Sunday 30 July 2017

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#82حصہ دوم

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#82حصہ دوم

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

ہمارا نظام شمسی اور یہ کائنات

سائنس دانوں کے مطابق ہمارے نظام شمسی میں سب سے بڑا ستارہ سورج ہے جبکہ باقی سب سیارے ہیں۔ جن کی تعداد 8 ہے۔ )یارد رہے کہ پلوٹو کو نظام شمسی کے نویں سیارے کی حیثیت سے نکال دیا گیاہے۔گو کہ حقیقت میں یہ سیارہ موجود ہے مگر سائنسدانوں کی نئی تعریفات کے نتیجے میں اب یہ ہمارے نظام شمسی کا حصہ نہیں رہا(۔ سورج زمین سے 15 کروڑ کلومیٹر دورہے۔ سورج کے سب سے نزدیک سیارہ عطارد (Mercury )ہے جو سورج سے 5 کروڑ 79 لاکھ کلومیٹر دور ہے اوریہ سورج کے گرد تقریباً48 کلومیڑ فی سیکنڈ کی رفتا ر سے چکر لگا رہا ہے، اس کا قطر 4879 کلومیٹرہے۔ 

دوسرے نمبر پر سیارہ زہرہ) venus ) ہے جو 35 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگا رہاہے۔ اس کا فاصلہ سورج سے 10 کروڑ 82 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اس کا قطر 12,104 کلومیٹر ہے، یہ ایک گرم ترین اور چمکنے والاسیارہ ہے۔ تیسرے نمبر پر ہماری زمین (Earth)ہے جو تقریباً 30 کلو میڑ فی سکینڈ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگارہی ہے۔

چوتھے نمبر پر سیارہ مریخ (Mars) ہے جو سورج سے 22 کروڑ 79 لاکھ کلو میٹر دور ہے اوریہ سورج کے گرد تقریبا ً 24 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چکر کاٹ رہا ہے۔اس کا قطر 6796کلومیٹر ہے۔ مریخ کے بعد ایک Asteroide Beltہے جس میں چٹانوں کے بڑے بڑے ٹکڑے ہیں جو سورج کے گرد ایک حلقے میں گھوم رہے ہیں۔ پانچویں نمبر پر سیارہ مشتری (Jupiter) ہے ،جو سورج کے گرد 77کروڑ 80 لاکھ کلو میڑ کی دور ی سے 13 کلو میڑ فی سیکنڈ کی رفتار چکر کاٹ رہا ہے۔اس کا قطر 1,42,984کلومیٹر ہے 'ہمارے نظام شمسی میں سب سے گرم ترین فضارکھنے والا سیارہ یہی ہے 'حتی کہ سورج کے مرکز سے بھی زیادہ گرم ہے۔ اس کی فضا کا درجہ حرارت 30سے40کروڑ سینٹی گریڈ ہے جبکہ سورج کے مرکز(Core)کا درجہ حرارت ایک کروڑ پچاس لاکھ سینٹی گریڈ ہے مگر بذات خود سیارہ مشتری کوئی زیادہ گرم نہیں ہے۔ 

چھٹے نمبر پر سیارہ سیٹرن(Saturn)ہے جو سورج سے ایک ارب 42کروڑ 90لاکھ کلو میڑ دور ہے اور یہ بھی سورج کے گرد تقریباً10کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش میں ہے، اس کا قطر 1,20,536کلومیٹر ہے۔ ساتویں نمبر پر سیارہ یورینس (Uranus) ہے جس کا فاصلہ سورج سے 2 ارب 87 کروڑ 50 لاکھ کلومیٹر ہے اور اس کی رفتار تقریباً 7 کلومیٹر فی سکینڈ ہے، اس کا قطر 51,118کلومیٹر ہے۔آٹھویں نمبر پر سیارہ نیپچون) Neptune ) )ہے جس کی رفتار ساڑھے پانچ کلومیٹر فی سکینڈ ہے اور یہ سورج سے 4 ارب 50 کروڑ 40لاکھ کلومیٹر دور ہے ، اس کا قطر 49,528کلومیٹر ہے۔ 

جبکہ اس کےبعد سیارہ پلوٹو ( Pluto )ہے جس کا فاصلہ سورج سے 5 ارب 91 کروڑ 60لاکھ کلومیٹرہے اور یہ سورج کے گرد تقریباً 5 کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے گھوم رہا ہے، اس کاقطر 2300کلومیٹرہے۔ دوسرے سیاروں کی نسبت اس کامدار سب سے ٹیڑھا ہے۔ یہ سب سیارے اینٹی کلاک وائز سمت میں گردش کرتے ہیں۔

چاند زمین سے3 لاکھ 84ہزار کلومیٹر کی دوری سے گردش کر رہا ہے ،چاند کا قطر 3476کلومیٹر ہے، یہ زمین کے گرد 29.531 دن میں ایک چکر مکمل کرتاہے جبکہ زمین سورج کے گرد ایک چکر ایک سال ( یعنی 365.242199دن ) میں پورا کرتی ہے۔ اس کا قطر 12756کلومیٹر ہے۔ زمین سورج کے گرد 30کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہی ہے جبکہ اپنے محور کے گرد گھومنے کی رفتار 1722کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

سب سے نزدیکی سیارہ عطارد سورج کے گرد ایک چکر 88 دن میں (زمین کی نسبت سے ) پورا کرتاہے۔جبکہ سب سے بعید سیارہ پلوٹو ،سورج کے گرد ایک چکر 248.4 سالوں میں پورا کرتاہے۔ عطارد'زہرہ 'زمین اور مریخ سب چٹانوں پر مشتمل ہیں جبکہ مشتری، سیٹرن ، یورینس اور نیپچون سیارے گیسوںاور سیال نما مادے پر مشتمل ہیں، ان پر زمین کی طرح کھڑا نہیں ہواجا سکتا۔جبکہ پلوٹو ان دونوں اقسام سے مختلف ہے۔

ہمارا یہ نظام شمسی جس کہکشاں میں واقع ہے اس کی لمبائی ایک لاکھ نوری سال ہے ( اگر روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکینڈ کی رفتار سے ایک لاکھ سال تک چلتی رہے تو وہ جتنا فاصلہ طے کرے گی، وہ ایک لاکھ نوری سال ہو گا )۔ہمارا یہ سورج کہکشاں کے مرکز سے 30,000 نوری سال پر واقع ہے اور سورج کو اپنے اس مرکز کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں 22 کروڑ سال لگتے ہیں۔ (1)

سورج کی کششں ثقل زمین کی نسبت 28گنا زیادہ ہے اور خط استوا کے نزدیک اس کا قطر 13,90,000کلومیٹرہے۔ ہمارے نظام شمسی سے قریب ترین سورج کا نام Proxima Centauriہے جوہم سے چار نوری سال دورہے (2)

Asteroid Belt میں چٹانوں کے ٹکڑے 1000 کی تعداد میں ایسے ہیں کہ جن کی لمبائی ایک کلومیٹر تک ہے۔ جبکہ ایک ٹکڑا جس کا نمبر 433ہے اور اس کا نام EROSرکھاگیا ہے ' کاسائز 13*13*33 کلومیٹر ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بھی زمین سے ٹکرا جائے توزمین کوسخت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

ملکی وے کہکشاں کہکشاؤں کے ایک گروپ میں واقع ہے جس کا نام''لوکل گروپ''ہے۔ اسی گروپ کے اندر ملکی وے کہکشاں 300کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے ستاروں کے ایک جھرمٹ "VIRGO"کی طرح رواںدواں ہے۔ (3)

کائنات لامحدود ہے اور یہ 14ارب سال سے پھیل رہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جارہی ہے۔ ابھی تک نظر آنے والی کائنات میں عظیم ترین کہکشاؤں کے جھرمٹوں کی تعداد ایک کروڑہے۔ نسبتاً چھوٹے جھرمٹوں والی کہکشاؤںکی تعداد 25ارب ہے۔ 350ارب بڑی کہکشائیں، 35کھرب چھوٹی کہکشائیں جبکہ 30ارب پدم (3)ستارے پائے جاتے ہیں۔(4)
(قرآن اور کائنات ،مصنف حاجی غلام حسن ،جنگ پبلشرز لاہور)

نیلگوں سیارہ۔ زمین

’’زمین۔اپنے کرۂ ہوائی اور سمندروں،پیچیدہ کرۂ حیات (بایو اسفیئر)، قدرے تکسید شدہ قشرِارض (Crust) سلیکا سے بھرپور آتشی اور تہہ دار اور کثیر شکلی چٹانوں کے ساتھ (جومیگنیشیم سلیکیٹ کے مینٹل اور قلب میں موجود) گرم لوہے پر بچھی ہوئی ہیں، اپنی برفانی چوٹیوں، صحراؤں، جنگلوں، ٹنڈرا کے خطوں، جھاڑیوں سے اٹے مقامات، تازہ پانی کی جھیلوں، کوئلے کے تختوں (beds)، تیل کے ذخائر، آتش فشانوں، دھوئیں کے بادلوں، فیکٹریوں، گاڑیوں، پودوں، جانوروں، مقناطیسی میدان، کرۂ روانی (آئنو اسفیئر)، وسط بحری گھاٹیوں (mid-ocean ridges) اور تمام حیرت انگیز خوبیوں سمیت۔۔۔ عقلوں کو خبط کردینے والی پیچیدگی کا حامل نظام ہے‘‘۔
جے ایس لیوس۔ امریکی ماہر ارضیات
فرض کیجئے کہ دور خلاؤں سے ایک خلائی مسافر ہمارے نظامِ شمسی آتا ہے۔ اسے یہاں بڑے دلچسپ مناظر کا سامنا ہوگا۔ ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ وہ مسافر ہم خود ہیں۔ ہم نظامِ شمسی میں اس طرح سے داخل ہورہے ہیں کہ کہ سیاروں اور سورج کا مستوی (Plane) ہماری سیدھ میں ہے۔ ہم نظام شمسی کے سیارے پلوٹو پر سب سے پہلے پہنچیں گے۔ یہ سیارہ نہایت ٹھنڈا ہے جس کا درجہ حرارت منفی 238 درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کا پتلا سا کرۂ فضائی صرف اس وقت وجود میںآتا ہے جب یہ اپنے خاصے بیضوی مدار میں حرکت کرتا ہوا سورج سے قدرے نزدیک جاتا ہے۔ باقی کے اوقات میں یہ برف کا ایک ڈھیر بنا رہتا ہے۔
سورج کی طرف بڑھتے ہوئے ہمیں دوسرا سیارہ ’’نیپچون‘‘ ملتا ہے۔ یہ بھی انتہائی سرد ہے جس کا درجہ حرارت منفی218 درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کے کرۂ ہوائی کا بڑا حصہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور میتھین پر مشتمل ہے۔۔۔ اور یہ زندگی کیلئے زہریلا ہے۔ یہاں تقریباً سارا وقت 2000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے قیامت خیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔
اس سے گزرنے کے بعد اب ہم یورینس پہنچ رہے ہیں۔ اس پربھی گیس کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ اس کی سطح پر برف اور چٹانیں بھی ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت تقریباً منفی 214 ڈگری سینٹی گریڈ اور کرۂ ہوائی میں وہی ہائیڈروجن، ہیلیم اور میتھین گیسیں بکثرت موجود ہیں۔ یہ سیارہ بھی انسانی رہائش کے لئے قطعاً موزوں نہیں ہے۔
اگلا سیارہ زحل ہے جو اس نظام شمسی کا دوسر ابڑا سیارہ بھی ہے۔ اپنے حلقوں کی وجہ سے یہ فوراً نظریں آجاتا ہے۔ زحل کے حلقے گیسوں، پتھروں، گرد اور برف سے بنے ہیں۔ زحل کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پورے کا پورا گیس پر مشتمل ہے۔ یہاں 75 فیصد ہائیڈروجن اور 25فیصد ہیلیم ہے۔ جبکہ اس سیارے کی کثافت، پانی سے بھی کم ہے۔ یعنی اگر آپ اس سیارے پر ’’اترنا‘‘ چاہتے ہیں تو آپکو اپنا خلائی جہاز ہوا سے بھری ہوئی کشتی کی طرح بنانا پڑے گا۔ ایک بار پھر یہاں کا اوسط درجہ حرارت بے حد کم ہے یعنی منفی 178 ڈگری سینٹی گریڈ۔
اب ہم مشتری پہنچ رہے ہیں جو اس نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ بھی ہے۔ یہ زمین کے مقابلے میں 318 گنا بڑا ہے۔ زحل کی طرح مشتری بھی ایک گیسی سیارہ ہے۔ کیونکہ ایسے سیارووں میں ’’فضا‘‘ اور ’’سطح‘‘ میں فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لہٰذا یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہاں کی ’’سطح کا درجہ حرارت‘‘ کتنا ہے۔ البتہ سیارے کے بیرونی حصوں کا درجہ حرارت منفی143 ڈگری سینٹی گریڈ معلوم کیا گیا ہے۔ مشتری کی فضا کی سب سے نمایاں چیز اس پر نظر آنے والا عظیم سرخ دھبہ ہے۔ اسے آج سے تین سو سال پہلے دریافت کیا گیا تھا۔ آج ماہرین فلکیات جانتے ہیں کہ یہ ایک زبردست اور بھیانک طوفانی نظام ہے جو مشتری کی فضا میں ہزاروں لاکھوں برس سے یونہی دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ دھبہ اس قدر بڑا ہے کہ زمین جیسے دوچار سیارے تو آسانی اس میں سما جائیں گے۔ نگاہوں کو لبھانے کے لئے تو مشتری ایک خوبصورت سیارہ ہوسکتا ہے لیکن انسانی رہائش کے لئے قطعاً غیر موزوں ہے۔ اس کے یخ بستہ درجہ حرارت، طوفانی ہواؤں اور شدید تابکاری کی بنا پر کوئی بھی متنفس یہاں پہنچ کر فوراً ہی مرجائے گا۔
اب آرہا ہے مریخ۔ یہاں کے کرۂ ہوائی میں بھی انسان زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بکثرت موجود ہے۔ اس کی سطح پرجگہ بے جگہ پتھر اور گڑھے نظر آتے ہیں جو کروڑوں اور اربوں سال سے دوران یہاں برسنے والے شہابیوں (meteors) اور تیز ہواؤں کا نتیجہ ہیں۔ ان ہواؤں کی وجہ سے مریخ پر ریت کے ایسے طوفان اٹھتے رہتے ہیں جو بیک وقت چند دن سے لے کرچند ہفتوں تک جاری رہتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ تاہم یہ منفی 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ اس سیارے پر زندگی موجود ہوے کی توقعات اور مفروضات سب سے زیادہ ہیں لیکن اب تک شہادتیں یہی بتاتی ہیں کہ مریخ بھی زندگی سے یکسر خالی سیارہ ہے۔
مریخ سے دور ہٹتے ہوئے اور سورج کے قریب جاتے ہوئے راستے میں ایک نیلگوں سیارہ ہمیں نظر آتا ہے لیکن بعد کے تفصیلی مطالعے کے لئے فی الحال ہم اسے نظر انداز کرتے ہوئے آگئے بڑھ جاتے ہیں۔
اب ہماری مہم ’’زہرہ‘‘ (Venus) نامی سیارے پر پہنچ گئی ہے۔ اس سیارے پرہر جگہ روشن سفید بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مگر یہاں کی سطح کا درجہ حرارت 450 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو سیسہ تک پگھلا دینے کے لئے کافی ہے۔کرۂ ہوائی کا بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ سیارہ زہرہ کی سطح پر کرہ ہوائی کا دباؤ ارضیاتی فضائی دباؤ (زمین پر ہوا کے دباؤ) سے 90 گنا زیادہ ہے۔ (اگر آپ زمین پر ہوں تو اتنا زیادہ دباؤ آپ کو سطح سمندر سے ایک کلومیٹر گہرائی میں اترنے کے بعد حاصل ہوگا۔)
زہرہ کی فضا میں گیسی سلفیورک ایسڈ تہہ در تہہ پایا جاتا ہے جس کی موٹائی کئی کلومیٹر تک ہوتی ہے۔ لہٰذا جب کبھی زہرہ پر بارش ہوتی ہے تو وہ کوئی عام بارش نہیں ہوتی بلکہ ’’تیزابی بارش‘‘ (Acid rain) ہوتی ہے۔ ایسے جہنمی ماحول میں انسان تو کیا کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔
یہاں سے مزید آگے بڑھ کر ہم عطارد(مرکری) پہنچتے ہیں۔ دیگر سیاروں کے مقابلے میں یہ چھٹا سا پتھریلا گولا محسوس ہوتا ہے جو ہر وقت سورج سے اٹھنے والی شدید شعاعوں اورحرارت کی زد میں رہتا ہے۔ سورج کی زبردست کشش کے باعث عطارد کی اپنے محور(Axis) پر گردش اتنی سست پڑ چکی ہے کہ جب یہ اپنے مدار میں دو چکر پورے کرتا ہے تو اس کی اپنے محور پر صرف تین گردشیں مکمل ہوپاتی ہیں۔ اسی بناء پر عطارد ایک طرف سے شدید گرم اور دوسری طرف سے انتہائی سرد رہتا ہے۔ اس سیارے کے دن اور رات میں درجہ حرارت کا فرق تقریباً 1000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں بھی زندگی پنپ نہیں سکتی۔
اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نظام شمسی کے متذکرہ آٹھ سیاروں اور ان کے لگ بھگ 53 سیارچوں (satellites) میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے زندگی کے وجود اور تسلسل کے لئے موافق یا سازگار قرار دیا جاسکے۔ یہ تمام کے تمام گیس، برف یا چٹانوں کے بے جان ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔
لیکن اس نیلے سیارے کے بارے میں کیا خیال ہے جسے ہم نے نظر انداز کر دیا تھا؟ وہ دوسرے سیاروں سے خاص مختلف دکھائی دیتا ہے۔ اس کی قابل رہائش فضا، سطح کے خدو خال، درجہ حرارت، مقناطیسی میدان، متنوع عناصر کی فراوانی اور سورج سے انتہائی مناسب فاصلہ، ان سب کو دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ شاید اسے خاص طور پر زندگی کے لئے ہی تخلیق کیا گیا ہے ۔۔۔ اور جیسا کہ ہم پر انکشاف ہوگا، حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔
چند جملہ ہائے معترضہ اور ’’مطابقت پذیری‘‘ (Adaptation) کے بارے میں تنبیہ:
باقی کے اس تمام مضمون میں ہم سیارہ زمین کی خصوصیات کا جائزہ لیں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین کو خاص طور پر زندگی کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے پہلے کسی بھی ممکنہ غلط فہمی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ اہم نکات کی وضاحت کر دی جائے۔ نظریہ ارتقاء کو سائنسی حقیقت سمجھنے والے لوگ ’’مطابقت پذیری‘‘(adaptation) کے تصور پر بھی پورا یقین رکھتے ہیں۔ یہ جملہ ہائے معترضہ انہی کے بارے میں ہیں۔
انگریزی لفظ Adaptation کی حالت فعل adapt ہے۔ اس کا مطلب ’’بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرنا یا بہتر بنانا‘‘ ہے۔ جب ارتقاء پرست اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں توہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں ’’کہ کسی جاندار یا اس کے (جسم کے) کسی حصے میں ہونے والی ایسی تبدیلی جو اسے درپیش ماحول میں وجود قائم رکھنے کے لئے موزوں ترین بنائے‘‘۔ نظریہ ارتقاء کا دعویٰ ہے کہ زمین پرموجود ساری زندگی صرف ایک جاندار (اکلوتے مشترک جد امجد) سے وجود میںآئی ۔۔۔ جو بذات خود ایک امکان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا۔ اپنے خیالات کی حمایت میں یہ نظریہ لفظ ’’مطابقت پذیری‘‘ کا بکثرت استعمال کرتا ہے۔ ارتقاء پرستوں کا کہنا ہے کہ تمام جاندار بدلتے ہوئے ماحول سے مطابقت اختیار کرتے کرتے ہی نئی انواع (species) میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (نظریہ ارتقاء کی دھوکے بازیوں اور جعلسازیوں کی تفصیلات، شمارہ جولائی، ستمبر اور اکتوبر 2001ء میں ’’نظریہ ارتقاء سائنسی فراڈ ہے!‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہوچکی ہیں۔ یہ سلسلہ بھی جناب ہارون یحییٰ کی تصنیف سے ماخوذ تھا۔) مطابقت پذیری کے اس مخصوص مفہوم کے ساتھ، نظر ارتقاء اصل میں ’’لیمارک ازم‘‘ (lamarckism) کی ایک شکل ہے۔ نامیاتی ارتقاء کے اس نظریئے میں یہ کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پودوں اور جانوروں کی ساخت میں تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ یہی تبدیلیاں اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ سائنسی حلقے اس خیال کو ٹھوس بنیادوں پر۔۔۔ اور بجا طور پر مسترد کرچکے ہیں۔
کوئی سائنسی بنیاد نہ ہونے کے باوجود بھی مطابقت پذیری کا تصور بہت سے لوگوں کو آج بھی متاثر کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس مسئلے پر بحث کرنا ضروری ہے۔ زندگی کی مختلف اشکال میں مطابقت پذیری کی صلاحیت پر یقین کرنے کے اگلے مرحلے پر یہ خیال ابھرتا ہے کہ دوسرے سیاروں پر بھی زندگی وجود میں آسکتی ہے۔۔۔ جیسے کہ کبھی زمین پر نمودار ہوئی تھی۔ پھر پلوٹو پر رہنے والی چھوٹی سبز مخلوقات کا خیال بھی آتا ہے جو کسی طرح سے وہاں کے منفی 238 ڈگری والے ماحول سے ’’مطابقت‘‘ اختیار کرگئی ہوں۔ کسی ایسی مخلوق کی جانب بھی ذہن بھٹک جاتا ہے جو آکسیجن کے بجائے ہیلیم گیس کے سانس لیتی ہو ۔۔۔ اور شاید پانی کے بجائے سلفیورک ایسڈ پیتی ہو۔ ایسے خیالات کسی نہ کسی طرح سے انسان کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ وہ لوگ خاص طور پر ان خوابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن کے خیالات پر ہالی ووڈ کی فلموں نے اثر ڈالا ہوتا ہے۔
مگر یہ واقعی محض خواب و خیال کی اور (ہالی ووڈ فلموں کی) باتیں ہیں جنہیں گھڑنے کے لئے کچھ بھی تصور کرلیا جاتا ہے۔ حیاتیات اور حیاتی کیمیا کی خاصی بہتر معلومات رکھنے کے باوجود، ارتقاء پرست ماہرین ایسے غیرحقیقت پسندانہ خیالات کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ زندگی صرف اور صرف اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب موزوں ترین حالات اور عناصر بیک وقت دستیاب ہوں۔ اگر وہ واقعی اس پر پورا یقین رکھتے ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ خلائی مخلوق کی کہانیاں گھڑنے اور انہیں پیش کرنے والے لوگ اندھوں کی طرح نظریہ ارتقاء سے چمٹے ہوئے ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے حیاتیات و حیاتی کیمیا کے بنیادی حقائق تک بالائے طاق رکھ دیئے ہیں۔اسی غفلت اور بے حسی نے انہیں ایسے خوبصورت اور تحیرخیزمنظر نامے تشکیل دینے کے قابل بنایا ہے۔
لہٰذا مطابقت پذیری کے تصور میں فاش غلطی کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اس طرف توجہ کر نا ضروری ہے کہ زندگی صرف مخصوص لازمی کیفیات اور عناصر کی موجود گی ہی میں وجود پذیر ہو سکتی ہے۔ سائنسی اصول و ضوابط پر مشتمل، اب تک زندگی کا صرف ایک ماڈل ہی وضع کیا جا سکا ہے جسے ’’کاربن پر مبنی زندگی‘‘ (Carbon based life) کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خود سائنس دان بھی اس امرپر متفق ہیں کہ اگر کائنات میں کسی دوسری جگہ زندگی ہوئی بھی تو وہ بھی کاربن پر ہی مبنی ہوگی۔ (مزید دیکھئے: گلوبل سائنس، شمارہ جنوری 2001ء ’’زندگی کی روح، کاربن‘‘۔)
کاربن، دوری جدوَل (پیریاڈک ٹیبل) میں چھٹا عنصر ہے۔ یہی زمین پر زندگی کی اساس بھی ہے کیونکہ تمام نامیاتی سالمے (مثلاً نیوکلیئک ایسڈز، امائنو ایسڈز، پروٹینز، روغنیات اور شکریات وغیرہ) کاربن ہی کے دیگر عناصر کے ساتھ مختلف انداز سے ملنے پر تشکیل پاتے ہیں۔ کاربن ۔۔۔ ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن وغیرہ سے مل کرلاکھوں مرکبات بناتا ہے۔ کوئی دوسرا عنصر کاربن کی جگہ نہیں لے سکتا۔ کاربن کے سوا کسی دوسرے عنصر میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہے کہ وہ ان متعدد اقسام کے کیمیائی بند بنا سکے جن پرزندگی کا انحصار ہے۔نتیجتاً اگر زندگی کائنات میں کہیں بھی، کسی بھی دوسرے سیارے پر موجود ہے تو وہ لامحالہ کاربن پر ہی مشتمل ہوگی۔
تاہم، ایسی متعدد شرائط ہیں جو بجائے خود ’’کاربنی زندگی‘‘ کے وجود کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً کاربن والے نامیاتی مرکبات (مثلاًپروٹین) صرف مخصوص حدود کے درمیان درجہ حرارت میں ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ یہ 120 ڈگری سینٹی گریڈ پر بکھرنا شروع ہوجاتے ہیں اور منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرار پر ان میں ناقابلِ تلافی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ لیکن درجہ حرارت ہی وہ اکلوتی چیز نہیں ہے جو کاربن پر مبنی زندگی کے لئے موزوں و مناسب حدود کا تعین کرتی ہو۔ ان فیصلہ کن عوامل میں روشنی کی نوعیت اور مقدار، قوتِ ثقل کی مضبوطی، کرۂ ہوائی کی ترکیب (composition) اور مقناطیسی میدان کی مضبوطی وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کیفیت بھی تبدیل ہوتی (مثلاً زمین کا اوسط درجہ حرارت 120 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا) تو زمین پر کوئی زندگی نہ ہوتی۔ لہٰذا ہیلیم سے سانس لینے اور سلفیوک ایسڈ پینے والی مخلوق کہیں موجود نہیں ہو سکتی، کیونکہ زندگی صرف کاربن ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ زندگی بھی خاص طور پر ترتیب دیئے گئے حالات کے تحت مخصوص حدود کے اندر ہی کسی ماحول میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہ زندگی کے لئے بالعموم اور انسانوں کے لئے بالخصوص سچ ہے۔ زمین ہی ایک ایسا ماحول ہے جسے خاص طور پر زندگی کی خاطر تخلیق کیا گیا ہے۔
دنیا کا درجہ حرارت
درجہ حرارت اور کرۂ ہوائی وہ پہلے دو عوامل ہیں جو زمین پر زندگی کے لئے لازم ہیں۔ اس نیلگوں سیارے کا درجہ حرارت جاندار اشیاء کے لئے قابل رہائش اور اس کا کرۂ ہوائی اس لائق ہے کہ (جاندار) اس میں سانس لے سکیں ۔۔۔ خاص طور پر پیچیدہ جاندار، مثلاً انسان۔ یہ دونوں بالکل مختلف عوامل ان حالات کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں جو ان دونوں کے لئے بیک وقت مثالی(Ideal) ثابت ہوئے۔
ان میں سے ایک، زمین کا سورج سے فاصلہ ہے۔ زمین کبھی زندگی کے لئے سازگار نہ ہوتی اگر وہ زہرہ کی طرح سورج سے بہت قریب یا زحل کی طرح سورج سے بہت دور ہوتی۔کاربن پر مشتمل (نامیاتی) سالمات 120ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کی حدود میں رہتے ہوئے ثابت و سالم رہ سکتے ہیں۔ اور زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جس کا اوسط درجہ حرارت ان حدود کے درمیان رہتا ہے۔
جب پوری کائنات کا بطور مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس نوعیت کے خاص الخاص اور نپے تلے درجہ حرارت تک رسائی انتہائی مشکل نظر آتی ہے۔ کائنات میں درجہ حرارت، ستاروں کے لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر خلاؤں میں منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ تک پھیلا ہوا ہے۔
امریکی ماہرین ارضیات، فرینک پریس اور ریمنڈ سیور نے زمین پر قائم اوسط درجہ حرارت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے: ’’زندگی، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں، درجہ حرارت کے نہایت تنگ وقفے (narrow interval) کے دوران ہی ممکن ہے۔ یہ وقفہ مطلق صفر (منفی273 ڈگری سینٹی گریڈ) اور سورج کی سطح کے درجہ حرارت کی حدود کے درمیان شاید 1 یا2 فیصد جتنا ہوگا‘‘۔
زمین پر(زندگی کے لئے) حرارتی حدود برقرار رہنے کا بھی بیک وقت سورج سے پیدا ہونے وانے والی حرارت اور زمین کے سورج سے فاصلے سے گہرا تعلق ہے۔ تخمینہ جات کے مطابق، اگر سورج سے خارج ہونے والی توانائی میں صرف دس فیصد کی بھی کمی ہوجائے تو زمین پربرف کی کئی میٹر موٹی تہیں ہر طرف دکھائی دینے لگیں گی ۔۔۔ اور اگر دس فیصد اضافہ ہوجائے تو یہاں رہنے والی تمام جاندار اشیاء جل کرمرجائیں۔
پھر زمین کے اوسط درجہ حرارت کا مثالی (آئیڈیل) ہونا ہی کافی نہیں بلکہ زمین تک آنے والی حرارت کا پورے سیارے پر نہایت متوازن اور ہموار انداز میں تقسیم ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے بھی متعدد خصوصی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔
زمین اپنے محور پر 23 درجے 27 منٹ جھکی ہوئی۔ یہ جھکاؤ قطبین اور خط استوا (equator) کے درمیانی علاقوں میں کرۂ فضائی کو بہت زیادہ گرم ہونے سے بچاتا ہے، اور انہیں (زندگی کے لئے) موزوں بناتا ہے۔ اگر یہ جھکاؤ موجود نہ ہوتا تو قطبین اور خط استواء کے درمیان درجہ حرارت کا فرق بھی بہت زیادہ ہوتا۔ ایسی صورت میں اوسط درجہ حرارت والے خطے (یعنی معتدل علاقے) بھی ایسے معتدل نہیں ہوتے جیسے آج ہیں ۔۔۔ اور وہ رہائش کے قابل بھی نہ ہوتے۔
زمین کی اپنے محور پر گردش کرنے کی رفتار بھی اس کے حرارتی توازن (Thermal balance)کو قائم رکھنے میں مدد گار ہے۔ زمین چوبیس گھنٹے میں اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دن سے رات اور رات سے دن ہونے کا درمیانی وقفہ بہت کم رہتا ہے۔ یہ کم وقفہ بھی زمین کے روشن اور تاریک حصوں کے مابین حرارت کے فرق کو موزوں حدود میں قائم رکھتے ہیں۔ گردشی رفتار کی اہمیت سیارہ عطارد (مرکری) سے واضح کی جا سکتی ہے جہاں کا ایک دن وہاں کے ایک سال سے بھی لمبا ہوتا ہے اور جہاں ہر دن (روشنی) اور رات(تاریکی) میں درجہ حرارت کا فرق تقریباً 1000 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔
حرارت کی موزوں تقسیم میں زمینی جغرافیہ بھی ایک اہم مددگار ہے۔ قطبین اور خط استوا کے علاقوں کے درجہ حرارت میں لگ بھگ 100 ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق ہے۔ اگر یہی فرق کسی ہموار علاقے پر محیط ہوتا تو اس کا نتیجہ1000 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار پر سفر کرنے والی طاقتور ہواؤں کی شکل میں ظاہرہوتا، جو اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو اڑا لے جاتیں۔ اس کے برعکس، زمین پر جا بجا جغرافیائی رکاوٹیں ہیں جو حرارتی فرق کے ان ہولناک نتائج کو وقوع پذیر ہونے سے روکے رکھتی ہیں۔ ان رکاوٹوں سے ہماری مراد پہاڑوں کی زنجیریں ہیں۔ ان میں سے بعض تو مشرق میں بحرالکاہل سے شروع ہو کر مغرب میں بحر اوقیانوس تک چلی گئی ہیں۔ کچھ پہاڑی سلسلے ہمالیہ سے شروع ہوئے ہیں اور ایک وسیع علاقے کا احاطہ کرتے ہوئے اناطولیا میں کوہ ثور (Tausur) اور یورپ میں ایلپس (Alps) تک چلے گئے ہیں۔ سمندرپر استوائی خطوں کی اضافی حرارت شمال اور جنوب کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ مظہر، پانی میں ایصالِ حرارت (Heat conduction) اور حرارت کو منتشر کرنے کی زبردست صلاحیت کا مرہون منت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ متعدد خود کارنظام بھی ہمہ وقت کارفرما رہتے ہوئے فضا کا درجہ حرارت متوازن بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی حصہ زیادہ گرم ہونے لگتا ہے تو پانی میں تبخیر کی رفتاربھی بڑھ جاتی ہے اور یوں بادل بن جاتے ہیں۔ اگر بارش نہ بھی ہوتب بھی یہ بادل زیادہ درجہ حرارت کو خلاء کی طرف منعکس کر دیتے ہیں اور یوں ان کے زیر سایہ آنے والے علاقوں کی زمین اور ہوا کادرجہ حرارت زیادہ بڑھنے نہیں پاتا۔
زمین کی کمیت اور مقناطیسی میدان
زمین کے سورج سے فاصلے، اس کی گردشی رفتار اور جغرافیائی خدوخال کی طرح زمین کی جسامت بھی کچھ کم اہم نہیں۔ سیاروں کے تصوراتی سفر کے دوران ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر عطارد زمین سے دس گنا چھوٹا ہے تو مشتری کی جسامت، زمین سے 318 گنا زیادہ بھی ہے۔ دیگر سیاروں کی بہ نسبت زمین کی موجودہ جسامت محض اتفاق ہے یا اسے بھی بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے؟
جب ہم زمین کے طول و عرض کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پریہ عقدہ کھلتا ہے کہ زمین کو اتنی بڑی جسامت کے لئے ہی خاص طور پر وضع کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں امریکی ماہرین ارضیات فرینک پریس اور ریمنڈ سیور کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:’’۔۔۔اور زمین کی جسامت بالکل درست تھی ۔۔۔ یعنی نہ اتنی مختصر کہ اس کی کشش ثقل نہایت کمزور پڑ جائے اور کرۂ ہوائی میں شامل گیسوں کو خلاء میں فرار ہونے سے نہ روک سکے ۔۔۔ اور نہ اتنی زیادہ کہ کشش ثقل اس قدر طاقتور ہوجائے کہ ایک بہت کثیف کرۂ ہوائی وجود میں آجائے جس میں مضر گیسیں بھی شامل ہوں‘‘۔
زمینی کمیت کے علاوہ اس کا اندرون (interior) بھی خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اپنے قلب (core) کی وجہ سے زمین ایک طاقتور مقناطیسی میدان کی حامل ہے جو یہاں زندگی کے تحفظ میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ پریس اور سیور کے مطابق: ’’زمین کا اندرون ایک بہت وسیع و عریض، لیکن نہایت خوبصورتی کے ساتھ متوازن بنایا ہوا ایک حرارتی انجن (Heat Engine) ہے جو تابکاری (Radioactivity) پر چلتا ہے ۔۔۔اگر یہ (موجودہ کے مقابلے میں) سست رفتار ہوتا تو زمین پر ارضیارتی سرگرمیاں بھی سست روی کے ساتھ جاری ہوتیں۔ شاید لوہا نہیں پگھلتا اور (زمینی اندروں کی انتہائی گہرائیوں میں) غرق ہو کر مائع قلب (Liquid core) نہیں بناتا اور مقناطیسی میدان بھی کبھی تشکیل نہ پاتا۔۔۔اگر یہ تابکار ایندھن زیادہ ہوتا اور (زمین کا حرارتی) انجن زیادہ تیز رفتاری سے چل رہا ہوتا، تو آتش فشانی گیس اور راکھ سورج سے آنے والی روشنی کا راستہ روک دیتیں۔ کرۂ ہوائی زیادہ کثیف بن جاتا اور ہر روز اآنے والے زلزلوں اور آتش فشانی دھماکوں کی وجہ سے زمین کی سطح بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کر تباہ ہوجاتی‘‘۔
مقناطیسی میدان، جس کا تذکرہ ان ماہرین ارضیات نے کیا ہے،زمین کے لئے زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مقناطیسی میدان زمین کے قلب کی ساخت کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ زمینی قلب لوہے اور نکل(Nickle) جیسے بھاری عناصر پر مشتمل ہے جو نہایت اہم مقناطیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔ اندرونی قلب (inner core) ٹھوس ہے جبکہ اس کا بیرونی حصہ(outer core) مائع ہے۔ قلب کی یہ دونوں تہیں ایک دوسرے کے گرد مسلسل حرکت کرتی رہتی ہیں اور اسی بناء پرزمین کا مقناطیسی میدان تشکیل پاتا ہے۔ سطح زمین سے ہزاروں میل اوپر تک پھیلا ہوا یہ مقناطیسی میدان، زمین کو خلاء سے آنے والی خطرناک اور ہلاکت خیز شعاعوں سے بھی بچائے رکھتا ہے۔ ’’وان ایلن بیلٹ‘‘ (Van Allen Belt) نامی یہ مقناطیسی خطوط ایک چھتری کی طرح کام کرتے ہیں اور سورج اور دور دراز ستاروں سے نکلنے والی مضر شعاعوں کو سطح زمین تک پہنچنے نہیں دیتے۔
حساب لگایا گیا ہے کہ وان ایلن بیلٹ بعض اوقات ایسے پلازما بادلوں (Plasma clouds) تک کوروک لیتی ہے جن کی توانائی ہیروشیماپر گرائے گئے ایٹم بم کے مقابلے میں بھی 100 ارب گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کائناتی شعاعیں (cosmic rays) بھی مساوی طور پر نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ زمین کا مقناطیسی میدان، ان شعاعوں کا صرف 0.1 فیصد حصہ گزرنے دیتا ہے جو کرۂ ہوائی میں بہ آسانی جذب ہوجاتا ہے۔ مذکورہ بالا مقناطیسی میدان پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمیں (ا نسانوں کو)تقریباً ایک ارب ایمپیئر (amperes) کی حامل توانائی درکار ہوگی ۔۔۔ جتنی کہ پوری انسانی تاریخ میں پیدا کی جا سکی ہے۔
اگر یہ حفاظتی ڈھال موجود نہ ہوتی تو (سورج اور دوسرے ستاروں سے) وقتاً فوقتاً آنے والی خطرناک شعاعیں، زمینی حیات کو کب کا تبا ہ کر چکی ہوتیں۔ بہت ممکن ہے کہ ان حالات میں زمین پر کوئی زندگی وجود ہی میں نہ آتی۔ مگر جیسا کہ پریس اور سیور نے بتایا ہے، زمینی قلب اس سیارے کو محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی درستگی اور اہتمام کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ بالفاظِ دیگر ان سب باتوں کا ایک خاص مقصد ہے جسے قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے :
’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ ہماری نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔‘‘
(سورۃ الانبیاء۔ آیت 32)
حصہ اول پڑھنے کے لئے لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/07/blog-post_79.html?m=1

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...