Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 158

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 158)
پس حاصل کلام یہ ہے کہ نہ تو کتاب و سنت کی ‌رو سے وسیلہ اور واسطہ پکڑنا جائز ہے نہ ہی عقل انسانی اس کی تائید کرتی ہے۔ سُبْحَانَ اللّـٰهِ وَتَعَالٰى عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ
‌ترجمہ'' پس اللہ تعالیٰ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں'' (سورہ القصص آیت‌68)
تیسری دلیل اور اس کا تجزیہ
بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء کرام چونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے بلند مرتبہ اور مقرب ہوتے ہیں لہذا ان کا اللہ کے ہاں بڑا اثر و رسوخ ہے اگر نذر و نیاز دے کر انہیں خوش کر لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارش کر کےہمیں ‌بخشوا لیں گے' اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس عقیدے کا ظہار ان الفاظ میں یہ کیا ہے۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُـمْ وَلَا يَنْفَعُهُـمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّـٰهِ
ترجمہ'' یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصا‌ن پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں'' ۔ سورۃ‌یونسی‌آیت‌18))
ایک بزرگ جناب خلیل برکاتی صاحب نے اس عقیدہ کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے'' بے شک اولیاء اور فقہاء اپنے پیرو کاروں کی شفاعت کرتے ہیں اور ان کی نگہبانی کرتے ہیں جب ان کی روح نکلتی ‌ہے جب منکر نکیر ان سے سوال کرتے ہیں' جب ان کا حشر ہوتا ہے' جب ان کا اعمال نامہ کھلتا ہے جب ان سے حساب لیا جاتا ہے' جب ان کے عمل ملتے ہیں' جب وہ پل صراط پر چلتے ہیں' ہر وقت ہر حال میں ان کی نگہبانی کرتے ہیں کہیں بهی ان سے غافل نہیں ہوتے'' (بریلویت‌۔ صفحہ 312)
شفاعت کے سلسلے میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کے لئےہم یہاں نقل کر رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اولیاء کرام کس قدر صاحب اختیار اور صاحب شفاعت ہوتے ہیں واقعہ درج ذیل ہے۔
'' جب شیخ عبد القادر جیلانی جہان فانی سے عالم جاودانی میں ‌تشریف لے گئے تو ایک بزرگ کو خواب میں تبایا کہ منکر نکیر نے جب مجھ سے من ربک ‌( یعنی تیرا رب کون ہے ) پوچھا تو میں نے کہا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام اور مصافحہ کرتے ہیں چنانچہ فرشتوں نے نادم ہو کر مصافحہ کیا تو شیخ عبد القادر جیلانی نے ہاتھ مظبوتی سے پکڑ لیے اور کہا کہ تخلیق ‌آدم کے وقت تم نے اتجعل فیھا من یفسد ترجمہ 'کیا تو پیدا کرتا ہے اسے جو زمین میں فساد برپا کرے'' کہہ کر اپنے حکم کو اللہ تعالیٰ کے علم سے زیادہ سمجھنے کی گستاخی کیوں کی نیز تمام بنی آدم کی طرف فساد اور خون ریزی کی نسبت کیوں کی تم میرے ان سوالوں کا جواب دو گے تو چھوڑوں گا ورنہ نہیں' منکر نکیر ہکا بکا ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی مگر اس دلاور' یکتائےمیدان ‌جبروت اور غواث بحرلاہوت کے سامنے قوت ملکوتی کیا کام آتی مجبوراً فرشتوں نے عرض کیا حضور! یہ بات سارے فرشتوں نے کہی تھی لہذا آپ ہمیں چھوڑ دیں تا کہ باقی فرشتوں ‌سے پوچھ کر جواب دیں حضرت غوث الثقلین‌رحمہ ‌اللہ نے ایک فرشتے کو چھوڑا دوسرے کو پکڑ رکھا' فرشتے نے جا کر سارا حال بیان کیا تو سب فرشتے اس سوال کے جواب سے عاجز رہ گئے تب باری تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ میرے محبوب کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی خطا معاف کراؤ' جب تک وہ معاف نہ کرے گا رہائی نہ ہو گی' چنانچہ فرشتے محبوب سجانی رضی‌اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عذرخواہ ہوئے' حضرت صمدیت‌( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی طرف سے بھی شفامت کا اشارہ ہوا' اس وقت حضرت غوث اعظم نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کی اے خالق کل' رب اکبر! اپنے رحم و کرم سے میرے مریدین کو بخش دے اور ان کو منکر نکیر کے سوالوں سے بری فرما دے تو میں ان فرشتوں کا قصور معاف کرتا ہوں' فرمان الہیٰ پہنچا کہ میرے محبوب' میں نے تیری دعا قبول کی فرشتوں کو معاف کر، تب جناب‌غوثیت مآب نے فرشتوں کو چھوڑا اور وہ عالم ملکوت کو چلے گئے
( تخفتہ المجالس از حضرت ریاض احمد گوہر شاہی صفحہ 8 تا 11 بحوالہ گلستان اولیاء) ‌
غور فرما یئے اس واقعہ میں اولیاء کر ام کے با اختیار ہو نے' اولیاء کرام کا وسیلہ پکڑ نے اور اولیاء کر ام کو
اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی بنانے کے عقیدے کی کس قدر بھر پور ترجمانی کی گئی ہے اس واقعہ سے پتہ چلتا ‌ہے کہ اولیاء کرام جب چاہیں سفارش کر کے اللہ تعالیٰ سے بخشوا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی سفارش کے برعکس بحال انکار نہیں' بلکہ اس واقع سے اندازہ ہوتا ہے کہ اولیاء کرام' اللہ تعالیٰ کو سفارش ماننے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں‌۔
آیئے ایک نظر قرآنی تعلیمات پر ڈال کر دیکھیں کیا اللہ کے حضور اس نوعیت کی سفارش ممکن ہے یا نہیں؟ سفارش سے متعلق چند قرآنی آیات درج ذیل ہیں‌۔
مَنْ ذَا الَّـذِىْ يَشْفَعُ عِنْدَهٝٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ
ترجمہ'' کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر ے'' (سورہ‌بقرہ ‌آیت ‌255)
وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى 
ترجمہ'' وہ فرشتے کسی کے حق میں سفارش نہیں کرتے سوائے اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ تعالیٰ راضی ہو۔''( سورۃ‌انبیاء ‌آیت28)
قل للہ الشفاعۃ جمیعا
ترجمہ'' کہو سفارش ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے'' (سورہ ‌زمرآیت‌44)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کی جو حدود و قیود بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں‌۔ اولا‌-سفارش صرف وہی شخص کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔
ثانیاً‌۔ سفارش صرف اسی شخص کے حق میں ہو سکے گی جس کے لئے اللہ تعالیٰ سفارش کرنا پسند فرمائے گا۔
ثالثاً‌۔ سفارش کی اجازت دینے یا نہ دینے' قبول کرنے یا نہ کرنے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
قرآن مجید کی ان مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے قیامت کے دن انبیاء‌وصلحاء اللہ تعالیٰ سے سفارش کرنے کی اجازت کیسے حاصل کریں گے اور پھر یہ سفارش کا طریقہ کیا ہو گا اس کا اندازہ بخاری و مسلم کی طویل حدیث ‌شفاعت سے کیا جا سکتا ہے جس میں رسول اکرم ﷺ ‌ارشاد فرماتے ہیں'' قیامت کے روز لوگ باری باری حضرت آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام' ابراہیم علیہ السلام' موسی‌علیہ‌السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے کہ اللہ تعا لی کے حضور ہماری سفارش کیجئے لیکن انبیاء‌کرام‌اپنی ‌معمولی ‌لغزشوں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے خوف محسوس کرتے ہوئے سفارش سے معذرت کر دیں گے با‌لآخرلوگ ‌رسول‌اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تب آپ اللہ تعالیٰ سے حاضری کی اجازت طلب کریں گے اجازت ملنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر پڑیں گے اور اس وقت تک سجدے میں پڑیں رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا تب اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا'' اے محمد ﷺ! سراٹھاؤ سفارش‌کرو تمہاری سفارش سنی جائے گی‌۔'' چنانچہ رسول اکرم ﷺ ‌پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں گے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حد کے اندر سفارش کریں گے جو قبول ہو گی‌۔ کتاب و سنت میں جائزسفارش کی جو حدود و قیود بیان کی گئی ہیں قرآن مجید میں انبیاء کرام کے د یئے گئے واقعات ان کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں ہم یہاں مثال کے طور پر صرف ایک پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنا چاہتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک رسالت کے فرائض انجام دیتے رہے قوم پر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آیا تو نبی کا مشرک ‌بیٹا بھی ڈوبنے والوں میں شامل تھا جسے دیکھ کر یقینا ‌بوڑھے باپ کا کلیجہ کٹا ہو گا چنانچہ اللہ تعالیٰ رب العزت کی بارگاہ میں سفارش کے لئے ہاتھ پھیلا کر عرض کیا
نَّ ابْنِىْ مِنْ اَهْلِىْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحَاكِمِيْنَ
ترجمہ'' اے رب! ‌میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے تو سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے۔'' (سورۃ ہود آیت‌45) جو اب میں ارشاد ہوا۔
فَلَا تَسْاَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۖ اِنِّـىٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُـوْنَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ
ترجمہ'' اے نوح' جس بات کی تو حقیقت نہیں جانتا اس کی مجھ سے درخواست نہ کر' میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے'' ۔ (سورہ ‌ہود آیت 46) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس تنبہ ‌پر حضرت نوح علیہ السلام' اپنے لخت جگر کا صدمہ تو بھول ہی گئے اپنی فکر لاحق ہو گئی چنانچہ فوراً عرض‌پرداز ہوئے۔
رَبِّ اِنِّـىٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْاَلَكَ مَا لَيْسَ لِىْ بِهٖ عِلْمٌ ۖ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِىْ وَتَـرْحَـمْنِىٓ اَكُنْ مِّنَ الْخَاسِرِيْنَ
‌ترجمہ'' اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ‌ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھےعلم ‌نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤ‌ں گا'' ۔ (سورہ ہود آیت47) یوں ‌ایک‌جلیل قدر پیغمبر کی اپنے بیٹے کے حق میں کی گئی سفارش بارگاہ الہیٰ میں رد کر دی گئی اور پیغمبرزادہ اپنے شرک کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہو کر رہا۔کتاب و سنت کی تعلیمات جان لینے کے باوجود اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ہم فلاں حضرت صاحب یا پیر صاحب کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں لہذا وہ ہمیں ‌قیامت کے روز سفارش کر کے بخشوا لیں گے تو اس کا انجام اسی شخص سے کیسے مختلف ہو سکتا ہے جو اپنا کوئی جرم بخشوانے کے لئے حکومت کے کسی کارندے کو بادشاہ سلامت کے پاس اپنا سفارشی بنا کر بھیجنا چاہے جبکہ وہ کارندہ خود حاکم وقت کے جاہ و جلال سے تھر تھر کانپ ‌رہا ہو اور سفارش کرنے سے بار بارمعذرت کر رہا ہو لیکن مجرم ‌شخص ‌یہی‌کہتا چلا جائے کہ حضور بادشاہ سلامت کے دربار میں آپ ہی ہمارے سفارشی اور حمایتی ہیں آپ ہی ہمارا وسیلہ ‌اور واسطہ ہیں‌۔ تو کیا ایسے مجرم کی واقعی ‌سفارش ہو جائے گی یا وہ خود اپنی حماقت اور نادانی کے ہاتھوں تباہ برباد ہو گا ؟
لا الہ الا ھو فانی توفکون
ترجمہ'' اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو۔ (سورہ ‌فاطر آیت‌3)
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...