Thursday 12 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 141

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر141)
شاہ یقیق اور جلالی بابا المعروف سرجن بابا:
روحانی آپریشن سے علاج-:
دونوں بڑے کمروں میں سے درد انگیز چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں مگر یہ کسی ہسپتال کا منظر نہیں بلکہ شاہ یقیق اور جلالی بابا کی درگاہوں پر موجود مرد اور عورتوں کی آوازیں تھیں جو درگاہ کے جنگلوں سے لپٹے ہوئے تھے۔سندھ کےساحلی شہر ٹھٹہ سے تقریباً اسی کلومیٹر دور سجاول روڈ پر واقع ان دونوں درگاہوں پر کئی لوگ اپنی بیماریاں لے کر آتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ وہ یہاں سے صحتیاب ہوکر جائیں گے۔ ان مزاروں پر سارا دن زائرین کی آمد جاری رہتی ہے۔شاہ یقیق عرف سرجن بابا کی درگاہ پر آنے والے زائرین کا ماننا ہے کہ جن بیماریوں کا علاج بڑے بڑے سرجن نہیں کرسکے ان بیماریوں میں مبتلا مریض یہاں روحانی آپریشن کے بعد صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ہی کسی عقیدت مند نے مزار کے دروازے پر سرجن بابا لکھوا دیا ہے۔درگاہوں میں ایک مسافر خانہ بھی موجود ہے- جسے وارڈ تصور کیا جاتا ہے اور زمین پر لگے ہوئے بستر بیڈ سمجھے جاتے ہیں۔مسافر خانے کے بستر نمبر ایک پر موجود مسلمہ توفیق گزشتہ بیس سال سے یہاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا تھا جس کے بعد انہیں خواب میں حکم ہوا اور وہ یہاں آ گئیں۔’میں جب یہاں آئی تو ڈھانچہ تھی اور مرنے کے قریب تھی مگر خدا کا شکر ہے کہ یہاں آئی تو انہوں نے ( شاہ یقیق ) نے ہم پر ہاتھ رکھا اور زہر نکالا ورنہ میں نے تو چھ ماہ سے روٹی بھی نہیں کھائی تھی صرف دلیہ کھا رہی تھی۔‘یہاں آنے والے زائرین میں اکثر شوگر، کینسر، گردے ، پیٹ کی تکلیف اور بینائی کی کمزوری جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ان میں بزرگ عبدالرحمان بھی شامل ہیں جو ہزارہ کے رہائشی ہیں۔’پاؤں میں شوگر کا زخم تھا جو ٹھیک ہوگیا مگر دوبارہ ہوگیا ہے پھر ٹھیک ہو جائے گا۔‘ عبدالرحمان کو درگاہ پر آئے گیارہ سال ہو گئے ہیں۔ وہ شوگر میں مبتلا ہونے کے باوجود کوئی پرہیز نہیں کرتے مگر پھر بھی انہیں یقین ہے کے زخم ٹھیک ہو جائے گا۔شاہ یقیق کے مزار پر لنگر حاصل کرنے کے لئے ہسپتال جیسا ہی نظام رائج ہے یعنی مریض کا نام درج کرانا لازمی ہے۔مزار پر ایک نوجوان مچھیرے سے بھی ملاقات ہوئی جن کو پیٹ میں تکلیف کی شکایت تھی۔ ان کا کہنا ہے ڈاکٹر اس بیماری کا پتہ نہیں چلا سکے اس لیے وہ یہاں آئے ہیں اور اب بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ اور بهی بے شمار لوگ اپنے عزیزوں و اقارب کے ساتھ یہاں پر شفایابی کیلئے آئے ہوئے تهے ایک بابا جی جن کا نام غلام وارث ہے یہ کراچی سے آئے ہوئے ہیں ان کو جگر کی خرابی پهتری اور سانس کی بیماری میں مبتلا ہیں ان کا کہنا ہے ابهی تک کوئی فرق نہیں پڑا روزانہ بابا جی کی منتیں کرتا ہوں جب ان کی مرضی ہو گی تو میں بهی ٹهیک ہو جاوں گا کئی لوگوں کے روحانی آپریشن ہوئے ہیں اور اپنے گھر چلے گئے ہیں-ایک اور نوجوان جس کی کمر کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تهی اس کا کہنا ہے مجهے دو ڈهائی مہینے ہو گئے ہیں ابهی تک کوئی فرق نہیں پڑا ابهی تک تو بابا جی نے نگاہ نہیں کی-ایک اور بزرگ کا کہنا تها مجهے پیشاب میں دقت اور کمزوری ہے تین مہینے ہو گئے اور ابهی تک شفاء نہیں ملی-اختصار کے ساتھ ہم نے چند ایک واقعات آپکے سامنے رکهے تا کہ مزاروں پر آنے والے ضعف العقائد لوگوں کے تاثرات جان سکیں-باقی مزید لوگوں کی بد عقیدگی جاننے کیلئے اس لنک کو وزٹ کریں  https://youtu.be/AfqHkyNxYpI
اور برابر میں موجود قبریں جو سید زادیوں کی بتائی جاتی ہیں وہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے۔احاطے میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر ایک شخص نے کئی دوا کی پڑیاں لٹکا رکھی ہیں۔ لوگ پانچ، دس یا اس سے زائد روپے دے کر یہ پڑیاں لیتے ہیں۔ اس شخص نے پوچھنے پر بتایا کہ ان میں صرف نمک ہے جبکہ دیئے میں استعمال ہونے والے تیل بھی وہ تبرک کے طور پر دیتے ہیں۔مزار کے باہر ایک قدیمی کنواں موجود ہے جس کے پانی کی شفاء کی کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔شاہ یقیق کے مزار سے چند قدم کے فاصلے پر عبداللہ شاہ بخاری عرف جلالی بابا کا مزار ہے۔ اس مزار کے چاروں طرف زمین پر لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہاں کوئی والدہ کو لے کر آیا ہے، کوئی والد تو کوئی اپنی نوجوان لڑکی کی وجہ سے پریشان نظر آتا ہے۔یہاں آنے والے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر بھوت پریت کا سایہ یا ان پر جادو کیا گیا ہے۔کراچی سے آنے والی ایک خاتون نے بتایا ’مجھ پر شادی سے پہلے ہی سفلی کالا علم کیا گیا تھا جس میں شادی کی بندش بھی تھی مگر ظاہر بعد میں ہوا۔ میں نے سنا تھا کہ یہاں غیبی علاج ہوتا ہے مگر مانتی نہیں تھی کیونکہ ہم وہابی مسلک کے لوگ ہیں۔ یہاں میں آئی اور دعا مانگی کہ اگر آپ واقعی علاج کرتے ہیں تو مجھے گھر سے بلا لیں۔ جس کے بعد گھر گئی اور بشارت ملی۔‘یہ خاتون جنہیں اب طلاق ہو چکی ہے کا کہنا ہے کہ انہیں یہ پتہ ہے کہ ان پر کس نے جادو کیا ہے اور یہ سب کچھ انہیں حاضری میں بتایا گیا ہے اور یہ بات جادو کرنے والی خاتون بھی جانتی ہیں۔ان مزاروں پر مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ نظر آتے ہیں۔ جلالی بابا کے مزار کے کمرے میں عطر کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ اور چندے کی پیٹی پر ایک شخص موجود ہے جو مور کے پروں سے بنا ہوا جھاڑو سر پر پھیرتا ہے اور زائرین حسب حیثیت رقم پیٹی میں ڈال دیتے ہیں۔شاہ یقیق اور جلالی بابا کے مزاروں کے درمیاں موجود گلی میں بازار ہے جس میں ہوٹل اور پھولوں کے دوکانیں ہیں جن سے ہر زائرین پانچ روپے کی اگربتی، پانچ کے پھول اور دس روپے کا تیل خریدتا ہے۔ جبکہ ہوٹل پر بھارتی فلموں کے گیتوں کے ساتھ قوالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
ایک نوجوان لڑکی جس نے شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ابایا پہنا تھا۔ مزار کے اندر چکر لگاتی رہی تھی جبکہ اس کے پیچھے اس کی ماں آہستہ آہستہ چل رہی تھی ۔وہاں ایسی کئی اور بھی نوجوان لڑکیاں تھیں جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔ان لڑکیوں میں سے ایک کے والد سے بیماری دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ’ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں بخار آتا ہے ڈاکٹروں کے پاس گئے تھے مگر فائدہ نہیں ہوا جس کے بعد خواب میں حکم ہوا اور انہیں یہاں لے کر آ گئے ہیں۔ ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ جس کا ایمان سچا ہے وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جاتا لیکن وقت ضرور لگتا ہے-
آسیہ بی بی 26سالہ نوجوان حذیفہ کی ماں ہیں۔حذیفہ کو گردوں کی بیماری میں مبتلہ ہے اور آسیہ بی بی کو یقین ہے کہ ان کے بیٹے کی بیماری حضرت سید شاہ یقیق بابا کے روحانی معجزے سے دور ہو جائے گی۔اپنے نیم بے ہوش بیٹے کے سوجے ہوئے جسم پر شاہ یقیق بابا کے مزار کی مٹی کا لیپ کرکے صبر سے انتظار کرنے والی سانگھڑ کی آسیہ بی بی نے بتایا کہ وہ کچھ مہینے پہلے اپنے بیٹے کو جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کراچی لے کر گئی تھیں۔ لیکن، ان کی دواوٴں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اُن کے بقول، ’میرا بیٹا ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ اسی لئے، بابا نے میرے خواب میں آکر مجھے ہدایات دیں‘۔اب وہ اپنے بیٹے کو علاج کے لئے ’روحانی سرجن‘ کے پاس لائی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کا بیٹا روحانی علاج سے بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔لیکن، اس روحانی علاج کے دوران کچھ پابندیاں بھی ہیں جنھیں نبھانا ضروری ہے۔حذیفہ تین راتوں کے بعد صحت مند ہوجاتا۔ لیکن، وہ کہتی ہیں کہ، ’میں بابا کی اجازت کے بغیر مزار سے واپس چلی گئی جس کے بعد حذیفہ کی حالت نازک ہوگئی۔ غلطی میری ہے۔ مجھے بابا کی اجازت کے بغیر مزار نہیں چھوڑنا چاہئے تھا‘- شاہ یقیق کے مزار پر پہلی مرتبہ دس سال پہلے آئیں تھیں اور اس کے بعد ان کی مرید ہو گئیں۔ آسیہ اپنے شوہر اور بیٹی کو بھی مزار پر لاتی ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عبدالغفار بھی ایسے ہی پختہ یقین رکھنے والے مرید ہیں۔ ان کو مزار پر رہنے والے ’پرانا مریض‘ بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مزارپر ’بدروح‘ سے نجات حاصل کرنے آئے تھے جس کا ان پر اثر ہوگیا تھا۔عبدالغفار کے مطابق، ’ان پر یہ جادو خاندان کے لوگوں نے جائیداد کے چکر میں کروایا تھا۔ مزار پرآنے کے بعد مجھے سکون ملا۔ اور ایسا بابا کی کرامت کی وجہ سے ہوا۔ بابا کسی کی بھی زندگی پرسکون بنا سکتے ہیں محمد صالح کا کہنا ہے کراچی کے نامور ڈاکٹروں میں سے کوئی بھی ان کے 16سالہ بیٹے کلیم کا علاج نہیں کرسکا۔باتوں کے دوران کلیم، جس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، ادھر ادھر بھاگتا اور اپنے باپ سے کھیلنے کی اجازت مانگتا تها-مزید اس کے باپ کا کہنا تها کہ پہلے کلیم نیند کی دوا کا عادی تھا لیکن اب وہ بغیر نیند کی دوا کے سکون سے سوتا ہے۔ ان کے گھر والوں کو یقین ہے کہ کلیم بہت جلد صحت یاب ہوجائے گا۔
۔‘جلالی بابا کے مزار کے عقب میں موجود ہوٹلوں کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہوتا ہے جہاں سے لوگ مٹی نکال کر چہرے، سر اور آنکھوں کو ملتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے انہیں راحت ملتی ہے۔مزار کے احاطے کے اندر اور باہر کوئی ایک درجن کے قریب افراد زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں مزاروں کی سرپرستی حکومت کا محکمہ اوقاف کرتا ہے۔
محکمہ اوقاف کی جانب سے تعینات کئے گئے خدام بھی مزار پرحاضری دینے والوں کو خصوصی تیل، پھولوں کی پتیوں، مٹی اور پانی کے فائدوں اور بابا کی کرامتوں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔اور خود بھی معجزات اور ان مزاروں سے شفا ملنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں کو زنجیروں سے باندھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ جرم ہے اور وہ لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے یہ رشتہ دار بھاگ جاتے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچائیں گے اس لیے وہ خود ہی ان کو باندھ دیتے ہیں۔ شاہ یقیق اور جلالی بابا کی مزاروں کے قریب کچھ دیگر مزار بھی موجود ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اب بنے ہیں۔ لیکن اب ان پر بھی لوگ جاکر دیئے روشن کرتے ہیں۔دونوں مزاروں پر ٹھٹہ اور بدین کے ان علاقوں سے لوگ آتے جہاں صحت کی کوئی سہولت نہیں مگر اکثریت کراچی کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی ہے۔چار سو گھروں پر مشتمل گاؤں شاہ یقیق میں پینے کے صاف پانی کی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ جبکہ مزاروں کی موجودہ عمارتیں بھی زائرین نے ہی بنوائی ہیں ۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ درگاہیں روزگار کا ذریعہ اور زائرین کے لیے بیماری سے نجات کا وسیلہ ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ آج کے جدید ترین دور میں بھی درگاہیں کمزور عقائد اور بد اعتقادی کے سبب ’روحانی علاج گاہیں‘ بنی ہوئی ہیں، جہاں لوگ اپنے مسئلوں کا حل ڈھونڈنے جوق در جوق آتے ہیں سندھ کا چھوٹا سا، مگر انتہائی معروف علاقہ, ’ٹھٹھہ‘۔۔ کراچی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اِس کی وجہ شہرت یہ بتائی جاتی ہے کہ ایشیا میں اسلام ٹھٹھہ سے ہی پھیلا تھا۔ ایشیا کی پہلی مسجد بھی یہیں واقع ہے۔ متعدد معروف عالم دین ٹھٹھہ ہی میں پیدا ہوئے۔۔ اور آج بھی بہت سے بزرگان دین یہاں تہہ با خاک ہیں، مثلاً شاہ یقیق، عبد اللہ شاہ اصحاب، شاہ گور گنج، شاہ مراد شاہ شیرازی، محمد ہشام ٹھٹھوی، پیر پاتھو، جمیل شاہ داتار، شیخ حالی، حاجی اللہ ڈنو میندھرو، صوفی شاہ عنایت اور شاہ پریوں ستیوں۔وغیرہ-
ان تمام عقائد و نظریات کے پس پردہ اصل حقائق اگلی قسط میں جانیں. .....
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...