Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 30

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر30)
حضرت محمد رسول اللہ علیہ سلم نور یا بشر؟
سلفی علماء اپنی کتب اور ویب سائٹ پر لکهتے ہیں-
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کے بجائے نور منوانے کے لیے جتنی احادیث پیش کی جاتی ہیں، وہ سب کی سب انتہائی ضعیف ہیں۔ صحیح احادیث میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے۔
البتہ، اس بحث سے متعلق قرآن مجید میں درج ذیل آیت موجود ہے جو ہمارے خیال میں، اس ضمن میں فیصلہ کن ہے۔ ارشاد باری ہے:
  قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ. (کہف 18: 110)
'' تم کہو میں تو بس تمھاری مثل ایک بشر ہوں۔''
اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے چنا ہے، وہ اپنی نوع میں دوسرے انسانوں کی مثل ایک بشر ہیں،۔ اگر آپ فرشتہ ہوتے تو آپ کا مادۂ تخلیق نور ہوتا، اگر آپ جن ہوتے تو مادۂ تخلیق آگ ہوتا، لیکن آپ چونکہ بشر ہیں تو دوسرے انسانوں کی طرح آپ کا مادۂ تخلیق بھی مٹی ہے۔یہ وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے۔
بعض لوگوں نے درج ذیل آیت سے یہ مفہوم لینے کی کوشش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے۔ ارشاد باری ہے:
قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ الله نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِيْنٌ. (مائدہ 5: 15)
'' آیا ہے تمھارے پاس اللہ کی جانب سے ایک نور اور روشن کتاب۔''
اس آیت میں نور سے مراد نور ہدایت، یعنی قرآن مجید ہے ، اگلے الفاظ میں اسی کو روشن کتاب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے پاس اللہ کی جانب سے ایک نور ہدایت، یعنی روشن کتاب آ چکی ہے۔
یہاں نور سے مراد کتاب مبین ہی ہے، لیکن بعض مفسرین نے نور سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لیا ہے۔ بالفرض اگر ہم ان مفسرین کی راے مان بھی لیں تو درج بالا آیات جن میں آپ کی بشریت کا ذکر ہوا ہے، ان کی روشنی میں اس آیت میں موجود نور کے لفظ کو لازماً مجازی معنوں ہی میں لینا ہو گا۔مثلاً، آپ کی ذات نورانیت کی حامل ہے یا آپ نور ہدایت ہیں وغیرہ، لیکن اگر ہم اس آیت میں نور کے لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں لیں اور یہ کہیں کہ آپ بشر نہیں، بلکہ نور ہیں تو آیات قرآنی میں صریح تضاد لازم آئے گا جو کہ نا ممکن ہے۔
قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہدایت ہونے کے پہلو کو کئی طریقوں سے بیان کیا گیا ہے، مثلاً آپ کو 'سِرَاجًا مُّنِیْرًا' (روشن چراغ) کہا گیا ہے، یہاں بھی ظاہر ہے کہ ان الفاظ کا مجازی مفہوم (ہدایت کے روشن چراغ) ہی پیش نظر ہے، ورنہ تو یہ ماننا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ انسان نہیں، بلکہ چراغ تهے-
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور من نوراللہ کہنے سے اگر تو یہ مراد ہے کہ ان کانور اللہ تعالی کے نورسے نور ذاتی ہے تو یہ قران وسنت کے مخالف ہے- ، اوراگراس سے یہ مراد ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس لحاظ و اعتبار سے نور ہیں کہ ان کے پاس جو وحی آئی وہ مخلوق میں سے جسے اللہ تعالی نے چاہا اس کی رشدو ھدایت کا سبب بنی تواس لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور ھدایت و رسالت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے بصیرت والوں کو جسے چاہا ھدایت عطا فرمائی ، اور اس بات میں کو‏ئی شک نہیں کہ نور رسالت اور نور ھدایت اللہ ہی کی جانب سے ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ کسی انسان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالی اس سے کلام کرے مگر یہ کہ اس پر وحی کرے ، یاپھر پردہ کے پیچھے سے یا کسی رسول کوبھیج کر ، اور اللہ تعالی کے حکم سے جووہ چاہے وحی کرے ، بیشک وہ بلند و برتر اور حکمت والا ہے ۔
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے ، آپ اس سے پہلے بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب اورایمان کیا چیز ہے ؟ لکین ہم نے اسے نور بنایا ، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ھدایت دیتے ہیں ، بیشک آپ صراط مستقیم کی راہنما‏ئی کررہے ہیں ۔
اس اللہ تعالی کے راہ کی راہنمائی جس کی ملکیت میں سب آسمانوں اور زمین کی ہر چیز ہے ، جان لو! سب کام اللہ تعالی ہی کی طرف لوٹتے ہیں } الشوری / 51 – 53
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ماں اور باپ سے ہوئی ہے ، اور ان کی ولادت سے پہلے کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی اور اسی طرح جو یہ روایت کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نورکوپیدا فرمایا ، یا یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے چہرے کے نور سے ایک مٹھی لی تویہ مٹھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، تو اللہ تعالی نے اس کی طرف دیکھا تو اس میں سے کچھ قطرے گرے تو ان میں سے ہرقطرے سے نبی پیداکیا ، یا پھر یہ روایت کہ ساری مخلوق کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیدا کیاگیا ہے ،یا یہ کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے اپنے نور کے فیض سے پیدا فرمایا....وغیرہ
تو یہ اس طرح کی جتنی بھی روایات ہیں ان کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی ان میں سے کوئی ایک بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔یہ اعتقاد رکھنا باطل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور من نور اللہ ہیں ۔
اور یہ کہ میں عین کے بغیر عرب ہوں یعنی رب ، تو اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی صحیح ہے اور اسی طرح یہ روایت کہ میں بغیرمیم کے احمد ہوں یعنی احد ۔ اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے ، صفت ربوبیت اور اللہ تعالی کی خاص صفات سے متصف ہونا تو اللہ عزوجل کا خاصہ ہے ان کے ساتھ کوئی اور متصف نہیں ہوسکتا تو مطلقاً یہ جائز نہیں ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو یہ کہا جاۓ کہ وہ رب ہے اور یا یہ کہ وہ احد ہے ، تو یہ ایسی صفات ہیں جو کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ خاص ہیں لھذا کسی رسول اوریاکسی اور بشر کے ساتھ ان صفات کو متصف کرنا جائز نہیں ہے  ۔
(اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ۔ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ )
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدِ اولاد آدم ہیں، آپ آدم علیہ السلام کی نسل میں سے بشر ہیں، اور ماں باپ سے پیدا ہوئے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے، اور آپ نے شادیاں بھی کیں، آپ بھوکے بھی رہے، اور بیمار بھی ہوئے، آپکو بھی خوشی و غمی کا احساس ہوتا تھا، اور آپکے بشر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپکو بھی اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی جیسے وہ دیگر لوگوں کو موت دی، لیکن جس چیز سے آپ کو امتیاز حاصل ہے وہ نبوت، رسالت، اور وحی ہے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ )
ترجمہ:آپ کہہ دیں: میں یقیناً تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہےکہ بیشک تمہارا الہ ایک ہی ہے۔ الكهف/110
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے دیگر انبیاء اور رسولوں کی تھی۔
ایک مقام پر اللہ تعالی نے [انبیاء کی بشریت کے متعلق ] فرمایا:
( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )
ترجمہ:اور ہم نے ان[انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا۔ الأنبياء/8
جبکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر تعجب کرنے والوں کی تردید بھی کی اور فرمایا:
( وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ )
ترجمہ:[ان کفار نے رسول کی تردید کیلئے کہاکہ ] یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ الفرقان/7
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بشریت کے بارے میں جو قرآن نے کہہ دیا ہے اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہنا، یا آپکے بارے میں عدم سایہ کا دعوی کرنا ، یا یہ کہنا کہ آپکو نور سے پیدا کیا گیا ، یہ سب کچھ اس غلو میں شامل ہے جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: (مجھے ایسے بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرو جیسے عیسی بن مریم کو نصاریٰ نے بڑھایا، بلکہ [میرے بارے میں]کہو: اللہ کا بندہ اور اسکا رسول) بخاری (6830)
اور صرف فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں، آدم علیہ السلام کی نسل میں سے کوئی بھی نور سے پیدا نہیں ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور ابلیس کو دہکتی ہو آگ سے، اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلادی گئی ہے) مسلم (2996)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (458)میں کہا:
"اس حدیث میں لوگوں کی زبان زد عام ایک حدیث کا رد ہے، وہ ہے: (اے جابر! سب سے پہلے جس چیز کو اللہ تعالی نے پیدا کیا وہ تیرے نبی کا نور ہے)!اور اسکے علاوہ ان تمام احادیث کا بھی رد ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور سے پیدا ہوئے، کیونکہ اس حدیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ جنہیں نور سے پیدا کیا گیا ہے وہ صرف فرشتے ہیں، آدم اور آدم کی نسل اس میں شامل نہیں ہیں، اس لئے خبردار رہو، غافل نہ بنو"
جو یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں ہے-کیونکہ سایہ پاوں کے نیچے آتا ہے جس سے نبی کریم کی شان میں گستاخی ہے  یہ باطل قول ہے، جو کہ قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے، جن میں صراحت کے ساتھ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے، اور بشر ہونے کے ناطے آپ لوگوں سے کسی بھی انداز میں مختلف نہیں تھے، اور آپکا سایہ بھی تھا جیسے ہر انسان کا ہوتا ہے، اور اللہ تعالی نے آپ کو رسالت دے کر جو کرم نوازی فرمائی اسکی بنا پر آپ کی والدین ذریعے پیدائش اور بشریت سے باہر نہیں ہوجاتے، اسی لئے تو اللہ تعالی نے فرمایا: ( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحَى إِلَيَّ ) کہہ دیں : کہ میں تو تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر رسولوں کا قول قرآن مجید میں ذکر کیا: ( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلاْ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) انہیں رسولوں نے کہا: ہم تو تمہارے جیسے ہی بشر ہیں۔
عرض ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کی کسی کے سائے کے اوپرکوئی قدم رکھ سکے اس لئے کہ کسی بھی سائے پرکوئی چیز رکھی جائے تو سایہ وہاں سے غائب ہوکراس چیزکے اوپرآجاتا ، یعنی سایہ کو کچلنا ممکن ہی نہیں ، معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت گھڑنے والا کوئی احمق تھا ۔
سائے کو تو جانے دیجئے خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو کفار و مشرکیں نے کتنی اذیتیں پہنچائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسم کو لہو لہان کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگندگیاں ڈالی گئیں ، لگتاہے یہ منطق پیش کرنے والا شخص سیرت کے ان واقعات سے ناواقف تھا یا حد درجہ بلیدالفھم تھا۔
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت کہ آپکو اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا، یہ حدیث موضوع ہے"
اگربالفرض محال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور مان بھی لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک نور ہوگا نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے پہن کرہی دن میں نکلتے تھے ، لہذا آپ کے جسم پرکپڑوں کا سایہ تو لازمی ہے ، معلوم نہیں اہل بدعت اس کا کیا جواب دیں گے ؟؟؟
اللہ کے رسول ﷺ کا سایہ نہیں تھا یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس سے ثابت یہی کرنا مقصود ہے کہ آپ صرف دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے تھے مگر آپ کی خلقت مٹی سے نہیں تھی، تب ہی تو سایہ نہیں تھا؟ حالانکہ ان کم عقلوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اور خود نور ہے جس کے نور کی کوئی مثال نہیں ہے اس کا تو سایہ احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن بیوقوفوں نے نبی ﷺ کو سایہ سے محض اپنے ظن کی بنا پر بری کردیا۔ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ لوگوں کے پیروں میں نہ آئے۔
اللہ رب العالمین کا سایہ: سات آدمی جن پر اللہ تعالیٰ اپنا سایہ کریگا ایسے دن میں جبکہ اس کے سایہ کے سوا کسی چیز کا سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، موطائ)
حدیث قدسی ہے: ترجمہ: میں (اللہ) سایہ کرونگا اس شخص پر ایسے دن میں جبکہ میرے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ ( مسلم )
تمام مخلوق کا سایہ: قرآن مجید میں ہے: @ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق بھی پیدا کی ہے تو اس کے سائے بنادیئے۔“ (۱۸۶۱)
”فرشتے مومن کی میت پر اپنے پروں سے سایہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کا جنازہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ (بخاری) ہمیشہ فرشتے اس پر اپنا سایہ کرتے رہتے ہیں۔“ (مسند احمد)
جنت کا سایہ: جنت کے پھل اور سائے ہمیشگی والے ہوں گے۔ (۵۲۳۱) ہم جنتیوں کو گھنے سایہ میں داخل کریں گے۔ (۷۵۴)
سایہ رسول ﷺ: حدیث: ترجمہ: ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک سفر میں تھے۔ سیدة صفیہ ؓ کا سواری کا اونٹ بیمار ہوگیا اور سیدة زینبؓ کے پاس وافر سواری موجود تھی تو رسول اللہ ﷺ نے سیدة زینب کے پاس جا کر فرمایا کہ صفیہ ؓ کا سواری والا اونٹ بیمار ہوگیا ہے پس تو اپنے اونٹوں سے ایک اونٹ برائے سواری صفیہؓ کو دیدے۔ توسیدة زینب نے جواب دیا کہ میں اس یہودی عورت کو اپنا اونٹ دوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے سیدةزینبؓ کے پاس آمد و رفت چھوڑ دی ذی الحجہ اور محرم یہ دو مہینے یا تین مہینے آپ ان کے پاس نہیں آئے۔ سیدة زینب نے کہا کہ میں پوری طرح آپ سے ناامید ہوگئی اور اپنی چارپائی وہاں سے ہٹا کر رکھ دی۔ پھر سیدةزینبؓ فرماتی ہیں کہ اچانک میں ایک دن دوپہر کے وقت کھڑی اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سایہ مبارک میں پاتی ہوں کہ آپ میری طرف چلے آرہے ہیں۔ یہ واقعہ حجة الوداع کے سفر کا ہے۔ (مسند احمد ج۶۔ص۲۳۱)
اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات نے جنات وملائکہ کی پیدائش کے بعد ایک تیسری عقل والی مخلوق کو پیداکرناچاہا۔جس پر ملائکہ کہہ بیٹھے نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ یااللہ ہم تیری تسبیح وتقدیس بیان کرنے کے لیے کافی ہیں مگر اللہ تعالٰی فرماتا ہے اِ نِّیْ اَعْلَمُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ ان حکمتوں کو میں جانتاہوں تم نہیں جانتے ۔
جب ہم قرآن مجید پر غور کرتے ہیں تواس تیسری عقل والی مخلوق کے چارنام سامنے آتے ہیں ۔
(۱) ۔۔۔خلیفہ ۔۔۔اِ نِّیْ جَاعِلٌ فِی ا لْاَرْضِ خَلِیْفَۃً
(۲) ۔۔۔انسان ۔۔۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ
(۳)۔۔۔آدم ۔۔۔ یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ
(۴)۔۔۔بشر ۔۔۔ اِ نِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًامِّنْ طِیْنٍ
اچھی طرح سمجھیں :۔
یہ چاروں نام ایک ذات کے ہیں مختلف نام رکھنے سے شئ کی حقیقت وماہیت تبدیل نہیں ہوتی ۔مثلًابچے کو عربی میں ولد، اردو میں لڑکا، پنجابی میں منڈا، اور سرائیکی میں چھوکرا کہاجاتا ہے ۔
اب نام توالگ الگ ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے ۔
اسی طرح ،،خلیفہ ،،انسان ،، آدم،، بشر ،،نام مختلف ہیں مگر حقیقت ایک ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں اگر دیکھاجائے تو واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے جو عزت وتکریم حضرت انسان کو عطافرمائی ہے وہ کسی اورکوعطا نہیں فرمائی ۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ (اور البتہ تحقیق عزت دی ہم نے بنی آدم کو )
بعنوان دیگرملائکہ اور ابلیس کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اُسْجُدُوْالِاٰدَمَ
ہر ذی عقل سمجھ سکتاہے جس کے سامنے جھکاجائے اس کی شان زیادہ ہوتی ہے اور جو جھک جائے اس کی شان کم ہوتی ہے۔لہذاانسان مسجود ملائکہ ہونے کے سبب بھی مقام رفیع کا مالک بنا۔
ملائکہ۔۔۔آدم علیہ السلام کے سامنے جھک گئے تو مقبول بارگاہ بن گئے۔
ابلیس۔۔۔ آدم کے سامنے نہ جھکا تو راندہ(دهتکارہ ہوا) درگاہ بن گیا۔
اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَاءِکَۃَ اِِّ نیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ zفَاِذَ ا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سٰجِدِیْنَzفَسَجَدَ الْمَلَاءِکَۃُ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ zاِلَّااِبْلِیْسَِ اسْتَکْبَرََ وکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ zقَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَامَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ اِسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَz قَا لَ اَنَا خَیْرٌمِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ zقَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌzوَّاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ z (سورۃ ص پ ۲۳)
جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والاہوں سو جب میں اس کو بنا لوں اور اس میں اپنی طرف سے جان ڈال دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا پس سب فرشتو ں نے (آدم کو ) سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا اس نے تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا اللہ تعالیٰ نے فرمایااے ابلیس جس چیزکو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے سامنے سجدہ کرنے سے تجھے کیاچیز مانع ہوئی کیا تو غرور میں آ گیا یا تو بڑے مرتبہ والاہے کہنے لگا میں آدم سے بہتر ہوں آپ نے مجھکو آگ سے پیدا کیا اور اس کومٹی سے پیداکیا ارشاد ہوا آسمانوں سے نکل جا کیونکہ بیشک تو مردود ہوگیااور بیشک تجھ پر قیامت تک میری لعنت رہے گی ۔
اگر ابلیس کو آسمان سے نکالا جارہا ہے تو اس کی وجہ آدم کو میلی نظر سے دیکھنا ہے
اس سے با خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے رب العزت کے نزدیک کتنا بلند مقام ہے حضرت انسان کا۔
اشکال:۔اُسْجُدُوْ الِاٰدَََم میں سجدہ کا حکم ملائکہ کوہے ۔ابلیس کوتونہیں پھر ابلیس کو کیوں نکالا جارہاہے ؟
چونکہ ابلیس اس وقت مجلس میں موجودتھا اور نا معلوم مدت تک فرشتوں کے ساتھ تسبیح وتہلیل میں مشغول رہنے کے سبب ،وہ بھی اس حکم کا مخاطب تھا یہی وجہ ہے جب اللہ تعالی نے اس سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جوابًا یہ نہیں کہا کہ آ پ کا حکم ملائکہ کو تھا میں تو جن ہوں بلکہ اس نے انکار کی وجہ اپنے آپ کوآگ سے پیدا ہونا بیان کی۔
تخلیق آدم کے بعد سلسلہ توالد وتناسل شروع ہواکون سمجھدار اس حقیقت کاانکارکرسکتاہے؟ کہ انسان کی اولاد انسان ہی ہوگی
آدم کی اولاد آدم ہی ہو گی
خلیفہ کی اولاد خلیفہ ہی ہو گی
اور بشرکی اولاد بشرہی ہوگی۔
تو جب میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اولاد آدم ہونے کے سبب آدمی ہیں تو ماننا ہو گاکہ اولاد بشر ہونے کی وجہ سے آپ بشر ہیں ۔لیکن خوب توجہ سے سنیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاد آدم ہونے کے سبب تمام امور میں اپنے برابر سمجھنا پرلے درجہ کی بے ایمانی ہے اور گستاخی ہے
عقیدہ یہ ہونا چاہیئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو اولاد آدم ،حضرت عبد اللہ کے لخت جگر ،سیدہ آمنہ کے نور نظر، جناب عبدالمطلب کے پوتے، سیدہ حلیمہ کے دودھ پینے والے ،مکہ مکرمہ اورمدینہ طیبہ میں رہنے والے، قوم کے قریشی اور قبیلہ بنی ہاشم کے چشم وچراغ امام الانبیاء، خاتم النبیین، سرور کونین،رحمتہ للعالمین، سراج منیر، سید الانبیاء، سید الناس،سید المبارک،سید الشافع، خیر البشر، افضل الانبیاء، سید الاکرام، خطیب الانبیاء، خیر الانام، النور، نعمت اللہ، امام المرسلین، سید الابرار مگر اللہ تعالیٰ نے مقام وہ عطافرمایا۔جس کامقابلہ کوئی نوری، کوئی ناری ،کوئی خاکی، اولین وآخرین میں نہیں کر سکتا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حسن مجسم کے اپنے ارشادات عالیہ سنیں‘‘ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں۔
(ا)۔۔۔ اناسید ولداٰدم میں تما م اولاد آدم کاسردار ہوں ۔
(۲)۔۔۔ انادعوۃ جدی ابراہیم ورؤیا امی وبشری عیسی
میں دادا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ والدہ کے خوابوں کی تعبیراور حضرت مسیح کی بشارت ہوں ۔
(۳)۔۔۔ لیس فی اٰبائی من لدن اٰدم سفاح کلنانکاح
میرے آباء واجداد میں حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک زنا نہیں سب نکاح ہے ۔ (زرقانی جلدا صفحہ ۶۷)
(۴) سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں حضرت ؐنے فرمایاانماانابشرمثلکم سوائے اس کے نہیں میں بشر ہوں (مشکٰوۃ)
(۵)۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں قال انماانابشر مثلکم انسی کماتنسون فاذانسیت فذکرونی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں تم جیسابشرہوں میں بھی بھول جاتاہوں جیساکہ تم بھول جاتے ہو پس جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاددلایاکرو۔ (مشکوٰۃ)
(۶)۔۔۔ اناسید ولد اٰدم یو م القیمۃ ولافخرمیں یوم قیامت اولاد آدم کا سردار ہوں (ترمذی )
(۷)۔۔۔ انااول الناس خروجا اذابعثوا۔۔۔ وانااکرم ولد اٰدم علی ربی جب قیامت میں لوگ کھڑے ہوں گے تو میں سب انسانوں سے پہلے اٹھوں گااور میں عنداللہ تمام اولاد آدم سے زیادہ مکرم ہوں ۔
(۸)۔۔۔ انااتقی ولد اٰدم واکرمہم علی اللہ تعالٰی ولافخرمیں عنداللہ اولادآدم میں سب سے زیادہ پرہیزگاراورمکرم ہوں اوریہ فخر کی بات نہیں ۔
(۹)۔۔۔ سلواللہ لی الوسیلۃ قالوایارسو ل اللہ ومالوسیلۃقال اعلی درجۃ فی الجنۃ لاینالہ الارجل واحدوارجو اان اکون تم میرے لیے اللہ تعالی سے وسیلہ کی دعاکرو عرض کیایارسو ل اللہ وسیلہ کیاہے ؟ فرمایا جنت میں اعلی درجہ ہے اسے ایک ہی آدمی پائے گا ۔اور میں پر امید ہوں کہ وہ میں ہی ہوں ۔ (ترمذی )
(۱۰)۔۔۔ انامحمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ۔۔۔ میں محمد بن عبداللہ ابن عبدالمطلب ہوں ۔ (ترمذی )
ان دس احادیث مبارکہ میں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو اولاد آدم میں سے بتایا۔اب ذرا لفظ بشر کے متعلق سن لیں :۔
(۱)۔۔۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہم انماانا بشر اے اللہ میں بشر ہوں ۔
(۲) ۔۔۔حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہم انماانا بشر اے اللہ میں بشر ہوں ۔
(۳)۔۔۔حضرت جابرؓفرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہم انماانا بشر اے اللہ میں بشرہی تو ہوں ۔
(۴۔۔۔حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہم انی اتخذ عندک عہدالن تخلفنیہ فانماانابشر اے اللہ میں نے آپ سے عہد لے رکھاہے آپ اس کے خلاف نہ فرمائیں میں تو ایک بشرہوں ۔
(۵)۔۔۔اللہم انمامحمد بشر یغضب کمایغضب البشر اے اللہ محمدبھی بشرہے وہ غصہ میں بھی آتاہے جیسے انسان غصہ میں آتے ہیں ۔
(۶)۔۔۔انماانابشرسوائے اس کے نہیں میں بشر ہوں۔
(۷)۔۔۔ارضی کمایرضی البشر واغضب کمایغضب البشرمیں خوش ہوتاہوں جس طرح بشر خوش ہوتے ہیں ۔ اور میں ناراض ہوتاہوں جیسے بشر ناراض ہو تے ہیں۔
(۸)۔۔۔الایاایہاالناس فانماانابشرخبر دار اے لوگو میں بھی ایک بشر ہوں ۔
(مشکٰو ۃ صفحہ۵۶۸اور دیگر روایات مسلم شریف کتاب البر والصلۃ والادب میں ملاحظہ فرماویں )
بحمداللہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوا ۔کہ لفظ بشر بھی حضو رصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا۔
میرے دوستو:۔
اگر آپ کو کسی سے پیار ہوتو اس کانام اپنے طور پر پیارا اور پسندیدہ رکھیں گے یا غیر پسندیدہ ؟ ہر صاحب عقل جواب دے گا جناب پسندیدہ نام رکھیں گے ۔جب وہ پیارا ہے تو نام بھی پیارا تجویز کیا جائے گا
پھر میں گزارش کرتا ہوں کہ ملائکۃ اللہ اور ناری مخلوق ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات جس ذی عقل کو پیدا فرمارہے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہے ( اگر پیاری نہ ہوتی تو اس کے سر پر خلافت ونیابت وکرامت کاتاج نہ رکھتے )
لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو نام تجویز فرمائے ہیں وہ بھی عنداللہ پیارے ہیں
گویا :۔
٭۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کہا تو ۔۔۔۔۔۔ پیار سے کہا ۔
٭۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے آدم کہا تو ۔۔۔۔۔۔ پیار سے کہا ۔
٭۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے خلیفہ کہا تو ۔۔۔۔۔۔ پیار سے کہا ۔
٭۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے بشر کہا تو ۔۔۔۔۔۔ پیار سے کہا ۔
جس نام سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہے ۔۔۔ ہمیں اس سے نفرت کیوں ہے؟
تعصب کی عینک اتاریئے ۔ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو انسان آدمی اور بشر مخدوم کائنات ہے ۔ سورج کی تمازت، چاند کی لمعانیت ، ستاروں کی درخشانیت ،دریاؤں کا بہاؤ، زمین کا اگاؤ یہ سب انسان کی خدمت کے لیے ہیں ۔
دلائل :۔
(۱) وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاءِبَیْنِ(پارہ ۱۳ )
اور تمھارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہمیشہ چلنے پھرنیوالے ہیں
(۲) ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّوَالْبَحْرِ
اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے ستاروں کو بنایا تاکہ تم بر وبحر کے اندھیروں میں راستہ پاسکو ۔
(۳) سَخَّرَ لَکُمْ مَّافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ
آسمانوں اور زمین جو کچھ ہے ان سب کو اپنی طرف سے تمھارے لیے مسخر کردیا ۔
(۴)ھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْکُلُوْ ا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا (پارہ ۱۴)
اللہ وہ ہے جنہوں نے دریا کو مسخر کیا تاکہ اس سے تم تازہ گوشت کھاؤ
(۵) بلکہ ملائکۃ اللہ مؤمن انسان کے لیے دعا کرتے ہیں
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْ مِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا ( پارہ ۲۴ )
جو فرشتے عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہیں یا وہ جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں
(۶) ہُوَ ا لَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِمْیُوْنَ (پارہ ۱۴)
اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا تمہارے لیے اس میں پیناہے اوراس سے درخت ہیں جن میں چراتے ہو ۔
(۷)وَالْمَلآءِکَۃُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْ نَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ (پارہ ۲۵)
اور ملائکہ اپنے رب کی تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے طلب بخشش کرتے ہیں۔
(۸)یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ (پارہ ۱۴)
اس پانی کے ذریعہ اگتی ہے تمہارے لیے کھیتی زیتون کھجوریں انگور اور ہمہ قسمی پھل
(۹)وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَالَکُمْ فِیْہَادِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْکُلُوْنَ (پ ۱۴)
اور پیدا فرمائے تمہارے لیے چوپائے ان میں تمہارلیے گرم لباس ہے اور منافع ہیں اور ان میں بعضوں کو تم کھاتے ہو۔
جب آپ نے یہ سن لیا کہ یہ سب کچھ انسان کیلئے ہے ۔تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے آخر انسان کس کے لیے ہے ؟ تو جوابًا گذارش کروں گا انسان رحمان کیلئے ہے ۔
وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
اور میں نے نہیں پیدا کیا انسانوں اور جنات کو مگر اپنی عبادت کیلیے ۔
"کھیتیاں سرسبز ہیں تیری غذا کے واسطے
چاند سورج اور ستارے ہیں ضیاء کے واسطے
بروبحرارض وسماء ماء شماکے واسطے
سب جہاں تیرے لیے اورتو خدا کے واسطے"
اگر ان تمام دلائل وبراہین کے باوجود بھی کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نور کہے تو اس کا علاج سوائے دعائے ہدایت کرنے کے اور کچھ نہیں-
ان احباب کو دعوت فکر ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور من نور اللہ کہنے پر بضد ہیں آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکیسا نور مانتے ہیں ؟ اگر جواب ہو کہ اللہ جیسا نور مانتے ہیں تو یہ شرک ہے اگر جواب ہو کہ ملائکہ جیسا نور مانتے ہیں تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی ہے کیونکہ ملائکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس کے خادم ہیں۔
اور اگر کہا جائے کہ قرآن جیسا نور مانتے ہیں میں گذارش کروں گا یہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ قرآن قدیم ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات حادث ہے-
"تیرے نقش قدم کے نور سے دنیا ہوئی روشن
ترے مہر کرم نے بخشی ہر ذرے کو تابانی"
اگر بالفرض حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو حقیقی طور پر نور مان لیا جائے تو پھر سوچنا ہوگا کہ ۔۔۔ نور تو کھاتا نہیں ۔۔۔ پیتا نہیں ۔۔۔ سوتا نہیں ۔۔۔ شادی نہیں کرتا ۔۔۔ بچے نہیں جنتا ۔۔۔ اس کے ماں باپ نہیں ہوتے ۔۔۔ برادری نہیں ہوتی ۔
اگر کوئی عزیز ، بزرگ میرے ان معروضات کو غلط سمجھے تو اسے بتانا ہوگا سیدنا جبرائیل ومیکائیل واسرافیل وعزرائیل علیہم السلام کھانے پینے میں کیا پسند فرماتے ہیں؟ دن رات میں کتنا سوتے ہیں ؟ ان کی کتنی بیویاں ہیں ؟اولاد کتنی ہے ؟ان کے ماں باپ کے اسماء مبارکہ کیا ہیں؟وہ کس قوم وبرادری سے تعلق رکھتے ہیں ؟ بخلاف اس کے جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اطہر واجمل کو دیکھتا ہوں
(۱) ۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے میں کدو کی سبزی پسند فرماتے ہیں  (متفق علیہ)
۔
(۲) ۔۔۔ پینے میں تین سانس لیتے تھے :
کان رسول اللہ ﷺ ینفس فی الشراب ثلاثا (متفق علیہ )

(۳)۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو کراٹھے تو فرمایا
تنام عینا ی ولا ینام قلبی
میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار رہتا ہے ۔
(۴)۔۔۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات نے حضرت خدیجہ ،سیدہ زینب ،سیدہ عائشہ ،سیدہ حفصہ ،سیدہ میمونہ ،سیدہ ام سلمہ ،سیدہ جویریہ ،سیدہ ام حبیبہ ،سیدہ زینب بنت جحش ،سیدہ صفیہ صلواۃ اللہ علہیم اجمعین سے شادی فرمائی۔
(۵) ۔۔۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تین صاحبزادگان ہیں
سیدہ زینب ۔سیدہ رقیہ ۔سیدہ ام کلثوم ۔سیدہ فاطمہ ۔صاحبزادگان میں حضرت ابراہیم حضرت قاسم ۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہم اجمعین
(۶) ۔۔۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے قریشی اور قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں ۔
(۷) ۔۔۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین ہیں تب ہی تو میلاد مصطفی ؐبیان کیا جاتا ہے
جب قرآن وحدیث اور عقلی دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار ذات کے انسان ہیں ،بشر ہیں ۔ اور پھر بھی میں نہ مانوں کی رٹ لگائی جائے تو اس کا کیا علاج ہے ؟ اگر ان تمام دلائل قاہرہ اور براہین قاطعہ کے باوجود بھی کوئی بزرگ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نور مانتا ہے تو اس کی خدمت میں بصد آداب عرض کروں گا حسنین کریمین کا نانا کسے بنائے گا؟ بنات طاہرات کا ابو کسے مانے گا ؟ کیونکہ نور کی تو اولاد نہیں ہوتی ۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ سابقہ اقوام انبیاء کو بشر اور انسان تسلیم کرتی تھیں مگر نبی ماننے کو تیار نہ تھیں بلکہ ان کے ذہن کے مطابق انبیاء فرشتے ہونے چاہیئیں ۔ اور آج کی قوم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانتے ہیں مگر بشر وانسان نہیں مانتی سنیں قرآن کریم ۔
قوم نوح علیہ السلام :۔
کہتے ہیں وَلَوْشَآءَ اللّٰہُ لَاَ نْزَلَ مَلآءِکَۃً (پارہ ۱۸)
اگراللہ تعالیٰ رسو ل بھیجنا چاہتے تو فرشتوں کو بھیجتے ۔
قوم عادو ثمود:۔
قَالُوْالَوْشَآءَ رَبُّنَالَاَنْزَلَ مَلآءِکَۃً فَاِنَّابِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ
جواب دیا اگر ہمارا پروردگار ( رسول بھیجنا ) چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا پس ہم اس کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ۔
کفار مکہ :۔
(۱) ۔۔۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا لَوْلَآاُنْزِلَ عَلَیْنَاالْمَلآءِکَۃُ (پارہ ۱۹)
اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آئے ۔
(۲) ۔۔۔ قَالُوْامَالِ ھٰذَاالرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَ سْوَاقِ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک’‘ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا (پارہ ۱۸)
کہتے تھے اس رسول کو کیا ہوا کہ یہ( عام انسانوں کی طرح ) کھانا کھاتا ہے بازاروں میں چلتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ نہیں بھیجا گیا کہ وہ ان کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا ۔
ان آیات کریمہ سے روز روشن کی طرح واضح ہو ا کہ ۔۔۔ کل کے حضرات انبیاء کرام کو انسان و بشر تو مانتے تھے مگر نبی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے اور آج کے محب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تو تسلیم کرتے ہیں مگر انسان وبشر نہیں مانتے اور اسے (نعوذ باللہ ) محبت نبوی کا نام دیا جاتا ہے  اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :
اِنَّاعَرَ ضْنَا الْاَمَانَۃَعَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَاوَحَمَلَہَاالْاِنْسَانُ
ہم نے اپنی امانت آسمانوں زمین اور پہاڑوں پر پیش کی مگر سب نے اس (بارامانت )کے اٹھانے سے انکار کردیااورڈرگئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا ۔
غور فرمائیں :۔کتنارفیع مقام ہے حضرت انسان کا؟مگر ہم ہیں کہ غلط پروپیگنڈہ کاشکار ہو کر انسانیت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ارض وسماء کہاں تیری وسعتوں کوپاسکے
میراہی اک دل ہے جہاں تو سما سکے
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو بشرو انسان نہ ماننے کی میرے ذہن میں دو وجہیں ہیں ۔
(۱) ۔۔۔ ہم مقام انسان وبشر کو سمجھ نہیں پائے ۔ہم نے مقام انسان کو حقیر سمجھا اور نور کو اعلیٰ وارفع سمجھا ۔بایں وجہ عقیدہ بنایا کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اشرف المخلوقات ہیں لہذا وہ نور ہیں بشر نہیں ۔
حالانکہ میرے دوستو یہ محض ناسمجھی کی بات ہے ۔اگر تھوڑی سی توجہ کی جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان ہی افضل المخلوقات ہے۔
(۱) ۔۔۔تمام اہل اسلام کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات میں سے مقام نبوت حاصل کرنے والی مخلوق بلندوبالامرتبہ کی حامل ہے ۔اب ذرا قرآن کے دروازہ پر چلتے ہیں کہ نبوت کس مخلو ق کو عطاء کی گئی تاکہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو ۔
ارشاد خداوندی ہے:۔
(۱)۔۔۔مَاکَا نَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْ تِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْ لَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًالِّیْ مِنْ دُ وْنِ اللّٰہِ (پارہ ۳)
کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالی اس کو کتاب اور فہم اور نبوت عطافرمائیں پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ اللہ کو چھوڑ کرمیرے بندے ہو جاؤ لیکن (کہیگا)تم لوگ اللہ والے بن جاؤ ۔

(۳)۔۔۔وَلَقَدْ اَرْسَلْنَانُوْحًاوَّ اِبْرَاہِیْمَ وَجَعَلْنَافِیْ ذُرِّیَّتِہِمَاالنُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ(پارہ ۲۷)
البتہ تحقیق نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو پیغمبربناکر بھیجااور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اورکتاب جاری کی۔
(۴)۔۔۔اُولٰٓءِکَ الَّذِ یْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرَِّیَّۃِ اٰدَمَ (پارہ ۱۶)
اولاد آدم سے یہ انبیاء علیہم السلام وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا۔
(۵)۔۔۔وَمَآاَرْْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلَّارِجَالًانُّوْحِیْ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی ۔(پارہ ۱۳)
اور ہم نے آپ سے پہلے مختلف بستیوں میں جتنے رسول بھیجے وہ سب آدمی تھے
ان تمام آیات قرآنی سے دوپہر کے سورج کی طرح میرا مدعٰی نکھر کر سامنے آ گیاکہ نبوت حصہ ہی انسان وبشر کاہے ۔لہذایہ ماننا پڑے گا کہ انسان وبشر کی شان نور سے زیادہ ہے ۔دوسری وجہ :۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے انکارکی یہ سمجھ آتی ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر تصور کرلیا ۔یااس طرح عرض کروں تو زیادہ مناسب ہو گاکہ ہم نے اپنے آپ کو بھی بشر و انسان سمجھ لیا ۔ اور اپنے حالات دیکھ کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کر بیٹھے ۔
یادرکھیں :۔
ہم تو انسانی لباس میں حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ہم تو انسانیت کے چہرہ پر بد نماداغ ہیں ۔ہم تو ننگ انسانیت میں انسانیت کی توہین ہیں ۔کیاانسان اسی طرح ہوتے ہیں ؟جس سے کسی کی عزت و مال محفوظ نہ ہو حسد وبغض وکینہ کامجسم ہو قوت برداشت سے عاری ہو دجل فریب مزاج بن گیاہو نہیں نہیں ۔ہرگز نہیں ۔خلاصہ کلام :۔
نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم جیسے بشر ہیں ۔اور نہ نور کامقام بشر سے زیادہ ۔
آدمیت رازآدم علیہ السلام ابتداء
آدمیت راز احمد علیہ السلام انتہاء
لہذاان مغالطوں میں آکر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کاانکارنہیں کرناچاہیئے ۔
دفع وہم :۔
بعض بھولے دوست کہہ بیٹھتے ہیں کہ آسمان تو مقام ہے نوریوں کا ۔اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے تو پھر آسمانوں پر کیسے گئے ؛
واقعی آسمان نوریوں کامقام ہے لیکن جس طرح سیدنا جبرائیل علیہ السلام سیدنا عزرائیل علیہ السلام نور ہونے کے باوجود حکم خدا وندی سے زمین پر آسکتے ہیں تو اسی طرح سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی امر خدا وندی سے آسمانوں پر جاسکتے ہیں ۔
نہایت سادہ سی بات :۔
آپ اور ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے قائل ہیں کہ اسی جسد عنصری کے ساتھ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو سدرۃ المنتہی سے بھی اوپر لے جایا گیا۔
نیز احادیث میں آتا ہے کہ حضرت سیدنا جبرائیل امین نے سیدنا آدم علیہ السلام سے تعارف کراتے ہوئے عرض کی ھذا ابوک آدم ۔۔۔یہ آپ کے ابو آدم علیہ السلام ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا تو آدم علیہ السلام نے جواباً فرمایا
مرحبا بالا بن الصالح والنبی الصالحاے صالح نبی اور بیٹے خوش آمدید
پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مختلف آسمانوں پر سیدنا یوسف، سیدنا ادریس، سیدنا ہارون،سیدنا موسی علیہ السلام سے تعارف کرایا تو انہوں نے بھی مرحبا بالا خ الصالح والنبی الصالح کہہ کر خوش آمدید کہا
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تعارف کے بعد انہوں نے بھی مرحبا لابن الصالح والنبی الصالح کہہ کر جواب دیا ۔
میرے نہایت واجب الا حترام بھائیو!
اس حدیث مبارکہ میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبیٹا اور بھائی کہہ کر بلایا جارہا ہے ۔سو معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبا ء واجدا د والے ہیں جبکہ نور کے آباء واجداد نہیں ہوتے ۔
قابل غور !
آپ کو ایک بار پھر قرآن کریم کے در اقدس پر لے چلتا ہوں کہ بزبان قرآن امام الانبیاء سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار اسماء گرامی ( انسان ۔خلیفہ ۔آدم ۔بشر ) میں سے اپنے لیے کون سا نام مبارک ذکر فرمایا ۔۔۔ آیات بینات سے قبل ذہن نشین فرمالیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے لفظ بشر ارشاد فرمایا
(۱)۔۔۔ قُلْ اِنَّمَااَنَا بَشَرٌ
فرمادیجیے میں بشر ہوں ۔
(۲) ۔۔۔ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًارَّسُوْلًا
نہیں ہوں میں مگربشر رسول۔ ۔
سوال یہ ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے منکر کیوں ہوئے؟یہ اس لیے کیونکہ انکو بشریت حقیر لگتی ہے مگرمیں یہاں عرض کردوں کہ بشریت کو سب سے پہلے جس نے حقیر جانا وہ ابلیس تھا۔ جب اسکو سجدے کا حکم ہوا تو وہ بولا۔
اَنَاخَیْرٌمِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍوَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ
(میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسکو مٹی سے پیدا کیا )
(سورۃ الاعراف آیت نمبر 12)
اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 95 میں فرماتا ہے:
قُلْ لَّوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَاعَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا o
(آپ ان لوگوں سے کہئے اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ان کے لئے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے )

یعنی زمین پر تو انسان آباد ہیں پھر ان میں رسول بھی انسان ہی ہونا چاہئے۔ اگر زمین میں فرشتے آباد ہوتے تو ان میں فرشتے ہی رسول بنا کر بھیجے جاتے۔
یہ اصل میں اس بات پر تعجب تھا کہ ہمارے جیسا ہی آدمی رسول کیسے ہو سکتا ہے۔
گوکُفارِ مکہ اور اُس وقت کی جملہ عوام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے قائل تھے۔ کسی ایک نے بھی ان کی بشریت کا انکار نہ کیا بلکہ ان کی بشریت پر سب کا اتفاق تھا ۔ ہاں اُنکا اعتراض یہ تھا کہ بشرکیوں اور کیسے نبی ہوگا اور آج کل کے کلمہ گو ان کی نبوت اور رسالت کے منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے بشریت سے انکاری ہیں تو کیا نبی اور رسول ہونے کی وجہ سے ہی وہ بشریت سے نکل جائیں گے اگر ایسا ہوتا تو قرآن اس کی صراحت کردیتا ۔
احادیث سے دلیل
صحیح بخاری شریف، کتاب الدعوات حدیث نمبر 6316اور صحیح مسلم شریف ،کتاب صلاۃِ المسافرین حدیث نمبر 1788(ترقیم)میں سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِیْ نُوْرًا ، وَفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا، وَفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا ، وَعَنْ یَمِیْنِیْ نُوْرًا، وَعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا، وَفَوْقِیْ نُوْرًا، وَتَحْتِیْ نُوْرًا، وَاَمَامِیْ نُوْرًا، وَخَلْفِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا
اے اللہ ! میرے دل میں نور پیدا کر، میری نظر میں نور پیدا کر، میرے کان میں نور پیدا کر، میرے دائیں طرف نور پیدا کر، میرے بائیں طرف نور پیدا کر، میرے اوپر نور پیدا کر، میرے نیچے نور پیدا کر، میرے آگے نور پیدا کر ، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔
جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہتے ہیں ان کی مندرجہ بالا دُعا کے بارے میں کیارائے ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نورتھے تو یہ دعا مانگنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین بھی نورانی ہونے چاہئیے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد  بھی نورانی ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ انسانی نسل سے نور کی نسل کیسے پیدا ہوگی؟ اسی طرح نورانی نسل سے انسانی نسل کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟
یا تو کہا جائے کہ آپ نے جنم ہی نہیں لیا اور آپ آسمان سے آئے ہیں اور اہل بیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہی نہیں ہے تب آپ نورانی ہو سکتے ہیں یا پھر کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہی نہیں تھے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین اور اولاد ممکن ہیں۔
اول تو اہل شرک نے صرف یہی عقیدہ ظاہر کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں۔ پھر جب بات نہ بنی تو جُرأت کر کے یہ کہہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں اللہ کے نور (نور من نور اللہ) ہیں (نعوذباللہ)
یہود نے عُزیر علیہ السلام اور نصاری نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا۔ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوا اور سختی سے اس عقیدے کی تردیدفرمائی۔ چنانچہ :
سورۃ مریم آیت نمبر 88 سے آیت نمبر 92 تک فرمایا:

وَقَالُوااتَّخَذَالرَّحْمٰنُ وَلَدًاo لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًااِدًّاo تَکَادُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّالْجِبَالُ ھَدًّاo اَنْ دَعَوْالِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا o وَمَایَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاo 

(ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمان نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔ یقینا تم بہت بُری اور بھاری چیز لائے ہو۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑوں کے ریزے ریزے ہو جائیں کہ تم اللہ رحمان کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہو۔ شانِ رحمن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔)
’’جس وقت حق تعالیٰ نے آدم صفی اللہ کو پیدا کیا نور محمد مصطفیٰ نے حضرت آدم ؑ کی پیشانی پر ظہور کیا ۔۔۔۔۔ اس کے بعد نسلًا بہ نسلًا عبد المناف تک پہونچا۔۔۔۔تب عبداللہ اپنے گھر میں جا کے اپنی بیبی آمنہؓ سے ہمبستر ہوئے تب وہ نور عبداللہ سے منتقل ہوکر آمنہؓ کے رحم میں آیا اور آمنہ ؓ حضرتؐ کی والدہ حاملہ ہوئیں ‘‘
(قصص الانبیاء ،صفحہ 342 مولوی غلام نبی ابن عنایت اللہ کمر لی ، فرید بُکڈپو( پرائیویٹ) لمٹیڈ دہلی)
اب آدم علیہ السلام سے پہلے روح محمدی کہاں تھی؟ اسکے بارے میں بھی سنئے!کہتا ہے ’’۔۔۔۔موافق اس حدیث کے اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ وَالْخَلْقُ کُلُّھُمْ مِنْ نُوْرِیْ ترجمہ حضرتؐ نے فرمایا میں پیدا ہوا ہوں اللہ کے نور سے اور میرے نور سے ساری مخلوق ہے‘‘(صفحہ 7)
’’حق تعالیٰ نے اس نور کو چار قسم کرکے ایک قسم سے عرش کو پیدا کیا دوسرے قسم سے قلم، تیسرے قسم سے بہشت اور چوتھے قسم سے عالم ارواح اور ساری مخلوق کوخلق کیا اور ان چار میں سے چار قسم نکال کے تین قسموں سے عقل اور شرم اور عشق پیدا کیا اور قسم اول سے عزیز و مکرم ترمیرے تیئن پیدا کیا کہ رسول اسکا ہوں‘‘(یعنی میری ذات پیدا کی)(صفحہ 6)
گویا انکے نزدیک یہ کائنات اصل میں اللہ کا نور ہے۔ یا اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کا نور آدم سے حوا (علیہما السلام) کے رحم مادر میں منتقل ہوا پھر وہ رحم مادر میں نو ماہ رہ کر جنم لیتا ہے پھر اس بچہ میں وہ نور منتقل ہوتا ہے اسی طرح یہ نور نسل درنسل بذریعہ مباشرت عورتوں کے ارحام میں داخل ہوتا گیا یہاں تک کہ عبداللہ سے آمنہ میں داخل ہو ا پھر جنم لیا پھر (اللہ کے ایک حصے نے)کفار و مشرکین کے مظالم سہے، پھر ان پر موت آئی اور پھر وہ وہیں عرش پر جاکر اس ذات سے جاملے جس سے نکالے گئے تھے۔(نعوذبااللہ)
یہی عقیدہ نصارٰی کا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’یہود ونصاریٰ تاریخ کے آئینے میں‘‘ کے صفحہ ۳۵۸ پر رقم طراز ہیں : (یہ کتاب دراصل عربی میں ’’ھدایۃ الحیاری فی اجوبۃ الیھود والنصارٰی ‘‘ کے نام سے چھپی ہے۔ جسکا اردو ترجمہ الدار السلفیہ ممبئی (دار العلم ممبئی) نے ’’مولانا زبیر احمد سلفی کے قلم سے شائع کیا ہے)۔
’’غرضیکہ ان (نصاریٰ)کا کہنا ہے کہ جو آسمان وزمین کا خالق ہے اسی کو مریم نے جَنا اور نوماہ پیٹ میں رکھا پھر اس نے دودھ پیا اور چھوڑا، کھانا کھایا، پانی پیا، دیگر حاجات پوری کیں۔ پھر گرفتار کیا گیا، سولی دیا گیا، اسی سے باندھا گیا، اور اس کے ہاتھوں پر کیلیں نصب کی گئیں، یہی اللہ، ابن اللہ اور کلمۃُ اللہ ہے جس کو تمام لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘‘۔ (نعوذ باللہ)
دور حاضر کا ایک مشرک اسی عقیدے کی عکاسی کرتے ہوئے کہتا ہے:
" وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر
  اُتر پڑا مدینے میں  مصطفی ہو کر"
در اصل انکا عقیدہ ایک ملی جلی سرکار کی طرح ہے۔ جہاں چند عقائد یہودیت سے، چند نصرانیت سے ، چند ہندو دھرم سے اور باقی دوسرے ادیان سے جمع کیے ہوئے ہیں ۔
دوسری طرف یہودی و عسائی بهی حضرت عیسٰی اور حضرت عزیر علیہ السلام کو بشر کے ساتھ ساتھ خدا کا "بیٹا" مانتے ہیں جس طرح مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کے ساتھ ساتھ"نور"مانتے ہیں-مسلمانوں اور یہودی و عیسائی کے مابین ماسوائے لفظ کی تبدیلی کے علاوہ عقائد میں کوئی خاص فرق نہیں کیونکہ مسلمان بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام اور مرتبہ و فضیلت بڑهانے کی وجہ سے نور کہتے ہیں-نہ کہ اللہ تعالٰی کے نور کا کوئی ٹکڑا-اسی طرح یہودی و عیسائی بهی حضرت عیسٰی و عزیر علیہ السلام کی عزت و احترام اور مرتبہ و فضیلت کو بڑهانے کی وجہ سے خدا کا بیٹا مانتے ہیں-نہ کہ حقیقی بیٹا-
    یہودی گروہ:
   * اس بات پر ہم  عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”عزیر“ نبی خدا کے بیٹے ہیں، کتاب ”توریت “مکمل طور پر نیست و نابود ہو چکی تھی اور کوئی اس کو زندہ نہیں کرسکتا تھا، جناب عزیر  علیہ السلام نے اس کو زندہ کیا، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ جناب عزیر علیہ السلام کا خدا کا بیٹا ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی ولادت ملاپ سے ہوئی، کیونکہ یہ معنی مراد لینا کفر و جہل کے مترادف ہے، بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام ہے،جیسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ایک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے کہتے ہیں: ”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، یہ بات تو معلوم ہے کہ ولادت کے لحاظ سے بیٹا نہیں ہے کیونکہ شاگرد ،استاد کی اولاد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے، اسی طرح خداوندعالم نے جناب عزیر علیہ السلام کی شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا کہا ہے، اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو ”خدا کا بیٹا“ کہتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ عزیر علیہ السلام (نعوذ باللہ)ِ خداوندی کا کوئی حصہ یا حقیقی بیٹا ہیں،
عیسائی گروہ:
  *ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں، اور خدا ان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے، خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کو خاص امتیازات سے نوازا ہے، عجیب و غریب معجزات اور دوسری چیزیں انھیں دی ہیں، اسی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے، اور یہ خدا کا بیٹا ہونا شرافت اور احترام کی وجہ سے ہے-
اس کا یہ مطلب نہیں کہ عیسی علیہ السلام (نعوذ باللہ)ِ خداوندی کا کوئی حصہ یا حقیقی بیٹا ہیں،
بعض مسلمان گروہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں-زمین و آسمان سب کچھ اللہ کے نور سے پیدا ہوا ہے-اور سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا نور اپنے نور سے پیدا کیا-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو اتنا مطہر بنا لیا تها کہ نور خالص بن گئے-
اس کا یہ مطلب نہیں کہ نورِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) نعوذ باللہ! نورِ خداوندی کا کوئی حصہ ہے،
حملہ نمبر ۱:۔ ا بو جہل بھی تو بشر تھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل ہی کی طرح بشر تھے؟
دفاع:۔ یہ اعتراض میں نے خود ایک مشرک کی تقریر سے سنا ۔اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ ان مشرکین (جن میں ابولہب ، ابوجہل وغیرہ بھی شامل تھے۔) سے کہہ دیجئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح ایک بشرہوں۔ (سورۃ الکہف آیت نمبر 110)۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ابوجہل سے تشبیہ دینے کی جُرات تو میں نہیں کر سکتا مگر یہاں یہ بات کہہ دوں کہ ابوجہل کی دو آنکھیں، دوکان، دوہاتھ دو پیر ایک سر وغیرہ، اور اس مقرر کی بھی (جو یہ اعتراض کرتا ہے) دو آنکھیں، دوکان، دوہاتھ، دو پیر ایک سر وغیرہ ۔ گویا دونوں جسمانی طور پر برابر ہیں۔ پھر اعتقادی ، عقلی ، فعلی بھی تو ابوجہل ہی کا چیلہ ہے۔
اب میں اہل شرک سے پوچھتا ہوں کہ پھر صحابہ کرام کی بشریت کے بارے میں آپ لوگوں کی کیارائے ہے۔ اگروہ بشر تھے تو کیا وہ ابوجہل کی طرح بشر تھے۔ پھر کس کس کو بشریت کے لباس سے نکالو گے؟۔
حملہ نمبر ۲: کیا سورۃ المائدہ آیت نمبر 15 :  قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے) میں نور سے مراد نبی ہے؟

دفاع:۔ اس اعتراض کے جواب سے پہلے ہم عرض کرے چلیں کہ یہ معترض کی جہالت کا بیّن ثبوت ہے۔ اس طرح قرآن سمجھنا سلف صالحین کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اگر یہی طریقہ اپنایا جائے تو قرآن کا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
اللہ تعالیٰ سورۃ الماعون آیت نمبر 4میں فرماتا ہے:
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o
{پس نماز پڑھنے والوں کے لئے ویل (خرابی)ہے}
دوسری جگہ سورۃ النسا آیت نمبر 43 میں فرمایا :

لَا تَقْرَبُواالصَّلٰوۃَ
{نماز کے قریب بھی نہ پھٹکو}
ان دونوں آیتوں سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنا ثواب نہیں بلکہ گناہ اور باعث عذاب ہے۔مگر یہ اور اس قسم کی تفہیم تحریف کہلاتی ہے۔ جسکا ارتکاب بنی اسرائیل نے کیا اور لعنت کے مستحق ہوگئے۔

اب ان آیات کے مفہوم پر غور کریں ۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الماعون آیت نمبر 4  اور 5 میں فرماتا ہے۔

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ o

{پس ویل ہے (ان) نماز پڑھنے والوں پر جو اپنی نمازوں کے ساتھ غفلت برتتے ہیں}
معلوم ہوا کہ یہ نمازیوں کی دوسری قسم ہے۔
اسی طرح فرمایا : لَاتَقْرَبُواالصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ {نماز کے قریب بھی نہ پھٹکو اس حال میں کہ تم نشے میں ہو یہاں تک کہ تم وہ کچھ سمجھ سکو جو کہہ رہے ہو…}
کہنے کامطلب یہ ہے کہ قرآن سے کوئی دلیل لی جائے تو مکمل لی جائے ورنہ اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔
اب اصل موضوع پر غور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے‘‘۔
پھر اگلی آیت میں فرمایا :
یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ …الخ

{یعنی ’’جس‘‘کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے طلب گار ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے}
اس آیت میں ’’یَھْدِی‘‘ کے بعد ’’بِہِ‘‘ کے معنی ہے ’’اس (واحد) سے‘‘۔ پہلے نور اور پھر کتاب کا ذکر کرے ’’بِہِ‘‘ کی ضمیر استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں در اصل ایک ہی چیز ہیں۔ ’’نور اور کتاب کوئی الگ الگ چیز نہیں۔ اگر یہ الگ الگ دو ہوتے تو بِہِ کے بجائے ’’بِھِمَا‘‘ ہوتا (یعنی ان دو سے) ثابت ہوا کہ نور سے مراد کتاب ہی ہے نہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
  اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت نمبر 91 میں ’’توراۃ‘‘ کو بھی ’’نور‘‘ کہا ہے۔
قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّھُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَھَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا…الخ
( آپ یہ کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے۔ جس کی کیفیت یہ ہے کہ  ’’وہ نور ہے‘‘ اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت جس کو تم نے متفرق کر کے رکها جو تم دکهاتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو)
(اسی طرح اسلام کو بھی نور کہا گیا
اللہ نے سورۃ النور آیت نمبر 35 میں فرمایا :
یِھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ
{اللہ تعالیٰ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے}
ثابت ہو گیا کہ نور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہیں بلکہ سِیاق وسباق کے اعتبار سے ہی معنی کیا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام'
نور مِن نور اللہ کا عقیدہ رکھنے والا کُھلم کھلا گمراہ ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزخرف آیت نمبر 15  میں ارشاد فرماتا ہے:
وَجَعَلُوْالَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا اِنَّ الاِْ نْسَانَ لَکَفُوْرٌمُّبِیْنٌ o
{اور انہوں نے اللہ کے بندوں میں سے اسکا حصَّہ (ٹکڑا ) قرار دیا ۔ بیشک یہ انسان کھلم کُھلا کافر ہے}
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ قرآن اصل میں نور ہدایت ہے اور اسکا معلم بھی ہدایت کے نور سے مالا مال ہے۔ آپ بشر توہیں مگر افضلُ البشر اور سیدُ البشر۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ’’اَنَا سَیْدُ اَوْلَادِ آدَم ‘‘ (میں اولاد آدم کا سردار ہوں)
اہل الشرک نور من نورِ اللہ کو ثابت کرنے میں جس قدر بھی احادیث لائیں گے یاتو ان کی کوئی اصل ہی نہ ہوگی یا پھر وہ ان میں تحریف و تاویل کر رہے ہونگے۔قارئین کرام سے گذارش ہے کہ آپ کے پاس جو بھی اس طرح کی کوئی حدیث لائے گا تو آپ اس کی خوب جانچ پڑتال کریں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات آیت نمبر 6 میں فرماتا ہے:  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا … الخ {اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر (حدیث ) لے کر آئے تو اس کی خوب چھان بین کرو}
یا د رہے یہ عقیدہ کا مسئلہ ہے اگر اس میں کوئی خامی رہی تو کَل محشر میں کوئی عذر قبول نہ کیا جائے گا۔ابھی زندگی ہے میرے بھائی! تحقیق کرلے۔بناسپتی مولویوں کی خوش بیانی پر نہ جا۔اُنہیں تو پیٹ کی پریشانی ہے،لیکن تیرے توعقیدے کا مسئلہ ہے۔ اگر تجھے جنت مطلوب ہے تو آو قرآن کی طرف، آو مصطفٰیﷺکے فرمان کی طرف۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس شرک کی خباثت سے بچائے… آمین
امید کرتا ہوں اب مقام بشریت کو نفرت نہیں
عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا
……٭٭٭……
جاری ہے.....
مرد و خواتین کیلئے علیحدہ گروپس موجود ہیں
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...