Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 165

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 165)
قرآن کریم اور صحیح احادیث سے تین طرح کا وسیلہ ثابت ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا، دوسرے اپنے نیک اعمال کا اور تیسرے کسی زندہ نیک شخص کی دعا کا۔ لہٰذا وسیلے کی صرف یہی قسمیں جائز اور مشروع ہیں۔ باقی جتنی بھی اقسام ہیں، وہ غیر مشروع اور ناجائز و حرام ہیں۔
قرآن کریم سے کون سا وسیلہ ثابت ہے؟ اس بارے میں تو قارئین’’وسیلہ اور قرآن کریم کی آیات‘‘ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں بھی جائز وسیلے کے بارے میں یہی کچھ ثابت ہے، نیز وسیلے کی ممنوع اقسام کے بارے میں صریح ممانعت و نفی بھی موجود ہے۔ آئیے اب چند ضعیف ، من گهڑت اور تحریف شدہ احادیث ملاحظہ فرمائیں :
زندہ نیک شخص کی دعا کے وسیلے کا جوازسیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقونسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔ دعا یوں کرتے تھے: اے اللہ ! بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا) کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد ان ) کے چچا (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں ) ، لہٰذا اب بھی تو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا ہو جاتی تھی۔(صحيح البخاري:137/1،ح:1010)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م :۶۶۱۔۷۲۸ھ) اس حدیث کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں : وذلك أن التوسل به في حياته، ھو أنھم كانو يتوسلون به، أي يسألون أن يدعو الله، فيدعو لھم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائهوسیلہ کی یہ صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں اس طرح تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے۔ یوں اس طریقہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور وسیلہ حاصل کرتے تھے۔ (مختصر الفتاوي المصرية، ص:194)شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م :۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں : ويستفاد من قصة العباس رضي الله عنه من استحباب الاستشفاع بأھل الخير وأھل بيت النبوة۔سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی والے لوگوں، اہل صلاح و تقویٰ اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔ (فتح الباري:497/2)بعض حضرات اس حدیث سے وسیلے کی ایک ناجائز قسم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے، کیونکہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع وسیلہ ہے۔ اگر فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو چھوڑ کر صحابہ کرام کبھی ایک امتی کی ذات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ یوں معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صرف زندہ نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کا اثبات ہوتا ہے۔محدثین کرام اور فقہائے امت نے اس حدیث سے ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ مراد لیا ہے۔ جب اسلاف امت اس سے فوت شدگان کا وسیلہ مراد نہیں لیتے تو آج کے غیر مجتہد و غیر فقیہ اہل تقلید کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس حدیث کا ایک نیا معنی بیان کریں ؟تصریحات محدثین سے عیاں ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعا کرنے کا معنی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ کو اس دعا کا حوالہ دیا جاتا کہ اے اللہ ! تیرا نبی ہمارے حق میں تجھ سے دعا فرما رہا ہے، لہٰذا اپنے نبی کی دعا ہمارے بارے میں قبول فرما کر ہماری حاجت روائی فرما دے!کسی ایک ثقہ محدث یا معتبر عالم سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اس حدیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی ذات کا وسیلہ ثابت کرتا ہو۔
"جاری ہے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...