی معاملہ روایات کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرنے کے بعد عمل کے معاملے کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی جامع بات کہہ دی ہے کہ اب اس پر کسی اضافے کی کوئی گنجایش نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ یہ بات قرآن مجید میں بیان کیے گئے اصول کے عین مطابق ہے۔مسلم میں ہے:
عن أبی ہریرۃ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاثۃ: إلا من صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ أوولد صالح یدعو لہ.(رقم ۳۰۸۴)

    ’’حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے تین چیزیں مستثنیٰ ہیں: صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو یا نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے۔‘‘
یہ روایت واضح کرتی ہے کہ ایصال ثواب کا تصور درست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں جس بات کو موضوع بنایا ہے، وہ براہ راست ہمارے پیش نظر مسئلے سے متعلق ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی چیز ممکن ہوتی تو اس روایت میں ضرور بیان ہو جاتی، یعنی ایک چوتھی چیز ’’اور وہ نیک عمل جو مرنے والے کے بعد کیا جائے اور اس کا ثواب مرنے والے کو دینے کی دعا کی جائے۔‘‘اس روایت کے بعض طرق میں ایک چوتھی چیز بھی بیان ہوئی ہے، لیکن وہ یہ نہیں ہے۔ مسند احمد میں ہے:
عن أبی أمامۃ الباہلی عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: أربع تجری علیہم أجورہم بعد الموت: رجل مات مرابطا فی سبیل اﷲ، ورجل علم علما فأجرہ یجری علیہ ما عمل بہ، ورجل أجری صدقۃ فأجرہا یجری علیہ ما جرت علیہ، ورجل ترک ولدا صالحا یدعو لہ.( رقم۲۲۳۷۲)
  ’’حضرت ابو امامہ باہلی (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار لوگ ہیں جن کا اجر ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے: ایک وہ جو سرحد پر نگہبانی کرتے ہوئے مر گیا۔ دوسرا وہ جس نے علم سکھایا اور اس کے لیے اس کا اجر جاری ہے، جب تک اس پر عمل ہوتا ہے۔ تیسرا وہ جس نے کوئی خیرات کا سلسلہ قائم کیا، اسے بھی اس وقت تک اجر ملتا رہے گا، جب تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔ چوتھا وہ شخص جس نے اپنے پیچھے صالح اولاد چھوڑی اور وہ اس کے لیے دعا کرتی ہے۔‘‘
یہ چوتھی چیز حقیقت میں چوتھی نہیں ہے، بلکہ بندہ کی دین کی نصرت کے لیے غیر معمولی مشقت اٹھانے،صالح نیت اور پختہ ارادے کی قدر افزائی کی گئی ہے۔ اس آدمی نے دین کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرکے آیندہ نسلوں کے لیے دین کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔اس طرح حقیقت میں یہ اس کا اپنا عمل ہے جس کی اسے جزا دی جائے گی۔اصولی بات جو ان روایات میں بیان ہوئی ہے، وہ یہی ہے کہ موت کے بعد دنیا میں ہونے والا وہی نیکی کا عمل مرنے والے کے لیے نافع ہے جس میں وہ خود کسی نہ کسی نسبت سے شریک ہو۔روایات میں ان اعمال کی اور مثالیں بھی بیان ہوئی ہیں جن میں عمل کرنے والا کسی نہ کسی نسبت سے شریک ہو تا ہے۔ابن ماجہ میں ہے:(9 )؂
عن جریر قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من سن سنۃ حسنۃ فعمل بہا کان لہ أجرہا ومثل أجر من عمل بہا لا ینقص من أجورہم شیئا. ومن سن سنۃ سیءۃ فعمل بہا کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا لا ینقص من أوزارہم شیئا.(رقم ۲۰۳)
’’حضرت جریر( رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک اچھا طریقہ رائج کیا ۔ پھر اس پر عمل کیا تو اس کواپنے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے اجر کے برابر بھی اجر ملے گا جس نے اس پر عمل کیا اور ان عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ رائج کیا۔ پھر اس پر عمل کیا تو اس پر اپنے گناہ کا بوجھ بھی ہو گا اور ان کے گناہ کا بوجھ بھی جو اس کو اختیار کریں گے اور ان کے بوجھوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔‘‘
اگرچہ اس روایت میں موت کے بعد کا ذکر نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موت کے بعد بھی جزا وسزامیں اضافے کی یہ صورت جاری رہے گی۔ یہی خبرنیکی اور شر کی طرف بلانے والوں کے لیے بھی ہے ۔ مسلم کی روایت ہے:
  عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من دعا إلی ہدی کان لہ من الأجر مثل أجور من تبعہ لا ینقص ذلک من أجورہم شیئا. ومن دعا إلی ضلالۃ کان علیہ من الإثم مثل آثام من تبعہ لا ینقص ذلک من آثامہم شیئا.(رقم ۲۶۷۴)
    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہدایت کی طرف بلایا،اس کے لیے ان کے برابر اجر ہے جنھوں نے اس کے کہے پر عمل کیا اور اس سے ان عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔اور جس نے برائی کی طرف بلایا، اس کے لیے ان کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنھوں نے اس کی پیروی کی۔اور اس سے ان کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔‘‘
یہی بشارت نیکی کرنے والے کی معاونت کرنے والے کو دی گئی ہے۔مسند احمد میں روایت ہوا ہے؛
  عن زید بن خالد الجہنی قال: قال رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:... ومن فطر صائما کتب لہ مثل اجر الصائم لا ینقص من أجر الصائم شیء. ومن جھز غازیا فی سبیل اللّٰہ أو خلفہ فی أہلہ کتب لہ مثل أجر الغازی فی أنہ لا ینقص من أجر الغازی شیء.(رقم۱۶۴۲۹)
    ’’حضرت زید بن خالد جہنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ...جس نے روزہ دار کا روزہ کھلوایا، اس کے لیے وہی اجر ہے جواس روزے دار کو حاصل ہو گا اور روزے دار کے اجر میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو سامان مہیا کیا یا اس نے اس کے پیچھے اس کے اہل وعیال کا خیال رکھا، اسے اس مجاہد کا اجر ملے گا اور مجاہد کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں بتایا کہ میں تم سب سے زیادہ اجر پاؤں گا۔ آپ کا ارشاد ہے:
حدثنی حسان بن عطیۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أنا أعظکم أجرا یوم القیامۃ لأن لی أجری ومثل أجر من تبعنی.(دارمی، رقم ۵۱۵)
    ’’حسان بن عطیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت میں تم سب سے زیادہ اجر پانے والا ہوں، اس لیے کہ مجھے میرے اعمال کا اجر بھی ملے گا اور ان کے اجر کے برابر بھی اجر ملے گا جنھوں نے میری اتباع کی۔‘‘
یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ اجر کے قاعدے کا اطلاق ہے،یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبر خیر کے داعیوں اور شر کے علم برداروں کودی ہے، اسی کی روشنی میں اپنے لیے عظیم اجر کے امکان کو بیان کر دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ صرف وہی عمل مرنے والے کے لیے نافع ہے جس میں خود اس کا کسی نسبت سے کوئی حصہ ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیرات سے منع فرمایا ہے جس کے بارے میں مرنے والے نے خود کچھ نہ کہا ہو:
عن عقبۃ بن عامر قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ان امی ماتت وإنی أرید أن أتصدق عنہا. قال: أمرتک؟ قال: لا. قال: فلا تفعل.(مسند احمد، رقم۱۷۳۹۳)
    ’’عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کی ان کی طرف سے صدقہ کروں۔ آپ نے پوچھا: کیا انھوں نے ایسا کرنے کے لیے کہا تھا؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے کہا: پھر نہ کرو۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس امتحان میں ڈالا ہے، اس میں کامیابی کا انحصار اگر انسان کے اپنے اعمال پر نہ ہو تو ایک ناانصافی وجود میں آتی ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ دنیا میں جھوٹ، رشوت، سفارش، اقرباپروری اور ایک دوسرے کی بے ضابطہ مدد کرکے ہم حق کو ناحق اور ناحق کو حق بنا دیتے ہیں۔ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آخرت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے ہر خلاف انصاف معاملے کی تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ وہاں کوئی جھوٹ نہیں بول سکے گا:

    رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا. یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلآءِکَۃُ صَفًّا لَّایَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا.(النبا۷۸: ۳۷۔۳۸)
    ’’آسمانوں اور زمین اور ان کے مابین ساری چیزوں کے رب رحمان کی طرف سے جس کی طرف سے یہ کوئی بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے۔ جس دن جبریل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ کوئی بات نہیں کرے گا، مگر جس کو رب رحمان اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے گا۔‘‘

کسی طرح کی رشوت نہیں چلے گی۔ کوئی سفارش خلاف حق نہیں ہوگی۔ اقرباپروری کا کوئی سوال نہیں ہوگا:

    وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّاتَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَایُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَہُمْ یُنْصَرُوْنَ.(البقرہ۲: ۴۸)
    ’’اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ کام نہ آئے گی۔ نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہو گی، اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔‘‘

ایک دوسرے کی بے ضابطہ مدد کا کیا سوال، وہاں جہنم سے بچنے کے لیے لوگ اپنے قریبی ترین اعزہ کو بھی فدیے میں دینے کو تیار ہوں گے:

    یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَآءُ کَالْمُہْلِ. وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ. وَلَا یَسْءَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا. یُّبَصَّرُوْنَہُمْ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمَءِذٍ بِبَنِیْہِ. وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ. وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُءْوِیْہِ. وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ.(المعارج۷۰: ۸۔۱۴)
    ’’جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو جائے گا۔ اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی مانند ہو جائیں گے۔ اور کوئی دوست بھی کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔وہ ان کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم تمنا کرے گا کہ کاش، اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے اپنے بیٹوں اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور اپنے اس کنبے کو جو اس کی پناہ رہا ہے اور تمام اہل زمین کو فدیہ میں دے کر اپنے کو بچا لے۔‘‘

یہ باتیں قرآن مجید میں اتنے واضح الفاظ میں بیان ہوئی ہیں کہ اس معاملے میں کوئی مسلمان مختلف فیہ نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے، کیسی عمدہ بات کہی ہے:

    عن أبی یعلی شداد بن أوس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت والعاجز من أتبع نفسہ ہواہا ثم تمنی علی اللّٰہ.(ابن ماجہ، رقم ۴۲۵۰)
    ’’ ابو یعلیٰ شداد بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو جھکا دیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کیا۔ بے بس وہ ہے جس نے اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی اور پھر اللہ سے توقعات وابستہ کرنے لگا۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ایصال ثواب کا تصور اسی طرح کی تمنا ہے۔ یہ محض تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کا اجر محض اس کی خواہش کی وجہ سے کسی دوسرے کو دے دیں گے۔ ہم سے گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ ہم بجا طور پر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان گناہوں کی صفائی ہو جائے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا طریقہ تو وہی ہے جس کا ذکرمختصراً ہم اوپر کر چکے ہیں، لیکن ہم اس راستے کے قدرے مشکل ہونے کے سبب سے اس پر قانع نہیں رہتے اور آسان راہ کے متمنی رہتے ہیں۔ بعض احادیث کے ظاہری الفاظ سے یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ مرنے والے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایصال ثواب کا ایک تصور پیدا ہوا اور اب اس کے تحت باقاعدہ رسوم بھی رائج ہیں۔اوپر قرآن مجید اور اس موضوع سے براہ راست متعلق ارشادات نبوی کی روشنی میں ہم یہ بات بالکل واضح کر چکے ہیں کہ ایصال ثواب کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم مرنے والوں کے لیے دعا کر سکتے ہیں یا ان کے لیے ان کی وہ نیکیاں فائدہ مند ہو سکتی ہیں جو ان کے بعد بھی جاری ہوں یا لوگ ان کی برکات سے بہرہ اندوز ہو رہے ہوں۔ صدقہ جاریہ، علم دین کا ابلاغ جاری نیکیوں کی مثالیں ہیں اور رباط وہ عمل ہے جس کی برکات سے دوسرے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔قرآن مجید میں یہی بات قتل کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔سورۂ مائدہ میں ہے:

    مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا. وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.(۵:۳۲)
    ’’جس کسی نے کسی کو قتل کیابغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سب کو قتل کیا اور جس نے اس کو بچایا تو گویا اس نے سب کو بچایا۔‘‘

اس آیت میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ایک کا قاتل، سب کا قاتل اور ایک کو بچانے والا، سب کو بچانے والا ٹھیرے گا، یعنی یہ ایک گھناؤنا جرم ہے ، اس لیے کہ اس سے سارا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات قتل کے حوالے سے بیان ہوئی ہے،لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک عام اصول ہے کہ ہر نیکی اور بدی کو اس کے سماجی اثرات کی روشنی میں وزن حاصل ہو گا۔اوپر مندرج روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نیکیوں اور بدیوں کے اجروسزا کے طے کرنے میں ان کے دائرۂ اثر کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔ ممکن ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکتہ اسی آیت سے اخذکیا ہو۔
قرآن مجید کی آیات اور کتب احادیث میں منقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کو کن اعمال کا اجر ملے گا اور آخرت کے معاملے میں کیا امور ان کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ اجر کے ملنے کے یہ اصول ایصال ثواب کے تصور کی بالکلیہ نفی کرتے ہیں۔ ان واضح نصوص کی روشنی میں ہم ایصال ثواب کوبے خوف تردید ایک بے بنیاد تصور قرار دے سکتے ہیں۔
چنانچہ ہماری بحث یہاں مکمل ہو جاتی ہے، لیکن ایصال ثواب کے قائلین اپنے نقطۂ نظر کے حق میں کچھ روایات پیش کرتے ہیں۔یہ روایات مرحوم کی طرف سے صدقہ کرنے، روزہ رکھنے، حج و عمرہ کرنے اور قربانی کرنے سے متعلق ہیں۔ آیندہ صفحات میں ہم ان روایات کی صحیح نوعیت واضح کریں گے ۔ اس سے امید ہے کہ ایصال ثواب کی یہ بحث ایجابی اور سلبی، دونوں پہلووں سے مکمل ہو جائے گی۔
جاری ہے.....
گروپ ہذا میں شامل ہونے کیلئے اس نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں، مستورات کیلئے علیحدہ گروپ موجود ہے:
0096176390670
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
ترتیب و تدوین عمران شہزاد تارڑ ڈئریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...