Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 160

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 170)

اگر یہ لوگ کہیں کہ ہم یہ اعتراض لازم ہی نہیں آنے دیتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی حیات مبارکہ میں آنا اور آپ کی وفات کے بعد آنا ہے، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی دنیوی زندگی میں آنا اور آپ کی برزخی زندگی میں آنا ہے۔ جب برزخی زندگی میں آپ کے پاس آنا اسی صورت ممکن ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آئیں، یعنی زیارت قبر نبوی کریں، تو اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر استغفار کرنا جائز ہے۔۔۔تو ہم عرض کریں گے کہ لغت و عرف کے اعتبار سے آیت کریمہ یہی بتاتی ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی ہی میں آنا ہے۔ کیونکہ لغت و عرف کسی بھی اعتبار سے برزخی زندگی میں آپ کی قبر مبارک کے پاس آنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے مترادف نہیں۔ برزخی زندگی تو شریعت کے بیان کرنے سے ثابت ہو گئی، البتہ یہ بات باقی رہ گئی کہ شریعت میں اس برزخی زندگی میں آنا، دنیوی زندگی میں آنے کے مترادف ہے کہ نہیں ؟ اور اس کا ثبوت مدعی ہی کے ذمے ہے۔۔۔ ‘‘ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:28۔31)
اس طویل بحث سے ثابت ہوا کہ بعض لوگوں کا آیت کریمہ سے اپنا من مانا مفہوم نکالنا باطل ہے۔ قبر رسول پر جا کر معافی کی درخواست کرنا بدعت و ناجائز ہے۔ اگر یہ دین ہوتا تو سلف صالحین ضرور اس کو اختیار کرتے، کیونکہ وہ خیر و بھلائی کے بڑے حریص تھے۔ باقی علمائے کرام نے اس آیت کے تحت جو حکایات و روایات ذکر کی ہیں، وہ مستند نہیں ہیں ملاحظہ کیجیے..
ابوحرب ہلالی کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے فریضہ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد مسجد میں داخل ہو گیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا اور آپ کے پاؤں مبارک کی جانب کھڑا ہو گیا اور کہا:السلام عليك يا رسول الله !پھر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف بڑھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں گناہگار ہوں، اس لیے آیا ہوں تاکہ اللہ کے ہاں آپ کو وسیلہ بنا سکوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کريم میں فرمایا ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾(النساء 4 :64 )” (اے نبی !) اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو آپ کے پاس آئیں، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے.“ (شعب الإيمان للبيھقي:495/3، ح:4178، وفي نسخة:3880)
تحقیق: یہ سخت قسم کی ’’ضعیف ‘‘ روایت ہے، کیونکہ : (1) محمد بن روح بن یزید مصری راوی کے حالات نہیں مل سکے۔ (2) ابوحرب ہلالی کون ہے؟ معلوم نہیں۔ (3) عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسین کے نہ حالات ملے ہیں، نہ توثیق۔یہ ’’مجہول ‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارستانی ہے۔ ایسی روایت سے دلیل لینا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م :۷۰۵۔۷۴۴ ھ) فرماتے ہیں : باسناد مظلم۔”یہ واقعہ سخت مجہول سند سے مروی ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 384) روایت نمبر ۲ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
قحط أهل المدينة قحطا شديدا، فشكوا إلى عاشة، فقالت : انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فاجعلوا منه كوى إلى السما، حتى لا يكون بينه وبين السما سقف، قال : ففعلوا، فمطرنا مطرا حتى نبت العشب، وسمنت الإبل، حتى تفتقت من الشحم، فسمي عام الفتق”
ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں) شکایت کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے، لہٰذا اس سال کا نام عام القق (پیٹ پھٹنے والا سال ، یعنی خوشحالی والا سال) رکھ دیا گیا۔“ (مسند الدارمي: 58/1، ح:93، مشكاة المصابيح:5650)
تحقیق : اس روایت کی سند ’’ضعیف ‘‘ ہے۔اس کے راوی عمرو بن مالک نکری (ثقہ وحسن الحدیث ) کی حدیث ابوالجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :وقال ابن عدي : حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔‘‘(تھذيب التھذيب:336/1)
یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہٰذا غیر محفوظ ہے۔اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے، وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ میں حجره مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا اور بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو ابھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور ابھی تک سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی ) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جا سکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔“ (الرد علي البكري، ص:68۔74)اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس سے توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
غالیوں کی اور دلیل:
ابوھریرہ رضی الله عنھ سے (ایک طویل روایت ہے ) جنگ یمامہ کے موقعہ پر خالد بن ولید رضی الله عنھ نے بلند آواز سے فرمایا میں ولید کا بیٹا ہوں پھر انھوں نے مسلمانوں کا جنگی نعرہ بلند کیا ان دنوں مسلمانوں کا جنگی نعرہ یا محمداہ صلی الله علیھ وسلم (اے محمد صلی الله علیھ وسلم مددکریں ) تھا -
تحقیق : اس روایت میں سیف بن عمر التمیمی محدثین کے نزدیک بلاتفاق ضعیف ہے ابن معین : ضعیف الحدیث ہے اس سے کوئی خیر (صحیح روایت ) نہیں ہے اور امام حاتم نے متروک الحدیث اور امام نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور ابن حبان نے اس کو ثقه راویوں سے من گھڑت روایات بیان کرنے والا کہا ہے (تہذیب التہذیب جلد ٣ ترجمہ ٢٨٠٠ )
یہ روایات اس راوی کے سبب ضعیف ہے اور نا قابل حجت ہے .
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...