Wednesday 25 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط40

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 40)
سلفی ، بعض دیوبندی اور ماورائے مسلک حضرات کے دلائل:؛
مخالفین بدعت اپنے نقطہ نظر کی تائید میں یہ احادیث پیش کرتے ہیں:
وحدثني محمد بن المثنى. حدثنا عبدالوهاب بن عبدالمجيد عن جعفر بن محمد، عن أبيه عن جابر بن عبدالله ؛ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب احمرت عيناه، وعلا صوته واشتد غضبه. حتى كأنه منذر جيش، يقول: صبحكم ومساكم. ويقول. "بعثت أنا والساعة كهاتين". ويقرن بين أصبعيها لسبابة والوسطى. ويقول: "أما بعد. فإن خير الحديث كتاب الله. وخير الهدي هدي محمد. وشر الأمور محدثاتها. وكل بدعة ضلالة". ثم يقول: " أنا أولى بكل مؤمن من نفسه من ترك مالا فلأهله. ومن ترك دينا أو ضياعا فإلي وعلي"
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہو جاتی اور اس میں جوش پیدا ہو جاتا گویا کہ آپ کسی لشکر سے خبردار فرما رہے ہیں جو صبح و شام حملہ کرنے والا ہے۔ آپ فرماتے: میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں۔ یہ کہہ کر آپ اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلیوں کو ملا کر اشارہ کرتے اور فرماتے: امابد بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے۔ بدترین امور یہ نئی نئی باتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ پھر فرماتے میں ہر مومن سے قریب تر ہوں۔ جو مال وہ ترکے میں چھوڑے وہ اس کے گھروالوں کا ہے جبکہ اگر وہ کوئی قرض چھوڑے تو اسے ادا کرنا میری ذمہ داری ہے ۔ مسلم کتاب الجمعہ حدیث 1901
حدثنا يعقوب: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جس پر ہم نہیں ہیں، تو وہ مردورد عمل ہے بخاری کتاب الصلح حدیث 2550
مخالفین بدعت کا کہنا یہ ہے کہ کسی طرح کا اضافہ بھی دین میں جائز نہیں ہے۔ ہاں کسی دینی فریضہ کو انجام دینے کے لیے کوئی نئی تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے مگر اسے دین کا حصہ قطعی نہیں سمجھنا چاہیے۔ جیسے دعوت دین کا تقاضا ہے اسے پورا کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی موبائل انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کی جا سکتی ہے، جہاد ایک دینی عمل ہے اس کے لیے نیا اسلحہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے مگر اس ٹیکنالوجی یا اسلحہ کو دین کا حصہ سمجھنا بدعت ہو گا۔ جب یہ چیزیں متروک ہو جائی گی تو پھر انہیں چھوڑ کر نئے دور کی ٹیکنالوجی کو اختیار کر لیا جائے گا۔
مخالفین بدعت کہتے ہیں کہ اگر دین میں کسی نیک عمل کا اضافہ جائز ہو تو پھر ایک نئی نماز چند دنوں کے اضافی روزے نماز میں تین سجدے اور حج میں ایک مزید دن کے اضافے میں کیا حرج ہے؟ اس طرح دین بازیچہ اطفال بن جائے گا اور جس کا جو جی چاہے گا دین میں داخل کرتا رہے گا۔ کیا رسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا دین کامل نہیں ہے کہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے؟
سنی بریلوی حضرات اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عبادات میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو رسول اللہ ﷺ کا ہے اس میں ذرہ برابر اضافہ درست نہیں ہے۔ غلام رسول سعیدی صاحب (1973  بی ) لکھتے ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی صحیح اتباع  آپ کی عبادات کے نمونہ ہونے کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ کے فعل پر کسی سابقہ اور لاحقہ کا اضافہ نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے آپ سفر میں فرض سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے نہ فرض کے بعد حالانکہ فی نفسہ سنن اور نوافل پڑھنا اچھا کام ہے اور قرآن اور حدیث میں نفلی نمازوں کا ثبوت بھی ہے لیکن چونکہ حضرت عبد بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک سفر کے موقع پر آپ کا سنن اور نوافل پڑھنا ثابت نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے سفر میں سنتیں نہیں پڑھیں اور سنتیں پڑھنے کو انہوں نے آپ کے نمونہ کے خلاف سمجھا۔ اس لیے بے خطر اور سلامتی کا طریقہ یہی ہے کہ سنت رسول اور طریق صحابہ کو دانتوں سے پکڑ لیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کی جائے۔ اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی سے سوال کیا گیا کہ کیا کفن مسنوں سے کچھ زیادہ چیزیں کفن میں رکھنا جائز ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا: مرد کے لیے کفن کے تین کپڑے اور عورت کے لیے پانچ۔ ان کے سوا کفن میں کوئی اور تہبند یا رومال دینا بدعت و ممنوع ہے۔ سرمہ کنگھی اگر فقیر کو بطور صدقہ دیں تو حرج نہیں اور کفن میں رکھنا حرام ہے۔ فتاوی رضویہ جلد 4 ص 213
اس عبارت سے آفتاب سے زیادہ روشن طریقہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جن امور کو منضبط کر دیا ہے ان میں کسی قسم کی زیادتی اور سابقہ ولاحقہ کا اضافہ کرنا  ناجائز اور بدعت ہے۔
بعض لوگ آپ نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی اور مقرر شدہ عبادات پر سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ فرض اور واجب سمجھ کر نہیں کرتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم یہ اضافہ آپ کی محبت میں کر رہے ہیں اور اس کو فرض نہیں سمجھتے اور اس خیال سے اس عمل کو دائما کرتے ہیں لیکن یہ طریقہ بھی صحیح نہیں ہے۔۔۔۔
حضرات عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے صرف ایک بار آپ کے بتائے ہوئے طریقہ پر یہ اضافہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس عمل کو ناپسند فرمایا۔ سوچیے اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی مقرر کردہ عبادات پر سابقہ یا لاحقہ کے اضافوں کو دائما اور شب و روز کا معمول بنا لیں تو رسول اللہ ﷺ کی ناپسندیدگی کا کیا عالم ہو گا!!!
سعیدی صاحب نے یہ عبارت ان بریلوی حضرات کی اصلاح کے لیے لکھی ہے جو کثیر بدعات میں مبتلا ہیں۔
islamicstudies267@gmail.com
www.islamic-studies.info
fatimapk92@gmail.com
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com

جاری ہے...

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...