Wednesday 25 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 39

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر39)
سنی بریلوی حضرات کے دلائل:
آیت رہبانیت
سنی بریلوی حضرات کی پہلی دلیل آیت رہبانیت ہے:
ثُـمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓى اٰثَارِهِـمْ بِـرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَـمَ وَاٰتَيْنَاهُ الْاِنْجِيْلَۙ وَجَعَلْنَا فِىْ قُلُوْبِ الَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَـةً وَّّرَحْـمَةً ؕ وَّرَهْبَانِيَّةً ِۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْـهِـمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّـٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِـهَا ۖ فَاٰتَيْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْـهُـمْ اَجْرَهُـمْ ۖ وَكَثِيْـرٌ مِّنْـهُـمْ فَاسِقُوْنَ
"پھر اس کے بعد ہم نے اپنے اور رسول بھیجے اور عیسٰی ابن مریم کو بعد میں بھیجا اور اسے ہم نے انجیل دی، اور اس کے ماننے والوں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور مہربانی رکھ دی، اور ترک دنیا جو انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے وہ ان پرفرض نہیں کی تھی مگر انہوں نے رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا پس اسے نباہ نہ سکے جیسے نباہنا چاہیے تھا، تو ہم نے انہیں جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا، اور بہت سے تو ان میں بدکار ہی ہیں۔ (الحدید 57:27)"
سنی بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں نے اللہ کی رضا کے لیے رہبانیت (ترک دنیا) کی جو بدعت ایجاد کر لی تھی، اللہ تعالی نے اس کی مزمت نہیں بلکہ تعریف کی ہے۔ اللہ تعالی نے مذمت اس بات کی ہے کہ انہوں نے اس رہبانیت کا حق ادا نہیں کیا۔ اس طریقے سے دین میں نیا راستہ نکالنا بشرطیکہ وہ کوئی اچھا کام ہو، مستحسن امر ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہے کہ انہوں نے جو اچھے امور ایجاد کیے ہیں، ان کی پابندی کریں۔
سلفی حضرات اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رہبانیت کی بدعت پیدا کرنے پر ان کی تعریف نہیں بلکہ مذمت فرمائی ہے۔ رہبانیت کوئی نیکی کا کام نہ تھا، جسے بطور بدعت حسنہ انہوں نے جاری کر لیا ہو۔ رہبانیت ایک برائی ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے سختی سے مذمت فرمائی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث کے مطابق بعض صحابہ نے ہمیشہ روزہ رکھنے، رات بھر نماز پڑھنے اور شادی نہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے انہیں سختی سے اس سے منع فرمایا اور یہ الفاظ کہے: میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور اس کی حدود کا پاس رکھنے والا ہوں مگر میں روزے بھی رکھتا ہوں اور روزے چھوڑتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے عیسائیوں کو جو اجر دیا، وہ ان کے ایمان اور عمل صالح کا تھا نہ کہ رہبانیت کا۔ آیت کریمہ میں جو یہ فرمایا ہے" کہ وہ اس کی پابندی کا جو حق تھا وہ ادا نہ کر سکے" یہ عتاب پر عتاب ہے کہ انہوں نے ایک غلط کام کو اچھا سمجھ کر کیا، پھر اسے بھی نباہ نہ سکے اور ان کی آنے والی نسلوں نے ہر وہ حد توڑی جس کی پابندی رہبانیت کے قواعد کے مطابق ان پر لازم تھی۔
حدیث سے بدعت حسنہ کا ثبوت
سنی بریلوی حضرات کی دوسری دلیل یہ احادیث ہیں:
"من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ، فلہ اجرھا، واجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شیء۔ ومن سن فی الاسلام سنۃ سیۃ، کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزارھم شیء۔"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی، اس کے لیے اس کا اجر ہے اور جو کوئی بھی اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، اس کا اجر بھی ہے بغیر اس کے کہ بعد والوں کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس شخص نے اسلام میں کوئی بری سنت جاری کی، اس پر نہ صرف اس کا گناہ ہو گا بلکہ جو بھی اس کے بعد اس پر عمل کرئے گا، اس کا گناہ بھی ہو گا بغیر اس کے ان کے گناہ میں کوئی کمی کی جائے
(مسلم کتاب الزکوۃ حدیدث 1016)
و عن غضیف بن الحارث الثمالی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: ما احدث قوم بدعۃ الا رفع مثلھا من السنۃ فتمسک بسنۃ خیر من احداث بدعۃ۔ روہ احمد۔
غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی قوم جب کوئی بدعت نکالتی ہے تو اس کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے۔ اس وجہ سے سنت کو مضبوطی سے تھامنا بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے۔
(مشکوۃ و مسند احمد باب اعتصام بلکتاب و السنہ)
اس دوسری حدیث کے بارے میں ناقدین بدعت کہتے ہیں کہ اس میں تو بدعت کی صریح مخالفت ہے کہ ایک بدعت پیدا ہونے اسے سنت اٹھتی چلی جاتی ہے اور دین کے نام پر رسوم کا ایسا مجموعہ رہ جاتا ہے جس کی اصل دین میں نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کی اپنی ایجادات ہوتی ہیں۔ سابقہ مذاہب کے ساتھ یہی ہوا تھا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کی جگہ لوگوں کے خود ساختہ طریقوں نے لے لی جس سے دین میں بگاڑ پیدا ہوا۔
پہلی حدیث کے متعلق بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ بدعت وہی بری ہے جو سنت کو مٹائے۔ اگر بدعت کسی نیک کام پر مشتمل ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے برعکس بدعت کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی بات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ الصُّوفُ فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّى رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّى عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ
جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: کچھ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس آے اور انہوں نے اون کا لباس پہن رکھا تھا۔ ان کی بدحالی دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ضرورت مند ہیں۔ حضور ﷺ نے لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دی مگر تنگی کے باعث لوگ اس پر عمل نہ کر سکے۔ اس کا اثر حضور ﷺ کے چہرہ انور پر محسوس ہوا۔ جریر کہتے ہیں: پھر انصار میں ایک شخص تھال میں چاندی بھر کر لے آیا۔ پھر دوسرا لے کر آیا۔ اس کے بعد تانتا بندھ گیا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر خوشی کے اثرات نمایاں ہوئے۔ آپ نے فرمایا: جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی، اس کے لیے اس کا اجر ہے اور جو کوئی بھی اس کے بعد اس پر عمل کرئے گا، اس کا اجر بھی بغیر اس کے کہ بعد والوں کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس شخص نے اسلام میں کوئی بری سنت جاری کی، اس پر نہ صرف اس کا گناہ ہو گا بلکہ جو بھی اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، اس کا گناہ بھی ہو گا بغیر اس کے ان کے گناہ میں کوئی کمی کی جائے۔
مسلم کتاب الزکوۃ حدیث 1016
بدعت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اچھی سنت جاری کرنے کا مطلب کسی ایسے نیک کام پر عمل ہے جو پہلے سے ہی دین میں مشروع اور جاری ہے نہ کہ دین میں کوئی  اضافہ کرنا۔ صدقہ و خیرات ایک دینی عمل ہے اور اس کا حکم قرآن مجید اور صحیح احادیث میں ہے۔ حدیث میں مذکور انصاری صحابی نے اس پر عمل کا آغاز کیا تو دیکھا دیکھی بقیہ صحابہ نے بھی اس پر عمل شروع کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے یہ بات فرمائی کہ جس نے اچھی سنت کا آغاز کیا اسے بقیہ سب کے برابر بھی اجر ملے گا۔ یہاں دین میں کوئی نئی بدعت نکالنے کی بات زیر بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے نیک عمل کی بات زیر بحث ہے جس کا حکم پہلے سے قرآن و سنت میں موجود ہے۔
نماز رراویح:
سنی بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ موجودہ صورت میں نماز تراویح بھی تو بدعت ہے جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اختیار کر لیا۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
وعن ابن شھاب، عن عروۃ بن الزبیر، عن عبد الرحمن بن عبد القاری انہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ لیلۃ فی رمضان الی المسجد، فاذا الناس اوزاع متفرقون، یصلی الرجل لنفسہ، ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط، فقال عمر: انی اری لو جمعت ھولاء علی قاری واحد لکان امثل، ثم عزم فجمعھم علی ابی بن کعب، ثم خرجت معہ، لیلۃ اخری والناس یصلون بصلاۃ قارئھم، قال عمر: نعم البدعۃ ھذۃ، والتیی ینامون عنھا افصل من التیی یقومون، یرید آخر اللیل، وکان الناس یقومون اولہ۔ عبد الرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی جانب نکلا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ متفرق طریقے سے نماز تراویح پڑھ رہے ہیں۔ کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے اور کچھ لوگ جماعت سے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری رائے ہے کہ انہیں ایک قاری کے ساتھ اکھٹا کر دوں تو بہتر ہو گا۔ پھر انہوں نے ان سب کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر اکٹھا کر دیا۔ اس کے بعد میں ان کے ساتھ ایک اور رات باہر نکلا تو لوگ اپنے قاری کے ساتھ نماز تراویح پڑھ رہے تھے۔ حضرات عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بدعت اچھی  ہے۔ ہاں جسے چھوڑ کر یہ سوئے رہتے ہیں وہ اس سے افضل ہے جو یہ کھڑے پڑھ رہے ہیں۔ ان کی مراد رات کے آخری حصے میں تراویح / تہجد تھی جبکہ لوگ رات کے اولین حصے میں نماز پڑھ رہے تھے۔
'بخاری کتاب صلوۃ التراویح حدیث 1903'
سنی بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک امام کے پیچھے تراویح کی بدعت حسنہ ایجاد فرمائی جس سے ثابت ہوا کہ بدعت حسنہ اچھی چیز ہے۔
جبکہ سلفی حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے شریعت میں کسی تبدیلی کا حق جلیل القدر صحابہ کو بھی نہیں ہے۔ حضرات عمر رضی اللہ عنہ نے محض اتنا کیا کہ لوگ الگ الگ یا جماعت میں جو نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے انہیں ایک امام کے پیچھے اکٹھا کر دیا اور خود ان کے ساتھ نماز تراویح نہیں پڑھی بلکہ رات کے آخری حصے میں اسے پڑھنے کی ترجیح دی۔ یہ محض ایک تدبیری معاملہ تھا نہ کہ دین میں کوئی اضافہ۔ آپ نے یہاں یہ بدعت اچھی ہے کے جو الفاظ استعمال کیے ان میں بدعت سے اس کا لغوی مفہوم مراد ہے یعنی نئی چیز۔ اس سے مراد وہ شرعی بدعت ہرگز نہیں ہے جو کہ زیر بحث ہے۔

سلفی عالم الشیخ محمد صالح المنجمد بیان کرتے ہیں
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نماز تراویح ادا کرنا سنت ہے ، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنی کتاب " المجموع " میں بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔
اوراسی طرح نماز تراویح کی ادائيگي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رغبت دلاتے ہوئے فرمایا :

( جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اوراجرو ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 37 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 760 ) ۔
تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فعل پر عمل کے ساتھ ترغیب اورمسلمانوں کا نماز تراویح کے استحباب پر اجماع ہونے کے باوجود نماز تراویح بدعت کیسے ہوسکتی ہے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کوکچھ راتیں اس کی جماعت کروائي تھی ، پھر اسے باجماعت اس لیے ترک کیا کہ کہيں تروایح کی جماعت مسلمانوں پر فرض ہی نہ ہوجائے ، لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اورفرض ہونے کا خطرہ جاتا رہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی چيز کا فرض ہونا ممکن نہيں رہا ۔
اسی لیے عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے مسلمانوں کو ایک قاری پر جمع کردیا اورانہيں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کا کہا ۔
گعقلی دلائل:
سنی بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کا تعامل نئے طریقوں کو اختیار کرنے کا ہے۔ قرآن کا جمع کرنا حدیث اکٹھی کرنا اور اس کے لیے جن رجال اور جرح و تعدیل کا فن ایجاد کرنا، صرف و نحو کے فنون کی ایجادات نئی ایجادات جیسے انٹرنیٹ کو دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کرنا یہ سب بدعت حسنہ ہی تو ہیں۔
بدعت کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ تمام معاملات دین کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق تدبیر سے ہے۔ جیسے جب کاغذ کا استعمال مسلم دینا میں عام ہوا تو حدیث اور فقہ کو مدون کیا گیا۔ یہ ایک محض تدبیری معاملہ تھا۔ اب کاغذ کی جگہ الیکڑانک کتب لیتی جا رہی ہیں تو انہیں استعمال کر لیا جائے گا ور کاغذی کتب متروک ہو جائیں گے۔ مستقبل میں کوئی اور ٹیکنالوجی دریافت ہو گئی تو اسے بھی استعمال میں لایا جائے گا۔ فن رجال جرح و تعدیل اور دیگر فنون کو ضرورت پڑنے پر ایجاد کیا گیا۔ یہ کسی کے نزدیک دین کا حصہ نہیں ہیں بلکہ محض تدابیر ہیں۔ کل کو اگر کوئی اور تدابیر کی ضرورت پڑے گی تو انہیں اختیار کر لیا جائے گا اور جب ان کی ضرورت نہیں ہو گی تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ انہیں کوئی شخص بھی دین کا حصہ نہیں سمجھتا ہے۔
جاری ہے.........

مزید معلومات کیلئے درج ذیل لنک وزٹ کریں یا ای میل کریں۔
islamicstudies267@gmail.com
www.mubashirnazir.org
fatimapk92@gmail.com
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
-------------------------

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...