Saturday 30 December 2017

پاک وہند اور برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا کاروبار

پاک وہند اور برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا کاروبار

(تینوں مضامین بالترتیب)

1:انڈیا میں حلالہ سنٹر:

حلالہ کا موضوع آج کل انڈین میڈیا پر زیر بحث ہے۔بلکہ انڈین سپریم کورٹ میں کیس بھی دائر کر دیا گیا ہے ۔ایک ٹی وی چینل نے حلالہ سے متعلقہ کچھ مدارس کے علماء اور حلالہ سنٹر کے مالکان سے انٹرویو کیا وہ آپ کی خدمت میں پیش ہے اس کی ویڈیو کے لئے تحریر کے آخر پر لنک دے دیا گیا ہے آپ وزٹ کر سکتے ہیں۔
اب انڈین سپریم کورٹ کا کیا فیصلہ آتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔لیکن ایک بات یاد رہے کہ انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلم کمیونٹی کے لئے حجت نہیں ہے  بلکہ مسلمانوں کے لئے اسلامی تعلیمات حجت ہیں۔یہ ایک الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے مطابق بھی ہو سکتا ہے اور مخالف بھی۔

نئی دہلی:سلیم پور کے مدرسہ دارالعلوم محمدیہ میں پڑھانے والا مولانا محمد مستقیم،جامعہ نگر دہلی کے زبیر قاسمی، بلند شہر میوتیا مسجد کے امام رہے ظہیر اللہ،مدرسہ اسلامیہ رشیدیہ ہاپڑ کے محمد ز اہد اور مدینہ مسجد مرادآباد کے امام محمد ندیم ،یہ وہ نام ہیں جو اسلام او رانسانیت دونوں کے ہی مجرم ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق رائج رکھنے پر اڑے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران کو چاہئے کہ سماجی  اعتبارسے ان کا بائیکاٹ کرائے اور جن مسجدوں یا مدرسو ں میں یہ لوگ کام کرتے ہیں وہاں سے ان کی چھٹی کی جائے۔ان بدمعاشوں کا جرم کسی بھی قیمت پر قابل معافی نہیں ہیں۔زنا کرنے کے لئے انہیں اسلامی قوانین کے مطابق سوسو کوڑے بھی لگائی جانی چاہئے۔

ملک کے ایک بڑے پرائیویٹ ٹی وی چینل ’آج تک‘ کے اسٹنگ آپریشن میںان سبھی وحشی درندوں کو حلالہ کے نام پر زنا کرنے کی باتیں کرتے ہوئے صاف طور پر دیکھا گیاہے۔ سلیم پور کا محمد مستقیم تو اتنا بڑا عیاش اور جنسی ملزم دکھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اب تک اس نے تین حلالے کئے ہیں۔ایک کے ساتھ نکاح کیا تھا او ر ہم بستری کرنے کے بعد صبح طلاق دے دیا اور دو کے ساتھ تو نکاح بھی نہیں کیا تھا۔بغیرنکاح کے ہی ان دو عورتوں کے ساتھ ہم بستری کی۔اس خبیث قسم کے انسان کا یہ بیان اقبالیہ جرم مان کر مسلم سماج کو چاہئے کہ اسے سخت سے سخت سزا دے۔اسے یہ بھی کہتے سنا گیا کہ حلالہ کرانے والی عورت دو چار دن  بعد ہی اپنے پرانے شوہر سے نکاح کر کے اس کے ساتھ جا سکتی ہے۔اس نے نکاح پڑھانے کی بھی ذمہ داری لی۔یہ بھیڑیا حلالہ کے نام پرزنا کرنے کے لئے پچاس ہزار روپیہ بھی وصولتا ہے۔

مدرسہ  اسلامیہ رشیدیہ ہاپڑ کے محمد زاہد نے کہا کہ ویسے تو حلالے کیلئے اس کے پاس آدمی ہیں لیکن بہتر ہے کہ وہ خود حلالہ کرے۔اس کیلئے وہ ہمیشہ تیار ہے۔ اس نے زناکرنے کی فیس بھی بتائی اور کہا کہ وہ ایک سے ڈیڑ ھ لاکھ روپئے تک کا چارج لیتا ہے۔جب انڈر کور رپورٹر نے اس سے یہ پوچھا کہ آپ ایک رقم بتائیے تو اس کا جواب تھا کہ وہ موقع پر بتائے گا لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ ایک لاکھ سے کم نہیں اور ڈیڑھ لاکھ سے اوپر نہیں۔ شیطان کی طرح مسکراتے ہوئے ا س زانی نے بڑے اعتماد  کے ساتھ کہا کہ وہ وہ حلالہ کریگاا س کی کسی کو کان وکان خبر نہیں ہوگی۔

مدینہ مسجد مرادآباد کے شیطان صفت امام محمد ندیم  کہتا ہے کہ وہ حلالہ کرنے کیلئے ایک لاکھ روپیہ لیتا ہے۔ اس نے بھی باربار یہ کہا کہ اگر کوئی شخص غصے میں یا کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے اور دوبارہ اسی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو اس کیلئے حلالہ کرنے کی بات کررہا تھا تو اس کے چہرے پر شرم وحیا کی ایک لکیرتک نہیں دکھ رہی تھی بلکہ وہ بڑی بے شرمی سے سودے بازی کر رہا تھا۔

جامعہ نگر دہلی کا خود کو مولاناکہنے والے زبیر قاسمی پہلے سے دو شادیاں کر چکا ہے لیکن حلالہ کے نام پر زنا کرنے کیلئے وہ ہمیشہ تیار دکھتا ہے۔کہتا ہے کہ حلالہ کرنے کیلئے وہ پچاس ہزار روپئے لیتا ہے۔آدھی رقم یعنی پچیس ہزار ایڈوانس او رپچیس ہزار کام پورا ہونے کے بعد۔کام پورا ہونے کا کیا مطلب؟اس سوال پر بڑی بے شرمی سے کہتا ہے کہ وہ طلاق دی ہوئی عورت سے نکاح کر ے گا اس کے ساتھ ہم بستری کرے گا، صبح طلاق دے گا اور پرانے شوہر سے دوبارہ نکاح کرائے گا۔ تب باقی کی آدھی رقم لے گا۔وہ اپنے آپ کو کتنی بھی عورتوں کے ساتھ سیکس کرنے کیلئے صحت مند بتاتا ہے۔

بلند شہر کے میوتیا مسجد کاامام رہ چکا ظہیراللہ تو ان سب شیطانوں کا استاد جیسا دکھا۔کہتا ہے کہ ویسے تو حلالہ کسی سے بھی کرایا جا سکتا ہے لیکن وہ خود اتنا تندرست اور طاقتور ہے کہ ایک کیا کئی حلالے وہ خود کرے گا۔بس مناسب رقم ملنی چاہئے۔اس کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا پیشہ ریڈ لائٹ ایریا کی سیکس وررکس کی طرح جسم فروشی کا ہو۔حیرت تویہ ہے کہ مجبور مسلم عورتوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر درندوں کی طرح ان کے جسموں سے کھیلنے والوں کے خلاف مولانا ساجد رشیدی او رعتیق الرحمان نام کے دو داڑھی والے کچھ بھی کہنے کے بجائے حلالہ کو ہی اسلامی طریقہ بتانے پر اڑے رہے۔آج تک نے ان دونوں کو اپنے اسٹوڈیو میں بلایا تھا ساجد رشیدی خود کو امام ایسو سی ایشن کا صدر اور عتیق الرحمان خود کو اسلامک اسکالر بتا رہے تھے۔اس کے باوجودان دونوں نے ایک بار بھی نہیں کہاکہ جن چار پانچ وحشی درندوں کو اس اسٹنگ آپریشن میں دکھا یاگیا وہ سب زنا کرنے کے مجرم ہیں۔بحث میں شامل ایک خاتون شاذیہ خان نے اسلام کے ان دونوں ٹھیکیداروں کے منھ پر یہ انکشاف کرکے زور دار جوتے مارے کہ اس کے شوہر نے ا سے طلاق دیا پھر ایک مولوی کو ایک ہزار روپئے دے کر اس کی آبرو لٹوائی او ربعد میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں رکھا۔شاذیہ خان کی بات سننے کے باوجود ساجد رشیدی اور عتیق الرحمان نے کو ذرا بھی شرم نہیں آئی اور وہ دونوں حلالہ کی حمایت کرتے رہے۔مسلم سماج کیلئے اس سے زیادہ شرمناک صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے؟

2:برطانیہ میں ’حلالہ‘ سنٹر

(یہ بھی ایک ڈاکومنٹری ویڈیو کا ترجمہ ہے مکمل تفصیلات کے لئے نیچے دیئے گئے ویڈیو لنک ملاحظہ کریں۔)
بی بی سی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ پر متعدد ادارے مطلقہ مسلم خواتین سے حلالہ کے نام پر ہزاروں پاؤنڈ وصول کر رہی ہیں۔

یہ خواتین ایک اجنبی سے شادی کرنے اور جنسی تعلقات استوار کرنے کے بعد اسے طلاق دے کر واپس اپنے پہلے شوہر سے شادی کرنے کے لیے یہ رقم ادا کر رہی ہیں۔

فرح (فرضی نام) جب 20 سال کی تھیں تو خاندانی دوستوں کے ذریعے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں کے بچے بھی ہوئے، لیکن فرح کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ان کے ساتھ بدسلوکی شروع ہوئی۔

فرح نے بی بی سی کے ایشین نیٹ ورک اور وکٹوریہ ڈربی شائر پروگرام کو بتایا: 'پہلی بار میرے شوہر نے پیسوں کے لیے بدسلوکی کی۔'

فرح نے کہا: 'وہ مجھے بالوں سے بال پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ کئی مواقع پر پاگلوں کی طرح برتاؤ کرنے لگتے۔'

ان بدسلوکیوں کے باوجود فرح کو امید تھی کہ حالات بدل جائیں گے لیکن ان کے شوہر کے رویے میں سختی آتی گئی اور پھر ایک دن ان کے شوہر نے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ انھیں طلاق دے دی۔

فرح بتاتی ہیں: 'میں گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ تھی اور وہ کام پر تھے۔ ایک شدید بحث کے بعد انھوں نے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا- طلاق، طلاق، طلاق۔'

یہ بعض جگہ مسلمانوں میں مروج شادی کو ختم کرنے کا ایک ہی نششت میں تین طلاق کا نظام ہے۔

زیادہ تر مسلم ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے تاہم برطانیہ میں یہ جاننا تقریبا ناممکن ہے کہ کتنی خواتین کو تین طلاق کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

فرح نے کہا: 'میرا فون میرے پاس تھا۔ میں نے یہ پیغام اپنے باپ کو بھیج دیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی شادی اب ختم ہو گئی۔ تم اب اس کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔'

فرح کا کہنا ہے کہ وہ بری طرح گھبرا گئی تھیں، لیکن وہ اپنے سابق شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی تھیں۔

فرح کا کہنا ہے کہ وہ ان کی 'زندگی کا پیار تھا۔'

فرح نے کہا کہ ان کے سابق شوہر کو بھی اس طلاق پر افسوس تھا اور اپنے سابق شوہر کو حاصل کرنے کے لیے فرح نے حلالہ کے متنازع نظام کی جانب قدم بڑھایا۔

مسلمانوں کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ حلالہ واحد طریقہ ہے جس کے سہارے دو طلاق شدہ پھر سے آپس میں شادی کرنا چاہیں تو شادی کر سکتے ہیں۔

حلالہ کے بعض معاملوں میں اقتصادی طور پر ان کا استحصال کیا جا سکتا ہے، بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس چلن کے سخت خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں طلاق سے منسلک قوانین کی ذاتی طور پر غلط تشریح کی جا رہی ہے۔

لیکن بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سی آن لائن سروسز کے ذریعہ حلالہ کو انجام دیا جا رہا ہے اور بہت سے معاملات میں خواتین سے عارضی شادی کے لیے ہزاروں پاؤنڈ وصول کیے جا رہے ہیں۔

فیس بک پر ایک آدمی نے حلالہ سروس کی تشہیر کی تھی۔ اس سے بی بی سی کی ایک انڈر کور رپورٹر نے ایک مطلقہ مسلم خاتون کے طور پر ملاقات کی۔

اس شخص نے کہا کہ ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے عوض وہ اس سے شادی کر سکتا ہے اور پھر ہم بستری کے بعد اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ اپنے پہلے خاوند سے دوبارہ شادی کر سکے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ اور کئی لوگ کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک نے تو ایک خاتون سے شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دینے سے انکار کر دیا تھا۔

بی بی سی نے جب اس شخص سے ملاقات کی تو اس نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلالہ کی کسی شادی میں ملوث نہیں اور اس نے جو صفحہ بنایا ہے وہ محض تفنن طبع اور سماج کی نبض کو جاننے کے لیے ہے۔

اپنے پہلے شوہر سے ملنے کے اضطراب میں فرح نے ایسے شخص کی تلاش شروع کر دی جو اس سے شادی کرے اور پھر اسے طلاق دے دے تاکہ وہ اپنے سابق شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔

فرح نے کہا: 'میں ایسی لڑکیوں کو جانتی تھی جو خاندان سے چھپ کر اس کے لیے آگے بڑھی تھیں اور ان کا کئی ماہ تک استعمال کیا گیا تھا۔

'اس کے لیے وہ ایک مسجد میں گئی تھیں جہاں انھیں مخصوص کمرے میں لے جایا گيا تھا اور وہاں انھوں نے اس خدمت (حلالہ) کو فراہم کرنے والے امام یا دوسرے کسی شخص کے ساتھ ہم بستری کی اور پھر دوسروں کو بھی ان کے ساتھ سونے کی اجازت دی گئی۔'

لیکن مشرقی لندن میں اسلامی شریعہ کونسل جو خواتین کو طلاق کے مسئلے پر مشورے دیتی ہے وہ سختی کے ساتھ حلالہ کی مخالف ہے۔

اس تنظیم کی خولہ حسن نے کہا: 'یہ جھوٹی شادی ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے اور مجبور خواتین کا استحصال ہے۔'

انھوں نے مزید کہا: 'یہ مکمل طور پر حرام ہے۔ اس کے لیے اس سے سخت لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے دوسرے طریقے ہیں، مشاورت ہے۔ ہم لوگ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے جو بھی ہو لیکن آپ کو حلالہ کی ضرورت نہیں۔'

فرح نے آخر میں طے کیا کہ وہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ نہیں جائیں گی اور نہ ہی حلالہ کا راستہ اپنائیں گی۔ تاہم فرح نے متنبہ کیا کہ ان جیسی صورتحال میں بہت سی عورتیں کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں گی۔

وہ کہتی ہیں: 'جب تک آپ اس ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہوئے ہیں اور آپ کو طلاق نہیں ہوئی ہے اور اس درد کو نہیں سہا ہو جو میں نے سہا ہے تو آپ کسی خاتون کی اضطراب کو نہیں سمجھ سکتے۔

'اب ہوش کے عالم میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔ میں اپنے شوہر کو واپس پانے کے لیے کسی کے ساتھ سونے کو تیار نہیں ہوں۔ لیکن ایک خاص مدت کے دوران میں اپنے شوہر کو واپس حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار تھی۔'
بشکریہ  بی بی سی(BBC )

3:پاکستان میں حلالہ سنٹر

ہم اکثر غیر ملکی میڈیا پر سنتے ہیں کہ برطانیہ انڈیا وغیرہ میں حلالہ کا کاروبار عروج پر پہنچا ہوا ہے، لیکن اندرونِ خانہ ہی نہیں بلکہ کھلے عام پاکستان میں بھی یہ غیر شرعی کام دھڑلے سے جاری ہے، انٹرنیٹ پر مختلف حلالہ سنٹرز نے اپنے اشتہارات یا ویب سائٹس تخلیق کر رکھی ہیں جو پریشان جوڑوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر اگر پاکستان میں حلالہ سروس کے حوالے سے ریسرچ کی جائے تو اس میں کچھ خاص مشکلات پیش نہیں آتیں، گوگل پر حلالہ لکھتے ہی فوری طور پر پاکستان میں حلالہ سروس کے اشتہارات ، بلاگز یا ویب سائٹس کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
پاکستان بازار نامی ویب سائٹ پر پورے پاکستان میں حلالہ سروس مہیا کرنے کا اشتہار دیا گیا ہے، جس میں طلاق یافتہ جوڑوں کو حلالہ کے ذریعے دوبارہ شادی کرنے کی آفر کی گئی ہے ، اس کے علاوہ اس اشتہار میں تجربہ کار لوگوں کو حلالہ سروس فراہم کرنے کیلئے اس گروہ کا حصہ بننے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ لاہور لوکانٹو نامی ویب سائٹ پرایک اشتہار لاہور کے شہریوں کی سہولت کیلئے موجود ہے، اسی طرح فنڈس ڈاٹ پی کے پر بھی حلالہ سروس فراہم کرنے کے اشتہارات موجود ہیں۔اور رہی سہی کثر فیس بک پیجز اور گروپ نے پوری کر دی ہے۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

مسلم کمیونٹی میں حلالہ سنٹر

مسلم کمیونٹی میں حلالہ سنٹر

پاک و ہند وغیرہ میں طلاق اور حلالہ کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے
اور شوہروں کی جانب سے تین طلاقیں پانے والی عورتیں اس مسئلہ کو حل کرانے کے لئے جب بعض مولویوں کے پاس جاتی ہیں تو ان کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ ان کی ان کے شوہر سے طلاق ہوچکی ہے۔ لہٰذا وہ اب اپنے شوہر کے پاس اس وقت تک واپس نہیں جاسکتیں جب تک ان کا عارضی نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ ہوجائے اور وہ باقاعدہ طور پر چند راتوں کے لئے کسی اور کی دلہن نہ بن جائیں۔ مرد و عورت دونوں اپنے بچوں کی وجہ سے اپنا گھر برباد نہیں کرنا چاہتے اور مذہبی احکامات کی بھی پابندی کرنا چاہتے ہیں۔ بعض مولوی ان مسلمان اور سادہ لوح خواتین کی اس کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو حلالہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ اس سے ان کی بدنامی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک عورت چند راتوں کیلئے کسی اور کے ساتھ رہے گی تو وہ اس کو بعد میں بلیک میل بھی کرسکتا ہے۔ چنانچہ نام نہاد مولوی ان عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں اور اپنی خدمات پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چند راتوں  کیلئے حلالہ کرلیں۔ کئی مرتبہ ان مولویوں اور عورتوں کے شوہروں کے درمیان زبانی طور پر یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ حلالہ کے بعد اپنی بیوی کو صبح واپس لے جائیں گے۔ یہ مولوی جب عورت کے ساتھ نکاح کرلیتے ہیں تو ان میں سے بعض ان پر اپنا حق جتانے لگتے ہیں اور طلاق دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہیں جب ان کے معاہدے کی یاد دلائی جاتی ہے تو وہ عورتوں کے سابق شوہروں سے بھاری رقوم کا تقاضا کرتے ہیں۔ جبکہ بعض مولوی محض اپنی جنسی تسکین کیلئے عورتوں کو کئی کئی دن اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس پر جب عورت مولوی سے حلالہ کرانے کے بعد واپس اپنے شوہر کے پاس جاتی ہے تو ان دونوں کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں اور وہ ان سے دوسرے مردوں کے ساتھ گزارے جانے والے دنوں کا حساب تک مانگتے ہیں۔ اس پر مجبور عورتیں اپنے بچوں کی وجہ سے مردوں کے ساتھ گزارا کرتی ہیں اور بعض نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خفیہ حلالہ سینٹرز کے یہ نام نہاد مولوی ہمیشہ حلالہ کے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان میں بعض ایک دوسرے کو حلالہ تحفہ کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ خفیہ سینٹرز بعض مدارس اور بعض مولویوں نے اپنے گھروں میں بھی کھول رکھے ہیں۔ان افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں اور انہوں نے باقاعدہ اپنے ایجنٹ کمیونٹیز کے اندر چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں جو مجبور اور بے بس افراد کو ان کے پاس لاتے ہیں۔ اگر عورتیں حلالہ پر تیار ہوجائیں تو ان میں سے بعض کو ان ایجنٹوں کو بھی تحفے میں دے دیا جاتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق ان عورتوں کے ساتھ اکثر اوقات دھوکہ بازی کی جاتی ہے۔ ان عورتوں کو کئی مرتبہ ان کے اپنے شوہر خفیہ حلالہ مراکز میں لے جاتے ہیں جبکہ اگر معاملہ خاندان کے اندر ہو تو تین طلاقیں پانے والی عورتوں کا ایک رات کیلئے نکاح ان کے شوہر کے چھوٹے یا بڑے بھائی سے بھی کرا دیا جاتا ہے یا پھر کسی اور قریبی رشتہ دار کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ اس طرح عورت اپنے شوہر پر حلال ہوتے ہوتے ذلیل و خوار ہوجاتی ہے اور اس کی خبر سارے معاشرے کو ہوتی ہے مگر کوئی اس حوا کی بیٹی کی مدد نہیں کرتا۔ مرد کے قصور کا سارا عذاب عورت کو اپنے جسم پر سہنا پڑتا ہے۔اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے مردوں کے ساتھ ساتھ وہ نام نہاد مولوی بھی ذمہ دار ہیں جو ان کو اپنی ہوس کی وجہ سے غلط مشورے دیتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس انڈر کارپٹ مسئلے کو بھی سامنے لایا جائے اور حوا کی بیٹی کی عزت کو تار تار ہونے سے بچایا جائے۔

صدیاں گزر جانے کے بعد علم و آگہی کے اس دور میں حلالہ کے اثبات اور جواز کے علمبردار آج بھی موجود ہیں بلکہ اس پر بھر پور طور پر عمل پیرا بھی ہیں۔ نتیجتاً وہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی تباہی اور زہنی انتشار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسلام کی عفت مآب بیٹیوں کی حرمت کی پاسداری کیلئےلاکھوں فرزندانِ توحید کی قربانیاں اور اُن کی تڑپتی ہوئی لاشوں کا تصور مسلمانوں کی شاندار تاریخ کا حصہ ہے۔ مگر یہ بہنیں آج حلالہ کے نام پر اپنی لُٹتی ہوئی عزتوں پر فریاد رَسی کر کے ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ:
تم نے اب تک فحاشی کے اِس سیلاب کے سامنے
بند باندھنے کے لئے کیا کردار ادا کیا؟
آئیے۔۔۔۔۔آگے بڑھئیے!۔۔۔۔۔۔ عزتوں کے تحفط کے لئے مال،علم اور قلم سے اس جہاد میں شامل ہو کر اپنا حصہ ڈالئیے۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

حلالہ اور خان صاحب

حلالہ اور خان صاحب

خان بھائی ، غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا : 

’’ ہم اپنا مفتی کو گولی مار دے گا ۔ اس ۔۔۔ نے ہم کو دھوکا میں رکا ( رکھا ) ۔ اس نے ہمارا بیوی کا حلالہ کیا ، ہم صبر کیا کیونکہ شریعت کا مسئلہ تھا ۔ اب ہم صبر نہیں کرے گا ۔ وہ ، ہم کو پاگل بنائے رکا ( رکھا ) ۔ ‘‘ 

عبدالرحمٰن نے ’’ انا اﷲ وانا الیہ رجعون ! ‘‘ ، پڑھتے ہوئے کہا : 

حلالہ کرنے یا کروانے والا لعنتی ہے ۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر اﷲ نے لعنت کی ہے ‘‘ ، ( ابو داود : ۲۰۷۶ ) ۔ 

سیدنا عمر فاروقؓ کہتے تھے : ’’ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں رجم کروں گا ‘‘ ، ( حلالہ کی چھری ، صفحہ : ۸۵ ) ۔ 

بد قسمتی سے ! اپنے آپ کو شیخ الا سلام ، مفتی اور علامہ کہلوانے والے مدرسوں اور مسجدوں میں حلالے کرواتے ہیں ۔ زیادہ تر مولوی دوسروں کی بہو ، بیٹیوں کا ہی حلالہ نکلواتے ہیں اپنی رشتہ داروں کا نہیں ۔ 

لاہور کا واقعہ ہے کہ : ’’ ایک مرید نے اپنے پیر کو چھرے سے قتل کر ڈالا ‘‘ ۔ اور جب جج کے پاس گیا ، اس نے کہا کہ : ’’ میں اقرار کرتا ہوں کہ اس پیر کو میں نے مارا ہے ‘‘ ۔ جج نے کہا کہ : ’’ کوئی نہ کوئی چکر ہے ایسے کوئی مجرم اقرار نہیں کرتا کہ میں نے قتل کیا ہے تو جو کہہ رہا ہے تیرے پیچھے کوئی کہانی ہے ‘‘ ۔ کہا : ’’ کہانی ہے یا نہیں ہے تم مجھے پھانسی لگاؤ ، میں نے اسے مارا ہے میں مانتا ہوں ‘‘ ۔ کہا : ’’ جب تک نہیں بتائے گا تجھے چھوڑوں گا نہیں ، بتا چکر کیا ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ چکر یہ ہے ، وہ میرا پیر تھا اور میں اس کے پاؤں چومتا تھا ۔ خود بھوکا رہتا تھا ، اسے پیٹ بھرنے کے لیے دیتا تھا ‘‘ ۔ ایک دن میں اس کے پاس بیٹھا تھا ، میری بیٹی روتی ہوئی آ گئی اور کہنے لگی : ’’ ابا جان ! ماری گئی ، برباد ہوگئی ‘‘ ۔ کہا : ’’ کیا ہوا ! ‘‘ کہا : ’’ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے ‘‘ ۔ تو میرا وہی پیر و مرشد تھا ، میں نے کہا : ’’ جناب پیر صاحب ! اب کیا ہو گا ؟ ‘‘ کہا : ’’ اب تو حلالہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔ کہا : ’’ کس سے کراوں ؟ ‘‘ اس نے صفتیں گھنوائیں ، میں نے کہا : ’’ اتنی ساری صفتیں تو آپ ہی کے اندر ہیں ، پھر آپ ہی یہ کار خیر انجام دے دو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’ میں حاضر ہوں ! ‘‘ کہا : ’’ میری بیٹی کا حلالہ ہوا ، اس نے دو راتیں رکھ کر چھوڑ دی ‘‘ ۔ 

کچھ عرصے کے بعد میں پیر صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، پیر کی اپنی بیٹی روتی ہوئی آ گئی ۔ پیر نے کہا : ’’ بیٹی کیا ہوا ، کیوں روتی ہو ؟ ‘‘ کہا : ’’ ابا جی ! ماری گئی ، لٹ گئی اور برباد ہو گئی ! ‘‘ کہا : ’’ کیا ہوا کیا ؟ ‘‘ کہا : ’’ ہونا کیا ہے ! خاوند نے طلاق دے دی ‘‘ ۔ کہا : ’’ کتنی دیں ؟ ‘‘ کہا : ’’ تین دیں ‘‘ ۔ کہا : ’’ بیٹی رونے کی کیا بات ہے ، وہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والوں کا مدرسہ ہے ۔ ان کے پاس جاؤ وہ تمہیں لکھ کر دے دیں گے کہ تین طلاق ایک ہوا کرتی ہے ‘‘ ۔ مرید کہتا ہے کہ : ’’ میری آنکھیں کھل گئیں ، یہ کیا ؟ ‘‘ جب میری بیٹی کو طلاق ہوئی تھی تو کہا تھا : ’’ کہ حلالہ ہو گا اور میں کروں گا ‘‘ ۔ اب تیری کو ہوئی ہے تو : ’’ میں حلالہ کروں گا ، مجھ سے کیوں نہیں کرواتا ۔ چھری لایا اور اپنے پیر کو کاٹ ڈالا ‘‘ ۔ اور جج کے سامنے کہا : ’’ میں نے ہی مارا ہے ۔ میرے لیے اور شریعت ہے ، اس کے لیے اور شریعت ہے ؟ ‘‘ ( ویڈیو لنک : ) 

ضعیف آدمی ، غصے سے بولا : 

جعلی پیر اور جاہل مولوی بھی تو ہوتے ہی ہیں ، سب ایک طرح کے تو نہیں ہوتے نا ؟ امام مسجد بھی اپنی بیویوں کا حلالہ کرواتے ہیں ۔ ایک امام مسجد نے اپنی بیگم کا چھ ( Six ) مرتبہ حلالہ کروایا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کہو گے دلیل دو ، میں دلیل سے ہی بات کروں گا ۔ ویڈیو دیکھنے کے لیے یوٹیوب پر جا کر تلاش کریں۔
: ’’ 6 Time Halala of a Masjid Imam's wife‘‘ ۔

بوڑھے شخص نے جب یہ واقعہ سنایا تو لوگ یک زبان پکار اٹھے : 

’’ استغفر اﷲ، استغفر اﷲ ، استغفر اﷲاتنا ظالم شوہر ۔ ‘‘ عبدالرحمن کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے ۔ اشکوں کی جھڑی اور رنجیدہ ہونے کے با وجود عبدالرحمن بول پڑا : 

’’ کتاب و سنت کو چھوڑ کر قصے ، کہانیوں پر عمل کرنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔ قرآن و حدیث کو ترک کر کے قول و قیاس کو ترجیع دینا ایسا رنگ لاتا ہے ‘‘ ۔ 

بد قسمتی سے ! مسلمانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ : ’’ مسنون طلاق کا طریقہ کیا ہے ‘‘ ۔ حیض سے پاک ہونے کے بعد ، حالت طہر میں جب کہ بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو طلاق دینی چاہیے ۔ اﷲ تعالیٰ طلاق کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں ، پھر یا اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۲۹ ) یعنی پہلی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو ( عدت کے اندر ) رجوع کا حق حاصل ہے ، تیسری دفعہ رجوع کی اجازت نہیں ۔ طلاق کے بعد خاوند تین حیض کی عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ، انہیں حلال نہیں کہ اﷲ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہواسے چھپائیں ، اگر انہیں اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حق دار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۲۸ ) ۔ 

پہلی یا دوسری طلاق کے بعد ، عدت گزرنے کے بعد اگر سابقہ شوہر ، بیوی باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضا مند ہوں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۲ ) ۔ تیسری بار اگر طلاق ہو جاتی ہے تو آدمی ، بیوی سے نکاح نہیں کر سکتا ، ہاں !اگر عورت کا کسی اور شخص سے نکاح ہونے کے بعد اتفاق سے طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے پھر سابقہ بیوی سے نکاح کر سکتا ہے ۔ 

حلالہ کے عام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : ’’ لوگ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقوں کو تین ہی سمجھ لیتے ہیں جبکہ اگر کوئی ایک مجلس میں تین طلاقیں دے تو وہ ایک ہی ہوتی ہے ‘‘ ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ، حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ : ’’ رکانہ بن عبد یزید جن کا تعلق بنو مطلب سے تھا ، نے ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ‘‘ ۔ بعد میں انہیں اس پر انتہائی غم ہوا ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ : ’’ تم نے کس طرح طلاق دی تھی ؟ ‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ : ’’ میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں ‘‘ ۔ سید المرسلین ﷺ نے پوچھا : ’’ کیا ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں دے دی تھیں ؟ ‘‘ عرض کیا : ’’ جی ہاں ! ‘‘ فرمایا : ’’ پھر یہ ایک ہوئی ، اگر چاہو تو تم اس سے رجوع کر سکتے ہو ‘‘ ۔ چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا ، ( مسند احمد : ۲۳۸۷ ) ۔

ضعیف آدمی بول پڑا : 

’’ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقوں کو تین ہی تصور کیا جاتا تھا‘‘ ۔ جبکہ آپ کہتے ہیں : ’’ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں ، ایک ہی ہوتی ہے ؟ ‘‘ 

عبدالرحمن : 

حضرت عمرؓ نے یہ حکم اس لیے نافذ کیا تھا کہ : ’’ کثیر التعداد لوگ غور و فکر کیے بغیر طلاقیں دینے لگ گئے تھے جبکہ قرآن و حدیث سے واضح ہے کہ یہ معاملہ بڑا سوچ ، سمجھ کے کرنا چاہیے ۔ تو حضرت عمرؓ نے یہ حکم نافذکیا تاکہ لوگ اس مسئلے میں صبر و تحمل سے کام لیں ۔ ‘‘ جیسا کہ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے ، حضرت ابوبکرؓ کے عہد اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں میں تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ‘‘ ۔ لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’ جس معاملے ( یعنی طلاق ) میں لوگوں کو سوچ بچار سے کام لینا چاہیے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں ، لہٰذا ہم کیوں نہ اس کو نافذ کر دیں ، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر نافذ کر دیا ‘‘ ، ( مسلم : ۳۴۹۱ ) ۔ 

حضرت عمرؓ نے یہ فتوی بطور سزا دیا تھا ، چنانچہ : ’’ آخری ایام میں انھیں اس بات کا احساس بھی ہوا کہ مجھے بطور سزا بھی یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا جس پر انھوں نے اظہار ندامت بھی کیا ‘‘ ، ( ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ، صفحہ : ۴۹ ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ حضرت عمرؓ نے جو کہا وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث سے اوپر نہیں ہے ‘‘ ، ( یوٹیوب : Teen talaq aur halala - Tripple Talaq by Dr Zakir Naik Urdu) ۔
خان صاحب ایک بار پھر طیش میں آ گئے ، کہنے لگے : 

’’ اب تو ہم اپنا مفتی کو کاٹ ڈالے گا ‘‘ ۔ ہم اسے کہا کہ : ’’ ہم اپنا بیوی کو تین طلاق ایک ساتھ دے دیا ، اب کیا حل ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ حل نہیں ، حلالہ ہے ‘‘ ۔ ہم پوچھا : ’’ حلالہ کس چڑیا کا نام ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ شریعت کا مسئلہ ہے کہ تمہارا بیوی ایک ، دو رات کسی مرد کے ساتھ رہے گا پھر وہ اسے طلاق دے گا پھر وہ تم پر حلال ہو جائے گا ( گی ) ۔ ہا ں ! اگر چاہو تو میں خدمت ( یعنی حلالہ ) کے لیے حاضر ہوں ‘‘ ۔ ہم بیوقوف کو کیا معلوم کہ مفتی ، مفت میں ہی کام کر گیا ۔ ہم اسے قتل کر دے گا ، ہم نہیں چھوڑے گا ۔ عبدالرحمن ، سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے : 

’’ خان بھائی ! آپ نے پوری دنیا تک حق بات پہنچانی ہے ۔ اگر آپ اسے قتل کر دیں گے تو سمجھائیں گے کیسے ؟ ‘‘ 

’’ دیکو ( دیکھو ) ! ہم دماغ والا بندہ کو سمجھائے گا ، وہ تو بیوقوف ہے ‘‘ ، خان نے جواب دیا ۔ 

عبدالرحمن :

’’ اس میں دماغ ہے لیکن وہ اسے قرآن و حدیث کے مطابق استعمال نہیں کر رہا ۔ آپ ، اسے بتائیں کہ کتاب و سنت پر عمل کرو ورنہ دنیا و آخرت میں بے عزت ہو جاؤ گے ۔ ‘‘

خان صاحب : 

’’ ٹیک ( ٹھیک ) ہے ! ہم اسے سمجھائے گا اگر اسے سمجھ نہ آیا تو دوسرا طریقہ سے بتائے گا ۔ ‘‘ 

(یہ مضمون ’’ حد ہو گئی"مضمون سے لیا گیا ہے)

اسی طرح پچھلے دنوں ایک اور  واقعہ نظروں سے گزرا۔۔۔۔ جو کمرشل مولویوں کی دوغلا پن کا تھا اور اپنے لیے کچھ اور اپنے مقتدیوں کے لیے کچھ اور کا تھا۔۔۔۔ اپنی بیٹیوں اور بہنوں پر کچھ اور فتوی دینے کا تھا۔۔۔ اور غیر کی بیٹی کے لیے خود کو پیش کرنے کا تھا۔۔۔۔۔۔ جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا
واقعہ آپ بھی سنیے !!!
میری فیملی کے ایک گھرانے میں طلاق ہوگئی۔ لڑکا بھی میرا کزن تھا(بڑے چچاکا بیٹا) اور لڑکی بھی میری کزن تھی۔ (چھوٹے چچا کی لڑکی) طلاق کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا ہوا تو صلح کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ اب صلح کیسے ہو اس کے لیے مسئلہ پوچھنا تھا لیکن جس مولوی صاحب کے پاس مسئلہ بھیجا جانا تھا وہ بھی ان کا رشتہ دار تھا تو فیصلہ یہ کیا گیا کہ مولوی صاحب کے پاس ناواقف بندے کو بھیج کر مسئلہ دریافت کیا جائے۔ تو ایک آدمی کو جو مولانا صاحب کا نا واقف تھا مسئلہ دریافت کرنے لے لیے بھیجا گیا۔ تو مولانا صاحب نے حلالہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بستی میں جتنے بھی رشتہ داروں کے گھر تھے ان سب کو بلوایا اور مشورہ کیا گیا تو فیملی کا کوئی بھی بندہ حلالہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اور باہر کے لوگوں سے حلالہ کروانے کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی۔ تو فیصلہ کیا گیا کہ شہر جا کر مولانا صاحب کو سچ سچ بتا دیا جائے کہ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ ان کے اپنے رشتہ داروں کا مسئلہ ہے۔ تاکہ کوئی اچھا اور مناسب حل ڈھونڈا جا سکے۔ جب یہ وفد مولانا صاحب کے پاس گیا اور حقیقت بتائی گئی کہ حلالہ کی چھری سے ذبح ہونے والی مطلقہ محترمہ کوئی اور نہیں ان کی اپنی رشتہ دار ہے تو مولانا صاحب پریشان ہوگئے۔اور ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا کہ ایسا کرو فلاں جگہ پر جاؤ وہاں پر ایک اہل حدیث مدرسہ ہے اس کے مہتمم سے فتویٰ لے لو۔ ان شاء اللہ تمہارا کام بن جائے گا۔ جب یہ لوگ وہاں گئے تو مولانا نے فتوی ٰ دے دیا لیکن ساتھ ساتھ تقلید کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا اور قرآن وسنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔ اور کہا کہ اب نہیں نصیحت پکڑو گے تو پھر کب پکڑوگے؟

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...