Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 157

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر157)
دوسری دلیل اور اس کا تجزیہ:
بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بزرگان دین اور اولیاء کرام اللہ کے ہاں بلند مرتبہ رکھتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بلند و برتر تک حاصل کرنے کے لئے او لیاء کرام اور بزرگوں کا وسیلہ واسطہ ‌پکڑنا بہت ضروری ہے کہا جاتا ہے کہ جس طرح دنیا میں کسی افسر اعلیٰ تک درخواست پہنچانے کے لئے مختلف ‌سفارشوں کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی حاجت پیش کرنے کے لئے وسیلہ پکڑنا ضروری ہے اگر کوئی شخص بلا وسیلہ‌اپنی حاجت پیش کرے گا تو وہ اس طرح ناکام و نامراد رہے گا جس طرح افسر اعلی کو بلا سفارش پیش کی گئی درخواست بے نیل و مرام رہتی ہے' قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَۚ مَا نَعْبُدُهُـمْ اِلَّا لِيُـقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّـٰهِ زُلْفٰىؕ
ترجمہ'' وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا سر پرست بنا رکھا ہے ( وہ اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ)  ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں تا کہ وہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی کرا دیں‌۔ ( سورہ زمر آیت 3)
شیخ عبد القادر جیلانی، سے منسوب درج ذیل اقتباس اسی عقیدے کی ترجمانی کرتا ہے'' جب بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگو میرے وسیلہ سے مانگو تاکہ مراد پوری ہو اور فرمایا کہ جو کسی مصیبت میں میرے وسیلے سے مدد چاہے' اس کی مصیبت دور ہو' اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر پکارےاسے کشادگی حاصل ہو' جو میرے
وسیلے سے اپنی مرادیں پیش کرے تو پوری ہوں'' وسیلے سے شیخ کے عقیدت مندان
الفاظ سے دعا مانگتے ہیں‌۔
الھی بحرمۃ غوث الثقلین اقض حاجتی ( یعنی اے اللہ دونوں جہان کے فریاد رس، عبد القادر جیلانی، کے صدقے میری حاجت پوری فرما ) جناب‌ احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں'' اولیاء سے مدد مانگنا انہیں پکارنا ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع اور شئی ‌مرغوب ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا دشمن انصاف۔
وسیلہ ‌پکڑنے کے سلسلہ میں حضرت جنید بغدادی کا درج ذیل واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی ‌یا اللہ یا اللہ کہہ کر دریا عبور کر گئے لیکن مرید سے کہا کہ یا جنید یا جنید کہہ کر چلا آ-(شریعت وطریقت صفحہ 396)
شیطان لعین نے اس (مرید) کے دل میں وسوسہ ڈالا کیوں نہ میں بھی یا اللہ کہوں جیسا کہ پیر صاحب کہتے ہیں۔ یا اللہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈوبنے لگا پھیر جنید کو پکارا جنید نے کہا وہی کہہ یا جنید یا جنید جب دریا عبور کیا تو پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے فرمایا اے ناداں ابھی جنید تک تو پہنچا نہیں۔ اللہ تک رسائی کی حوس ہے۔(شریعت و طریقت)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بزرگان دین اور اولیا و اکرام کا وسیلا اور واسطہ پکڑنے کا عقیدہ صیح ہے یا غلط یہ دیکھنے کے لیے ہم کتاب و سنت سے رجوع کریں گے۔ تا کہ معلوم کریں کہ شریعت کی عدالت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ پہلے قرآن مجید کی چند آیات ملا حظہ ہیں۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ
ترجمہ: تمارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تماری دعایں قبول کروں گا۔ (سورہ مومن 60)
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
ترجمہ: اے نبی ﷺ میرے بندے اگر تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ (سورہ البقرہ 186)
اِنَّ رَبِّىْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ
ترجمہ: میرا رب قریب بھی ہے اور جواب دینے والا بھی (سورۃ ھود 61)
مذکورہ بالا آیاتوں سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اول اللہ تعالیٰ بلا استثناء اپنے تمام بندوں، نیکوکاروں یا گناگار پرہیز گار ہوں یا خطا کار ہوں عالم ہوں یا جاہل مرشد ہوں یا مرید امیر ہوں یا غریب مرد ہوں یا عورت سب کو یہ حکم دے رہا ہے تم مجھے برائے راست پکارو مجھ ہی سے اپنی حاجتیں اور مرادیں طلب کرو مجھ ہی سے دعائیں اور فریاد کرو۔
ثانیا۔! اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کے بلکل قریب ہے اپنے علم اور قدرت کے ساتھ لہذا ہر شخص خود اللہ کے حضور اپنی درخواستیں اور حاجتیں پیش کر سکتا ہے۔ اس سے اپنا غم اور دکھڑا بیان کر سکتا ہے۔ چاہے تو رات کی تاریکیوں میں' چاہے تو دن کے اجالوں میں' چاہے بند کمروں کی تنہائیوں میں' چاہے تو مجمع عام میں' چاہے تو سفرمیں' چاہے تو جنگلو‌ں میں' چاہے تو صحراؤ‌ں میں' چاہے تو سمندروں میں' چاہے تو فضاؤ‌ں میں' جب چاہے جہاں چاہے' اسے پکار سکتا ہے' اس سے بات چیت کر سکتا ہے کیونکہ وہ ہر شخص کی رگ گردن سے بھی قریب ہے -
ثالثاً‌۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کی دعاؤ‌ں اور فریادوں کا جواب کسی وسیلہ یا و اسطہ کے بغیر خود دیتا ہے'
غور فرمایئے جو حاکم وقت رعایا کی درخواستیں خود وصول کرنے کے لئے چوبیس گھنٹے اپنا دربار عام کھلا رکھتا ہو اور سب فیصلے بھی خود ہی صادر فرماتا ہے  اس کے حضور درخواستیں پیش کر نے کے لئے وسیلے اور واسطے تلاش کر نا سرا سر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  سے احادیث میں جتنی بھی دعائیں مروی ہیں ان میں سے کوئی ایک ضعیف سے ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ‌نے اللہ سے کوئی حاجت طلب کر تے ہوئے یا دعا مانگتےہوئے انبیاء کر ام حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت‌موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وسیلہ یا واسطہ بنایا ہو اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم‌اجمعین سے بھی کوئی ایسی روایت یا واقعہ ثابت نہیں جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم‌اجمعین‌نے دعا مانگتے ‌ہوئے سید الا نبیاء سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا وسیلہ یا واسطہ بنایا ہو اگر وسیلہ یا واسطہ‌ پکڑنا جائز ہوتا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کے لئےرسول اللہ‌صلی اللہ علیہ و سلم  سے بڑھ کر افضل اور اعلیٰ  وسیلہ ‌کوئی نہیں ہو سکتا جس کام کو رسول اللہ اور صحابہ کرام رضی‌اللہ عنہم نے اختیار نہیں فرمایا آج اسے اختیار کر نے کا جواز کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے ؟
اللہ تعالیٰ کے حضور رسائی حاصل کر نے کے لئےوسیلہ‌اور واسطہ‌تلاشں کرنے کی جو دنیاوی مثالیں دی جاتی ہیں آیئے لمحہ بھر کے لئے ان پر بھی غور کر لیں اور یہ دیکھیں کہ ان میں کہاں تک صداقت ہے ؟
دنیا میں کسی بھی افسر بالا تک رسائی حاصل کر نے کے لئے وسیلہ ‌اور واسطہ کی ضرورت درج ذیل وجوہات کی بناء پر ہو سکتی ہے۔
ا۔ افسران بالا کے دروازے پر ہمیشہ دربان بیٹھتے ہیں جو تمام درخواست گنواروں کو اندر نہیں جانے دیتے اگر کوئی افسر بالا کا مقرب اور عزیز ساتھ ہو تو یہ رکاوٹ فورا دور ہو جاتی ہے لہذا و سیلہ ‌اور واسطہ مطلوب ہوتا ہے۔
متعلقہ ‌افسر اگر سائل کے ذاتی حالات اور معاملات سے آگاہ نہ ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ تعلقہ افسر کو مطلوبہ معلومات فراہم کی جا سکیں جن پر وہ اعتماد کر سکے۔
3۔ اگر افسر بالا بے رحم' بے انصاف' اور ظالم طبیعت کا مالک ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہیں خود سائل ہی بے انصافی اور ظلم کا شکار نہ ہو جائے۔
4۔ اگر افسر سے ناجائز مراعات اور مفادات کا حصول مطلوب ہو (مثلاً رشوت دے کر یا کسی قریبی ‌رشتہ دار والدین' بیوی' یا اولاد وغیرہ کا دباؤ ‌ڈلوا کر مفاد حاصل کرنا ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
یہ ہیں وہ مختلف ‌صورتیں جن میں دنیاوی واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ان تمام نکات کو ذہن میں رکھئے اور پھر سوچئے کیا واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں دربان مقرر ہیں کہ اگر کوئی عام آدمی درخواست پیشں کرنا چاہے تو اسے مشکل پیش آئے اور اگر اس کے مقرب اور محبوب آئیں تو ان کے لئےازن عام ہو؟ کیا واقعی اللہ تعالیٰ بھی دنیاوی افسروں کی طرح اپنی مخلوق کے حالات اور معاملات سے لا علم ہے جنہیں جاننے کے لئے اسے وسیلے یا واسطہ کی ضرورت ہوؐ کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ وہ ظلم بے انصافی اور بے رحمی کا مرتکب ہو سکتا ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا ایمان یہی ہے کہ دنیاوی عدالتوں کی طرح اس دربار میں بھی رشوت یا واسطے اور وسیلے کے دباؤطسے ناجائز مراعات اور مفادات کا حصول ممکن ہے ؟ اگر ان سارے سوالوں کا جواب'' ہاں'' میں ہے تو پھر قرآن مجید اور حدیث شریف میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بارے میں بتائی گئی ساری صفات‌مثلاً' رحمان' رحیم' کریم رؤ‌ف' ودود' سمیع' بصیر' علیم' قدیر' خبیر' وغیرہ کا قطعاً انکار کر دیجیے اور پھر یہ بھی تسلیم کر لیجئے کہ جو ظلم و ستم اندھیر نگری اور جنگل کا قانون اس دنیا میں رائج ہے (معاذاللہ‌) اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہی قانون رائج ہے اور اگر ان سوالوں کو جواب نفی میں ہے (اورواقعی‌نفی‌میں‌ہے) توپھرسوچنے کے بات یہ ہے کہ مذکورہ اسباب کے علاوہ وہ کون سا سبب ہے جس کے لئے وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہےؐ ہم اس مسئلے کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہیں گے' غورفرمایئےاگرکوئی‌حاجتمند ‌پچاس یا سو میل دوراپنے گھر بیٹھے کسی مجاز افسر کو اپنی پریشانی اورمصیبت ‌سے آگاہ کرنا چاہے تو کیا ایسا کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں'' سائل اور مسئول دونوں ہی واسطے اور وسیلے کے محتاج ہیں فرض کیجئے سائل کی درخوامت کی طرح افسر مجاز تک پہنچا دی گئی کیا اب وہ افسر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ سائل کے بیان کردہ حالات کی اپنے ذاتی علم کی بنا پر تصدیق یا تردید کرے؟ ہرگزنہیں ‌انسان کا علم اس قدر محدود ہے کہ وہ کسی کے صحیح حالات جاننے کے لئے قابل اعتماد اور ثقہ گواہوں کا‌محتاج ہے فرض کیجئے افسر بالا اپنی انتہائی ذہانت ‌اور فراست کے سبب خود ہی حقائق کی تہ تک پہنچ جاتا ہے تو کیا وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے دفتر میں بیٹھے بٹھائے پچاس یا سو میل دور بیٹھے ہوئے سائل کی مشکل آسان کر دے ؟ ہرگز نہیں ‌بلکہ ایسا کرنے کے لئے بھی اسے واسطے اور وسیلے کی ضرورت ہے گویا سائل سوال کرنے کے لئے وسیلے کا محتاج ہے اور افسر مجاز مدد کرنے کے لئے واسطے اور وسیلےکا محتاج ہے یہی وہ بات ہے جو اللہ کریم نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمائی ہے ہے (ضعف الطالب والمطلوب )‌‌ترجمہ" مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی وہ بھی کمزور(سورۃ‌حج‌آیت‌73) اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی صفات اختیارات اور قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ ساتوں زمینوں کے نیچے پتھر کے اندر موجود چھوٹی سی چیونٹی
کی پکار بھی سن رہا ہے اس کے حالات کا پورا علم رکھتا ہے اور کهربوں میل دور بیٹھے بٹھائے کسی وسیلے اور واسطے کے بغیر اس کی ساری ضرورتیں اور حاجتیں ‌بھی ‌پوری کر رہا ہے' پھر آخر اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرت کے ساتھ انسانوں کی صفات اور قدرت کو کونسی نسبت ہے کہ اللہ کے لئے دنیاوی مثالیں دی جائیں اور وسیلے یا واسطے کا جواز ثابت کیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں تمام‌ دنیاوی‌ مثالیں ‌محض ‌شیطانی ‌فریب ‌ہیں' وسیع قدرتوں اور لامحدود صفات کے مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات با برکات کے معاملات کو انتہائی محدود قلیل ‌اور عارضی اختیارات کے مالک انسانوں کے معاملات پر محمول کرنا اوراللہ تعالیٰ کی ذات کے لئےافسران ‌بالا کی مثالیں دینا اللہ کی جناب میں بہت بڑی توہین اور گستاخی ہے جس سے خود اللہ‌تعا‌لیٰ نے مسلمانوں کو ان الفاظ
میں منع فرمایا ہے'' فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّـٰهِ الْاَمْثَالَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ'' ترجمہ"‌لوگو اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں نہ دو بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورہ نخل ‌آیت74)
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...