Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 166

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر166)
علامہ سبکی نے بھی یہی بات کی تھی۔ ان کا ردّ کرتے ہوئے ان کے ایک ہم عصر عالم، حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م :۷۰۴۔ ۷۴۴ ھ) فرماتے ہیں : من فھم ھذا من سلف الأمة وأئمة الإسلام، فاذكر لنا عن رجل واحد من الصحابة أو التابعين أو تابعي التابعين أو الأئمة الأربعة، أو غيرھم من الأئمة وأھل الحديث والتفسير أنه فھم العموم بالمعني الذي ذكرته، أو عمل به أو أرشد إليه، فدعواك علي العلماء بطريق العموم ھذا الفھم دعوي باطلة ظاھرة البطلان”اسلاف امت اور ائمہ اسلام میں سے کس نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے؟ ہمیں صحابہ کرام، تابعین عطام، تبع تابعین، ائمہ اربعہ یا اہل حدیث و تفسیر میں سے کسی ایک شخص سے بھی دکھا دو کہ اس نے اس آیت سے وہ عموم سمجھا ہو جو تم نے ذکر کیا ہے یا اس نے اس پر عمل کیا ہو یا اس کی طرف رہنمائی کی ہو۔ تمہارا سارے علمائے کرام کے بارے میں اس آیت میں یہ عموم سمجھنے کا دعویٰ کرنا صریح باطل اور جھوٹا دعویٰ ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 321)رہی بدوی والی حکایت تو اسے علمائے کرام نے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ذکر کیا ہے، نہ کہ حجت اور دلیل بنانے کے لیے۔ بہت سے علمائے کرام نے اس من گھڑت قصے کی قلعی کھولی ہے۔ اس کی حقیقت اسی مضمون میں واضح کر دی گئی ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔ ۷۲۸ ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں : فدعا ھم سبحانه بعد ما فعلوه من النفاق إلي التوبة، وھذا من كمال رحمته بعباده يأمرھم قبل المعصية بالطاعة، وبعد المعصية بالاستغفار، وھو رحيم بھيم في كلا الأمرين۔۔۔ فأما مجيء الإنسان إلى الرسول عند قبره وقوله استغفر لي أو سل لي ربك، أو ادعو لي، أو قوله في مغيبه : يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ادع لي، أو استغفر لي، أو سل لي ربك كذا وكذا، فهذا لا أصل له، ولم يأمر الله بذلك، ولا فعله واحد من سلف الأمة المعروفين في القرون الثلاثة، ولا كان ذلك معروفا بينهم ولو كان هذا مما يستحب لكان السلف يفعلون ذلك، ولكان ذلك معروفا فيهم بل مشهورا بينهم ومنقولا عنهم، فإن مثل هذا إذا كان طريقا إلى غفران السيئات وقضاء الحاجات لكان مما تتوفر الهمم والدواعي على فعله وعلى نقله، لا سيما فيمن كانوا أحرص الناس على الخير، فإذا لم يعرف أنهم كانوا يفعلون ذلك، ولا نقله أحد عنهم، علم أنه لم يكن مما يستحب ويؤمر به، بل المنقول الثابت عنه ما أمر الله به النبي صلي الله عليه وسلم من نھيه عن اتخاذ قبره عيدا ووثنا، وعن اتخاذ القبور مساجد”اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو نفاق چھوڑ کر توبہ کرنے کی دعوت دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ کمال رحمت ہے کہ گناہ سے پہلے اپنی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور گناہ کے بعد معافی مانگنے کا۔ دونوں صورتوں میں اللہ اپنے بندوں کے لیے نہایت مشفق ہے۔۔۔کسی انسان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آنا اور کہنا کہ میرے لیے استغفار کریں، میرے لیے رب سے سوال کریں، میرے لیے دعا کریں، یا آپ کی غیر موجودگی میں اس کا کہنا کہ اللہ کے رسول ! میرے لیے دعا کیجیے، میرے لیے مغفرت مانگيے، میرے لیے اپنے رب سے فلاں فلاں سوال کیجیے۔ یہ ایسا کام ہےجس کی کوئی دلیل نہیں۔ قرون ثلاثه کے معروف اسلاف امت میں سےکسی نے ایسا کام نہیں کیا، نہ اس کام کو ان میں سے کوئی جانتا تھا۔ اگر یہ کام مستحب ہوتا تو سلف صالحین اس پر کاربند ہوتے اور یہ ان کے ہاں معروف و مشہور ہوتا اور ان سے منقول ہوتا۔ جب اس طرح کا کام گناہوں کی معافی اور حاجت روائی کا سبب ہو تو اس کو انجام دینے اور اس کو روایت کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں میں جو بھلائی کے کاموں کے بڑے حریص تھے۔ جب ان لوگوں سے ایسا کرنا معروف و منقول نہیں تو معلوم ہو گیا کہ یہ کام نہ مستحب ہے، نہ فرض۔ اس کے برعکس حکم الٰہی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر کو میلہ گاہ اور بت بنانے اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کرنا ثابت ہے۔“ (قاعدة في المحبة : 190/2، جامع الرسائل : 376، 375)نیز فرماتے ہیں : وأيضافإن طلب شفاعته ودعائه واستفاره بعد موته، وعند قبره ليس مشروعا عند أحد من أئمة المسلمين، ولا ذكر ھذا أحد من الأئمة الأربعة وأصحابھم القدماء”پھر یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی قبر کے پاس آ کر سفارش، دعا اور استغفار طلب کرنا ائمہ مسلمین میں سے کسی کے ہاں جائز نہیں۔ ائمہ اربعہ اور ان کے متقدمین شاگردوں میں سے کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔“ (مجموع الفتاوي : 241/1)مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب (م : ۱۳۲۴۔۱۳۹۱ ھ) لکھتے ہیں :”اس آیت میں ظلم، ظالم، زمان و مکان، کسی قسم کی قید نہیں۔ ہر قسم کا مجرم، ہر زمانے میں، خواہ کسی قسم کا جرم کر کے تمہارے آستانہ پر آ جاوے اورجاؤوك میں یہ قید نہیں کہ مدینہ مطہرہ میں ہی آئے، بلکہ ان کی طرف توجہ کرنا بھی ان کی بارگاہ میں حاضری ہے۔ اگر مدینہ پاک کی حاضری نصیب ہو جائے تو زہے نصیب۔۔۔“ (نورالعرفان، ص : 138)مفتی صاحب نے کلام الٰہی کا ایسا مطلب و معد بیان کیا ہے جو سلف صالحین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اپنی طرف سے کلام الٰہی کی تفسیر کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ مفتی صاحب کو نہ خوف الٰہی دامن گیر ہوا، نہ سلف کی مخالفت پر انہیں کوئی پشیمانی ہوئی، نہ ان کو دیانت علمی کا ذرا بھی احساس ہوا۔ کیا کیا جائے ؟ !!!اب آیت کریمہ کے متعلق ان لوگوں کی طرف سے شبہات کا تفصیلی جواب ذکر کیے دیتے ہیں تاکہ قارئین کو مفید معلومات فراہم ہو سکیں۔
جاری ہے....
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...