Wednesday, 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 152

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 152)
کلمہ گو بھی مشرک ہو سکتا ہے:
شرک کرنے والوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو رسالت اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے مثلاً رسول اکرم ﷺ ‌کے زمانے میں قریش مکہ یا ہمارے زمانے میں ہندومت کے پیروکار' انہیں کافر مشرک کہا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود شرک کرتے ہیں‌۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی گواہی خود قرآن مجید ے دی ہے۔
اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَلَمْ يَلْبِـسُوٓا اِيْمَانَـهُـمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ الْاَمْنُ وَهُـمْ مُّهْتَدُوْنَ
ترجمہ: ( قیامت کے روز ) امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم (شرک‌) کے ساتھ آلودہ نہیں کیا'' ۔ (سورہ‌انعام‌آیت‌82))
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُـمْ بِاللّـٰهِ اِلَّا وَهُـمْ مُّشْرِكُـوْنَ
ترجمہ: لوگوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک  ہیں ۔(سورہ یوسف 106) دونوں‌آیتوں سے یہ بات واضح ہے کہ بعض لوگ کلمہ پڑھنے اور آخرت پر ایمان لانے کے باوجود شرک میں مبتلا ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو کلمہ گو مشرک کہا جا سکتا ہے۔
‌6۔ اقسام شرک:
شرک کی دو قسمیں ہیں شرک اکبر' اور شرک اصغر اللہ تعالیٰ کی ذات' عبادت اور صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک اکبر کہلاتا ہے' شرک اکبر کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کی سزا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ‌ہے، جیسا کہ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں ہے
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسَاجِدَ اللّـٰهِ شَاهِدِيْنَ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ بِالْكُفْرِ ۚ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُـهُـمْ وَفِى النَّارِ هُـمْ خَالِـدُوْنَ
ترجمہ: "مشرکین کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں، ان کے تو سارے اعمال ضائع ہو گئے، اور انہیں جہنم ‌میں ہمیشہ رہنا ہے-( سو رہ تو بہ آیت 17)
شرک اکبر کے علاوہ بعض ایسے دیگر امور جن کے لئےاحادیث میں شرک کا لفظ استعمال ہوا ہے، مثلاً ریا یا غیر اللہ کی قسم کھانا وغیرہ یہ شرک اصغر کہلاتے ہیں، شرک‌اصفر کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا البتہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے، کبیرہ گناہ کی سزا جہنم ‌ہے جب تک اللہ تعالیٰ چاہے- شرک اصغر سے توبہ نہ کرنا-شرک اکبر کا باعث بن سکتا ہے۔
یاد رہے شرک خفی سے مراد ہلکا شرک نہیں بلکہ مخفی شرک ہے جو کسی انسان کے اندر چھپی ہوئی کیفیت کا نام ہے، یہ شرک اکبر بھی ہوتا ہے جیسا کہ منافق‌کا شرک اور شرک ‌اصفر بھی ہو سکتا ہے جیسے کہ ریاکار کا شرک ہے۔
مشرکین کے دلائل اور ان کا تجزیہ:
قرآن مجید کی رو سے مشرکین، شرک کے حق میں تین قسم کے دلائل رکھتے ہیں، ذیل میں ہم تینوں دلائل کا الگ ‌الگ تجزیہ پیش کر رہے ہیں‌۔
پہلی دلیل اور اس کا تجزیہ
اس سے پہلے یہ بات لکھی جا چکی ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کو اپنا رب اکبر۔ معبوداعلیٰ اور خدائے خداوند تسلیم کر تے ہیں اسے، اپنا خالق رازق اور مالک سمجھتے ہیں جان پہ بن آئے تو خالصتا اسی کو پکارتے بھی ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ اولیاء کرام ‌چونکہ اللہ تعالیٰ کے بلند مرتبہ ہو تے ہیں اللہ کے محبوب اور پیارے ہوتے ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات میں سے کچھ اختیارات انہیں بھی دے رکھے ہیں‌۔ اس لئے ان سے بھی مرادیں مانگی جا سکتی ہیں، ان سے بھی حابہت اور مدد طلب کی جا سکتی ہے وہ بھی تقدیر بنا اور سنوار سکتے ہیں' دعا اور فریاد سن سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مشرکین کے اس عقیدے کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔
وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ اٰلِـهَةً لَّعَلَّهُـمْ يُنْصَرُوْنَ
ترجمہ'' مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے الہٰ بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی مدد کریں۔( سورہ یس آیت 74) یہی وہ عقیدہ ہے جس کے تحت مشرکین عرب بتوں کی شکل میں اپنے بزرگوں اور اولیاء کو کو پکارتے اور ان سے مدد طلب کرتے تھے' اسی عقیدے کے تحت ہندو' بدھ' اور جینی' مورتیوں مجسموں اور بتوں کی شکل میں اپنے اپنے بزرگوں اور ولیوں سے حاجتیں اور مرادیں طلب کر تے ہیں' اسی عقیدے کے تحت بعض مسلمان فوت شد اولیائے کرام اور بزرگوں کو پکارتے اور ان سے حاجتیں‌اور مرادیں طلب کرتے ہیں-
ذیل میں ہم دین خانقاہی کے علمبرداروں کے اولیاء کے متعلق عقائد و نظریات بحوالہ پیش کرتے ہی ہیں-  
دین اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک ان دونوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے اس کا اندازہ ایک مشہور صوفی عفیف الدین تلمسانی کے اس ارشاد سے لگائيے؛
قرآن میں توحید ہے کہاں؟
وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا پڑا ہے، جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنج سکتا"(شریعت و طریقت ص:152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)
​حدیث شریف کے بارے میں جناب بایزید بسطامی کا یہ تبصرہ پڑھ لینا کافی ہوگا کہ:"تم (اہل شریعت) نے اپنا علم فوت شدہ لوگوں (یعنی محدثيں) سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اسی ذات سے حاصل کیا ہے جو ھمیشہ زندہ ہے (یعنی براہ راست اللہ تعالی سے) ہم لوگ کہتے ہیں میرے دل نے اپنے رب سے روایت کیا اور تم کہتے ہو فلاں (راوی) نے مجھ سے روایت کیا (اور اگر سوال کیا جائے کہ) وہ راوی کہاں ہے؟ جواب ملتا ہے مرگیا (اور اگر پوچھا جائے کہ) اس (فلاں) راوی نے (فلاں) راوی سے بیان کیا تو وہ کہاں ہے/ جواب وہی کہ مرگیا"(شریعت و طریقت ص؛152، امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص:321)
​قرآن وحدیث کا یہ استہزاء اور تمسخر اور اس کے ساتھ ہوائے تنفس کی اتباع کے لیے"حدثنی قلبی عن ربی"(میرے دل نے میرے رب سے روایت کیا) {فتوحات مکیہ از ابن عربی ج1، ص:57}​
امام ابن الجوزی اس باطل دعوای پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" جس نے 'حدثنی قلبی عن ربی' کہا اس نے در پردہ اس بات کا اقرار کیا وہ رسول اللہﷺ مستغنی ہے، پس جو شخص ایسا دعوای کرے وہ کافر ہے( تلبیس ابلیس ص:374)​
عبادت و ریاضت​ یہاں ہم صوفیاء کی عبادت اور ریاضت کے بعض ایسے خود ساختہ طریقوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہیں صوفیاء کے ہاں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے لیکن کتاب و سنت میں ان کا جواز تو کیا شدید مخالفت پائی جاتی ہے- چند مثالیں ملاحظہ
کریں:
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...