Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک35

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر35)
صدقہ کی روایات:
ایصال ثواب کے جواز کے حق میں جو روایت سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے، وہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے۔ یہ روایت متعدد کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ بخاری میں اس کے تین طرق مروی ہیں۔ ایک کے الفاظ ہیں:
أنبأنا ابن عباس أن سعد بن عبادۃ رضی اﷲ عنہم، أخا بنی ساعدۃ، توفیت أمہ وہو غائب عنہا. فأتی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم. فقال: یارسول اﷲ، إن أمی توفیت وأنا غائب عنہا. فہل ینفعہا شیء إن تصدقت بہ عنہا. قال: نعم. قال: فإنی أشہدک أن حائطی المخراف صدقۃ علیہا.( رقم ۲۶۱۱)
    ’’حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم جو بنی ساعدہ میں سے تھے، ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ اس موقع پر وہ ان کے پاس نہیں تھے۔ (جب واپس پہنچے)تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا : یا رسول اللہ، میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور میں ان کے پاس نہیں تھا۔ کیا کوئی چیز جو میں ان کی طرف سے صدقہ کروں، انھیں فائدہ دے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس پر انھوں نے کہا: آپ گواہ رہیے، یہ میرا مخراف (نامی باغ) ان (کے نام) پر صدقہ ہے۱۰؂۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد کو اپنی والدہ کی طرف سے کسی وصیت کی توقع تھی۔ انھیں یہ توقع کیوں تھی، اس کا جواب بخاری ہی کی ایک دوسری روایت۱۱؂ سے معلوم ہو جاتا ہے:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما أن سعد بن عبادۃ رضی اﷲ عنہ استفتی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، فقال: ان أمی ماتت وعلیہا نذر. فقال: اقضہ عنہا.( رقم ۲۶۱۰)
    ’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور ان پر ایک نذر کا ادا کرنا واجب تھا۔ آپ نے جواب میں کہا: ان کی طرف سے نذر۱۲؂ پوری کردو۔‘‘
اس روایت سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اضطراب اور سوال کی وجہ سامنے آتی ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کی والدہ نے نذر مانی ہوئی تھی۔ ممکن ہے، انھیں یہ معلوم نہ ہو کہ ان کی والدہ نے کیا نذر مانی ہوئی تھی، لیکن انھیں یہ اندازہ تھا کہ وہ یہ نذر پوری نہیں کر سکیں۔ انھیں یہ خیال آیا کہ اگر وہ والدہ کے پاس ہوتے تو وہ فوت ہونے سے پہلے اپنی نذر کے بارے میں ضرور بات کرتیں۔ میرے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بات نہ کرسکیں، پھر لوگوں نے انھیں بتایا کہ وہ کوئی وصیت اس لیے نہیں کر سکیں کہ ان کے اپنے پاس کچھ نہیں تھاتواس چیز نے انھیں اورمضطرب کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورے کے لیے چلے آئے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی والدہ کی تمنا کی تکمیل کی اجازت دے دی۔
مسلم میں ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اپنے باپ کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی، دراں حالیکہ اس نے ایسا کرنے کی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ روایت۱۴؂کے الفاظ ہیں:
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ أن رجلا قال للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أبی مات وترک مالا ولم یوص، فہل یکفر عنہ أن أتصدق عنہ. قال: نعم.(رقم ۱۶۳۰)
    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے والد وفات پاگئے۔ انھوں نے مال چھوڑا ہے، لیکن وصیت نہیں کی۔ کیا (میرا)یہ (عمل) ان کا (گناہ)مٹائے گا کہ میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟آپ نے فرمایا:ہاں۔‘‘
اس روایت میں’یکفر‘( کفارے) کا لفظ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ کچھ شارحین نے اسے مال چھوڑنے کے باوجود وصیت نہ کرنے کے گناہ سے متعلق کیا ہے۔ بعض شارحین کے نزدیک اس سے عام گناہ مراد ہیں۔پہلی صورت میں ممکن ہے، یہ روایت اس دور سے متعلق ہو جب وراثت کا قانون نازل نہیں ہوا تھا اور وصیت کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بہرحال، صورت معاملہ کچھ بھی ہو، اس روایت سے بظاہر، یہی اصول نکلتا ہے کہ مرنے والے کے لیے خیرات کرنا، اس کے گناہ یا گناہوں کی تلافی کا ذریعہ بنتا ہے۔
اس ضمن میں ہم نے جو روایات اس سے پہلے نقل کی ہیں،ان میں اگر نذر کے پہلو کو پیش نظر رکھیں تو روایات بہت سادہ ہیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ مرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا اسی طرح ایک قرض تھا، جس طرح اس پر انسانوں کا قرض ہوتا ہے اور جس طرح اولاد انسانوں کا قرض ادا کرتی ہے، اسی طرح اللہ کا یہ قرض بھی ادا کر ے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات بیان بھی کی ہے:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما أن امرأۃ من جہینۃ جاء ت إلی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم. فقالت: إن أمی نذرت أن تحج، فلم تحج، حتی ماتت. أفأحج عنہا. قال: نعم، حجی عنہا، أرأیت لو کان علی أمک دین أکنت قاضیتہ، اقضوا اﷲ فاﷲ أحق بالوفاء.(بخاری، رقم ۱۷۵۴)
    ’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے پوچھا: میری ماں نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کریں گی۔ وہ حج نہیں کر سکیں اور وفات پا گئی ہیں۔کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ تمھارا کیا خیال ہے، اگر تمھاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتی۔ اللہ کا حق بھی پورا کرو، کیونکہ اللہ سب سے بڑھ کر ایفا کا حق رکھتا ہے ۔‘‘
اس صورت میں ان روایات کا کوئی تعلق ایصال ثواب سے نہیں ہے، بلکہ یہ اپنی حقیقت میں اسی اصولی بات کے اطلاق کی ایک صورت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ‘۱۵؂کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔صالح اولاد جب اپنے والدین کے اعمال خیر کی تکمیل کرتی ہے یا انھیں جاری رکھتی ہے تو یہ چیز، چونکہ انھی کے عمل کا تسلسل ہے۔ چنانچہ اس کا اجر انھیں ملے گا۔
ان روایات سے ایک دوسرا رخ بھی سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر منت نہ بھی مانی ہو، محض کسی نیکی کا ارادہ یا خواہش بھی معلوم ہوتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکمیل کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ بھی درحقیقت مرنے والے کے اپنے عمل ہی کی توسیع اور تسلسل ہے۔یہ اگرچہ ایک لطیف تعلق ہے، لیکن بندگی کی نفسیات میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اولاد والدین سے جو تعلق رکھتی ہے، اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل اور ان کے جاری کیے ہوئے کام کے تسلسل کو اپنا کام سمجھتی ہے۔ جب یہ رویہ اللہ کی بندگی کے حوالے سے سامنے آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے درست قرار دیا۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان روایات میں’ عن‘ کا حرف استعمال ہوا ہے۔ یہ حرف متکلم کے اس ذہن پر دلالت کرتا ہے کہ وہ یہ عمل مرنے والے کی جانب سے اس کی نیابت میں اس کے اپنے عمل کی حیثیت سے کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس عمل کا اس عمل سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا جو خود کیا جائے اور مرنے والے کا خواہش کی حد تک بھی اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔
جہاں تک دوسری روایت کا تعلق ہے، اس میں یہ’ عن‘ تو موجود ہے،لیکن اس میں کسی نذر، خواہش یا ارادے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔قرآن مجید میں بیان کیے گئے اصول اجر، روایات میں بیان کیے گئے انقطاع عمل کے اصول اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کی انھی اصولوں پر استوارسوانح کی روشنی میں ہم بہ آسانی اس روایت۱۶؂ کو ایک نامکمل روایت قرار دے سکتے ہیں۔ حقیقت میں مرنے والے کے کسی عمل ، ارادے یا خواہش کی تکمیل کا جذبہ ہی اس روایت کے سائل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا ہے اور آپ نے اسے بھی وہی جواب دیا ہے جودوسرے سائلوں کو دیا ہے۔
مرنے والے کی جانب سے صدقے کی ان روایات سے بھی اسی بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کا تصور ایک بعد میں وجود میں آنے والا تصور ہے، اسے قرآن مجید، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے کوئی نسبت حاصل نہیں ہے۔
۱۰؂ یہ روایت اپنے اندر کچھ خلا رکھتی ہے، مثلاً یہ کہ اس میں یہ بیان نہیں ہوا کہ حضرت سعد کہاں گئے ہوئے تھے۔نسائی(المجتبیٰ)، رقم ۳۶۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں شریک تھے۔دوسرے یہ کہ یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کے ذہن میں یہ سوال کیوں پیدا ہوا۔ مذکورہ روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ سے وصیت کرنے کو کہا گیا تھا۔ انھوں نے کہاکہ میں کیا وصیت کروں، مال تو سعد کا ہے۔
یہ روایت متعدد کتب میں نقل ہوئی ہے۔ دیکھیے: بخاری، رقم ۲۶۰۵، ۲۶۱۸؛ ابوداؤد، رقم۲۸۸۲؛ ترمذی، رقم۶۶۹؛نسائی، رقم ۳۶۵۰، ۳۶۵۴، ۳۶۵۵؛ مسند احمد، رقم۳۵۰۴، ۳۵۰۸؛ ابن حبان، رقم ۳۳۵۴؛ بیہقی،رقم۱۲۴۱۱، ۱۲۴۱۲؛ ابویعلیٰ، رقم۲۵۱۵؛ السنن الکبریٰ، رقم۶۴۷۷، ۶۴۸۱، ۶۴۸۲؛ موطا، رقم۱۴۵۰؛ ابن خزیمہ، رقم۲۵۰۰، ۲۵۰۱، ۲۵۰۲؛ عبدالرزاق،رقم۱۶۳۳۷۔
۱۱؂ اس روایت کے مختلف متون کے لیے دیکھیے:مسلم، رقم۱۶۳۸؛ بخاری، رقم۲۶۱۰، ۶۳۲۰، ۶۵۵۸؛ ابوداؤد، رقم۳۳۰۷؛ ترمذی، رقم۱۵۴۶؛ نسائی، رقم۳۶۵۷۔۳۶۶۳،۳۸۱۷۔۳۸۱۹؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۳۲؛ مسنداحمد، رقم۳۵۰۶؛ ابن حبان، رقم۳۴۹۳۔۳۴۹۵؛ بیہقی، رقم۸۰۲۱، ۱۲۴۱۳، ۱۹۹۳۴؛ ابویعلیٰ، رقم۲۳۸۳، ۲۶۸۳؛ السنن الکبریٰ، رقم۴۷۵۹۔۴۷۶۱، ۶۴۸۴۔۶۴۹۰؛ موطا، رقم ۱۰۰۷؛ عبدالرزاق، رقم ۱۶۳۳۳، ۱۶۳۳۴؛ ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۸۰، ۳۶۱۲۰۔
۱۲؂ حضرت سعد نے اپنی والدہ کی طرف سے کیا خیرات کی۔ روایات سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ انھوں نے ایک باغ صدقے میں دے دیا۔ دوسری یہ کہ انھوں نے پینے کے پانی کا اہتمام کیا۔ تیسری یہ کہ انھوں نے ایک غلام آزاد کیا۔ غلام آزاد کرنے والی روایت میں اگرچہ نذر کا تذکرہ بھی ہے،لیکن اس روایت کے کسی متن میں یہ جملہ نہیں ہے کہ انھوں نے غلام آزاد کرنے کی نذر مانی ہوئی تھی۔ چنانچہ یہ بات یقین کے ساتھ کہنا ممکن نہیں ہے کہ انھوں نے کیا نذر مانی ہوئی تھی۔متن کے اس اضطراب سے بہرحال، یہ ضرور سامنے آتا ہے کہ روایت کی اصل صورت کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا ممکن نہیں، لہٰذا اس پر کسی اصولی موقف کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (باغ والی روایات) بخاری، رقم ۲۶۰۵، ۲۶۱۱، ۲۶۱۸؛ ابوداؤد، رقم۲۸۸۲؛ ترمذی، رقم۶۶۹؛ نسائی، رقم۳۶۵۴، ۳۶۵۵؛ مسند احمد، رقم۳۵۰۴، ۳۵۰۸؛ ابن حبان، رقم۳۳۵۴؛ بیہقی،رقم ۱۲۴۱۱، ۱۲۴۱۲؛ ابویعلیٰ، رقم۵۲۱۵؛ السنن الکبریٰ، رقم۶۴۷۷، ۶۴۸۱، ۶۴۸۲؛ موطا، رقم۱۴۵۰؛ ابن خزیمہ، رقم۲۵۰۰۔ ۲۵۰۲؛ عبدالرزاق، رقم۱۶۳۳۷۔ (سقایہ والی روایات) نسائی، رقم۳۶۶۴، ۳۶۶۶؛ مسند احمد، رقم۲۲۵۱۲، ۲۳۸۹۶؛ السنن الکبریٰ، رقم۶۴۹۱، ۶۴۹۳؛ ابن خزیمہ، رقم۲۴۹۶۔ (غلام والی روایات) نسائی، رقم۳۶۵۶؛ مسند احمد، رقم ۲۳۸۹۷؛ بیہقی، رقم۱۲۴۱۸، ۱۲۴۱۹؛ السنن الکبریٰ، رقم۶۴۸۳؛ موطا، رقم۱۴۷۳۔
۱۳؂ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے: مسلم، رقم ۱۶۳۸؛ بخاری، رقم ۱۳۲۲، ۲۶۰۹؛ ابوداؤد، رقم۲۸۸۱؛ ابن ماجہ،رقم۲۷۱۷؛ بیہقی، رقم۶۸۹۵، ۱۲۴۰۹، ۱۲۴۱۰؛ ابویعلیٰ، رقم۴۴۳۴؛ موطا، رقم ۱۴۵۱؛ عبدالرزاق، رقم۱۶۳۴۳؛ ابن حبان، رقم۳۳۵۳؛ السنن الکبریٰ، رقم۶۴۷۶؛ ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۷۷؛ مسند احمد، رقم۲۴۲۹۶۔
۱۴؂ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے: نسائی، رقم۳۶۵۲؛ ابن ماجہ، رقم۲۷۱۶؛ مسند احمد، رقم۸۸۲۸؛ بیہقی، رقم ۱۲۴۱۴؛ ابویعلیٰ، رقم۶۴۹۴؛ السنن الکبریٰ، رقم۶۴۷۹؛ ابن خزیمہ، رقم۲۴۹۸۔
۱۵؂ مکمل متن اور حوالے کے لیے دیکھیے: صفحہ۱۸۔
۱۶؂ اس روایت کے بارے میں اگر یہ اصرار کیا جائے کہ یہ روایت عدم وصیت کے گناہ یاعام گناہوں کے کفارے ہی سے متعلق ہے تو پھر اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس صورت میں یہ قرآن وحدیث میں اجر کے بارے میں بیان کیے گئے مسلمات کے خلاف ہے۔
قربانی کی روایات:
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی طرف سے قربانی کی تھی۔ مسلم میں ہے:۲۸؂

    عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أمر بکبش أقرن، یطأ فی سواد، ویبرک فی سواد، وینظر فی سواد. فأتی بہ لیضحی بہ. فقال لہا: یا عائشۃ، ہلمی المدیۃ. ثم قال: اشحذیہا بحجر. ففعلت. ثم أخذہا. وأخذ الکبش. فأضجعہ. ثم ذبحہ. ثم قال: باسم اﷲ، اللہم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمۃ محمد. ثم ضحی بہ.(رقم۱۹۶۷)
    ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کو کہا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو، سیاہی میں دیکھتا ہو۔۲۹؂ چنانچہ یہ مینڈھا لایا گیا تاکہ آپ اسے ذبح کریں۔ اس پر آپ نے ان سے فرمایا: عائشہ، چھری لاؤ۔ پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو۔ چنانچہ انھوں نے (ایسا ہی )کیا۔ پھر آپ نے چھری پکڑی اور مینڈھے کو پکڑا۔ پھر اسے لٹایا اور ذبح کر نے لگے۔ آپ نے تکبیر پڑھی اور دعا کی: اے اللہ، اسے محمد کی طرف سے اور آل محمد کی طرف سے اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔پھر آپ نے اسے قربان کر دیا۔ ‘‘
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک موقع پر آپ نے امت کے لیے الگ قربانی کی۔ ابوداؤد میں ہے:۳۰؂
عن جابر بن عبد اﷲ قال: ذبح النبی صلی اﷲ علیہ وسلم یوم الذبح کبشین أقرنین أملحین موجئین. فلما وجہہما قال: انی وجہت وجہی للذی فطر السموات والارض علی ملۃ ابراہیم حنیفا وما أنا من المشرکین.ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی ﷲ رب العالمین. لا شریک لہ. وبذلک أمرت. وأنا من المسلمین. اللہم منک ولک عن محمد وأمتہ باسم اﷲ و اﷲ اکبر. ثم ذبح. (رقم۲۷۹۵)
    ’’حضرت جابر بن عبداللہ( رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے روز سینگوں والے دو خصی مینڈھے جن کی اون زیادہ تر سفیدتھی، ذبح کیے۔ جب آپ نے قبلہ رو لٹایا تو کہا: میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین و آسمان بنائے، یک سو ابراہیم کے طریقے پر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز، اور میری قربانی، اورمیری زندگی اور میری موت کائنات کے مالک اللہ کے لیے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ، تیری عطا سے اور تیرے لیے محمد کی طرف سے اور اس کی امت کی طرف سے۔ بسم اللہ، اللہ اکبر۔ پھر آپ نے ذبح کر دیے۔ ‘‘
ایک روایت میں ’’امت کی طرف سے‘‘ کی بات،’’ امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنھوں نے قربانی نہیں کی‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ ابوداؤد ہی میں ہے:۳۱؂
عن جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ قال: شہدت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الأضحی بالمصلی. فلما قضی خطبتہ نزل من منبرہ. وأتی بکبش. فذبحہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بیدہ. وقال: بسم اﷲ و اﷲ اکبر، ھذا عنی وعمن لم یضح من أمتی.(رقم ۲۸۱۰)
    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عید قربان کی نماز کے لیے عید گاہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب آپ نے خطبہ مکمل کیا تو آپ منبر سے اترے ۔ آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ آپ نے تکبیر پڑھی اورفرمایا: یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنھوں نے قربانی نہیں کی۔ ‘‘
ان روایات کے مطالعے سے ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی طرف سے قربانی کی تھی، یعنی یہ عمل نیابت کا ہے، ایصال ثواب کا نہیں ہے۔ دوسری یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے یہ قربانی ان لوگوں کی جانب سے کی تھی جو قربانی نہیں کر سکے تھے۔ اگرچہ یہ بات تمام روایات میں بیان نہیں ہوئی، لیکن قرین قیاس محسوس ہوتا ہے کہ باقی روایات بھی اسی کے تحت ہیں۔ تیسری یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قربانی زندوں کی طرف سے کی ہے۔ چنانچہ ایصال ثواب کا ان روایات سے کوئی تعلق نہیں۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص رہا۔ اسے بعد میں خلفاے راشدین نے جاری نہیں رکھا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امت کے لیے یہ عمل بناے استدلال نہیں بن سکتا۔
قربانی ہی کے ضمن میں ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے، اس روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔ابوداؤد میں ہے:
عن حنش قال: رأیت علیا یضحی بکبشین. فقلت: ما ہذا؟ فقال: إن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اوصانی أن أضحی عنہ. فأنا أضحی عنہ.(رقم۲۷۹۰)
    ’’حضرت حنش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ دو مینڈھے قربان کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے۔ حضرت علی نے بتایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں۔ چنانچہ میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔‘‘
یہ روایت ایک ضعیف روایت ہے ۔اس کا مقصود حضرت علی کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خصوصی نسبت کو واضح کرنا ہے۔ اس وصیت کے وجود کی کسی دوسرے ذریعے سے تائید نہیں ہوتی، اور نہ ہی حضرت علی کے قربانی کرنے کے کوئی اور شواہد موجود ہیں، لیکن اسے اگر بطور ایک واقعہ مان لیا جائے تب بھی اس سے ایصال ثواب کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا، اس لیے کہ حضرت علی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے ایک فرد کی طرح تھے اور ان کا یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل تھا۔ ان کی جانب سے ایصال ثواب کے نقطۂ نظر سے کیا گیا عمل نہیں تھا۔
۲۸؂ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے: ابوداؤد، رقم۲۷۹۲؛ احمد، رقم۲۴۵۳۵؛ ابن حبان، رقم۵۹۱۵؛ بیہقی، رقم۱۸۸۲۵،۱۸۹۶۴۔
۲۹؂ مراد یہ ہے کہ اس کے پیٹ پر اور کھر اور آنکھوں کے گرد آگے بال سیاہ تھے،یعنی یہ ایک خوب صورت مینڈھا تھا۔
۳۰؂ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے:ابن ماجہ، رقم ۳۱۲۲؛ احمد، رقم ۲۵۸۸۵، ۲۵۹۲۸، ۲۷۲۳۴؛ بیہقی، رقم۱۸۷۸۸، ۱۸۸۲۶۔۱۸۸۲۸، ۱۸۸۶۸، ۱۸۹۶۶، ۱۸۹۶۷؛ ابویعلیٰ، رقم۱۴۱۷، ۱۴۱۸، ۳۱۱۸۔
۳۱؂ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے: ترمذی، رقم۱۵۲۱؛ احمد، رقم۱۱۰۶۶، ۱۴۸۸۰، ۱۴۹۳۶، ۱۴۹۳۸؛ بیہقی، رقم۱۸۸۱۲، ۱۸۹۶۵۔
سبز ٹہنی کی روایات:
اب تک ہم نے ان روایات کا مطالعہ کیا ہے جن میں بعض افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مرنے والے کی کسی نذر، ارادے یا خواہش کی تکمیل کا پوچھا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے اور ایک آدھ روایت اس مضمون کی بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی ایسا ہی کیا ہے۔
آیندہ سطور میں ہم جس روایت کوزیر بحث لا رہے ہیں ،وہ اگرچہ براہ راست اس موضوع سے متعلق نہیں ہے، لیکن بعض لوگ اس سے بھی استشہاد کرتے ہیں، لہٰذا موزوں یہی ہے کہ اس پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ بخاری میں ہے: ۳۲؂ عن ابن عباس قال: مر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحائط من حیطان المدینۃ أو مکۃ. فسمع صوت إنسانین یعذبان فی قبورہما. فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: یعذبان وما یعذبان فی کبیر. ثم قال: بلی، کان أحدہما لا یستتر من بولہ وکان الآخر یمشی بالنمیمۃ. ثم دعا بجریدۃ. فکسرہا کسرتین. فوضع علی کل قبر منہما کسرۃ. فقیل لہ: یارسول اﷲ، لم فعلت ہذا؟ قال: لعلہ یخفف عنہما ما لم تیبسا أو إلی أن ییبسا.(رقم۲۱۳)
    ’’حضرت ابن عباس( رضی اللہ عنہما) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینے کے باغوں میں سے کسی باغ کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دو انسانوں کی آواز سنی جنھیں قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انھیں عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر فرمایا : کیوں نہیں، ان میں سے ایک اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ٹہنی منگوائی ۔ اسے دو حصوں میں توڑا۔ پھر ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا۔ آپ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ، آپ نے یہ کیوں کیا؟ آپ نے کہا: ہو سکتا ہے، وہ (پروردگار) ان دونوں کے عذاب میں اس وقت تک کے لیے کمی کر دے، جب تک یہ ٹہنیاں خشک ہوں۔ ‘‘
اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے۔ مسند احمد میں ہے:۳۳؂
عن أبی ہریرۃ قال: مر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علی قبر. فقال: ائتونی بجریدتین. فجعل إحداہما عند رأسہ والأخری عند رجلیہ. فقیل: یانبی اﷲ، أینفعہ ذلک. قال: لن یزال اﷲ أن یخفف عنہ بعض عذاب القبر ما کان فیہما ندو.(رقم۹۶۸۱)
    ’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا: مجھے دوٹہنیاں لا کردو۔ (جب ٹہنیاں پیش کی گئیں تو) آپ نے ایک ٹہنی قبر کے سرہانے اور ایک پاؤں کی طرف رکھ دی۔ آپ سے سوال ہوا: اللہ کے نبی، اس سے، اس کو کیا فائدہ ہو گا؟ آپ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس سے قبر کا کچھ عذاب کم کر دیں گے، جب تک ان ٹہنیوں میں تری ہے۔‘‘
روایت پڑھتے ہی یہ بات سامنے آتی ہے کہ واقعہ خصوصی نوعیت رکھتا ہے۔ یہ بات کہ صاحب قبر عذاب میں مبتلا ہے، اللہ کے پیغمبر ہی کو معلوم ہو سکتی ہے۔ یہ بات کہ کچھ وقت کے لیے عذاب میں تخفیف کر دی گئی ہے، یہ علم بھی وحی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ شارحین کو یہ بات متعین کرنے میں مشکل پیش آئی ہے کہ سبز ٹہنی اور عذاب کی تخفیف میں کیا تعلق ہے، دراں حالیکہ روایات کے الفاظ ہی سے واضح ہے کہ یہ عمل وقت کے تعین کے لیے کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ صاحب قبر عذاب میں مبتلا ہے تو آپ نے اس کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کی اور یہ بھی واضح تھا کہ یہ دعا محدود وقت کے لیے قبول کی گئی ہے۔ ظاہرہے اس زمانے میں گھڑیاں نہیں تھیں۔ چنانچہ وقت کے تعین کے لیے سبز ٹہنی استعمال کی گئی تھی ۔ ہم یہ بات اندازے سے نہیں کہہ رہے ہیں۔ اس واقعہ کی یہ نوعیت مسلم کی ایک روایت سے واضح ہوتی ہے،جو انھوں نے اپنی صحیح میں ’’کتاب الزہد والرقائق‘‘ میں حدیث جابر کی حیثیت سے نقل کی ہے۔ ہم یہاں اس کا متعلقہ حصہ نقل کر رہے ہیں: ...فرأیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وقف وقفۃ. فقال برأسہ ہکذا. وأشار أبو إسماعیل برأسہ یمینا و شمالا. ثم أقبل. فلما انتہی إلیَّ. قال: یاجابر، ہل رأیت مقامی. قلت: نعم، یا رسول اﷲ. قال: فانطلق إلی الشجرتین، فاقطع من کل واحدۃ منہما غصنا. فأقبل بہما حتی إذا قمت مقامی فأرسل غصنا عن یمینک وغصنا عن یسارک. قال جابر: فقمت، فأخذت حجرا، فکسرتہ وحسرتہ فانذلق لی. فأتیت الشجرتین. فقطعت من کل واحدۃ منہما غصنا. ثم أقبلت أجرہما، حتی قمت مقام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. أرسلت غصنا عن یمینی وغصنا عن یساری. ثم لحقتہ. فقلت: قد فعلت یا رسول اﷲ. فعم ذاک. قال: إنی مررت بقبرین یعذبان فأحببت بشفاعتی أن یرفہ عنہما مادام الغصنان رطبین.(رقم۳۰۱۲)
    ’’...پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے رکے ہیں۔ پھر آپ نے سر کے اشارے سے بلایا، ابو اسماعیل (راوی) نے(حضور کا طریقہ سمجھانے کے لیے) دائیں اور بائیں سر ہلایا۔ پھر آپ آگے آئے۔ جب میرے پاس پہنچے توکہا: جابر، تم نے میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھ لی ہے؟ میں نے کہا:ہاں، یارسول اللہ۔ آپ نے کہا: ان دو پودوں کی طرف جاؤاور ان دونوں سے ایک ایک ٹہنی کاٹ لو۔ پھر انھیں لے کر آؤ اور جب میرے اس کھڑے ہونے کی جگہ پہنچو تو ایک ٹہنی دائیں طرف اور ایک بائیں طرف پھینک دینا۔ جابر کہتے ہیں: میں کھڑا ہوا ۔ ایک پتھر لیا۔ اسے توڑا اور رگڑاکہ وہ میرے کاٹنے کے لیے تیز ہو گیا۔ اب میں ان پودوں کے پاس آیا۔ میں نے ان دونوں سے ایک ایک ٹہنی کاٹ لی۔ پھر میں انھیں گھسیٹتا ہوا لایا۔ جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پہنچا تو میں نے ایک ٹہنی اپنی دائیں طرف اور ایک بائیں طرف ڈال دی۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا: میں نے یا رسول اللہ (حسب ارشاد ) کر دیا ہے، لیکن (میں سمجھا نہیں آپ نے ) ایسا کیوں (کہا)۔ آپ نے بتایا: میں دو ایسی قبروں سے گزراجنھیں عذاب دیا جا رہا تھا۔میں نے چاہا کہ میری سفارش سے اس وقت تک کے لیے ان کے عذاب میں تخفیف رہے جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں۔‘‘
اگریہ دونوں روایتیں اصل میں ایک ہی روایت کے دو متن ہیں تو بات پوری طرح واضح ہے۔ نہ سبز ٹہنیوں کا عذاب کی تخفیف سے کوئی تعلق ہے اور نہ ایصال ثواب کے تصور سے یہ روایت کوئی مناسبت رکھتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے بتانے پر یہ بات جانی کہ صاحبان قبر عذاب میں مبتلا ہیں۔ پھرآپ نے ان کے لیے عذاب کی تخفیف کی دعا کی۔ یہ دعا محدود وقت کے لیے مستجاب ہوئی۔ اس وقت کا تعین ٹہنیوں کے سبز رہنے سے کیا گیا تھا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا دو یا زیادہ مواقع پر کیا ہو، لیکن ان واقعات کو حضرت جابر کی اس روایت ہی کی روشنی میں حل کیا جائے گا، اگر ایسا نہ کیا جائے تویہ روایات لاینحل ہیں اور قرآن مجید میں بیان کیے گئے، اصول اجر کے صریحاً منافی ہیں۔
؂ ۳ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے: بخاری، رقم۲۱۵، ۱۲۹۵، ۱۳۱۲، ۵۷۰۵، ۵۷۰۸؛ مسلم، رقم۲۹۲؛ ابوداؤد، رقم۲۱؛ نسائی، رقم۳۱، ۲۰۶۸، ۲۰۶۹؛ مسند احمد، رقم۱۹۸۰۔۱۹۸۱، ۲۰۴۲۷، ۲۲۳۴۶؛ ابن حبان، رقم۳۱۲۸، ۳۱۲۹؛ بیہقی، رقم۵۱۰، ۳۹۴۲، ۳۹۴۳؛ ابویعلیٰ، رقم۲۰۵۰، ۲۰۵۵؛ السنن الکبریٰ، رقم۲۷، ۲۱۹۵، ۲۱۹۶، ۱۱۶۱۳؛ ابن خزیمہ، رقم ۵۵، ۵۶؛ دارمی، رقم۷۳۹؛ عبدالرزاق،رقم ۶۷۵۳، ۶۷۵۴؛ ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۴۲۔ ۱۲۰۴۶۔
۳۳؂ اس روایت کے دوسرے متون کے لیے دیکھیے: احمد، رقم ۱۷۵۹۵، ۱۷۵۹۶؛ ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۴۴۔
خلاصۂ مباحث:
پچھلے صفحات میں ہم نے کوشش کی ہے کہ اس موضوع کے حوالے سے زیر بحث آنے والی روایات پر ایک نظر ڈال لیں اور ان سے کیے گئے استنباط کی حقیقت بھی واضح کر دیں۔ اس مطالعے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام روایات میں صرف مرنے والے کی وصیت ، اس پر عائد ہونے والی دینی ذمہ داری کی تکمیل اور اس کی اس تمنایا ارادے کی تکمیل کی تصویب کی ہے جو وہ کسی خیر کے کام کے بارے میں رکھتا تھا۔
قرآن مجید نے یہ اصول واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی آدمی کوئی نیکی کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ محض اس وجہ سے نہیں کر سکا کہ قدرت کی طرف سے موانع پیش آ گئے تو اس شخص کو اس کار خیر کا اجر ملے گا۔سورۂ نساء میں ہے:
  وَمَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً، وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.(۴ :۱۰۰)
    ’’اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا،وہ زمیں میں بڑے ٹھکانے اور وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے گا، پھر موت اس کو آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے لازم ہو گیااور اللہ بخشنے والااور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دیکھیں توان روایات میں بیان کیے گئے بیش تر معاملات میں خود مرنے والا اپنے اس عمل پر اجر کا حق دار ہے جو وہ انجام نہیں دے سکا۔وہ بھی جس نے نذر مانی، لیکن موت کے باعث نذر پوری نہیں کر سکا۔ وہ بھی جس کا ارادہ کسی کار خیر کا تھا، لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انجام نہیں دے سکا۔ وہ بھی جس کے دل میں نیکی کی خواہش تھی، لیکن وہ اپنی خواہش کی تکمیل سے محروم رہا۔
سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سائلین سے یہ کیوں نہیں فرمایا:’ قد وقع أجرہ علی اﷲ‘۔یہ سوال اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس پر واضح تھا کہ ہر آدمی کو اس کا اپنا عمل ہی فائدہ دے گا۔ انھوں نے اپنی بیٹی فاطمہ پرکس طرح واضح کیا تھا کہ آخرت میں پیغمبر کی بیٹی ہونا بھی، اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جوابات، اصل میں مرنے والے کی نسبت سے نہیں تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن مجید کا وہ اصول بھی تھا جو ہم سورۂ نساء کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں اور وہ اصول بھی تھا جسے آپ نے ’انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔اگر محض اس پہلو سے جواب دیتے تو آپ یقیناً،یہی فرماتے کہ وہ جو نیکی کے کام کر سکے، ان کا اجر بھی انھیں ملے گا اور جو وہ کسی قدرتی مانع کے سبب سے نہیں کر سکے، اس کا اجر بھی انھیں ملے گا۔وہ نیکیاں جو وہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں کر سکے، ان کا اجر انھیں کسی صورت میں نہیں ملے گا، خواہ تم ان کی طرف سے یہ عمل جتنی مرتبہ چاہے کرو۔
لیکن آپ کے سامنے اولاد اور والدین اوربھائیوں اور بہنوں کے باہمی تعلق میں ایک فطری رجحان کا مسئلہ ہے، یعنی یہ تعلق مرنے والے کی نسبت سے اس کے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں، اس کی خواہشوں اور اس کے ارادوں کی تکمیل کے شدید جذبے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دنیا کے کاموں میں اس جذبے کو ہمیشہ تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ مرحوم کا قرض اتار دینا، اس نے کوئی کام، اگر شروع کیا تھا اس کو مکمل کر دینا، اس کی اولاد کی کفالت یا شادیوں کی ذمہ داری اٹھا لینا وغیرہ۔ یہی جذبہ، اگر اس کے دینی ارادوں یا خواہشوں سے متعلق ہو تو اس کا جواب کیا ہو گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اسی طرح تحسین کی ہے جس طرح اس کی تحسین ہونی چاہیے تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ ان روایات کا ایصال ثواب سے تعلق قائم کرنے کے لیے، نہ ان روایات میں کوئی گنجایش ہے اور نہ قرآن مجیدکے مسلمات ہی اس کی اجازت دیتے ہیں۔
ہمارے سماج میں ایصال ثواب تصور سے آگے بڑھ کر، رسوم کا ایک باقاعدہ نظام بن چکا ہے۔ یہ رسوم، قل، چہلم، تیجا، ساتا، جمعرات، برسی یا سالانہ ختم وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہیں۔ ان میں تلاوت قرآن مجید کی جاتی ہے اور کچھ کھانے پینے کا سامان میسر کیا جاتا ہے ۔ یہ کھانے پینے کے سامان کا زیادہ حصہ شرکاے مجلس کی تواضع میں صرف ہو جاتا ہے۔یہ سارا عمل یا اس کا بڑا حصہ دکھاوا بن کر رہ گیا ہے۔خیرات کا بہت کم حصہ، کسی غریب کے کام آتا ہے، بلکہ یہ رسم مرنے والے کے ورثا کو غریب کر دیتی ہے۔ بہرحال، یہ اگر پورے خلوص سے بھی ہو تو پہلی بات تو یہ بالکل واضح ہے کہ اس طرح کسی رسم کا کوئی ثبوت ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگی میں نہیں ملتا۔یہ بات دین کے مسلمات میں سے ہے کہ تعبدی امور میں وہ چیزیں جن کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے، بدعت قرار پاتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ رسوم جس اصول پر مبنی ہیں، وہ اصول قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے اصول اجر کے بالکل منافی ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک یہ رسوم نہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے درست ہیں اور نہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے صحیح ہیں۔
لیکن یہ رسوم جس جذبے پر مبنی ہیں، وہ جذبہ بڑا اچھا ہے۔اگر دین کی اصل تعلیمات کی روشنی میں اس جذبے کی تکمیل پیش نظر ہو تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم مرنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کریں اور اگر اس نے کوئی خیر کا کام شروع کیا ہے تو اسے مکمل کر دیں۔ اس کے بہنوں اور بھائیوں کی تکریم کریں۔ اس نے کوئی نیکی کا ایسا کام کیا تھا جسے جاری رکھا جا سکتا ہے، اسے جاری رکھا جائے۔ اس نے اگر کوئی نیکی کے کام کی تلقین کی ہے تو اس پر عمل کیا جائے۔ یہ اس کے اپنے کام ہیں اور یہی اس کے لیے کام آنے والے ہیں۔
جاری ہے.....
مردوخواتین کیئلے علیحدہ گروپ موجود ہے
نوٹ:بعض دوست دوسرے گروپس یا  فیس بک پر پوسٹ کرتے وقت ہمارا کنٹیکٹ نمبر کاٹ دیتے ہیں اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ قارئین رابطہ اور مزید وضاحت سے قاصر رہ جاتے ہیں-لہٰذا برائے مہربانی ہمارا رابطہ نمبر نہ کاٹا جائے -شکریہ
0096176390670
طالب دعا:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان-
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...