Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 36

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر36)
باب 7: مسئلہ تکفیر:
اب تک ہم نے ان مسائل پر بحث کی ہے جو سلفی اور سنی بریلوی حضرات میں عقیدے کے اختلاف سے متعلق ہیں۔ اس باب میں ہم ایک اختلاف کا جائزہ لیں گے جس کے تحت سنی بریلوی حضرات، اہل حدیث اور دیو بندی حضرات کی بعض عبارات کو کفر قرار دیتے ہیں۔
ہر قوم اپنے انبیاء اور مذہبی راہنماؤں کا احترام کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے مسلمانوں کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ آپ سے متعلق کسی ایسی بات کو برداشت نہیں کر سکتے جس میں ادنیٰ درجے میں گستاخی کا شائبہ بھی پیدا ہو سکتا ہو۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں کسی مسلک اور فرقے کا اختلاف نہیں ہے۔
اصولی طور پر اس بات سے متفق ہونے کے باوجود مسالک کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے پر توہین رسالت کے مرتکب ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ جب شاہ اسماعیل (1831-1879) نے "تقویۃ الایمان" لکھی تو اس کی بعض عبارتوں کو اس دور کے مشہور منطقی عالم مولانا فضل حق خیر  آبادی (1861-1797) نے گستاخانہ قرار دے کر ان پر کفر کا فتوی عائد کیا۔ دیوبندی حضرات کا یہ دعوی ہے کہ بعد میں شاہ اسماعیل کے ساتھ ان کے مذاکرہ کے نتیجے میں انہوں نے اس فتوی کو واپس لے لیا تھا جبکہ بریلوی حضرات کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ واضح رہے کہ مولانا خیر آبادی دیوبندی اور بریلوی سبھی کے نزدیک محترم شخصیت ہیں۔
بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں مولانا احمد رضا خان بریلوی (1921-1856) نے ایک کتاب "حسام الحرمین" لکھی جس میں انہوں نے پانچ افراد کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ یہ پانچوں اللہ تعالی اور اس کے پیغمبروں کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں جس کے باعث یہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب حرمین شریفین کے علماء کو بھیجی جنہوں نے ان کے فتوی کی توثیق کر دی۔ ان پانچ افراد کے نام یہ ہیں:
٭ مرزا غلام آحمد قادیانی (1908-1835)
٭ مولانا محمد قاسم نانوتوی (1880-1832)
٭ مولانا رشید اھؐد گنگوہی (1905-1829)
٭ مولانا خلیل احمد سہارن پوری (1927-1852)
٭ مولانا اشرف علی تھانوی (1943-1863)
ان پانچوں میں مرزا غلام احمد قادیانی کو انہوں نے اس وجہ سے کافر قرار دیا کہ انہوں نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ مرزا صاحب کے بارے
میں ان کے فتوی سے دیوبندی، اہل حدیث اور ماورائے مسلک مسلمان سبھی متفق ہیں۔ مرزا صاحب کے دعویٰ کی تفصیل کا مطالعہ ہم اگلے ماڈیول میں کریں گے۔
بقیہ چار علماء کا تعلق دار لعلوم دیوبند سے تھا جس میں مولانا نانوتوی تو دارلعلوم دیو بند کے بانی تھے۔ مولانا احمد رضا خان نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے شان رسالت میں گستاخی کی ہے اور ختم نبوت کا انکار کیا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگو ہی پر اللہ تعالی کی جانب جھوٹ منسوب کرنے کا الزام تھا۔ اسی قسم کے کچھ الزامات مولانا احمد اور مولانا تھانوی پر بھی تھے۔ مولانا احمد رضا صاحب نے اپنے رسالے "الکوکبۃ الشہابیہ فی ردابی الوہابیہ" میں شاہ اسماعیل کی عبارات پر کڑی تنقید کی اور انہیں کفریہ قرار دیا مگر اس بنیاد پر انہیں کافی قرار نہیں دیا کہ وہ مولانا احمد رضا جس کی پیدائش (1856) تقریباپچیس برس پہلے وفات پا چکے تھے اور یہ ممکن  نہ تھا کہ ان سے مراسلت کر کے انہیں اپنی عبارات سے رجوع کی دعوت دے دی جاتی۔
جب پانچ افراد پر مولانا احمد رضا خان نے کفر کا فتوی عائد کیا، ان کے بارے میں انہوں نے حسام الحرمین میں یہ لکھا کہ من شک فی کفرہ وعذابہ مقد کفر یعنی جس  شخص نے اس (مذکورہ افراد) کے کفر میں شک کیا، اس نے کفی کیا۔ ان کی اس عبارت کی بریلوی حضرات دو طریقے سے توجیہ کرتے ہیں۔ ان کے ایک مختصر گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اس فتوی کی رو سے ہر وہ شخص کافر ہو گیا جو ان حضرات کے کفر میں شک کرے۔ اس توجیہ کی رو سے تمام دیوبندی ،  اہل حدیث اور ماورائے مسلک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ اس توجیہ کو بریلوی حضرات میں سے بہت ہی کم لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ اس کے برعکس ان کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ اس عبارت سے مولانا کی مراد یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کفریہ عبارات کو جانتے بوجھتے متعلقہ افراد کے کفر میں شک کرے، وہ کافر ہے۔ اس توجیہ کی رو سے کفر کا دائرہ صرف ان چار افراد تک محدود رہتا ہے اور عام دیوبندی، اہل حدیث اور ماورائے مسلک افراد کافر قرار نہیں پاتے۔ یہی نقطہ نظر مشہور ماہر رضویات (مولانا احمد رضا صاحب پر ہونے ولی تحقیقات) ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے اختیار کیا ہے۔
علمائے دیوبند نے اس کے جواب میں یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ توہین رسالت کوئی بڑی اچھی چیز ہے اور ایسا کر کے انہوں نے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ توہین رسالت کا ادنی درجے میں مرتکب بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ انہوں نے خود پر عائد کردہ ان الزامات کو غلط قرار دیا اور یہ موفق اختیار کیا کہ ان کے اکابرین کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اکابرین گستاخی رسول کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی اور جوابی الزامات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
سلفی عالم علام احسان الہی ظہیر (1978-1945) نے اپنی کتاب "البریلویہ" میں سنی بریلوی حضرات کی ایک کتاب "تجانب اہل السنۃ" کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ بریلوی حضرات نے کفر کے فتوی کا دائرہ بہت وسیع کر دیا تھا اور ان کے نزدیک سر سید، شبلی، علامہ اقبال اور محمد علی جناع سبھی کاشمار کفار میں ہوتا تھا۔ اس بات کی بریلوی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس کتاب کے مدرجات سے بری ہیں۔ مشہور بریلوی عالم اور راہنما علامہ احمد سعید کاظمی (1986-1913) کے حوالے سے علامہ عبد الحکیم شرف قادری (2007-1944) لکھتے ہیں:
تجانب اہل سنت کسی غیر معروف شخص کی تصنیف ہے جو ہمارے نزدیک قطعاً قابل اعتماد نہں ہے، لہذا اہل سنت کے مسلمات میں اس کتاب کو شامل کرنا قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے اوراس کا کوئی حوالہ ہم پر حجت نہیں ہے، سالہا سال سے یہ وضاحت اہل سنت کی طرف سے ہو چکی ہے کہ ہم اس کے کسی حوالہ کے ذمہ دار نہیں۔ (قلمی یادداشت حضرت غزالی زمان تحریر 29 اکتوبر 1984 محفوظ نزدراقم شرف قادری)
اس کتاب کے مصنف کے بارے میں علام غلام رسول سعیدی، جو کہ علامہ کاظمی صاحب کے شاگرد ہیں، کی رائے یہ ہے:
"مولانا طیب صاحب ہمدانی مصنف" تجانب اہل سنت" علمی اعتبار سے کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہیں، وہ مولانا حشمت علی کے داماد تھے اور ان کا مبلغ علم فقط اتنا تھا کہ وہ شر قپور کی ایک چھوٹی سے مسجد  کے امام تھے اور بس ! تجائب اہل سنت میں جو کچھ انہوں نے لکھا، وہ ان کے ذاتی خیالات تھے، اہل سنت کے پانچ ہزار علماء و مشائخ نے بنارس کانفرنس میں قرار داد قیام پاکستان منظور کر کے مولانا حشمت علی کے سیاسی افکار اور تجائب اہل سنت" کے مندجات کو عملاً رد کر دیا تھا، لہذا سیاسی نظریات میں ایک غیر معروف مسجد کے غیر معروف امام (مولانا طیب) اور غیر  مستند شخص کے سیاسی خیالات کو سواداعظم اہل سنت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، نہ یہ شخص ہمارے لیے حجت ہے اور نہ اس کے سیاسی افکار۔ (غلام رسول سعیدی، علامہ: ماہنامہ فیٖضان، فیصل آباد شمارہ اپریل 1978)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سنی بریلوی حضرات کے اندر ایک اہم طبقہ وہ ہے جو مولانا احمد رضا خان کے کفر کے فتوی کو صرف انہی افراد تک محدود سمجھتا ہے جب کا انہوں نے حسام الحر مین میں ذکر کیا تھا۔
سنی دیوبندی اور بعض اہل حدیث حضرات بھی سنی بریلوی حضرات کی کتب سے ایسی عبارات پیش کرتے ہیں جو کہ ان کے مطابق توہین آمیز ہیں۔ اس میں سرفہرست مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب کی کتاب "جاءالحق" ہے جس کی بعض عبارتوں کو انہوں نے کفریہ اور توہین رسالت پر مبنی قرار دیا ہے۔ بریلوی حضرات نے بھی جواب میں وہی موقف اختیار کیا ہے کہ ان عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
یہ ایسا موضوع ہے جس پر اب تک بلا مبالغہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کتب ضرور لکھی جا چکی ہیں۔ بریلوی اور دیوبندی حضرات نے اہل حدیث حضرات کی بعض کتب میں بھی ایسے عبارت کی نشاندہی کی ہے مگر ان پر ابھی تک کوئی بالا تفاق کفر کا فتوی سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی طرح اہل حدیث حضرات، بریلوی اور دیوبندی حضرات کی کتب سے ایسی عبارات کی پیش کرتے ہیں جس میں ان کے مطابق کفریہ عقائد موجود ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر فریقین کے مابین متعدد مناظرے ہو چکے ہیں جس میں ایک بہت تفصیلی مناظرہ 1979 میں جھنگ میں ہوا۔ اس میں سنی بریلوی حضرات کی نمائندگی مفتی محمد اشرف سیالوی نے اور سنی دیوبند حضرات کی نمائندگی مولانا حق نواز جھنگوی (1990-1952) نے کی۔ اس مناظرے کی تفصیلی روئیداد "مناظرہ جھنگ" کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے۔
اس مسئلے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تمام فریق اصولی طور پر متفق ہیں کہ توہین رسالت بہت بڑا جرم ہے۔ اہل حدیث اور دیوبندی حضرات ابن تیمیہ (1327-1263/728-661) کا بہت احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک تفصیلی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم  کا نہیں ہے بلکہ حقائق Point of Law
کا ہے-
الرسول" لکھی جس میں اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس مسئلے میں اختلاف رائے اصول  Point of Fact نا از کا ہے۔

سبھی فریق ایک دوسرے پر الزام عا ئد کرتے ہیں کہ دوسرے فریق نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے اور فریق مخالف اس کا یہی جواب دیتا ہے کہ ان کی عبارات کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان الزامات، ان کے جوابات، اور پھر جوابات کے جوابات پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اسے اختصار کے ساتھ پیش کرنا مشکل ہے۔
اگر کوئی غیر جابندار محقق اس ضمن میں مزید تحقیق کرنا چاہے تو اسے کیا کرنا چاہے؟ اس کے لیے ہماری رائے میں یہ لائحہ عمل مناسب ہے:
. سب سے پہلے تو غیر جابندار محقق کو وہ کتب حاصل کرنی چاہییں جن میں توہین آمیز اور کفریہ عبارات کے موجود ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ ان کتب کے پرانے ورژن حاصل کرنے چاہییں کیونکہ نئے ورژنز سے ان عبارات کو بالعموم حذف کر دیا گیا ہے۔
. محقق کو ان عبارات کی نشاندہی کرنی چاہیے جس کے بارے میں الزام ہے کہ یہ توہین آمیز یا کفریہ ہیں۔
. محقق کو چاہے کہ وہ کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھے اور ان عبارات کو ان کے سیاق و سباق میں رکھ کر ان کا جائزہ لے کہ کیا وہ اپنے سیاق میں توہین آمیز اور کفریہ ہیں؟
. محقق کو چاہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ صاحب کتاب نے اس کے بعد اپنے نقطہ نظر سے رجوع کر لیا تھا یا نہیں۔
. محقق کو چاہیے کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ صاحب کتاب کے معتقدین ان عبارات کے قائل ہیں یا نہیں اور اگر قائل ہیں تو کس مفہوم میں؟ کیا یہ مفہوم گستاخانہ ہے یا نہیں؟
محققین کی آسانی کے لیے یہاں متعلقہ کتب کے نام دیے جا رہے ہیں:
اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کی کتب
. تقویۃ الایمان از شاہ محمد اسماعیل (اس کتاب کی بنیاد پر شاہ صاحب پر کفر کا فتوی لگا تھا)
. تحذیر الناس از مولانا محمد قاسم نانوتوی (اس کتاب کی بعض عبارات کی بنیاد پر مولانا نانوتوی پر کفر کا فتوی لگا تھا)
. برہین قاطعہ از مولانا خلیل احمد سہارنپوری (اسی کی بنیاد پر مولانا خلیل صاحب کے علاوہ مولانا رشید احمد گنگوہی پر بھی کفر کا فتوی لگا تھا کیونکہ انہوں نے اس پر تقریر لکھی تھی)
حفظ الایمان از مولانا اشرف علی تھانوی (اس کتاب کی بنیاد پر مولانا تھانوی پر کفر کا فتوی لگا تھا)
. عبارات اکابر از مولانا محمد سرفراز خان صفدر
. حضرت شاہ اسماعیل شہید اور معاندین اہل بدعت کے الزامات از مولانا محمد منظور نعمانی
بریلوی حضرات کی کتب
. لکوکبۃ الشھابیۃ فی رد الکفریات ابی الوھابیۃ از مولانا احمد رضا خان بریلوی
. حسام الحرمین از مولانا احمد رضا خان بریلوی ( اس کتاب میں انہوں نے کفر کے فتوے عائد کیے تھے)
. جاء الحق از مفتی احمد یار خان تعیمی (اس کتاب میں حاضر و ناظر کی بحث کی ایک عبارت کو دیوبندی مکتب فکر نے توہین آمیز قرار دیا تھا)
ماورائے مسلک مسلمانوں کا نقطہ نظر
مناسب ہو گا کہ اس مسئلے میں ماورائے مسلک مسلمانوں کا نقطہ نظر بھی پیش کر دیا جائے۔ زیادہ تر ماورائے مسلک علماء اس معاملے میں خاموش رہے ہیں اور انہوں نے اس میں کوئی رائے زنی نہیں کی کیونکہ ان کا خیال بھی یہی تھا کہ عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان سے مفہوم نکالا گیا ہے۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ توہین رسالت تو بہر حال ناقابل معافی جرم ہے۔ جب علماء پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا جات ہے، ہونا یہ چاہیے کہ ان کی دیگر تحریریں بھی پڑھی جائیں اور یہ جانچا جائے کہ کی اوہ واقعتاً گستاخ رسول تھے؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر کسی مسلم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان علماء کو اپنا اکابر تسلیم کرے اور اگر ایسا نہیں تھا اور ان کی عبارتوں کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا تو پھر ایسا کرنے والے کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان علماء کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی عبارات میں ترمیم کر لیتے تا کہ کسی کو سوال ہی اٹھانے کا موتع نہ ملتا۔
ماورائے مسلک حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس واقعے کے سبھی کردار، عرصہ ہو وفات پا چکے ہیں۔ ان میں سے کسی سے جا کر پوچھا نہیں جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ عبارات کسی نیت سے لکھی تھیں۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ اس ضمن میں سکوت اختیار کیا جائے۔
جاری ہے....
تمام مسالک کا تقابلی مطالیہ جاری ہے.....
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...