Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 29

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 29)
سنی دیوبندی عالم مولانا یوسف لدهیانوی کے نام سے ویب سائٹ جو مکتبہ لدهیانوی کے زیر نگرانی ہے لکهتے ہیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت نور بھی اور بشر بھی، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور بشر ہونے میں کوئی منافات نہیں کہ ایک کا اثبات کرکے دوسرے کی نفی کی جائے، بلکہ آپ صفتِ ہدایت اور نورانیتِ باطن کے اعتبار سے نورِ مجسم ہیں اور اپنی نوع کے اعتبار سے خالص اور کامل بشر ہیں۔
بشر اور انسان ہونا کوئی عار اور عیب کی چیز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کا انتساب خدانخواستہ معیوب سمجھا جائے، انسانیت و بشریت کو خدا تعالیٰ نے چونکہ “احسن تقویم” فرمایا ہے، اس لئے بشریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کمالِ شرف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انسان ہونا انسانیت کے لئے موجبِ صد عزت و افتخار ہے۔
میرے علم میں نہیں کہ حضراتِ سلف صالحین میں سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کرکے آپ کو دائرہ انسانیت سے خارج کیا ہو۔ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بشریت میں بھی منفرد ہیں، اور شرف و منزلت کے اعتبار سے تمام کائنات سے بالاتر اور: “بعد از خدا بزرگ توئی -
اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکمل البشر، افضل البشر اور سید البشر ہونا ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے، کیوں نہ ہو جبکہ خود فرماتے ہیں:
“انا سید ولد آدم یوم القیامة ولا فخر!”
(مشکوٰة ص:۵۱۱، ۵۱۳)
ترجمہ:…”میں اولاد آدم کا سردار ہوں گا قیامت کے دن، اوریہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا!”
قرآن کریم میں اگر ایک جگہ:
“لقد جائکم من الله نور و کتاب مبین۔”
فرمایا ہے (اگر نور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد لی جائے) تو دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہے:
“قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا۔”
(بنی اسرائیل:۹۳)
ترجمہ:…”آپ فرمادیجئے کہ: سبحان للہ! میں بجز اس کے کہ آدمی ہوں مگر پیغمبر ہوں اور کیا ہوں؟”
“قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الٰھکم الہ واحد۔” (الکہف:۱۱۰)
کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں، میرے پاس بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔”

“وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد، افان مت فھم الخالدون۔” (الانبیاء:۳۴)
ترجمہ:…”اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے کسی بھی بشر کے لئے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا، پھر اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا انتقال ہوجائے، تو کیا یہ لوگ دنیا میں ہمیشہ کو رہیں گے؟”
قرآن کریم یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ نوعِ بشر ہی سے بھیجے گئے:
“ما کان لبشر ان یوٴتیہ الله الکتاب والحکمة والنبوة ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون الله۔”
(آل عمران:۷۹)
ترجمہ:…”کسی بشر سے یہ بات نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور فہم اور نبوت عطا فرماوے، پھر وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ میرے بندے بن جاوٴ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر۔”
“وما کان لبشر ان یکلمہ الله الا وحیا او من ورایٴِ حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء۔”
(الشوریٰ:۵۱)
ترجمہ:…”اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرماوے مگر (تین طریق سے) یا تو الہام سے، یا حجاب کے باہر سے، یا کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کو منظور ہوتا ہے پیغام پہنچادیتا ہے۔”
اور انبیاء کرام علیہم السلام سے یہ اعلان بھی کرایا گیا ہے:
“قالت لھم رسلھم ان نحن الا بشر مثلکم ولکن الله یمن علی من یشاء من عبادہ۔” (ابراہیم:۱۱)
ترجمہ:…”ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم بھی تمہارے جیسے آدمی ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان فرمادے۔”
قرآن کریم نے یہ بھی بتایا کہ بشر کی تحقیر سب سے پہلے ابلیس نے کی، اور بشرِ اول حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا:
“قال لم اکن لاسجد لبشر خلقتہ من صلصال من حماءٍ مسنون۔” (الحجر:۳۳)
ترجمہ:…”کہنے لگا میں ایسا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جس کو آپ نے بجتی ہوئی مٹی سے، جو سڑے ہوئے گارے سے بنی ہے، پیدا کیا ہے۔”
قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ کفار نے ہمیشہ انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ تو بشر ہیں، کیا ہم بشر کو رسول مان لیں؟
“فقالوا ابشرا منا واحدا نتبعہ انا اذا لفی ضلال وسعر۔” (القمر:۲۴)
ترجمہ:…”پس کہنے لگے: کیا ہم ایسے شخص کی اتباع کریں گے جو ہماری جنس کا آدمی ہے اور اکیلا ہے، تو اس صورت میں ہم بڑی غلطی اور جنون میں پڑجائیں گے۔”
“وما منع الناس ان یوٴمنوا اذ جائھم الھدی الا ان قالوا ابعث الله بشر رسولا۔ قل لو کان فی الارض ملٰئکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا۔” (بنی اسرائیل:۹۴، ۹۵)
ترجمہ:…”اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکی اس وقت ان کو ایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہ ہوئی کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے بشر کو رسول بناکر بھیجا ہے؟ آپ فرمادیجئے: اگر زمین میں فرشتے رہتے ہوتے کہ اس میں چلتے بستے تو البتہ ہم ان پر آسمان سے فرشتے کو رسول بناکر بھیجتے۔”
ان ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام انسان اور بشر ہی ہوتے ہیں، گویا کسی نبی کی نبوت پر ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان کو بشر اور رسول تسلیم کیا جائے، اسی لئے تمام اہل سنت کے ہاں رسول کی تعریف یہ کی گئی ہے:
“انسان بعثہ الله لتبلیغ الرسالة والاحکام۔”
(شرح عقائد نسفی)
ترجمہ:…”رسول وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغامات اور احکام بندوں تک پہنچانے کے لئے مبعوث فرماتے ہیں۔”
جس طرح قرآن کریم نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بشریت کا اعلان فرمایا ہے، اسی طرح احادیث طیبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بغیر کسی دغدغہ کے اپنی بشریت کا اعلان فرمایا ہے،
”اللّٰھم انما محمد (صلی الله علیہ وسلم) بشر یغضب کما یغضب البشر۔ الحدیث۔”
(عن ابی ہریرہ مسلم ج:۲ ص:۳۲۴)

ترجمہ:…”اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ایک انسان ہی ہیں، ان کو بھی غصہ آتا ہے جس طرح اور انسانوں کو غصہ آتا ہے۔”
”انی اشترطت علی ربی فقلت: انما انا بشر ارضی کما یرضی البشر واغضب کما یغضب البشر۔” (مسلم ج:۲ ص:۳۲۴ عن انس)
ترجمہ:…”میں نے اپنے رب سے ایک شرط کرلی ہے، میں نے کہا کہ: میں بھی ایک انسان ہی ہوں، میں بھی خوش ہوتا ہوں، جس طرح انسان خوش ہوتے ہیں اور غصہ ہوتا ہوں جس طرح دوسرے انسان غصہ ہوتے ہیں۔”
”انما انا بشر وانہ یأتینی الخصم فلعل بعضھم ان یکون ابلغ من بعض، فاحسب انہ صادق، فاقضی لہ، فمن قضیت لہ بحق مسلم فانما ھی قطعة من النار فلیحملھا او یذرھا۔”
(صحیح بخاری ج:۱ ص:۳۳۲، مسلم ج:۲ ص:۷۴ عن ام سلمہ)
ترجمہ:…”میں بھی ایک آدمی ہوں اور میرے پاس مقدمہ کے فریق آتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض زیادہ زبان آور ہوں، پس میں اس کو سچا سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ کردوں، پس جس کے لئے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں وہ محض آگ کا ٹکڑا ہے، اب چاہے وہ اسے اٹھالے جائے، اور چاہے چھوڑ جائے۔”
”انما انا بشر مثلکم انسیٰ کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی۔”
(صحیح بخاری ج:۱ ص:۵۸، صحیح مسلم ج:۱ ص:۲۱۲ عن ابن مسعود)
ترجمہ:…”میں بھی تم جیسا انسان ہی ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں، جیسے تم بھول جاتے ہو، پس جب میں بھول جاوٴں تو مجھے یاد دلادیا کرو۔
”انما انا بشر اذا امرتکم بشیٴ من دینکم فخذوا بہ، واذا امرتکم بشیٴ من رائی فانما انا بشر۔” (صحیح مسلم ج:۲ ص:۲۶۴ عن رافع بن خدیج)
ترجمہ:…”میں بھی ایک انسان ہی ہوں، جب تم کو دین کی کسی بات کا حکم کروں تو اسے لے لو اور جب تم کو (کسی دنیوی معاملے میں) اپنی رائے سے بطور مشورہ کوئی حکم دوں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔
قرآن کریم اور ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صفتِ نور کے ساتھ موصوف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی نفی کردی جائے، نہ ان نصوصِ قطعیہ کے ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار ممکن ہے۔
بشریت کوئی عار اور عیب کی چیز نہیں، جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کرنا سوءِ ادب کا موجب ہو، بشر اور انسان تو اشرف المخلوقات ہے، اس لئے بشریت آپ کا کمال ہے، نقص نہیں، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشرف المخلوقات میں سب سے اشرف و افضل ہونا خود انسانیت کے لئے مایہٴ افتخار ہے۔
“اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر، انسان اور آدمی ہونا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے طرہٴ افتخار ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے سے انسانیت و بشریت رشکِ ملائکہ ہے۔” (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم ج:۱ ص:۳۵)
یہی عقیدہ اکابر اور سلف صالحین کا تھا،
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوعِ انسان میں داخل نہیں۔ آپ نے جو حوالے نقل کئے ہیں ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نور کی صفت کا اثبات کیا گیا ہے، مگر اس سے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار لازم نہیں آتا اس لئے وہ میرے مدعا کے خلاف نہیں، اور نہ میرا عقیدہ ان بزرگوں سے الگ ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے “نشر الطیب” میں سب سے پہلے نورِ محمدی (علیٰ صاحبہ الصلوٰة والتسلیمات) کی تخلیق کا بیان فرمایا ہے، اور اس کے ذیل میں وہ احادیث نقل کی ہیں جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ لیکن حضرت نے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی فرمادی ہے، چنانچہ پہلی روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مسند عبدالرزاق کے حوالے سے یہ نقل کی ہے:
“آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نورِ الٰہی اس کا مادہ تھا، بلکہ اپنے نور کے فیض سے) پیدا کیا پھر جب اللہ تعالیٰ نے اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کئے، ایک حصہ سے قلم پیدا کیا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش، آگے حدیث طویل ہے۔
حضرت تھانوی کے نزدیک نورِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس روح ہے، اور اس فصل میں جتنے احکام ثابت کئے گئے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مقدسہ کے ہیں، اور ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک روح کے اول الخلق ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار لازم نہیں آتا۔
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے خدا تعالیٰ کے نور سے پیدا کئے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ نورِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) نعوذ باللہ! نورِ خداوندی کا کوئی حصہ ہے، بلکہ یہ مطلب ہے کہ نورِ خداوندی کا فیضان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مقدسہ کی تخلیق کا باعث ہوا۔
آپ نے قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی “امداد السلوک” کا حوالہ دیا ہے کہ:
“احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے، اور ظاہر ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں۔”
“امداد السلوک” کا فارسی نسخہ تو میرے سامنے نہیں، البتہ اس کا اردو ترجمہ جو حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے “ارشاد الملوک” کے نام سے کیا ہے، اس کی متعلقہ عبارت یہ ہے:
“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اولادِ آدم ہی میں ہیں، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو اتنا مطہر بنالیا تھا کہ نورِ خالص بن گئے، اور حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا۔ اور شہرت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا، اور ظاہر ہے کہ نور کے علاوہ ہر جسم کے سایہ ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو اس قدر تزکیہ اور تصفیہ بخشا کہ وہ بھی نور بن گئے، چنانچہ ان کی کرامات وغیرہ کی حکایتوں سے کتابیں پُر اور اتنی مشہور ہیں کہ نقل کی حاجت نہیں۔   سایہ نہ ہونے کی روایت کے بارے میں فتاویٰ رشیدیہ سے ایک سوال و جواب یہاں نقل کرتا ہوں۔
“سوال:… سایہ مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑتا تھا یا نہیں؟ اور جو ترمذی نے نوادر الاصول میں عبدالملک بن عبداللہ بن وحید سے انہوں نے ذکوان سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا، سند اس حدیث کی صحیح ہے یا ضعیف یا موضوع؟ ارقام فرماویں۔
جواب:… یہ روایت کتب صحاح میں نہیں، اور “نوادر” کی روایت کا بندہ کو حال معلوم نہیں کہ کیسی ہے؟ “نوادر الاصول” حکیم ترمذی کی ہے، نہ ابوعیسیٰ ترمذی کی، فقط والله اعلم!
رشید احمد گنگوہی عفی عنہ۔”
اس اقتباس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سایہ نہ ہونے کی روایت حدیث کی متداول کتابوں میں نہیں۔
امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کے حوالے سے آپ نے تین باتیں نقل کی ہیں:
“۱:…حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک نور ہیں، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: “خلقت من نور الله۔” میں اللہ کے نور سے پیدا ہوا ہوں۔
۲:…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔
۳:…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت و مصلحت کے پیش نظر بصورت انسان ظاہر فرمایا۔”
“جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفت ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لئے مینارہٴ نور ہیں۔ یہی نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کو خدا تعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے، اور جس کی روشنی ابد تک درخشندہ و تابندہ رہے گی، لہٰذا میرے عقیدے میں آپ بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی۔”
میری ان تمام معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت دلائل قطعیہ سے ثابت ہے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نور کی صفت ثابت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت اور بشریت کے دائرے سے خارج کردینا ہرگز صحیح نہیں۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کا اعتقاد لازم ہے، اسی طرح آپ کی انسانیت و بشریت کا عقیدہ بھی لازم ہے، چنانچہ میں فتاویٰ عالمگیری کے حوالے سے یہ نقل کرچکا ہوں:
“ومن قال لا ادری ان النبی صلی الله علیہ وسلم کان انسیًّا او جنّیًّا یکفر، کذا فی الفصول العمادیة (ج:۲ ص:۳۶)، وکذا فی البحر الرائق (ج:۵ ص:۱۳۰)۔” (فتاویٰ عالمگیری ج:۲ ص:۲۶۳)
ترجمہ:…”اور جو شخص یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے یا جن، وہ کافر ہے۔”
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے لحاظ سے بشر ہیں، اور قرآن کریم کے الفاظ میں “بشر مثلکم” ہیں۔ ہادیٴ راہ ہونے کی حیثیت سے نور اور سراپا نور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں اور بشر انسان ہی کو کہتے ہیں، آپ کو انسان ماننا فرض ہے اور آپ کی انسانیت کا انکار کفر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر زید آپ کے نور ہونے کا بھی قائل ہے تو اس کا موقف بھی صحیح ہے اور اگر بشریت اور نورانیت میں تضاد سمجھتا ہے تو اس کا موقف غلط ہے، آپ بشر کامل ہیں اور صفتِ ہدایت کے اعتبار سے نورِ کامل ہیں،
مکتبہ لدھیانوی http://shaheedeislam.com
جاری ہے....
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ اور مستورات کے لیے علیحدہ گروپ موجود ہے
0096176390670
طالب دعا فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...