Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 167

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر167)
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۴۔۷۴۴ ھ) اسی بارے میں فرماتے ہیں : (تحریر کے طوالت کے پیش نظر ہم عربی عبارت کی بجائے صرف اردو عبارت پیش کریں گے)
سورہ نساء کی آیت نمبر ۶۴ سے بھی علامہ سبکی نے استدلال کیا ہے۔ ہم اس بارے میں دو طرح کا تبصرہ کریں گے۔ ایک تو یہ کہ اس آیت سے اس کا مدعا ثابت نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہ یہ آیت اس کے مذہب کے خلاف ہے۔ یہ دونوں باتیں آیت کریمہ، اس کی صحیح تفسیر، سیاق کلام اور سلف اور ان کی پیروی کرنے والے لوگوں کے فہم پر غور کرنے سےبالکل واضح ہو جاتی ہیں۔اسلاف امت ہی قرآن کریم اور اس کے معانی کو ساری امت سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ سلف اور (ان کے متبعین ) خلف میں سے کسی نے اس آیت کریمہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے استغفار کرانے کے لیے آنے کے سوا کچھ نہیں سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو گناہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتا اور اسے منافق قرار دیا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّـهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ﴾ (المنافقون 63:5)”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لیے اللہ کے رسول استغفار کریں، تو وہ اعراض کرتے ہیں اور آپ انہیں تکبر سے منہ پھیرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔“زیرِ بحث آیت کریمہ بھی اسی مفہوم کی ہے۔ اس میں اس منافق کا تذکرہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو چھوڑ کر کعب بن اشرف اور دیگر طاغوتوں کے فیصلے پر راضی ہوا۔ یوں اس نے اپنی جان پر بہت بڑا ظلم کیا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں آیا کہ آپ اس کے لیے استغفار کریں۔ آپ کی خدمت میں استغفار کرانے کے لیے حاضر ہو جانا توبہ کی قبولیت اور گناہوں کی معافی کا پروانہ تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہی عادت مبارکہ تھی۔ ان میں سے کسی سے جب کوئی ایسی لغزش صادر ہو جاتی جس پر توبہ ضروری ہوتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرتے: اللہ کے رسول ! میں فلاں فلاں غلطی کا مرتکب ہو گیا ہوں، لہٰذا میرے لیے استغفار کیجیے۔ صحابہ کرام اور منافقین میں یہی بات فرق کرتی تھی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو فوت کیا اور مؤمنوں کی رفاقت سے نکال کر اپنے دارِ کرامت میں منتقل کر لیا تو کوئی بھی صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر نہیں آتا تھا اور یہ نہیں کہتا تھا کہ اللہ کے رسول ! مجھ سے فلاں گناہ سرزد ہو گیا ہے، لہٰذا میرے لیے اللہ سے معافی کی درخواست کریں۔جو شخص کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت نقل کرتا ہے، وہ صریح طور پر جھوٹا اور واضح طور پر بہتان تراش ہے۔ (جب ایسی کوئی روایت موجود نہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ سے استغفار طلب کرنے والے) نے مطلق طور پر خیرالقرون قرار پانے والے تمام صحابہ کرام، تابعین عطام اور تبع تابعین پر (نفاق کا) جھوٹا الزام لگایا ہے کہ وہ اس فرض کو ترک کیے ہوئے تھے جس سے پیچھے رہنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے اور جس سے پیچھے رہنے کو نفاق کی علامت بتایا ہے۔محدثین، فقہاء اور مفسرین ائمہ دین جو کہ پوری دنیا کے رہنما تھے اور جن کا تذکرہ خیر پوری امت کرتی ہے، وہ اس فرض سے کیونکر غافل رہے؟ انہوں نے نہ اس کی طرف دعوت دی، نہ لوگوں کو اس کی ترغیب دی، نہ اس کی طرف رہنمائی کی، نہ ان میں سے کبھی کسی نے ایسا کوئی کام کیا۔ کیا اس فرض کی ادائیگی ان لوگوں نے کی، جن کی کوئی اہمیت نہیں، نہ وہ اہل علم میں شمار کیے جاتے ہیں ؟ اسلاف امت سے تو وہی باتیں منقول ہیں جو غالی لوگوں کو بری لگتی ہیں، یعنی غلو اور شرک سے ممانعت اور توحید و عبودیت کی دعوت۔ جب یہ مرویات سلف غالی لوگوں کے حلق کا کانٹا، ان کی آنکھ کا تنکا اور ان کے دل کا روگ بن جاتی ہیں تو وہ انہیں جھٹلانا اور ان کے راویوں میں طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں، نیز علم حدیث میں درک رکھنے والوں سے جب ان کا پالا پڑتا ہے توو ہ تحریف سے کام لینے لگتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ منارہ حق ہی کو بلند رکھتا ہے تاکہ راہِ حق کے متلاشیوں کو ہدایت مل سکے اور دشمنانِ حق پر حجت قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، حق کی پیروی کرنے پر بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، حق کو ٹھکرانے، تکبر کرنے اور اہل حق کو حقیر جاننے کی بنا پر رسوا کر دیتا ہے۔یہ تو بہت تعجب خیز بات ہے کہ امت اپنی جانوں پر ظلم صرف اسی وقت کرتی تھی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس موجود تھے اور اسی وقت انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا اور آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہونے والوں کو سخت وعید سنائی گئی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو امت کے ظلم ختم ہو گئے اور اب ان میں سے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی ضرورت نہ رہی ؟؟؟اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ علامہ  سبکی کی طرف سے کی گئی آیت کریمہ کی تفسیر یقیناً باطل ہے۔ اگر یہ تفسیر حق ہوتی تو صحابہ و تابعین اور ائمہ دین اس کے علم و عمل اور تبلیغ و نصیحت میں ہم سے بہت آگے ہوتے (یعنی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبر نبوی پر حاضر ہو کر اپنے لیے استغفار کی درخواست کرتے، لیکن ان سے ایسا کچھ منقول نہیں ) ۔ کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تفسیر ایجاد کرنا جائز نہیں جو سلف کے دور میں نہیں ہوئی، نہ ان کے علم میں آئی اور نہ انہوں نے امت کے لیے اس تفسیر کو بیان کیا۔ ایسی تفسیر کرنے سے تو یہ لازم آتا ہے کہ اسلاف امت حق سے جاہل اور بھٹکے رہے، جبکہ حق کا علم اس کے بعد والے معترض کو ہو گیا!!! جب بعد والوں کی تفسیر اسلاف کی تفسیر کے معارض و مخالف ہو اور اس کا بطلان بغیر لمبی چوڑی بحث و تمحیص کے نہایت واضح ہو تو مذکورہ صورت ہی لازم آتی ہے۔ ہم اس پر کچھ مزید تنبیہات کریں گے۔۔۔یہ بات بھی علامہ سبکی کی تفسیر کو قطعی طور پر باطل قرار دیتی ہے کہ ہر مسلمان کو یقینی طور پر معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرانے کی دعوت دی گئی لیکن اس نے باوجود قدرت کے آنے سے اعراض کیا، وہ انتہائی مذموم شخص ہے اور اسے منافق قرار دیا جائے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر کسی شخص کو آپ کی قبر کے پاس آ کر استغفار کی درخواست کرنے کی دعوت دی جائے اور وہ اسے ٹھکرا دے، تو اس پر یہ حکم نہیں لگے گا۔ جو ان دونوں معاملوں، دونوں شخصوں اور دونوں دعوتوں کا ایک ہی حکم بیان کرے گا، وہ باطل کا علمبردار ہو گا اور اللہ تعالیٰ، اس کے کلام، اس کے رسول اور اس کے دین کے محافظوں پر جھوٹ باندھنے کا مرتکب ہو گا۔۔۔اب ہم بتاتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ سبکی کی تفسیر کی مخالفت کیسے کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا آغاز یوں فرمایا کہ :﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ﴾ (النساء 64:4)”ہم نے ہر رسول کو اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ کے پاس آ جائیں۔۔۔“اس سے معلوم ہوا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اطاعت نبوی کا نام ہے، اسی لیے اس اطاعت کی طرف نہ آنے والے کی مذمت کی گئی۔ جبکہ آج تک کسی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ گناہگار پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور اپنے لیے استغفار کی درخواست کرنا فرض ہے۔ اگر یہ اطاعت نبوی پر مبنی کام ہے تو بہترین زمانوں والے مسلمان (صحابہ وتابعین وتبع تابعین ) کیا اس حکم کی نافرمانی کرتے رہے؟ اور کیا اس حکم کی بجاآوری ان غالیوں اور نافرمانوں نے کی ؟یہ بات تو اس فرمان باری تعالیٰ کے بھی خلاف ہے کہ :﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (النساء 65:4)”آپ کے رب کی قسم، یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک وہ اپنے جھگڑوں کا فیصلہ لے کر آپ کے پاس نہ آ جائیں“۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص سے ایمان کی نفی کر دی ہے جو فیصلے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس نہیں آتا۔ یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی آپ ہی سے کرایا جائے گا اور آپ کی وفات کے بعد بھی۔ آپ کی حیات مبارکہ میں آپ وحئ الٰہی کی روشنی میں خود فیصلہ فرماتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے نائبین اور خلفاء یہ کام کرنے لگے۔ پھر اس کی مزید وضاحت اس فرمانِ نبوی سے ہوتی ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ مت بنانا(مسند احمد 367/2، سنن ابي داود 2041، وسنده حسن)۔ اگر ہر گناہگار کے لیے استغفار کی خاطر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر مبارک پر جانا مشروع ہو تو وہ گناہگاروں کی سب سے بڑی میلہ گاہ بن جائے گی اور یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور تعلیمات کے سراسر خلاف ہو گا۔
جاری ہے..... 0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...