Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 169

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 169)
علامہ سبکی نے قبر نبوی پر جا کر استغفار طلبی کے لیے قرآن کریم کی سوره نساء کی ایک آیت (۶۴) سے استدلال کیا ہے،لیکن یہ استدلال کئی وجہ سے غلط ہے۔
(1) سبکی نے کہا ہے کہ اس آیت میں امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نہ جانے لفظ امت سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر انہوں نے ساری امت مراد لی ہے تو یہ ناقابل تسلیم بات ہے کیونکہ یہ آیت تو مخصوص لوگوں کے لیے نازل ہوئی تھی اور اس میں کوئی ایسا عام لفظ بھی نہیں جس کے پیش نظر یہ کہا جا سکے کہ خاص سبب نزول کا نہیں، بلکہ لفظ کی عمومیت کا اعتبار ہو گا۔اس آیت کریمہ میں امت پر دلیل بننے والے جتنے بھی الفاظ ہیں، وہ سب ضمیریں ہیں اور خود باقرارِ سبکی یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ ضمیروں میں عموم نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت سے استدلال کرنے والوں، مثلاً تقی سبکی، قسطلانی اور ابن حجر مکی، میں سے کسی نے بھی لفظ کی عمومیت کو دلیل نہیں بنایا، حتی کہ اس صاحب رسالہ (ابن دحلان) نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ البتہ اس نے سبکی، قسطلانی اور ابن حجر مکی کی نقالی میں یہ کہا ہے کہ اس آیت کا حکم اپنی علت کے عام ہونے کی وجہ سے عام ہے۔لیکن اس صورت میں اس کی دلیل قرآن کریم نہیں، بلکہ ذاتی قیاس ہے۔ اس نے سمجھ یہ رکھا ہے کہ اس کی دلیل قرآن کریم ہے، حالانکہ قیاس کی حجیت کے قائل لوگوں کے نزدیک وہ قیاس معتبر ہے جو ایک تو نصوصِ شرعیہ کے خلاف نہ ہو، دوسرے اس میں وہ تمام معتبر شرائط موجود ہوں جو کتب علم اصول میں مذکور ہیں۔ یہ قیاس ان دونوں باتوں پر پورا نہیں اترتا۔اس کی بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ ابن دحلان مقلد ہے اور مقلد اجتہاد کر ہی نہیں سکتا ۔ پھر مقلدین کے نزدیک ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمدبن حنبل) کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مقلد کے لیے شرعی دلائل سے استدلال کرنا جائز ہی نہیں۔ مقلد کا دلیل سے کیا واسطہ ؟ اس کا کام تو بس کسی امتی کے قول کو بلا دلیل تسلیم کرنا ہے۔ صاحب رسالہ کا منصب اس کو شرعی دلائل سے استدلال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بات تو اس وقت ہے جب وہ اس آیت سے ساری امت مراد لے۔ اگر وہ کہے کہ اس آیت میں بعض امت مراد ہے، تو اس کا مقصود پورا ہی نہیں ہوتا۔
(2) ابن دحلان نے مذکورہ آیت کریمہ میں :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کو عام قرار دیا ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آنا، دونوں کو شامل کیا ہے۔اس کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آ سکی کوئی بھی عام لفظ صرف اور صرف ان چیزوں کے لیے عام ہوتا ہے جو اس لفظ کے تحت داخل ہوتی ہیں۔ کسی شخص کی قبر پر آنا لغوی، شرعی اور عرفی کسی بھی طور پر اس شخص کے پاس آنے کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے پاس آنے کا مطلب صرف اور صرف اس کی ذات کے پاس آنا ہوتا ہے۔ اس سے زائد کچھ سمجھنا قطعاً غلط ہے۔اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس سے زائد بھی کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔تو ہمارا اس سے سوال ہے کہ اس لفظ میں ہر زائد چیز شامل ہو گی یا وہ ہر زائد چیز جس کا تعلق اس شخص سے ہو گا یا صرف قبر ہی ؟پہلی بات، یعنی ہر زائد چیز کو عموم میں شامل کرنے کے بارے میں کوئی ذی شعور آدمی نہیں کہہ سکتا۔ اگر دوسری بات اختیار کی جائے، یعنی اس شخص سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں اس عموم میں شامل ہیں، تو اس فاسد قول سے یہ لازم آئے گا کہ کسی کے گھر آنے سے، اس کی بیوی کے پاس آنے سے، اس کی اولاد کے پاس آنے سے، اس کے دوستوں کے پاس آنے سے، اس کے خاندان کے پاس آنے سے، اس کے رشتہ داروں کے پاس آنے سے، اس کی قوم کے پاس آنے سے، اس کے پیروکاروں کے پاس آنے سے، اس کی امت کے پاس آنے سے، اس کی جائے پیدائش پر آنے سے، اس کی نشست گاہوں پر آنے سے، اس کے کنوؤں پر آنے سے، اس کے باغات میں آنے سے، اس کی مسجد میں آنے سے، اس کے علاقے، اس کی گلیوں اور اس کے محلوں میں آنے سے اور اس کی ہجرت گاہ میں آنے سے، اس کی ذات کے پاس آنا مراد ہے۔ ایسی بات تو کوئی جاہل اور بددماغ ہی کر سکتا ہے۔اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آنا، آپ کی ذات کے پاس آنے کے مترادف ہے۔تو اسے یہ بھی کہنا پڑے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی مذکورہ چیزوں کے پاس آنا بھی آپ ہی کے پاس آنا ہے اور یہ ابطل الاباطل ہے۔اگر وہ شخص کہے کہ میں تیسری چیز کو اختیار کرتا ہوں، یعنی میں صرف قبر مبارک پر آنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے پاس آنے کے مترادف سمجھتا ہوں۔تو اس سے پوچھا جائے گا: تمہارے پاس اس فہم کی کیا دلیل ہے؟ اس پر آپ کو لغت، عرف اور شریعت سے کوئی دلیل نہیں ملے گی۔ اس موقف کے موافقین و مخالفین میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی امتی کی قبر پر جانے سے مراد صاحب قبر کے پاس جانا ہے۔ کوئی عاقل کسی کی قبر پر جانے کو صاحب قبر کے پاس جانا نہیں سمجھتا۔
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...