Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 156

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 156)
اوپر بیان کردہ افکار و عقائد کو سامنے رکھتے ہوئے‌ حقیقت آسانی سے سمجهی جا سکتی ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کلمات کے پس منظرمیں کون سا عقیدہ کارفرما ہےؐ اولیاء کرام اور بزرگان دین کے بارے میں پائے جانے والے ان تصورات اور عقائد کا اب ہمیں کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لینا ہے کیا واقعی اولیاء کرام ‌ایسی ‌قدرت اور اختیارات رکھتے ہیں جیسا کہ ان کے پیر و کار بیان کر تے ہیں‌؟
پہلے قرآن مجید کی چند آیات ملاحظہ ہوں‌۔
1-وَالَّـذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُـوْنَ مِنْ قِطْمِيْـرٍ
ترجمہ'' اللہ تعالی کو چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ (گهٹلی کے چهلکے)کے بھی مالک نہیں ہیں'' (سورہ‌فاطرآیت‌13)
2-قُلِ ادْعُوا الَّـذِيْنَ زَعَمْتُـمْ مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ ۖ لَا يَمْلِكُـوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمَاوَاتِ وَلَا فِى الْاَرْضِ وَمَا لَـهُـمْ فِـيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَـهٝ مِنْـهُـمْ مِّنْ ظَهِيْـرٍ
ترجمہ'' کہہ دو اللہ کے سوا جن کا تمہیں گهمنڈ ہے انہیں پکارو وہ نہ تو آسمان میں ذرہ برابر کسی چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں اور ان کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے اللہ کا کوئی مددگار-(سورہ سبا آیت22)
3۔ مَا لَـهُـمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّّلِـيٍّ وَّلَا يُشْرِكُ فِىْ حُكْمِهٓ ٖ اَحَدًا
تر جمہ''ان کا اللہ کے سوا کوئی بهی مدد گار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے ۔ (سورہ کہف 26)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ میں اپنی حکومت اپنے معاملات اور اختیارات میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا اور میرے علاوہ ‌جنہیں ‌لوگ ‌پکارتے ہیں یا جن سے مرادیں اور حاجتیں ‌طلب کرتے ہیں وہ ذرہ برابر کا اختیار نہیں رکھتے نہ ہی ان میں سے کوئی میرا مدد گار ہے۔
اس دنیا میں انبیاء و رسول' اللہ کے پیغمبر اور نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب' سب سے زیادہ ‌محبوب اور سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کرام کے واقعات بیان فرمائے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی اپنی قوم کے پاس دعوت توحید لے کر آئے اور قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا کسی کو قوم نے جلا وطن کر دیا کسی کو قید کر دیا کسی ‌کو قتل کر دیا کسی ‌کو مارا اور پیٹا لیکن وہ خود اپنی قوم کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے حضرت‌ ہود علیہ ‌السلام نے قوم کو توحید کی دعوت دی قوم نہ مانی بلکہ الٹا یہ کہا۔
فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصادقین
‌‌اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر اپنی بات میں سچا ہے۔ (سورہ‌اعراف‌آیت‌70) اس پر اللہ تعالی کا پیغمبر صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔
فانتظروا انی معکم من المنتظرین ترجمہ''
تم بھی (عذاب کا) انتظار کرو میں بھی
تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ( یعنی عذاب لانا میرے بس میں نہیں)(سورہ اعراف آیت71)
ایسا ہی معاملہ دوسرے انبیاء‌کرام کے ساتھ بھی پیش آتا رہا ہم یہاں اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل‌قدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں جن کی قوم ‌اغلام کے مرض میں مبتلا تھی فرشتے عذاب لے کر خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تو حضرت لوط علیہ السلام اپنی بد کر دار قوم کے بارے میں سوچ کر گھبرا اٹھے کہنے لگے۔ ھذا یوم عصیب ‌ترجمہ'' یہ دن تو بڑی مصیبت کا ہے۔(سورہ ھودآیت 77)
اور اپنی قوم سے یہ درخواست کی‌۔
فَاتَّقُوا اللّـٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِىْ ضَيْفِىْ ۖ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ-
ترجمہ'' اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں''(سورہ ہود آیت 78)
قوم پر آپ کی منت سماجت کا کوئی اثر نہ ہوا تو عاجز اور مجبور ہو کر یہاں تک کہہ ڈالا کہ۔ قَالَ يَا قَوْمِ هٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِىْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ ۖ
ترجمہ'' کہا اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں تمہارے لئے پاک ہیں(نکاح کے لئے) موجود ہیں (سورہ حجرات آیت 78)
بد‌بخت قوم اس پر بھی راضی نہ ہوئی تو پیغمبر کی زبان پر بڑی حسرت کے ساتھ یہ الفاظ آ گئے
قَالَ لَوْ اَنَّ لِىْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِىٓ اِلٰى رُكْنٍ شَدِيْدٍ ترجمہ'' کہا کاش کہ مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی زبردست سہارے کی پناہ جا لیتا''(سورہ ہود آیت 80)
حضرت لوط علیہ السلام کے اس واقعہ کو سامنے رکھئے اور پھرغور فرمایئے کہ پیغمبر کی بات کے ایک ایک لفظ سے بے بسی' بے کسی اور مجبوری کس طرح ٹپک ‌رہی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا خدائی اختیارات کا مالک کوئی شخص مہمانوں کے سامنے یوں اپنے دشمن سے محنت سماجت کو ناگوارا کرتا ہے، اور پھر یہ کہ کوئی صاحب اختیار اور صاحب قدرت محض اپنی بیٹیوں کو یوں بدکردار اور بد معاش لوگوں کے نکاح میں دنیا پسند کرتا ہے؟
ایک نظر سید الانبیاء ‌سرور عالم ﷺ کی حیات طیبہ پر بھی ڈال کر دیکھئے مسجدالحرام میں نماز پڑتے ہوئے مشرکین نے سجدہ کی حالت میں آپ ﷺ‌کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آ کر اپنے بابا کو اس مشکل سے نجات دلائی، ایک مشرک ‌عقبہ ‌ابن ‌معیط نے آپ ﷺ ‌کے گلے میں چادر ڈال کر سختی سے گلا گھونٹا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کرآئے اور آپ ﷺ‌کی جان بچائی، طائف میں مشرکین نے پتھر مار مار کر اس قدر زخمی کر دیا کہ آپ کے نعلین ‌مبارک خون سے تر بہ تر ہو گئے اور آپ ﷺ نے بالاخر شہر سے باہر ایک باغ میں پناہ لی، طائف سے واپسی پر مکہ معظمہ ‌میں داخل ہونے کے لئےآپ ﷺ کو ایک مشرک مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کرنا پڑی' مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر رات تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا' جنگ احد میں ایک مشرک نے آپ ﷺ‌کو ایک پتھر مارا جس سے آپ نیچے گر گئے اور ایک نچلا دانت ٹوٹ گیا اسی جنگ میں ایک دوسرے مشرک نے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر اس زور سے تلوار ماری کر خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں جنہیں بعد میں صحابہ کرام ‌نے نکالا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کا بہتان لگایا گیا آپ ﷺ چالیس دن تک شدید پریشانی میں مبتلا رہے حتی کہ بذریعہ وحی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء‌ت ‌نازل کی گئی' آپ ﷺ پندرہ ‌سو مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے عمرہ ادا کر نے کے لئے نکلے مشرکین مکہ نے آپﷺ کو راستے میں روک دیا آپ عمرہ نہ ادا کر سکے، بعض مشرکوں نے آپ ﷺ کو دو مرتبہ دھوکہ دے کر تبلیغ ‌اسلام کے بہانے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین ( جن کی مجموعی تعداد ستر سے اسی تک بنتی ہے ) کو لے جا کر شہید ‌کر دیا جس سے آپ کو شدید صدمہ پہنچا سیرت طیبہ کے ان تمام واقعات کو سامنے رکھا جائے تو ہمارے سامنے ایک ایسے انسان کی تصویر آتی ہے جو پیغمبر ہونے کے باوجود قانون الہیٰ اور اللہ کی مشیت کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آتا ہے، مولانا الطاف حسین حالی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب و سنت کے اس موقف کی بڑی ٹھیک ٹھیک ترجمانی ‌درج‌ذیل ‌اشعا‌ر میں کی ہے۔
جہاں دار مغلوب و مقہور ہیں واں     
نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پر شمس ہے رحبان و احبار کی واں  
نہ پر واہ ہے ابراروا حرار کی واں
اب ایک طرف بزرگوں اور اولیاء کرام کے عقائد اور ان سے منسوب واقعات ‌سامنے رکھئے اور دوسری طرف قرآنی تعلیمات اور قرآن مجید میں بیان کئے گئے  انبیاء ‌کرام ‌علیہم ‌السلام کے واقعات کو سامنے رکھئے دونوں کے تقابل سے جو نتیجہ ‌نکلا ہے وہ یہ کہ یا تو کتاب و سنت کی تعلیمات اور انبیاء کرام‌علیہم ‌السلام کے واقعات محض قصے
اور کہانیاں ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں یا پھر بزرگوں اور اولیاء ‌کرام کے عقائد اور ان سے منسوب واقعات سراسر جھوٹ اور من گھڑت ہیں' ان دونوں صورتوں'' میں سے جس' کا جی چاہے راستہ اختیار کر لے، اہل ایمان کے لئے تو صرف ایک ہی راستہ ہے۔
رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْـتُـبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ
ترجمہ'' اے ہمارے پرورد گار، جو فرمان تونے نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی کی ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ (سورہ آل‌عمران آیت‌53)
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...