Wednesday 25 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط 41

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 41)
باب 9: بزرگان دین کے مزارات
سلفی اور غیر سلفی حضرات میں ایک اہم اختلاف بزرگان دین کے مزارات کی تعمیر کا ہے۔ سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ مزارات کی تعمیر ناجائز ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں عرب میں قبروں پر پختہ مزارات تعمیر کیے گیے تھے لیکن جب سلفی حضرات کو وہاں حکومت ملی تو انہوں نے ان مزارات کو منہدم کر دیا اور ہر قبر کو ایک بالشت کے برابر کر دیا۔ اس پر سنی بریلوی اور اہل تشیع حضرات انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اہل تشیع  تو باقاعدہ "یوم انہدام جنت البقیع" مناتے ہیں۔
اس کے برعکس اہل تشیع اور سنی بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ مزارات کی تعمیر ایک مستحسن امر ہے کیونکہ اس سے صاحب قبر کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بزرگان دین کے عقیدت مند مزارات کی تعمیر کرتے ہیں۔ سنی دیو بندی اور ماورائے مسلک حضرات کا نقطہ نظر ملا جلا ہے، بعض کے نزدیک مزارات کی تعمیر ایک جائز فعل ہے اور بعض اسے ناجائز سمجھتے ہیں۔
ناقدین مزارات کے دلائل
سلفی حضرات اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن شبيان، عن هلال، هو الوزان، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال في مرضه الذي مات فيه: (لعن الله اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مسجدا). قالت: ولولا ذلك لأبرزوا قبره، غير أني أخشى أن يتخذ مسجدا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے آخری مرض میں ارشاد فرمایا، جس میں آپ کی وفات ہوئی: اللہ نے ان یہود و نصاری پر لعنت فرمائی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ سیدہ فرماتی ہیں: اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر مبارک کو بھی مسجد بنا لیں گے تو اسے ظاہر کر دیا جاتا (بخاری کتاب الجنائز حدیث 1265)
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثتا حفص بن غياث عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر ؛ قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر. وأن يقعد عليه. وأن يبنى عليه.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر بیٹھنے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا۔ (مسلم کتاب الکسوف حدیث 970)
وحدثني زهير بن حرب. حدثنا يحيى بن سعيد. حدثنا هشام. أخبرني أبي عن عائشة؛ أن أم حبيبة وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة، فيها تصاوير، لرسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن أولئك، إذا كان فيهم الرجل الصالح، فمات، بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور. أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک گرجا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور اس میں تصاویر تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ جب ان میں کوئی نیک شخص مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر دیتے اور اس میں اس قسم کی تصاویر رکھ دیتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین مخلوق میں سے ہوں گے۔ (مسلم کتاب المساجد حدیث 529)
حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب (قال يحيى: أخبرنا. وقال الآخران: حدثنا وكيع) عن سفيان، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي وائل، عن أبي الهياج الأسدي. قال: قال لي علي بن أبي طالب: ألا أبعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ أن لا تدع تمثالا إلا طمسته. ولا قبرا مشرفا إلا سويته.
ابو الہیاج الاسدی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس کام کیلئے نہ بھیجوں جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا تھا؟ کہ تم کوئی بت ایسا نہ چھوڑنا جسے توڑ نہ دو اور کوئی اونچی قبر ایسی نہ چھوڑنا جسے برابر نہ کر دو۔ (مسلم کتاب الجنائز حدیث 969)
ان احادیث کی بنیاد پر سلفی حضرات کہتے ہیں کہ قبروں کو پختہ بنانا، ان پر تعمیر کرنا اور ان پر عبادت گاہ بنانا حرام ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں یہی ہوا تھا کہ نیک بندوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنانے سے ان میں شرک داخل ہو گیا تھا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ آپ نے اپنی قبر مبارک کو بھی چھپا دینے کا حکم دیا تا کہ لوگ اس کو عبادت گاہ نہ بنا لیں۔ آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اونچی قبروں کو برابر کروا دیا۔
اوپر حدیث میں جو قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا گیا ہے، سلفی حضرات اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ قبر کی مجاورت ممنوع ہے اور اس پر مجاور بن کر بیٹھنا حرام ہے۔
سنی بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ وہ ان احادیث کو مانتے ہیں مگر وہ ان کی توجیہ اس طرح سے کرتے ہیں کہ ان احادیث میں "مسجد" سے مراد عبادت گاہ نہیں بلکہ سجدہ گاہ ہے۔ ان کے نزدیک قبر کو سجدہ گاہ بنانا حرام ہے یعنی اس کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا۔ قبر پر عمارت تعمیر کرنے سے مراد وہ یہ لیتے ہیں کہ عین قبر کے اوپر کوئی دیوار وغیرہ تعمیر کر لی جائے اور قبر پر بیٹھنے سے مراد وہ یہ لیتے ہیں قبر کے عین اوپر بیٹھنا منع ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ قبر پر دیوار تعمیر کرنے یا اس پر بیٹھنے سے قبر کی بے ادبی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیا تھا نہ کہ مسلمانوں کی۔ مسلمانوں کی قبروں کو اول تو اونچا بنانا نہیں چاہیے لیکن اگر بن گئی ہیں تو ان کا احترام کرتے ہوئے انہیں یونہی چھوڑ دینا چایئے۔
سلفی حضرات اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ان احادیث سے واضح ہے کہ قبور سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ان احکام کی وجہ یہ ہے کہ آپ شرک کا سدباب کرنا چاہتے تھے نہ کہ آپ قبروں کا ادب سکھا رہے ہیں۔ کیا قبر کے عین اوپر دیوار کی تعمیر کو منع کرنے سے اور اس کے عین اوپر نہ بیٹھنے سے شرک کا سدباب ممکن ہے؟ ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ مزار کے ساتھ مسجد بھی تعمیر کر دی جاتی ہے چنانچہ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ مزار کو جائے عبادت بنا لیتے ہیں اور اس سے مجاورین کا ایک طبقہ وجود میں آتا ہے جس کا کام ہی بس یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر کی حفاظت کریں اور وہاں آنے والے زائرین کی آمدنی پر پلیں۔ سعودی عرب کے ایک سلفی عالم ڈاکٹر خلیل الہراس لکھتے ہیں:
ڈاکٹر صاحب نے جو قبریں بنانے، انہیں اونچا بنانے، ان پر قبے وغیرہ تعمیر کرنے اور ان کی زیارت کے لیے آنے جانے کا ذکر کیا ہے، اگرچہ یہ شرک نہیں ہے، لیکن شرک تک پہنچانے کا ذریعہ ضرور ہے، کیونکہ یہ امور ان قبروں کی تعظیم اور عبادت تک پہنچاتے ہیں، اسی وجہ سے اسلام نے انہیں حرام قرار دیا ہے اور قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز قبروں کے اونچا کرنے، پختہ کرنے، ان پر مسجدیں بنانے اور چراغ جلانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے جسے اصحاب سنن نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے: "آنحضرت
ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں اور ان پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔۔۔
اصول فقہ کا ایک عظیم آصول اور قاعدہ "سد ذرائع" ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو حرام امور کے ارتکاب تک پہنچائے، وہ بھی حرام ہے۔ اسی قاعدہ کے پیش نظر حضور سرورکائنات، فخر موجودات ﷺ نے قبروں پر مسجدیں بنانے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ قبروں کی تعظیم اور عبادت کا ایک ذریعہ ہیں۔
مزار کے حامیوں کے دلائل اگلی قسط میں پڑهیں...
جاری ہے...
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...