Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظا،161

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر161)
وسیلے کی ناجائز صورتیں 

ان مذکورہ تین صورتوں کے علاوہ وسیلہ کی تمام قسمیں غیر مشروع، ناجائز اور بدعت ہیں۔ بعض صورتیں یہ ہیں کہ حاضر یا غائب، زندہ یا فوت شدہ کی ذات کا وسیلہ پیش کیا جائے یا صاحب قبر کو یہ کہا جائے کہ آپ میرے حق میں دعا اور سفارش کریں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پیش نہیں کیا، سلف صالحین اور ائمہ محدثین سے بھی یہ قطعاً ثابت نہیں۔ پھر وسیلے کی ان ناجائز اور غیر مشروع صورتوں کو اپنانا، دین کیسے بن سکتا ہے؟
وسیلے کی یہ صورتیں ایک تو اس وجہ سے غیر مشروع اور ناجائز و ممنوع ہیں کہ یہ بدعت ہیں، قرآن و حدیث میں ان کا کوئی ثبوت نہیں اور صحابہ کرام اور سلف صالحین کا ان پر عمل نہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.’’جو آدمی کوئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا امر نہ ہو، وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 77/2، 1877/18)اسی سلسلے میں صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عباس کا فرمان بھی ملاحظہ فرماتے جائیے جو امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م: 238 ھ ) نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے : أخبرنا عيسی بن يونس، نا ابن جريج، عن عطاء، قال : سمعت ابن عباس يقول : عجبا لترك الناس ھذا الإھلال، ولتكبير ھم ما بي، الا أن يكون التكبيرة حسنا، ولكن الشيطان ياتي الإنسان من قبل الإثم، فاذا عصم منه جاءه من نحو البر، ليدع سنة وليبتدي بدعة۔”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : لوگوں کے اس تلبیہ کو چھوڑ کر تکبیر کہنے پر تعجب ہے۔ میرے نزدیک تکبیر اچھی چیز ہے، لیکن شیطان انسان کے پاس گناہ کے دروازے سے آتا ہے۔ جب وہ اس داؤ سے بچ جائے تو وہ اس کے پاس نیکی کے دروازے سے آتا ہے، تاکہ وہ سنت کو چھوڑ کر بدعت کو اپنا لے۔“ (مسند اسحاق بن راھویہ : 482، وسندہ صحیح)یاد رہے کہ امام ابن جریج رحمہ اللہ ’’مدلس ‘‘ ہیں، لیکن ان کی امام عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت سماع ہی پر محمول ہوتی ہے، اگرچہ وہ لفظوں میں سماع کی تصریح نہ بھی کریں۔وہ خود بیان کرتے ہیں :عطاء فانا سمعته منه، وان لم أقل سمعت’’میں نے امام عطاء بن ابی رباح سے سنا ہوتا ہے، اگرچہ میں سننے کی صراحت نہ بھی کروں۔‘‘ (تاريخ ابن أبي خيثمة : 242/2، 247، و سنده صحيح ) لہٰذا اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔
 والحمدللہ !وسیلے کی ان صورتوں کے غیر مشروع اور ناجائز ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ غلوّ پر مبنی ہیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: واياكم والغلو في الدين، فانما أھلك من قبلكم الغلو في الدين”تم دین میں غلوّ کرنے سے بچے رہنا، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلوّ ہی نے ہلاک کر دیا تھا۔“ (مسند الامام احمد: 215/1، سنن النسائي : 3059، سنن ابن ماجه: 3029، مسند ابي يعلي : 2427، المستدرك علي الصحيحين للحاكم : 466/1، وسنده صحيح )اس حدیث کو امام ابن الجارود (م : 473 ھ) ، امام ابن حبان (م : 3871 ھ) ، امام ابن خزیمہ (م : 2867 ھ) نے ’’صحیح ‘‘ اور امام حاکم نے اس کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح ‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت بھی کی ہے۔ہر بدعت کا منشاء دین میں غلوّ ہوتا ہے۔ غلوّ سے مراد یہ ہے کہ عبادات میں شریعت كي بيان کردہ حدود و قیود اور طریقہ ہائےکار پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ ان کی ادائیگی میں خودساختہ طریقوں کا اضافہ کر دیا جائے۔ چونکہ دین میں غلوّ ہلاکت و بربادی کا موجب ہے، لہٰذا عبادات کو بجا لانے کے سلسلے میں قرآن و سنت ہی پر اکتفا ضروری ہوتا ہے۔

جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...