Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 37

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 36)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک خطرناک گھاٹی "مسئلہ تکفیر"پر ہم ایک ضمیمہ پیش کرنے کے بعد اپنے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہیں-
'فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ'
کسی پر کفر کا یا فسق کا حکم لگانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے، کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا احکام شرعیہ میں سے ہے، جس کا مرجع قرآن و سنت ہے، لہذ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے- کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کسی کو کافر یا فاسق نہیں کہا جاسکتا-

جو مسلمان ظاہری طور پر عادل ہو، اس کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اسے اس وقت تک عادل اور مسلمان ہی سمجھا جائے گا، جب تک کسی شرعی دلیل سے اس کے اسلام اور عدالت کی نفی ثابت نہ ہو جائے- جب نفی ثابت ہوجائے گی تو پھر اسے کافر اور فاسق قرار دینے میں چشم پوشی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس سے دو ممنوع کام لازم آتے ہیں-

ایسے شخص پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے ،جس کے بارے میں یہ حکم کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اللہ تعالی کے ذمہ جھوٹ لازم آئے گا، اور اس شخص پر بھی جھوٹ لازم آئے گا جس پر یہ حکم لگایا گیا ہے، وہ اس حکم کا مستحق نہیں، تو لگانے والا خود اس میں واقع ہوجائے گا-

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

" اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما"
جب ایک آدمی دوسرے کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتاہے-(صحیح بخاری 6104و مسلم 111)

مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں:

ان کان کما قال والا رجعت علیہ"
جس پر حکم لگایا گیا ہے، اگر وہ اس کا مستحق ہے ، تو ٹھیک ہے ورنہ حکم لگانے والا خود کافر ہوجائے گا-

صحیح مسلم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

ومن دعا رجلا بالکفر او قال عدواللہ ولیس کذلک الاحار علیہ"
جس نے کسی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہ کر بلایا، مگر وہ ایسا نہیں ہے تو یہ حکم لگانے والے پر لوٹ جائے گا-(صحیح مسلم 112)

کسی مسلمان پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے پہلےدو چيزوں میں غور و فکر کرلینا ضروری ہے-

    1- کتاب و سنت سے ثابت ہو کہ قول یا فعل کفر یا فسق کا موجب ہے-

    2- خاص قائل یا فاعل پر یہ حکم لگ سکتا ہو، اس کے حکم میں کفر و فسق کی شرائط ہوں اور موانع موجود نہ ہو-

سب سے اہم شرط یہ ہے کہ وہ شخص جانتا ہو کہ اس کی مخالفت کرنے سے وہ کافر یا فاسق ہوجائے گا

ارشاد باری تعالی ہے :

"حق واضح ہوجانے کے بعد وہ شخص رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کی مخالف راہ اپنائے گا، تو ہم اسے اسی راہ پر چلا کر جہنم میں داخل کردیتے ہیں، جوکہ بہت برا ٹھکانہ ہے-" (النساء 115)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

" اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اس وقت تک گمراہ نہیں کرتا جب تک ان چيزوں کو واضح نہ کرے، جن سے بچنا ان کے لیے ضروری ہے، اللہ تعالی ہر چيز کو جانتا ہے، آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے، وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اس کے علاوہ تمہارا کوئی دوست و مددگار نہیں- (التوبہ 116،115)

اس لیے علماء کہتے ہیں:

لا یکفر جاحد الفرائض اذا کان حدیث عھد باسلام حتی یبین لہ"
(فرائض کا منکر نو مسلم شخص اس وقت تک کافر نہیں، تا آنکہ اسے بتایا جائے کہ یہ کام فرض ہے اور اس کا منکر کافر ہے-)

جب کوئی آدمی بلا ارادہ کفر یا فسق کے کام میں واقع ہوجائے تو اسے کافر یا فاسق نہیں کہا جائے گا، اس کی چند صورتیں ہیں:

    1- یہ کہ اسے کفر و فسق پر مجبور کیا جائے، وہ اسے مجبوری کی حالت میں کرے، اطمینان قلب حاصل نہ ہو، تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا-

ارشاد باری تعالی ہے کہ:

" جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کیا، علاوہ اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہے، اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن جس شخص نے کفر کو شرح صدر سےقبول کرلیا، اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے-" (النحل:106)

    2- یہ کہ زیادہ خوشی، غم یا خوف کی وجہ سے عقل و فکر جواب دے جائے-

جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جب آدمی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس شخص کی نسبت زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی اونٹنی پر سفر کرتے ہوئے صحرا میں پہنچا، تو وہاں اس کی اونٹنی کھانے پینے کے سامان سمیت بھاگ گئی، وہ ناامید ہوکر درخت کے سائے میں لیٹ گیا، کہ اچانک وہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی تھی، اس نے اس کی مہار کو پکڑا اورفرط خوشی سے کہنے لگا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، شدت فرحت کی وجہ سے اس سے غلطی ہوگئی- صحیح مسلم:2747

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" درست یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے جس نے حق تک پہنچنے کے لیے اجتہاد کیا اور اس نے خطا کھائی تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس کی خطا معاف ہے ، مگر جس شخص نے حق واضح ہونے کے بعد جان بوجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، اور مومنوں کی مخالف راہ اپنائی، وہ کافر ہے اور جو شخص خواہشات کی اتباع میں حق تک نہ پہنچ سکا اور غیر علم کی بات کردی، وہ نافرمان اور گناہگار ہے- کبھی تو ایسا شخص فاسق ہوتا ہے اور کبھی اس کی نیکیاں برائیوں پر غالب آجاتی ہیں-

" (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:12/180)​

نیز ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

" میرے ہم نشیں اس بات کو جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس سے سختی کے ساتھ روکتا رہا ہوں کہ کسی خاص آدمی کو کفر و فسق یا گناہ کی طرف منسوب کیا جائے، البتہ جس شخص کے خلاف شرعی دلیل معلوم ہوجائے، جس کا مخالف کبھی تو کافر ہوتا ہے، کبھی فاسق و گناہگار ہوتا ہے، میں اقراری ہوں کہ اللہ تعالی نے اس امت کی سب خطاؤں کو معاف کردیا ہے، خواہ وہ قولی مسائل میں ہوں یا عملی مسائل میں، سلف کے درمیان ان مسائل میں اختلاف رہا ہے – مگر ان میں کسی نے بھی دوسرے کو اس اختلاف کی وجہ سے کافر، فاسق یا گناہگار نہیں کہا تھا- (چند مثالیں ذکر کرنے کےبعد کہا) میں نے واضح کیا ہے کہ سلف صالحین اور آئمہ سے جو یہ منقول ہے، کہ فلاں فلاں کام کرنے والا کافر ہے، تو یہ بات حق ہے ، مگر مطلق اور معین میں فرق کرنا واجب ہے- (یعنی وہ یہ کہتے تھے کہ جو یہ کام کرے وہ کافر ہے یا فاسق یا عاصی ہے، کسی خاص شخص کے بارے میں یہ بات نہیں کہتے تھے-")

تکفیر ایک وعید ہے، اگرچہ کہنے والے کی بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تکذیب ہوتی ہو، کیونکہ ایسا کہنے والا نو مسلم بھی ہوسکتا ہے اور کبھی دیہاتی بھی ہوسکتا ہے، ایسے شخص کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جاسکتا، جب تک اس کے خلاف حجت قائم نہ ہو، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس شخص نے (تکفیر یا تفسیق کے بارے) یہ نصوص سنی نہیں ہوتیں، یا اس کے ہاں یہ نصوص پایئہ ثبوت تک نہیں پہنچتیں یا اس کے ہاں اس کے معارض یا مخالف کوئی دلیل موجود ہوتی ہے، جس کی بنا پر وہ ان کی تاویل ضروری سمجھتا ہے، اگرچہ وہ خطاکار ہی کیوں نہ ہو، میں ہمیشہ صحیح بخاری و مسلم کی اس حدیث کو ذکر کرتا ہوں، جس میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ:
جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پیس دو اور راکھ سمندر میں اڑادو، قسم ہے! اگر اللہ نے مجھ پر قابو پالیا، تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ دنیا والوں میں سے کسی کو بھی ایسا عذاب نہ دے گا- ورثاء نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالی نے اس سے پوچھا: تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا تیرے ڈر کی بنا پر ایسا کیا ہے تو اللہ تعالی نے اسے معاف کردیا-" (صحیح بخاری: 7506، صحیح مسلم: 2756)

اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک تھا، بلکہ اس کا عقیدہ تھا کہ میں ریزہ ریزہ ہوجاؤں گا تو اللہ مجھے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا، اس بات کے کفر ہونے میں مسلمانوں کا اتفاق ہے ، لیکن وہ جاہل تھا، وہ نہیں جانتا تھا کہ اس سے کفر لازم آتا ہے مگر چونکہ وہ مومن تھا، اللہ کے عذاب سے ڈرتا تھا، چنانچہ اللہ نے اسے معاف کردیا، وہ مؤول مجتہد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا شوق رکھتا ہے، اس سے بھی زیادہ مغفرت کا مستحق ہے-"

(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ 3/229)​

اس تحقیق کے بعد قول اور قائل، فعل اور فاعل کے درمیاں تمیز کی جائے گی، ہر قول و فعل کفر و فسق کا سبب نہیں بنتا کہ اس کے قائل یا فاعل پر کفر و فسق کا حکم لگادیا جائے-

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:

" قاعدہ یہ ہے کہ جو بات کتاب و سنت اور اجماع کی روشنی میں کفر ثابت ہوجائے، اسے کفر ہی کہا جائے گا، جیسا کہ اس پر شرعی دلائل موجود ہیں، ایمان ان احکام میں سے ہے جو اللہ اور رسول سے سیکھے گئے ہیں، لوگ اپنی خواہشات کے ساتھ اس کے بارے میں حکم صادر نہیں کرسکتے، یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسی بات کہنے پر کسی شخص کو کافر کہ دیا جائے، یہاں تک کہ اس کے حق میں تکفیر کی شرائط ثابت ہوجائيں اور تکفیر کے موانع ختم ہوجائيں، مثلا! کسی شخص نے نومسلم ہونے کی وجہ سے یا بدوی ہونے کی وجہ سے شراب یا سود کو حلال کہ دیا، تو وہ کافر نہیں- یا اس نے کوئی عجیب بات سنی اور یہ سمجھا کہ یہ قرآن و حدیث میں سے نہیں ہے، جیسا کہ بعض سلف نے کچھ چيزوں کا انکار کیا، یہاں تک کہ تائب ہوگیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے:
" تاکہ رسول بھیجنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی دلیل نہ بچے-"(النساء 165)
نیز اللہ نے اس امت سے خطا و نسیان کو معاف کردیا ہے-"

مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:35/165​

خلاصہ :

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات کوئی قول یا فعل موجب کفر و فسق ہوتا ہے مگر اسے ادا کرنے والا کافر یا فاسق نہیں ہوتا، یا تو اس لیے کہ اس میں تکفیر و تفسیق کی شرط معلوم نہیں یا پھر اس لیے کہ کوئی شرعی مانع موجود ہے- جس پر حق واضح ہوگیا، مگر وہ اپنے عقیدے کی بنا پر یا کسی امام و پیشوا کی اتباع و پیروی یا دنیا پرستی کی وجہ سے اس کی مخالفت پر ڈٹ گیا تو اس مخالفت کی وجہ سے وہ کفر و فسق کا مستحق ہوگیا-

ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ عقیدہ و عمل کو کتاب و سنت کے مطابق بنائے، انہیں اپنا پیشوا سمجھے اور انہی سے نور ہدایت حاصل کرے، کتاب و سنت کا راستہ اختیار کرے،کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے، جسے اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"یہی میرا سیدھا راستہ ہے، تم اس کی پیروی کرو، دیگر راہوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹادیں گی، یہ تمہیں اللہ کا حکم ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ-" (الانعام:153)

مومن کو ان لوگوں سے بچنا چاہیے جو اپنے عقیدہ و عمل کی بنیاد کسی خاص مذہب پر رکھتے ہیں، پھر جب دیکھتے ہیں کہ کتاب و سنت کی نصوص ان کے مذہب کے خلاف ہیں تو ان نصوص کو باطل تاویلات سے اپنے مذہب کی طرف پھیردیتے ہیں، وہ کتاب و سنت کی پیروی نہیں کرتے، بلکہ ان کو اپنا پیروکار بنالیتے ہیں- یہ خواہش پرستوں کا طریقہ ہے نہ کہ ہدایت پرستوں کا اور اللہ تعالی نے اس طریقے کی مذمت بیان کی ہے-

ارشاد باری تعالی ہے :

"اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور ان کا درمیانی نظام بگڑ جاتا ، بلکہ ہم تو ان کے پاس ذکر لائے ہیں اور وہ اس ذکر سے منہ موڑتے ہیں-"(المؤمنون:17)

اس بارے میں لوگوں کے مختلف مسئلوں میں غور و فکر کرنے والا آدمی بڑے بڑے عجائبات دیکھتا ہے، اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہدایت مانگنے، حق پر ثابت رہنے اور گمراہی سے پناہ مانگنے میں وہ اللہ تعالی کا انتہائی محتاج ہے، جو شخص خود کو رب کا محتاج سمجھ کر اور اللہ کو غنی سمجھ کر صدق دل کے ساتھ اللہ تعالی سے سوال کرے تو اللہ تعالی اس کے سوال کو ضرور پورا کردیں گے-

ارشاد باری تعالی ہے:

"جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو بتادیں کہ میں قریب ہوں، ہر ایک کی پکار کو قبول کرتا ہوں، انہیں چاہیے کہ میرے احکامات قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائيں، تاکہ وہ ہدایت پائيں-" (البقرہ:186)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی پیروی کرنے اور باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ہدایت یافتہ اور نیک لوگوں میں شامل فرمائے، ہدایت کےبعد ہمارے دلوں کو مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں ذاتی یا کسی ایک گروہ کے جذبات کو ہی بنیاد بنانا۔ اور اس بارے میں قرآن و حدیث سے رہنمائی نہ لینا، مسلمانوں‌میں شدید قسم کے مسائل کھڑا کرنے کا سبب ہے۔
  الشیخ سعد بن علی بن وھف القحطانی کی زیر نظر تصنیف عامۃ الناس میں رقمطراز ہیں۔
کہ ہر شخص اپنے آپ کو حق پر ہی سمجھتا ہے۔
    ایک ہی کلاس، ایک ہی استاذ اور ایک ہی یونیورسٹی کے طالبعلم ایک ہی ’’ذہن‘‘ نہیں رکھتے۔
    کسی شخص میں ’’دینی حمیت‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔ کسی میں کم۔
    بعض اوقات جس میں ’’دینی حمیت کم‘‘ ہوتی ہے، اُن میں کسی خاص وجہ، ماحول یا واقعہ وغیرہ سے ’’زیادہ‘‘ ہو جاتی ہے۔ اور وہ اکیلے ہی ’’شاتم رسول‘‘ کو قتل کر دیتے ہیں۔ کسی کو بتاتے بھی نہیں حالانکہ عام زندگی میں وہ لڑنے والے نہیں ہوتے۔ دیکھا جائے تو یہ کام تو ایک ’’لشکر‘‘ ہے۔ یا لشکر کے کسی حصے یا آدمی کا۔ جو اس بات کا قوم سے عہد کرتا ہے کہ میں تمہاری خاطر لڑوں گا۔ لیکن وہ آگے نہیں آتا۔
    بسا اوقات ’’زیادہ دینی حمیت‘‘ کے لوگ کسی خاص وجہ سے، ماحول یا واقعہ وغیرہ سے اپنے آپ کو اس چیز سے بھی ’’عاجز‘‘ پاتے ہیں کہ کسی ’’متفقہ واجب القتل‘‘ یعنی ’’شاتم رسول‘‘ کوہی قتل کر دیں حالانکہ اُن کے ’’اختیار‘‘ میں تو ایٹم بم بھی ہیں۔
    مسئلہ تکفیر سے نہ تو کلی طور پر انکار کیا جا سکتا ہے ’’کسی کی بھی تکفیر‘‘ نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ کتب احادیث میں باقاعدہ ’’ابواب‘‘ موجود ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سمیت صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور سلف صالحین نے ’’مسئلہ تکفیر‘‘ پر متواتر عمل کیا ہے۔
    نہ ہی ہر ’’کس و ناکس‘‘ کو اس چیز کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ ہر کسی کی ’’تکفیر‘‘ کرنے لگ جائے۔
    ہر دو چیزوں یعنی افراط و تفریط سے بچنا اور جو چیز ان کے درمیان میں ہے وہی حق ہے، اُسے اختیار کرنا ہی اسلام کی ’’آبیاری‘‘ کرنا ہے۔
مزید  الشیخ ابو عمیر حفظہ اللہ فرماتے ہیں:​
مسئلہ تکفیر اہل السنۃ والجماعۃ کے ہاں ایک اہم اور مسلّم مسئلہ ہے ۔اور آئمہ اہل السنۃ سے دونوں قسم کی تکفیر(مطلق اور معیّن) ثابت ہے ۔بلاشبہ مخصوص، استثنائی اور ناگزیر حالات میں دین اسلام کی حفاظت کے پیش نظر تکفیرکا مسئلہ شرعی حکم میں داخل ہے لیکن فی زمانہ حالات کے جبر ، حکمرانوں کے ظلم اور استحصال جیسے اسباب نے تکفیر کے مسئلے کو شرعی حکم سے زیادہ ردعمل،انتقامی کاروائی اور استثنائی سے زیادہ عمومی حکم کا درجہ دے دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین کا ایک اہم مسئلہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اس تحریر میں ہم ان بنیادی وجوہات کو اجاگر کریں گے کہ جن کی بنیاد پر مسئلہ تکفیر فتنہ تکفیر بنتا ہے اور ہمارے معاشرے کے مخلص اور دین کا درد رکھنے والے افراد کو نگلتا چلا جاتا ہے ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ حق بات کو بیان کرنے کی توفیق دے اوراسے قبولیت بخشے ۔
    ​
الشیخ عبداللہ ا لسلفی فرماتے ہیں:
اہل السنۃ کے ہاں مسئلہ تکفیر میں اصول و ضوابط کا التزام اور اس مسئلہ میں کلام کے اہل لوگوں کی وضاحت اچھی طرح کر دی گئی ہے ۔
    مگر آج کل تکفیری لوگ ( جو لوگوں کی بلا دلیل وغیر منصفانہ تکفیر کر تے ہیں ) دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی بھی معیّن تکفیر کر سکتا ہے ( یعنی کسی معیّن مسلمان کو کافر قرار دینا) اور تکفیر کرنے کے بعد اس کو معاشرہ میں واضح کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اور اس چیز کا انکار کرتے ہیں کہ تکفیر معیّن صرف جید علماءاور فقہاء کا کام ہے ۔
    تکفیری یہ کیوں کہتے ہیں ؟اس لیے کہ جن کی وہ تکفیر کر رہے ہوتے ہیں مثلا معین حکمران وغیرہ علماء اہل السنۃ ( جن سے خود تکفیری حضرا ت عقیدہ ، تفسیر اور فقہ لیتے ہیں ) وہ ان حکمرانوں کی معین تکفیر نہیں کر رہے ہوتے ۔
    یہاں سے یہ مسئلہ تکفیر فتنہ کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اگر آجکل علماء اہل السنۃ حکمرانوں کی تکفیر معین نہیں کرتے تو یہ تکفیر ی حضرات اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اب یہ کام ان پر اور ہر عام آدمی پر لازم ہے کہ چاہے وہ تکفیر معین کے اصول وضوابط جانے یا نہ جانے وہ اس کا مکلف ہو یا نہ ہو ( یقیناً مکلف تو اہل علم ہی ہیں ) وہ لوگوں کو کافر قرار دے گا خاص طور پر حکمرانوں کو معین کر کے ،لہذا بغیر علم اور آگاہی کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا !!
    کسی خاص شخص کی تکفیر کو ن کرے گا اور کن شروط و قیود پر کرے گا ؟ ایک قابل و ضاحت مسئلہ ہے مگر تکفیری حضرات اس مسئلہ کو کبھی واضح نہیں کرتے مقصد صاف ہے تاکہ وہ اس پر خطر کام کو اس طرح مسخ کریں کہ لوگ انہیں حق پر اور اہل السنہ کے علماءکو حقیر و گمراہ جانیں ۔
    یہ عام عادت ہے کہ تکفیری حضرات لوگوں کی نظر میں اہل علم کی اتنی تحقیر کر دیتے ہیں کہ لوگ اس مسئلہ میں الجھ جاتے ہیں ۔
    اب ہم اصل بحث کی طرف آتے ہیں ۔اور وہ یہ کہ مسئلہ تکفیر کب فتنہ تکفیر بنتا ہے :
    وہ لوگ جن کی تکفیر کی جا سکتی ہے وہ مختلف ہیں اسی طرح جو تکفیر کرنے کا حق رکھتے ہیں وہ بھی مختلف ہیں ۔یہ بات ہم آنے والی سطورمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں واضح کریں گے انشا ءاللہ ۔
    تکفیر کے لحاظ سے :
    1۔ کچھ لوگ وہ ہیں کہ جن کی تکفیر کا حق صرف اور صرف علماء کو ہے اور کسی عامی کو یادینی علم و حکمت سے کورے شخص کو نہیں ۔
    2۔ اور کچھ لوگ وہ ہیں جن کی ہر مسلمان تکفیر کر سکتا ہے بلکہ ہر مسلمان پر انکی تکفیر کرنا لازم ہے ۔
    آئیے ہم اس مسئلہ کو تفصیلاً واضح کرتے ہیں ۔
    تکفیر کے لحاظ سے لوگ دو گروہوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں
    اول: اصل کافر
    دوم : اسلام سے ارتدار اختیار کرنے والا

    اول : اصل کافر:۔
    انکو بھی دو گرو ہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
    (۱)۔ ایسے لوگوں کی تکفیر جن کا کوئی مذہب نہ ہو :
    ان کی مثال دہریے لوگ ہیں ( جو اللہ کے وجود اور اس کے خالق و مالک ہونے کےہی انکاری ہیں ) یا وہ لوگ (جو اللہ کو تو مانتے ہیں یعنی وجود کے قائل ہیں مگر دین بشمول اسلام کے نہیں )تمام مسلمان ( عام آدمی ، داعی ، طلباء اور علماء اکرام ) ایسے لوگوں کی تکفیر کر سکتے ہیں بلکہ کرنی واجب ہے اور اس گروہ کے ہر شخص کی بھی، جو ان جیسا عقیدہ اور اعمال رکھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اور اعمال کفر اکبر ہیں ( ایسا کفر جو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے )
    اللہ اور اس کے محبوب نبی محمد ﷺ نے ان لوگوں کی تکفیر فرمائی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے کہ یہ گروہ کافر ہیں ۔
    الشیخ عبید الجبری فرماتے ہیں :۔
    ’’ یہ کفار ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کا کلمہ قبول ہی نہیں کیا ‘‘
    مزید فرمایا :۔
    ’’ ہر مسلمان کو جان لینا چاہئے کہ قرآن و حدیث اور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دین صرف دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اللہ کا کلمہ قبول کرتا ہے اور یہ مسلمان ہیں اور دوسرا وہ جو اللہ کے کلمہ کا انکار کرتا ہے یہ کفار ہیں ۔‘‘
    (ب) ایسے شخص کی تکفیر کرنا جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان مثلا عیسائیت ،بدھ مت ،سکھ ازم، اور یہودیت وغیرہ کو مانتے ہیں ،تمام مسلمان (عام آدمی ،داعی ، طلباءاور علماء اکرام )ان کی تکفیر کر سکتے ہیں بلکہ کرنی چاہئے ہراس شخص کی جو ان گروہوں میں سے ہے کیونکہ ان کے عقائد اور اعمال کفر اکبر ہیں اور ان کے کفر کا بیان قرآن و حدیث اور اجماع اہل علم سے واضح ہے کہ یہ لوگ محمد ﷺ اور اسلام پر ایمان نہیں لائے ۔
    الشیخ عبیدالجبری مزید فرماتے ہیں :
    وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی دعوت ( دعوت آخرالزمان محمدﷺ) سے اعراض کیا اور اسلام میں داخل نہیں ہوئے یعنی یہودی عیسائی اور ہندو وغیرہ ۔۔۔۔ یہ کفار ہیں اس پر قرآن و حدیث اور علماء کا اجماع دلیل ہے۔ حتی کہ ایسے لوگوں کی تکفیر نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے امام الدعوۃ محمد بن عبدالوہاب ؒ اپنے دس نواقض اسلام میں ان لوگوں کے بارے جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان کے پیروکار ہیں فرماتے ہیں تیسرا ناقض یہ ہے :
    ’’جو کسی مشرک و کافر کو کافر یامشرک نہ مانے یا وہ ان کے کفر میں شک رکھے یا انکے عقائد و نظریات کو درست تسلیم کر ے ، تو اس شخص نے کفر کیا ۔‘‘
    (مولفات الشیخ محمد بن عبدالوھابؒ 212,213)
    اب ہم دوسری قسم کی طرف آتے ہیں

    دوم: دین سے ارتداراختیار کرنے والے :۔
    کسی معیّن فرد کی تکفیر یامسلمانوں میں سے معین مسلم حکمران کی تکفیرکرنا:
    یہ کام صرف اور صرف متبحر فی العلم اور دین میں راسخ العلم کا حق ہے داعی یا دینی طالب علم کے لئے جائز نہیں بلکہ تمام طبقہ علماء بھی اس کے فیصلے کے مکلف نہیں ہیں ۔
    اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ،ارکان اسلام اور ارکان ایمان کو تسلیم کرنے کا دعوے دار ہوتا ہے۔
    قرآن و سنت میں ایسے شخص کی معین تکفیر نہیں کی گئی جیسا کہ گزشتہ بیان کردہ دو گروہوں کی گئی ہے ۔ اس کی وجہ ان کا اسلام کا اظہار اورمسلمان ہونے کا دعوی کرنا ہے ۔
    لہذا ایسے شخص کی تکفیر صرف تب ہی ممکن ہے جب اس کے فعل کا کفر یہ یا شرکیہ ہونا قرآن و حدیث ، فہم سلف سے ثابت ہو اور تکفیر معین کی تمام شروط پوری ہوں اور موانع ( کفر سے بچا نے والے اسباب) ختم ہو جائیں ان سب اصول و ضوابط کا جائزہ لینے کے بعد صرف اور صرف اہل علم کو حق ہے کہ وہ کسی کلمہ گو کی تکفیر معین کریں کیونکہ وہ اس کے مکلف ہیں نہ کہ ہماری گلیوں ، محلوں اور شہروں کے ’’مفتیان‘‘!
    تنبیہ:اگر ثبوت دستیاب ہوبھی جائیں اور شروط تکفیر پوری ہونے اور موانع کے ختم ہونے ( یعنی اس مسلمان کے کافر ہونے کے قواعد و ضوابط پورے ہونے ) کے بعد بھی اگر اہل علم کسی وجہ ( بڑے مفاسد سے بچنے ، کسی مصلحت یا صرف نظرکرتے ہوئے ) تکفیر نہ بھی کریں تو یہ بات سیر ت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ کتنے ہی منافقین ایسے تھے جو تکفیر کے دائرے میں تھے مگر آپ ﷺ نے انکی تکفیر نہیں کی حالانکہ شروط وثبوت موجود اور موانع ختم ہو چکے تھے ۔ اس قضیہ مصلحت و رد مفاسد کی مزید وضاحت کے لیئےہم اس مسئلے میں افراط و تفریط کے شکار ایک معروف تکفیری پیشوا کہ جن کو تکفیری حضرات بطور رہنما پیش کرتے ہیں ،کی کتاب’شرح نواقص اسلام‘ سے ہی ایک اہم اقتباس درج کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
    ’’ہمارے ہاں کچھ جذباتی نوجوان بالعموم یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ چلیں مان لیا یہ تین یا پانچ چیزوں موانع تکفیر ہیں ( یعنی آدمی کی تکفیر کرنے میں مانع ہیں ) لا علمی ، تاویل ، اکراہ خطا اور نسیان ۔۔۔۔۔۔۔۔
    تو اب اگر ہم کسی کفریہ فعل میں ملوث شخص کی بات یہ دیکھ لیتے ہیں کہ نہ تو وہ لا علم ہے اور نہ اس کے ہاں کوئی ایسی تاویل پائی جاتی ہے جو اس پر وہ حکم لگانے میں مانع ہوئی ہو نہ اس پر وہ کفر فعل کروانے کیلئے کسی نے بندوق تان رکھی ہے کہ ہم کہیں وہ کسی اکراہ کا شکار ہے نہ وہ خطا ( یعنی بغیر قصد) وہ کام کر رہا ہے ( بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے اور بقائمی ہوش و حواس اس حرکت کا مرتکب ہو رہا ہے ) اور پھر نہ ہی وہ کسی نسیان کا شکار ہے یعنی موانع تکفیر میں سے کوئی ایک بھی مانع اس شخص کے حق میں نہیں پایا جاتا تو آخر کیا وجہ ہےکہ ہم اس شخص کو کافر نہ کہیں ؟ یہ نواجوان کسی وقت یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ علماء نے ایسے کسی شخص کو کافر کیوں نہیں کہا؟
    بلاشبہ کسی وقت ہو سکتا ہے کوئی شخص نواقض اسلام کا مرتکب بھی ہو اور اس کے حق میں موانع تکفیر( یعنی لا علمی خطا، تاویل یا اکراہ وغیرہ ) بھی نہ پائے جاتے ہوں ۔۔۔۔۔ یعنی وہ اصولا پوری طرح تکفیر کا مستحق ہو ، پھر کسی شرعی مصلحت کے پیش نظر یا دفع مفسدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل علم اس کی تکفیر کے معاملہ میں توقف کیئے رکھیں یعنی اس پر ارتداد کے احکام لاگو نہ کریں اور معاشرے کے اندر ایک مسلمان سمجھا جانے کا اسٹیٹس کسی خاص وقت تک اس سے پھر بھی سلب نہ کریں ۔
    جامع ام القری مکہ مکرمہ میں عقیدہ کے ایک استاد اور ایک ممتاز عالم شیخ احمد آل عبدالطیف اس کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
    ’’نبوی معاشرے کے اندر منافقین کے کفریہ اعمال عمومی طور پر چھپے رہتے تھے یہ درست ہے مگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ چند خاص منافقین کےکفر یہ افعال ریکارڈ پر بھی آگئے تھے منافقین میں سے چند متعین لوگوں کا نواقص اسلام کا مرتکب ہونا ان کے باطن تک محدود نہ رہ گیا تھا کہ جس کا مؤاخذہ صرف اللہ عالم الٖغیب کی ذات ہی قیامت کے روز جاکر کرے گی بلکہ ان کے ارتکاب کفر پر صاف بین شواہد پائے گئے تھے یہاں تک کہ ان کے ارتکاب کفر کا پول کھولنے والے صحابہ کی گواہی کی تائید میں آیات وحی اتری تھیں مثلاً آیت :
    [[لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ]]
    یعنی ( بہانے نہ بناؤ) عذرات مت تراشو یقینا تم ایمان لے آنے کے بعد کفر کر چکے ہو ( التو بہ 66) خاص متعین لوگوں کی بارے اتری تھی ۔
    [[وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ ]]
    یعنی یقینا یہ کفر کی بات بک چکے ہیں اوراپنے اسلام کے آنے کے بعد کفر کر چکے ہیں ۔ ( التوبہ 74) بھی کچھ خاص لوگوں کی بابت اتری تھی جن کاکفر طشت ازہام ہو گیا تھا۔
    [[وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَرَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ Ĉ۝]]
    یعنی جب ان سے کہا جائے آؤ اللہ کا رسول ﷺ تمھارے لئے استغفار کر دے تو وہ (گھمنڈ سے ) اپنے سر موڑلیں اور تم دیکھو کہ وہ باز رہتے ہیں اس حال میں کہ وہ تکبر کر رہے ہو تے ہیں ۔
    ( المنافقون 5)
    [[هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا]]
    خرچ نہ کرو ان لوگوں پر جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں ۔ یہا ں تک کہ یہ ( آپ ﷺ کے گرد سے ) چھٹ جائیں ۔
    ( المنافقون 7)
    یہ سب متعین لوگوں کے معاملہ میں پیش آیا ۔ یوں مستند روایا ت میں ایسے متعدد وقعات ملتے ہیں کہ مدینہ کے اندر کچھ کلمہ گو لوگوں کا مرتکب کفر ہونا’’ باطن‘‘ کے دائرہ سے نکل کر’’ظاہر‘‘ کے دائرہ میں آتا تھا جبکہ ہم جانتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے کچھ خاص مصالح کے پیش نظر ان کا کفر واضح اور معاشرتی سطح پر ان کے قابل مؤاخذہ ہونے کے بعد باوجود ان لوگوں پر ارتداد کے احکام لاگونہیں کیے۔‘‘

    اعتراض:
    اس کے رد میں بعض لوگوں کی جانب سے اگر یہ کہا جائے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے بتائی گئی تھیں جبکہ دنیوی احکام لاگو کرنے کیلئے معلومات کے انسانی ذرائع ضروری ہیں اس لیے نبی ﷺ نے ان لوگوں کی تکفیر نہ کی تھی یا وہ یہ کہیں کہ منافقین کا اس بات سے مکرنا کہ انہوں نے ایسی حرکات کی تھیں یا اس پر ایک طرح کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا اس بات پر دلیل ہوئی کہ وہ اپنے اس کفریہ فعل پر قائم بہر حال نہ رہے تھے لہذا اس کو ایک طرح کا ظاہری رجوع باور کرتے ہوئے ان کی تکفیر سے اجتناب برتا گیا ۔
    جواب :
    تو ان شبہات کے جواب میں ہم کہیں گے کئی ایک باتیں ایسی بھی ریکارٖڈپر ہیں کہ کسی منافق نے کھلم کھلا ایک کفریہ قول یا رویہ ظاہر کیا ( اس کو جاننے کیلیے وحی واحد ذریعہ نہ رہا ) نیز اپنے اس کفریہ قول یا رویہ پر اس کا معذرت خواہانہ رویہ بھی ہر گز ریکارڈ پر نہیں مثال کے طور پر صحیح بخاری میں عبداللہ بن ابی کا یہ رویہ کہ جب رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہو کر عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچے تو وہ بے لحاظ بکنے لگا :(الیک عنی واللہ لقد اذانی نتن حمارک )‘‘ پرے ہٹو ’’ واللہ ( اللہ کی قسم ) تمھارے گدھے کی سڑاند میرے ناک میں دم کر رہی ہے ’’ تب انصارمیں سے ایک صحابی سے نہ رہا گیا اور وہ عبداللہ بن ابی کو مخاطب کر کے بولا :( واللہ لحمار رسول اللہ ﷺ اطیب ریحامنک ) وللہ ! رسول اللہ ﷺ کا گدھا بو میں تم سے کہیں بہتر ہے تب عبداللہ بن ابی کے قبیلے کا ایک آدمی عبداللہ بن ابی کیلئے طیش میں آیا اور اس انصاری کو گالیاں بکنے لگا اس پر ہر دو کے قبیلے کے لوگ اپنے آدمی کیلئے بھڑک اُٹھے اور دونوں گروہوں کے مابین کجھور کی چھڑیوں ،ہاتھوں اور جوتوں سے مار پیٹ ہونے لگی‘‘ ۔
    ( صحیح بخاری کتاب الصلح باب ماجاء فی الاصلاح بین الناس اذا تفاسدوا)
    غرض بعض افراد سے اس قسم کے کفریہ افعال اور رویے کھلم کھلا سرزد ہونے کے باوجود بعض شرعی مصالح کے پیش نظر ان لوگوں کی تکفیر سے احتراز برتا گیا اور دینوی امور میں ان کا حکم ایک مسلمان کا سار کھا گیا یہاں تک کہ ایک علیحدہ نص کے ذریعہ سے جب تک ان کی نماز جنازہ سے نہ روک دیا گیا آپ ﷺ نے ان کاجنازہ پڑھنا تک مو قوف نہ کیا ۔
    مقصد یہ کہ کسی شخص کے حق میں موانع تکفیر اگر زائل بھی ہوگئے ہوں لیکن کچھ مصالح اہل علم کی نظر میں ایسے ہو جو اس کی تکفیر کی بابت سکوت کا تقاضا کریں یا اس کی تکفیر کرنے کی صورت میں وہ کچھ مفاسد اُٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ محسوس کریں تو اس صورت میں تکفیر سے احتراز کر رکھنا ان کے حق میں ایک جائز و شرعی رویہ ہو گا ۔
    عام لوگوں کو بہر حال اس مسئلہ (مسئلہ تکفیر) میں اہل علم ہی کے پیچھے چلنا ہے پس اگر کسی وقت شرعی اتھارٹی ( جو کہ آج اس وقت علماء کسی شخص یا گروہ پر نواقص اسلام کے ارتکا ب کے باوجود اس کو معین کر کے تکفیر کا حکم عائد کرنے سے محترز رہتے ہیں یا اس کے معاملہ میں بوجوہ صرف نظر کر رکھتے ہیں جس کی بنیاد کوئی خاص حفظ مصالح یا دفع مفاسد ہو جبکہ ان مصالح اور مفاسد کا موازنہ بھی ظاہر ہے اہل علم ہی کر سکتے ہیں تو یہ بات شرعا غلط نہیں‘‘ ۔
    ( نواقص اسلام ازحامد کمال صفحہ نمبر 91-95)
    لہذا تکفیر ی حضرات سے درخواست ہے اگر کوئی ایسی صورت حال پیش ہو اور علماء اہل السنۃ کسی معین شخص کی تکفیر میں (ثبوت و شروط پورے اور موانع ختم ہونے کے با وجود ) توقف کریں تو ان پر لعن طعن اور مرجیئت کے فتوے جھاڑنے سے پرہیز کریں !
    یہ کام محض اہل علم کا ہے ۔ ہم اس میں چھیڑ چھاڑ کے اہل نہیں ! یہ میدان ہمارا ( عوام الناس اور عام اہل علم کا ) نہیں ہے ۔
    شیخ السلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :
    ’’ کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی شخص کو مسلمانوں میں سے کافر قرار دے ۔۔۔جب تک ثبوت پایہ تکمیل تک نہ پہنچ جائیں ‘‘
    ( مجموع الفتاوٰی 12/466)
    مزید فرمایا :
    ’’یقینا ًکسی شخص کی تکفیر ( معین ) شروط اور موانع رکھتی ہے ۔ ‘‘
    ( مجموعۃ الفتاوی 12/487 -488)
    شیخ محمد عمر بذمل ،امام ابن تیمیہ ؒ کی اوپر بیان کردہ تکفیر معیّن کے بارے دونوں بیانات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
    کوئی شخص معین (مسلمانوں میں سے ) علماءاہل السنہ کے نزدیک کافر نہیں بنتا ماسوائے مندرجہ ذیل وجوبات کے مکمل ہونے پر :
    ۱۔ ثبوت کا پایہ تکمیل کو پہنچنا ( قرآن و سنت اور اجماع سلف صالحین سے )
    ۲۔ شروط کی مکمل موجود گی
    ۱۔(علم) صحیح حصول علم
    ۲۔(عمداً) کفر یہ فعل کو جان بوجھ کر کرنا
    ۳۔موانع زائل ہونے پر جو کہ مندرجہ ذیل چار ہیں :
    ۱۔ جاہل نہ ہو
    ۲۔ کفر یہ کام پر مجبورنہ کیا گیا ہو
    ۳۔غیرارادی یا غلطی سے نہ چاہتے ہوئے کوئی کا م سرزد ہو جانا
    ۴۔متاؤل یعنی کسی تاویل کی بنیاد پر کفر یہ کام کر رہا ہے ۔
    لہذا کسی معین شخص کو اس وقت تک کا فر قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک اوپر بیان کردہ معاملات سے اس کو توثیق نہ ہو جائے ،جو کہ تکفیر مطلق کے بر عکس ہے ۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :
    یقیناً تکفیر مطلق کی وجہ سے تکفیر معین لازم نہیں آتی حتی کہ ( ثبوت ایک خاص یا معین فرد میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے ) شروط ( تکفیر معین) پوری ہوں جائیں اور موانع ختم ہو جائیں ۔
    (مجموع الفتاوٰی 12/487 -88)
    یعنی ہم گزشتہ حصے میں یہ جاننے میں کامیاب رہے ہیں کہ کن لازمی اصولوں پر تکفیر کی جاتی ہے اوپر بیان کردہ صورتیں یہ تھیں :
    ۱۔ ثبوت کی موجودگی
    ۲۔ تکفیر معین کی شروط
    ۳۔ موانع تکفیر معین
    یہ صرف کسی مسلمان کی تکفیر کے لیے ہے نہ کہ کسی کافر معین کے لیے کیونکہ وہ تو منکر اسلام ہیں۔ قاضی عیاض ؒفرماتے ہیں :
    ہم ( تمام مسلمان ) اس شخص کو کا فر سمجھتے ہیں جو مسلمانوں کے دین کے علاوہ دوسرے ادیان کے پیروکار ہیں ۔
    (الشفاء تعریفہ حقوق المصطفی 2/1671)
    کیونکہ کسی معین مسلمان کو کافر قرار دینے کے لیے کچھ صورتیں درکار ہیں ( مثلا کفریہ عمل کاہونا شروط کا پایا جانا ،موانع زائل ہونا ) لہذا عہدہ تکفیر صرف اور صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو اسلام کا بھر پور علم رکھتے ہوں، علوم قرآن و تفاسیر کے اصولوں ، حدیث نبوی کے علوم اور استدلال فقہ پر دسترس رکھتے ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ شروط پوری ہیں یا موانع زائل ہیں یا یہ کہ کس کا کام کفریہ ہے اور کس کا نہیں ۔بجائےیہ کہ گلی محلوں کے مفتیان جو کہ ان علوم اور قواعد سے کورے ہیں اور ایمان و کفر پر فیصلے کرتے پھر یں ۔۔۔۔!
    اس بنیاد پر الشیخ صالح الفوزان ﷾فرماتے ہیں :۔
    ’’ کسی شخص پر ارتداد کا حکم لگانا یا کسی شخص کو دین سے خارج قرار دینا صرف اہل علم کو زیب دیتا ہے اور وہ اہل علم جو راسخ العلم ہیں اور وہ شرعی قضا ء کے عہدے پر ہو ں یا مفتیان کرام ہو ں ۔یہ بالکل دوسرے معاملات کی طرح ہی ہے ۔اور ہر کسی شخص کو ،طالب علم کو اور انکو جو علم کے لیے مقرر ہیں اختیار نہیں لیکن جو ان میں نا سمجھ ہیں۔
    یہ ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی کے ارتداد کے بارے میں فیصلہ کریں چونکہ اس سے فساد پیدا ہو گا اور بعض اوقات ایسا ہو گا کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے دیں مگر وہ ( حقیقت میں ) نہ ہو لہذا کسی مسلمان کی تکفیر کرنا اگرچہ اس میں نواقص میں سے کوئی پایا بھی جاتا ہو تو یہ ایک انتہائی خطرناک کام ہے‘‘
    ’’ جس نے بھی اپنے بھائی کو کہا اے کافر، اے فاسق اور وہ نہ ہوتو الفاظ اسی کہنے والے پر لوٹ آتے ہیں ۔‘‘
    لہذا وہ لوگ جو کسی شخص کے ارتداد کا فیصلہ کریں گے یا تو وہ قاضی ہوں گے جو فتوی دینے کے اہل بھی ہیں یا وہ جو ان کےفیصلوں کو نافذ کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کے حکمران ہیں اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ محض بوکھلا پن ہے ‘‘
    ( مراجعان فی فقد الوافقی )
    شیخ حفظہ اللہ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں :
    ’’ یہ جہلاء پر لازم ہے کہ وہ خاموش رہیں ،زبان مت کھولیں اور اللہ سے ڈریں جو غالب اور جلال والاہے اور علم کے بغیر کلام مت کریں۔ ‘‘
    اللہ فرماتا ہے:
    [[وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ]]
    ’’اور یہ کہ تم اللہ پر وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے ۔ ‘‘
    ( الاعراف : 33 )
    پس کسی جاہل شخص کے لیےجائز نہیں کہ وہ علمی معاملات پر کلام کرے ،خاص طور پر ایسے معاملات جن کا تعلق ایمان وکفر ، جہاد وقتال اور الولا ءوالبراء سے ہوجہاں تک اہل علم کی عزت و حرمت پر طعنہ زنی اور غیبت کا تعلق ہے تو یہ غیبت کی شدید ترین قسم ہے اوریہ کوئی جائزصورت نہیں ۔
    اور جہاں تک موجود ہ حالات ہیں جو گز ر گئے ہیں یا گزر رہے ہیں تو یہ لازم ہے کہ اس کے بارے میں مکمل تصدیق اور باہمی مشورے کے بغیر اہل علم کی خدمت میں پیش کریں تاکہ وہ جائزہ لیں اور اس کے بارے میں شرعی فتویٰ جاری کریں نہ کہ خود مدعی ، خود گواہ ،خود قاضی اور خود ہی جلاد ۔۔۔۔۔!
    جہاں تک عام مسلمانوں کا اور طالب علموں کا تعلق ہے تو گزارش ہے کہ یہ انکا مسئلہ نہیں ۔۔ خاص طور پر کفر و ایمان کے فیصلے کرنا ۔
    وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا 83؀
    اللہ رب العزت کا فرمان ہے اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹا تے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں ۔
    ( سورہ النساء : 83)
    کہیں ایسے تمام لوگ اس سلسلے میں مغالطہ کھا کر خود ہی اس حکم کے مصداق ٹھہر جائیں گے جو وہ کسی پر لگا رہے تھے‘‘ ۔
    لہذا ایسے مسئلے میں زبان پر قابورکھنا لازم ہے ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے !
    یہ بہت ہی خطرناک مسئلہ ہے تو اس میں اللہ سے ڈرنا چاہیے زبان کھولنے سے بچنا چایئے ماسوائے انکے جو ان مسائل میں اختیار دیے گے یا ذمہ داری دیے گے ہیں !
    آخر میں اس مضمون سے جو نتیجہ اخذہوا وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
    ۱۔ ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا جولا دین ہیں یعنی دہرئیے ،ہر مسلمان پر بلا تفریق ،مطلق یا معین دونوں طرح لازم ہے ۔
    ۲۔ ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا جو دوسرے ادیان کے پیروکارہیں عیسائی ، یہودی ،ہندو وغیرہ ہر مسلمان پر بلا تفریق مطلق اور معین دونوں طرح لازم آتا ہے ۔
    ۳۔ کسی مسلمان کی تکفیر کرنا :
    صرف اور صرف راسخ العلم ، اہل قضاء لوگ ہی اس عہدہ پر فائز ہیں ان کے علاوہ کسی کے لیے یہ کام جائز نہیں چاہے مطلق ہو یا معین !
    اک شبہ :
    تکفیر ی حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح وہ ایسے شخص کو جو لا دین و باطل ادیان پر ہو اسکی تکفیر کر سکتے ہیں ایسے ہی انکے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اگر کسی مسلمان کو کفریہ کام کرتا دیکھیں تو اس کی بھی تکفیر کرنا اپنا حق و فرض سمجھیں ۔
    لیکن یہ کوئی سادہ وجہ نہیں ، وہ لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں یا جو دوسرے ادیان کے پیرو کار ہیں اور اسلام اور ایمان کی جزو یات کے منکرہیں ان کی تکفیر ہر مسلمان پر بلا تفریق فرض و لازم ہے اس کے لیے شائد کثیر علم بھی درکار نہیں ہے ۔حتی کے ایک نو مسلم خود بخود یہ سمجھ جاتا ہے کہ پہلے وہ کافر کیوں تھا؟
    جبکہ دوسری طرف کسی مسلمان شخص کو کافر قرار دینا چاہے عام مسلمان ہو یا حکمران یہ راسخ العلم افراد کا کام ہے اس وجہ سے کہ یہ ایک بہت ہی زیادہ احتیاط کا کام ہے کیونکہ وہ شخص اسلام کے اراکین اور ایمان کی جزو یات پر ایمان رکھنے کا دعویدار ہے اور خود کو مسلمان گردانتاہے ۔
    لہذا جو اہل علم اس کام کے مکلف ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل چیزوں کا راسخ علم رکھتے ہوں ۔
    ۱۔ جانتے ہوں کہ کفر کی کتنی اقسام ہیں ۔
    ۲۔ تکفیر کے قواعد و ضوابط سے مکمل آشنا ہو ں یعنی (عمل کے کفریہ ہونے یا نہ ہونے ،ثبوت کی صحت ، شروط و موانع کے بارے راسخ العلم ہوں )
    ۳۔ وہ علوم قرآن و تفاسیر ، شرو حات احادیث و استدلال ، علم حدیث ، فقہ اور عربی لغت سمیت دوسرے دینی علوم پر بھرپور دسترس رکھتے ہوں اور بالخصوص وہ اس تکفیر مطلق اور معین کے بارے پورا علم رکھتے ہوں ۔
    عام مسلمان کو اس مسئلہ میں زبان کھولنے سے بچناا چاہئے اور اس کام میں الجھنے کی بجائے فائدہ مند علم اور نیک اعمال میں رغبت رکھنی چاہیے یہ اس کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والی چیزیں ہیں اور اس مسئلہ کو انہی پر چھوڑ دیں جو اس کے ذمہ دار ہیں ۔
    خلاصہ​

    تمام مسلمان بلا تفریق مطلق اور معین دونوں طرح سے تکفیر کر سکتے ہیں مگر کسی مسلمان کی تکفیر مطلق و معین صرف اور صرف اہل علم کو جائز ہے ۔
    کسی ایسے شخص کو کافر یا مرتد قرار دینا جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور محمد ﷺ کو آخری نبی مانتا ہواور اس عقیدہ پر عمل پیرا ہو ،چاہے وہ صرف جمعہ ہی کی نماز ادا کرتا ہو ،رمضان کے روزے رکھتا ہو ، حج کرتا ہو۔ بہت وسیع علم کی ضرورت ہے ! لہذا غلط تکفیر اور اس کے عتاب سے بچنے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ اس کام کو متعلقہ لوگوں کے ذمہ ہی رہنے دیا جائے تا کہ کسی فتنہ و فساد سے بچا جا سکے !
    وہ مسلمان جو عام لوگ ہیں، داعی ہیں یا طالب علم ان کو رسول اللہ ﷺ کی اس تنبیہ سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ :
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
    ’’مکرو فریب کے وہ سال قریب ہیں جو لوگوں پر آئیں گے ، ان میں جھوٹےکو سچا کریں گے اور سچے کو جھوٹا اور چور کو ایماندار اور ایماندار کو چوراور روبیضہ اسی زمانے میں بات کرے گا‘‘۔
    لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ روبضیہ کیا ہے ؟
    آپ ﷺ نے فرمایا :
    ’’وہ حقیر اور کمینہ آدمی جو لوگوں کے عام معاملات (انتظام ) میں دخل دے گا ‘‘۔
    ( ابن ماجہ ، کتاب الفتن شدۃ الزمان حدیث 4172)

    درود سلام ہو محمد ﷺ پر اور آل محمدﷺ پر اور رحمتیں ہوں اصحاب و اصحابیات ِ محمدﷺ اور ان کے پیروکاروں پر!
جاری ہے.....
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
گروپ هذا میں شمولیت کیلئے رابطہ نمبر
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...