Friday 30 June 2017

ارتقاءکا سالمی تعطل

ارتقاءکا سالمی تعطل

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#55(حصہ چہارم)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

ملر کا تجربہ

اس تجربے کے ذریعے اسٹینلی ملر کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ لحمیات کے تعمیراتی جز، امینو ترشے ایک بے جان کرہ ارض پر کڑوڑوں سال پہلے ارتفاقی طور پر وجود میں آئے ہیں۔ اپنے تجربے میں ملر نے گیس کا وہ مرکب استعمال کیا جو کہ اس کے حساب سے قدیم زمین پر موجود تھا (یہ نظریہ بعد میں غیر حقیقی ثابت ہوگیا) ۔اس گیس میں امونیا، میتھین، ہائڈروجن اور آبی بخارات شامل تھے۔ چونکہ یہ تمام گیسیں ایک دوسرے کے ساتھ قدرتی حالات میں کوئی ردِ عمل پیدا نہیں کرسکتیں اس لئے اس نے اس مرکب میں ردِ عمل پیدا کرنے کے لئے توانائی ملادی۔ مزید قیاس کرتے ہوئے کہ قدیم حالات کے دوران یہ توانائی آسمانی بجلی کے ذریعے ہی آسکتی تھی، اس نے اپنے تجربے میں برقی توانائی کا استعمال کیا۔ملر نے پھر گیس کے اس مرکب کو ایک ہفتے تک ۰۰۱ سینٹی گریڈ پر گرم کیا اور پھر اس میں برقی توانائی ملادی۔ ایک ہفتے کے اختتام پر ملر نے ان کیمیائی اجزاءکا معائنہ کیا جو بوتل کے پیندے میں جمع ہوگئے تھے۔

پتا چلاکہ ۰۲ امینو ترشوں میں سے تین جو کہ لحمیات کے بنیادی جز تھے وہ مربوط ہوچکے تھے۔ اس تجربے سے ارتقاءپسند حلقوں میں ایک بے قابو خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس تجربے کو ایک ممتاز اور نمایاں کامیابی قرار دیا گیا ۔اور تو اور کئی رسالوں نے مدہوش خوشی کے عالم میں یہ سرخیاں تک چھاپ دیں کہ ملر نے زندگی تخلیق کرلی ہے۔ دراصل ملر صرف کچھ بے جان سالمیات کی مربوط شدہ شکل پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس تجربے کی کامیابی سے حوصلہ پاتے ہی ارتقاء پسندوں نے فوراً نئے منظر نامے پیش کرنے شروع کردئے۔ امینو ترشوں کی تخلیق کے بعد کے مرحلے بھی جلدی جلدی قیاس کرلئے گئے جن کے مطابق امینو ترشے بعد میں حادثاتی طور پر درست سلسلے قائم کرتے ہوئے لحمیات میں تبدیل ہوتے چلے گئے ۔اتفاقی طور پر نمودار ہونے والے کچھ لحمیات نے خلیوں کی جھلی کی شکل بھی دھارلی اور کسی نامعلوم طریقے سے بالآخر ایک پہلا خلیہ تشکیل ہوگیا۔ تمام خلئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی خلیوں پر مبنی جانداروں کی شکل میں زمین پر چلنے پھرنے لگے۔ ملر کا تجربہ ایک خیالی کہانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور یہ کئی زاویوں سے اپنا جھوٹا ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

ملر کا تجربہ صرف مغالطے پر مبنی تھا

ملر کے تجربے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات میں امینو ترشے خود بہ خود وجود میں آگئے لیکن اس تجربے میں کئی بے ربطگیاں ہیں۔

۱ ۔ ’ ٹھنڈا جال‘ نامی ایک طریقہ عمل استعمال کرتے ہوئے ملر نے امینو ترشوں کو عام ماحول سے ان کے وجود میں آتے ہی الگ کردیا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ماحولیاتی اثرات جس میں یہ امینو ترشے وجود میں آئے تھے وہ ان سالمیات کو فوراً تباہ کر دیتے۔ اس بات میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا کہ قدیم زمینی ماحول میں اس طرح کا باشعور نظامِ علیحدگی موجود نہیں تھا۔ اس نظام کے بغیر اگر امینو توترشے قدیم زمین پر تشکیل ہو بھی جاتے تو وہ فوراً تباہ بھی ہوجاتے۔ کیمیا دان رچرڈ بلس اس معاملے کے تضاد کو اس طرح بیان کرتا ہے:”دراصل اس جال کے بغیر کوئی بھی کیمیائی پیداوار توانائی کے ذریعے سے ہی تباہ ہوجاتی۔“۵۱۱

اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ اپنے تمام سابقہ تجربوں میں ملز انہیں اجزاءکے استعمال سے ایک بھی امینو ترشہ بغیر اس مخصوص ’ ٹھنڈے جال’ کے نہیں بناسکاتھا۔

۲۔ جس قدیم ماحول کی نقل ملر نے اپنے تجربے میں کرنے کی کوشش کی وہ سراسر غیر حقیقی تھا۔ ۰۸۹۱ءکے سالوں میں سائنسدان اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس تجربے میں بنائے گئے نقلی ماحول میں ملر کو میتھین اور امونیا کے بجائے نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ استعمال کرنا چاہئے تھی۔ ایک لمبی خاموشی کے بعد ملر نے خود اس بات کا اعتراف کرلیا کہ اس تجربے میں استعمال کیا گیا ماحول حقیقی نہیں تھا۔۶۱۱
 تو پھر ملر نے ان مخصوص گیسوں پر زور کیوں دیا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ اس لئے کہ امونیا کے بغیر کسی بھی امینو ترشے کی تشکیل ناممکن تھی۔ رسالہ ”ڈسکوور“ میں چھپنے والے ایک مضمون میں کیون مکینن اس کے بارے میں لکھتا ہے:

”ملر اور یوری نے زمین کے قدیم ماہول کی نقل میتھین اور امونیا کے مرکب سے کی۔ ان کے حساب سے کرہ ارض دھات، پتھر اور برف کاایک ہم اصل اور سچا مرکب تھا۔ لیکن حالیہ تحقیق کے مطابق یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ اس قدیم زمانے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بے انتہا گرم تھا اور اس کی ساخت پگھلے ہوئے نکل اور لوہے پر مبنی تھی۔ اسی وجہ سے اس دورکا کیمیائی ماحول بھی نائٹروجن CN2، کاربن ڈائی آکسائڈ (Co2) اور آبی بخارات سے بنا ہوا ہونا چاہئے تھا ۔لیکن یہ اجزاء مربوط سالمیات کی تشکیل کے لئے میتھین اور امونیا جتنے موزوں نہیں ہیں۔“ ۷۱۱

امریکی سائنسدان جے۔ پی فیرس اور سی۔ٹی۔ چین نے بھی ملر کے تجربے کو کاربن ڈائی آکسائڈ، ہائڈروجن، نائٹروجن اور آبی بخارات سے بھرپور احول میں دہرانے کی کوشش کی لیکن ایک بھی امینو ترشے کا سالمیہ حاصل نہیں ہوسکا۔۸۱۱

۳۔ ملر کے تجربے کی تردید کرنے والا ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ قدیم ماحول میں آکسیجن کی مقدار اس قدر زیادہ تھی کہ یہ تمام امینو ترشوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ ملر نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا تھا لیکن اس کا ثبوت ۵۳ کروڑ سال پرانے پتھروں میں ملا ہے جن میں آکسیڈاز لوہے اور یورینیم کے نشانات موجود ہیں۔( ۹۱۱)
اس کے علاوہ اور بھی طرح کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس وقت ہوا میں آکسیجن کی مقدار ارتقاءپسندں کی بتائی گئی مقدار سے کہیں زیادہ تھی۔

تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اس وقت کرہ ارض پر پڑنے والی ورائے بنفشی ارتقائی اندازوں سے ۰۰۰,۰۱ گنا زیادہ تھی۔ اس شدید نورافگنی کے نتیجے میں تمام آبی بخارات اور کاربن ڈائی آکسائڈ نے تحلیل ہوکر آکسیجن کو ہوا میں آزاد کردیا ہوگا۔ یہ صورتحال ملر کے تجربے کے خلاف جاتی ہے جس میں آکسیجن کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا تھا۔ اگر تجربے میں آکسیجن استعمال کی جاتی تو میتھین کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی میں تبدیل ہوجاتی اور امونیا نائٹروجن اور پانی کی شکل دھارلیتا۔ دوسری صورت میں ایک آکسیجن سے عاری ماحول میں اوزون کی دبیز تہہ بھی موجود نہیں ہوتی اور امینو ترشے فوراً ہی تباہ ہوجاتے کیونکہ وہ اوزونی تہہ کے بغیر شدید نورافگنی کی تاب نہیں لاسکتے تھے۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آکسیجن کے ساتھ یا آکسیجن کے بغیر، دونوں صورتیں قدیم ماحول میں امینو ترشوں کے لئے مہلک ثابت ہوتےں۔

ملر کے تجربے کے اختتام پر کئی ایسے مربوط ترشے وجود میں آچکے تھے جن کی خصوصیات جانداروں کی ساخت اور کارکردگی کے لئے نقصان کا سبب ہوتیں ۔ اگر امینو ترشوں کو الگ نہیں کیا جاتا اور نئے کیمیائی اجزاءکے ساتھ ایک ہی ماحول میں چھوڑدیا جاتا تو ان کی تباہی یا کیمیائی ردِ عمل کے ذریعے مختلف مرکبات میں تبدیل ہوجانا ناگزیر تھا۔ تجربے کے اختتام پر کئی سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے بھی تشکیل ہوچکے تھے۔۰۲۱ 
ان امینو ترشوں کی موجودگی اس نظریئے کی اپنے حدود کے اندر ہی تردید کردیتی ہے کیونکہ سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے جاندار اجسام کی تشکیل کے لئے بےکار ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملر کے تجربے میں امینو ترشے جن حالات کے تحت تشکیل ہوئے تھے وہ زندگی کے لئے موزوں حالات نہیں تھے۔ ملر کا بنایا گیا ماحول ایک ایسا ترشی مرکب تھا جو کہ حاصل ہونے والے کارآمد سالمیات کو بھی آکسیجن کی آمیزش کے ذریعے تباہ کردیتا۔

یہ تمام حقائق ایک ہی سچائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ملر کا تجربہ جانداروں کے قدیم ارضی ماحول میں اتفاق سے وجود میں آنے کے دعوﺅں کو ثابت کرنے میں ناکام ہے۔ یہ پورا تجربہ امینو ترشوں کا ایک سوچا سمجھا باضابطہ عمل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ تجربے میں استعمال ہونے والی گیسوں کی نوعیت اور مقدار کا انتخاب امینو ترشوں کے لئے سب سے سازگار ماحول فراہم کرنے کے نقطہ نظر سے کیا گیا۔ تجربے میں استعمال کی گئی توانائی نہ بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم بلکہ اس درست مقدار میں ترتیب دی ہوئی تھی جس کے زیر اثر مطلوبہ ردِ عمل حاصل ہوسکے۔تجرباتی آلات کو بھی الگ تھلگ کردیا گیا تھا تاکہ ان کے ذریعے کوئی مضر، مہلک یا دوسرے قسم کے اجزاء اندر نہ جاسکیں جو امینو ترشوں کی تشکیل کے سازگار ماحول پر اثر انداز ہوں۔ کسی ایسے عناصر، معدنیات، یا مرکبات کا استعمال اس تجربے میں نہیں کیا گیا جو کہ گو کہ اس وقت زمین  پر تو موجود تھے مگر جس سے مطلو بہ ردِ عمل پر فرق پڑتا ۔آکسیجن ان مہلک عناصر میں سے ایک ہے جوکہ آمیزش کے ذریعے امینو ترشوں کی تشکیل کو ناممکن بناسکتا تھا۔ اس بہترین افزائشی ماحول کے باوجود کسی بھی تشکیل کئے گئے امینو ترشوں کا ’ٹھنڈے جال‘ کے بغیر تباہی سے بچے رہنا ناممکن تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے اس تجربے کے ذریعے ملر نے اس ارتقائی دعوے کی دھجیاں اڑادیں کہ ”زندگی لاشعوری اتفاقات کا نتیجہ ہے“ ۔ اگر اس تجربے سے کچھ ثابت ہوا بھی ہے تو وہ یہ کہ امینو ترشے صرف ایک ایسے باضابطہ تجربہ گاہی ماحول میں ہی تشکیل دئے جاسکتے ہیں جہاں کی تمام ماحولیاتی خصوصیات ایک باشعور مداخلت کا نتیجہ ہوں۔ یعنی کہ زندگی کو وجود میں لانے والی طاقت ایک بے شعور اتفاق نہیں بلکہ باشعور تخلیق ہے۔ ارتقاءپسندوں کا اس حقیقت سے انکار ان کا اندھا اور غیر سائنسی تعصب ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپنے طالب علم اسٹینلی ملر کے ساتھ مل کر ملر کے تجربے کو ترتیب دینے والا ہیرلڈےوری نے اس موضوع پر اعتراف کیا کہ:
”ہم میں سے جو بھی زندگی کی ابتداءکا مطالعہ کرتا ہے اس پر ادراک ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ ہم اس معاملے کی گہرائی میں جاتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ زندگی ارتقائی عمل کے لئے بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ گو ہم سب لوگ عقیدے کے طور پر یقین رکھتے ہیں کہ زندگی کی ابتداءسیارے کے مردہ مادے سے ہوئی لیکن پھر بھی اس کی پیچیدگی اس قدر زخیم ہے کہ ارتقاءکا تصور بھی بے انتہا مشکل ہے۔“۱۲۱

دنیا کا قدیم ماحول اور لحمیات

تمام بے ربطگیوں کے باوجود ارتقائی ذرائع ملر کے تجربے کو امینو ترشوں کی ابتداءسے متعلق تمام سوالات کا جواب دینے کے لئے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ یہ غلط تاثر دیتے ہوئے کہ یہ موضوع اس ناکارہ تجربے کے ذریعے حل ہوچکا ہے ،وہ دراصل نظریہ ارتقاءمیں موجود دراڑوں کو پر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔لیکن زندگی کی ابتداءسے متعلق دوسرے مرحلے کو بیان کرنے کے موقع پر ارتقاءپسندوں کو امینوترشوں کی تشکیل سے بھی بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ لحمیات کی ابتداءہے۔ لحمیات زندگی کا تعمیراتی جز ہوتے ہیں جن کے اندر ہزاروں مختلف امینو ترشے ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص شکل اور ترتیب کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔یہ دعویٰ کہ لحمیات قدرتی ماحول کے زیر اثر وجود میں آئے اس دعوے سے بھی بڑھ کر غیر حقیقی اور غیر منطقی ہے کہ امینو ترشے اتفاق سے وجود میں آئے۔ گزرنے والے صفحات میں ریاضی کی رو سے امینو ترشوں کے بے ہنگم ملاپ کا درست سلسلوں کی صورت میں لحمیاتی اشکال پیدا کرنے والی ناممکنات کا ممکنہ حساب و شمار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اب لحمیات کا قدیم ارضی ماحول کے تحت کیمیائی اثرات کے ذریعے پیدا ہونے کی ناممکنات کا جائز لیا جائے گا۔

ارتقاءپسندوں کا گھمبیر ترین فریب ان کا تصویر میں دکھایا گیا قدیم زمین پر زندگی کی بیک وقت نموداری کا منظر نامہ ہے۔ اپنے دعوؤں کو ملر جیسے تجربوں سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن سائنسی حقائق سے ان کو ہمیشہ مات ہوتی رہی ہے۔ ۰۷۹۱ ءکے تجربوں سے حاصل کئے گئے نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ قدیم زمین کا جو ماحول ارتقاءپسندوں نے فرض کیا تھا وہ زندگی کےلئے نہایت غیر موزوں تھا۔تصویر نمبر1 دیکھیں ۔

لحمیات کی ترکیب پانی میں ممکن نہیں ہے

جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا ہے کہ لحمیات کی تشکیل کے دوران امینو ترشے ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص جوڑ بناتے ہیں جس کو ’پےپٹائڈ بونڈ ‘ کہتے ہیں ۔اس جوڑ کی تشکیل کے دوران پانی کا ایک سالمہ خارج ہوتا ہے۔ یہ حقیقت لازمی طور پر اس ارتقائی دعوے کی تردید کرتی ہے کہ قدیم زندگی کی ابتداءپانی میں ہوئی کیونکہ کیمیاءکے ’لاشے ٹیلیر پرنسیپل‘ کے مطابق کوئی ایسا ردِ عمل جو کہ پانی خارج کرتا ہو (بستہ کرنے کا ردِ عمل) وہ آبی ماحول میں پیش نہیں آسکتا۔آبی ماحول میں اس طرح کے ردعمل کے پیش آنے کا تمام کیمیائی ردِ عمل میں سے سب سے کم امکان ہے۔ اسی لئے گوکہ سمندر کو زندگی کی شروعات اور امینو ترشوں کی ابتداءگاہ قراردیا جاتا ہے ،وہ دراصل امینو ترشوں کا لحمیات کی شکل اختیار کرنے کے لئے سب سے زیادہ غیر موزوں اور ناممکن ماحول ہے۔ دوسری طرف ارتقاءپسندوں کا اپنا یہ بیان بدل دینا اور یہ کہنا شروع کردینا کہ زندگی کی ابتداءدراصل زمین پر ہوئی تھی بھی خلاف منطق ہے کیونکہ امینو ترشوں کاورائے بنفشی سے محفوظ رہ کر وجود میں آنا صرف اور صرف پانی کے اندر ہی ممکن تھا۔ زمین کے اوپر ورائے بنفشی ان کو فوراً تباہ کردیتے۔ ”لاشےٹیلیر پرنسیپل“ یا ”لاسٹیلر اصول“ زندگی کی پانی کے اندر ابتداءکی مخالفت کرتا ہے۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے جو کہ ارتقاءپسندوں کو درپیش ہے۔

فوکس کا تجربہ: ایک اور مایوس کن کوشش

فوکس نے اپنے تجربے میں ”پروٹینائڈ“ نامی مادی ذرات تیار کئے جو کہ امینو ترشوں کے بے ترتیب مرکب تھے۔ جاندار اجسام کے لحمیوں کے برعکس پروٹینائڈ بے کار اور غیر فعال کیمیائی اجزاءتھے۔ یہاں برقیہ خوردبین کے ذریعے پروٹینائڈ کے ذرے نظر آرہے ہیں۔

اوپر بتائے گئے مسئلے سے للکارے جانے کے باعث ارتقاءپسندوںنے اپنے نظریوں کی تردید کرتے ہوئے اس پانی کے مسئلے کے حل کے طور پر غیر حقیقی منظر ایجاد کرنے شروع کردئے۔ سڈنی فوکس ان تحقیق دانوں میں سب سے مشہور تحقیق دان تھا۔ فوکس نے مندرجہ ذیل نظریئے کو اس مسئلے کے حل کے طور پر آگے بڑھانا شروع کردیا۔ فوکس کے مطابق پہلے امینو ترشے قدیمی سمندر میں تشکیل پانے کے بعد ایک آتش فشاں کے نزدیک پہاڑیوں پر کسی طرح پہنچ گئے۔ ان امینو ترشوںکے اندر موجود پانی میں پہاڑیوں کے امینو ترشے بھی شامل ہوگئے۔ یہ تمام پانی سخت درجہ حرارت کے باعث خشک ہوگیا۔ اس طریقے سے سوکھ جانے والے امینوترشے آپس میں جڑ کر لحمیات کی شکل اختیار کرگئے۔ اس پیچیدہ طریقے کو اس حلقے کے سائنسدانوںنے قبول کرنے سے انکا رکردیا کیونکہ امینو ترشے اتنا شدےددرجہ حرارت برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے۔ تحقیق کے ذریعے ثابت ہوچکا ہے کہ امینو ترشے بہت زیادہ درجہ حرارت کے باعث تباہ ہوجاتے ہیں۔لیکن فوکس نے اب بھی ہار نہیں مانی۔ اس نے تجربہ گاہ میں مخصوص ماحول کے اندر امینو ترشوں کو ہر طرح کی آلائش اور ملاوٹ سے پاک کردیا اور ان کو ایک خشک ماحول میں گرم کیا۔ گوکہ امینو ترشے آپس میں مل گئے لیکن لحمیات اب بھی حاصل نہیں ہوئے۔ فوکس کو سادہ اور بے ترتیب امینو ترشوں کے گچھے حاصل ہوئے جوکہ ایک دوسرے سے ناکافی واقفیت سے جڑے ہوئے تھے۔ ان گچھوں اور کسی زندہ لحمیہ کے درمیان کسی قسم کی مماثلت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر فوکس ان امینو ترشوں کو ایک باقاعدہ درجہ حرارت پر مزےد اور وقت کے لئے رکھتا تو امینوترشوں کے یہ ناکارہ گچھے بکھرجاتے۔۲۲۱

ایک اور نقطہ جو کہ فوکس کے تجربے کو ناقص بناتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ملر کے تجربے سے حاصل کئے گئے بے کار اجزاءکا استعمال نہیں کیا بلکہ اس نے جانداروں کے خالص امینو ترشوں کو استعمال کیا تھا۔ چونکہ اس کا تجربہ ملر کے تجربے کا تسلسل تھا اسی لئے اس کو ملر کے حاصل کردہ نتیجوں سے ہی شروع ہونا چاہئے تھا ۔لیکن نہ فوکس نہ کسی اور تحقیق دان نے ان ناکارہ امینو ترشوں کو استعمال کیا جوکہ ملر نے اپنے تجربے سے حاصل کئے تھے۔۳۲۱

فوکس کے تجربے کا ارتقاءپسند حلقوں میں کسی طرح کا خیر مقدم نہیں کیا گیا کیونکہ صاف ظاہر تھا کہ اس تجربے کے ذریعے اس نے جوامینو ترشوں کی زنجیریں حاصل کی تھیں جن کو اس نے ”پروٹینائڈ“ (پروٹین یعنی لحمیہ سے پروٹینائڈ) کا نام دیا تھا وہ کسی بھی طرح کے قدیم قدرتی ماحول میں وجود میں نہیں آسکتے تھے۔ اس کے علاوہ زندگی کا بنیادی لحمیہ آج تک کسی انسانی کوشش سے پیدا نہیں کیا جاسکا۔ لحمیات کی ابتداءسے متعلق تمام مسائل غیر حل شدہ ہی ہےں۔ مشہور سائنسی رسالے ”کیمیکل انجینئرنگ نیوز“میں ۰۷۹۱ءکے سالوں میں چھپنے والے ایک مضمون میں فوکس کے تجربے کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ:

”سڈنی فوکس اور دوسرے تحقیق دانوں نے امینو ترشوں کو ”پروٹینائڈ“ کی شکل میں جوڑنے سے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ مخصوص حرارت کے ذریعے ایسی صورتحال میں کی ہے جوکہ درحقیقت کرہ¿ ارض کے قدیمی وقت میں موجود ہی نہیں تھی۔ ان کے علاوہ ان لوگوں کو جانداروں کےاندر موجود عام لحمیات کے متعلق مکمل طور پر علم ہی نہیں تھا۔ ان کے تجربے کا نتیجہ صرف ناکارہ اور بے رتیب کیمیائی دھبے ہیں۔ ان کو اس بات کا بھی واضح طور پر علم تھا۔ الغرض کوئی سالمے ابتدائی وقت کے دور میں وجود میں آبھی جاتے تو وہ لازماً تباہ بھی ہوجاتے۔“ ۴۲۱

فوکس نے اپنے تجربے میں ”پروٹینائڈ“ نامی مادی ذرات تیار کئے جو کہ امینو ترشوں کے بے ترتیب مرکب تھے۔ جاندار اجسام کے لحمیوں کے برعکس پروٹینائڈ بے کار اور غیر فعال کیمیائی اجزاءتھے۔ یہاں برقیہ خوردبین کے ذریعے پروٹینائڈ کے ذرے نظر آرہے ہیں۔تصویر نمبر2 ملاحظہ کریں ۔

اور واقعی یہ بات درست بھی تھی کہ فوکس کو حاصل ہونے والے پروٹینائڈ اصل لحمیات سے ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے بالکل مختلف تھے۔ ان کے درمیان فرق ایسا تھا جیسے کسی جدید تکنیکی صلاحیت رکھنے والے آلات اور خام لوہے کےڈھیر کے درمیان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان بے ترتیب امینو ترشوں کی زنجیروں کا قدیم ماحول میں زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ شدید ورائے بنفشی اور دوسرے بے ربط قدرتی ماحولیاتی اثرات کے تحت پیدا ہونے والے مصر طبعیاتی اور کیمیائی ردِ عمل کے باعث یہ لحمیات فوراً تباہ ہوجاتے۔ ”لاسٹیلر پرنسپل“، یا ”لاسٹیلر اصول“ کے تحت یہ بھی ناممکن تھاکہ یہ امینو ترشے پانی کے اندر تشکیل پاتے جہاں پر وہ ورائے بنفشی سے مکمل طور پر محفوظ رہتے۔

ان تمام اہم نقطوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس خیال نے سائنسدانوں کے درمیان متفقہ طور پر دم توڑ دیا کہ پروٹینائڈ یا نقلی طور پر حاصل کئے گئے لحمیات زندگی کی بنیاد ہوسکتے ہیں۔

بے جان مادہ زندگی نہیں پیدا کرسکتا

ملر اور فوکس کے تجربوں جیسے ارتقائی تجربوں کا مقصد اس دعوے کو سچ ثابت کرنا تھا کہ بے جان مادہ خود اپنے آپ کو ترتیب دے کر پیچیدہ جاندارا جسام کی شکل دھارسکتا ہے۔ یہ ایک نہایت غیر سائنسی عقیدہ ہے۔ ہر مشاہدے اورتحقیق نے ناقابلِ انکار سطح پر ثابت کردیا ہے کہ مادے کے اندر اس طرح کی کوئی صلاحیت نہیں ہوتی۔ مشہور انگریز ہیئت داں اور ریاضی داں سر فرےڈ ہائل کہتا ہے کہ دانستہ دخل اندازی کے بغیر مادہ زندگی پیدا نہیں کرسکتا۔

”مادے کا اگر کوئی بنیادی اصول ہوتا جس کے تحت تمام مربوط نظام زندگی کی طرف چلے جاتے تو اس عمل کا ثبوت با آسانی تجربہ گاہوں میں حاصل ہوجانا چاہئے تھا۔مثال کے طور پر تیراکی کے ایک تالاب کو قدیم مائع تصور کرلیتے ہیں۔ اس تالاب کو اپنی مرضی کے ہر غیر حیاتیاتی کیمیا سے بھردیتے ہیں۔ اب چاہے اس کے اوپر گیس ڈالیں یا اس کے اندر وہ آپ کی مرضی ہے اور پھر اپنی مرضی سے اس کو نورافگنی کے عمل سے بھی گزاردیتے ہےں۔ اس تجربے کو ایک سال تک جاری رکھیں اور دیکھیں کہ ۰۰۰۲ میں سے کتنے خامرے اس پانی میں نمودار ہوتے ہیں )خامرے وہ لحمئے ہوتے ہیں جو مخصوص حیاتی کیمیائی ردِ عمل میں عمل انگیز کا کام کرتے ہیں(۔ اس کا جواب میں آپ کو دے سکتا ہوں اس لئے آپ خود اس تجربے کو کرنے کا وقت، مشکل اور خرچا بچالیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا ماسوائے تارکول سے آلودہ امینو ترشوں پر مشتمل گندہ پانی اور دوسرے سادہ مربوط کیمیا“۔ ۱

ارتقائی ماہرِ حیاتیات اینڈرواسکاٹ بھی یہی اعتراف کرتا ہے:

”مادے کی تھوڑی سی مقدار لے لیں اور اس کو گرم کرتے ہوئے ہلائیں۔ یہ کسی شے کی تخلیق کی جدید صورت ہے۔ باقی کا کام کشش ثقل، برقناطیسی عمل اور مضبوط اور کمزور نیوکلیائی قوت کرتی ہے۔ لیکن اس بظاہر صاف ستھری کہانی کا کتنا حصہ تسلیم شدہ ہے اور کتنا پرامید مفروضوں پر مبنی ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہر بڑے مرحلے کا میکانیکی عمل، کیمیائی عمل سے نکلنے والے مادے سے لے کر پہچان کے لائق پہلے خلیوں تک، سخت تنازعہ اور مکمل بدحواسی کا شکار ہے“۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ
http://ur.harunyahya.com)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...