Wednesday 31 May 2017

سیکولرازم،اور دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز


سیکولرازم،اور دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب،#17۔
(تالیف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان )

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے لفظ “سیکولرازم” متعارف کرانے والا برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوٹ 1817-1906 تھا۔ جارج جیکب عیسائیت سے شدید متنفر تھا۔ وہ عیسائیت کے مذہبی عقائد کو خلاف فطرت ، خلاف عقل اور مضحکہ خیز کہتا تھا۔1846 میں ایک لیکچر کے دوران کسی نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ نہیں مانتے کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے اور اس کی نجات عیسیٰ علیہ السلام کو خدا ماننے پر موقوف ہے؟

اس کے جواب میں جارج جیکب ہولیوٹ نے انتہائی تمسخرانہ انداز اختیار کیا اور کہا کہ آدم کے گناہ کی سزا ہمیں کیوں ملے؟ جبکہ آدم نے نہ مجھ سے مشورہ کیا تھا اور نہ میری بیوی سے اور نہ میرے ماں باپ سے پوچھ کر پھل کھایا تھا۔

(واضح رہے کہ عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے جنت میں پھل کھا کر گناہ کیا جس کی سزا تمام انسانوں کو ہمیشہ ملتی رہے گی اور جو بھی بچہ پیدا ہوگا وہ پیدائشی گنہگار ہوگا۔ یہ واقعی ایک غلط اور خلاف عقل عقیدہ ہے۔ جبکہ اسلام کے مطابق آدم علیہ السلام کا عمل صرف ان کی ذات تک تھا اور پیدا ہونے والا ہر بچہ گنہگار نہیں بلکہ “معصوم” ہوتا ہے)

چنانچہ عیسائیوں کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے جارج جیکب کو چھ ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا اور اس پر بدترین تشدد کیاگیا۔

جیل سے واپسی پر اس نے مذہب کی کھلم کھلا مخالفت ترک کرکے اپنا انداز تبدیل کردیا۔

اس نے مذہب کے مخالف افکار کو بیان کرنے کے لیے ایک نیا لفظ استعمال کرنا شروع کیا اور یہ لفظ تھا “سیکولرازم”۔

یہ لفظ بذات خود مذہب مخالف ہے۔ مشہور مذہبی عقیدہ ہے (جس پر اسلام ، عیسائیت اور یہودیت تینوں متفق ہیں) کہ اللہ تعالیٰ وقت اور جگہ کی قید سے ماورا ہےجبکہ انسان وقت کا بھی پابند ہے اور جگہ کا بھی۔ دوسری طرف پادریوں نے بے چارے عیسائیوں پر قسم قسم کی پابندیاں عائد کررکھی تھی کہ اگر تم خدا کے قریب جانا چاہتے ہو تو تمہیں دنیا ترک کرکے راہبانیت اختیار کرنا پڑے گی ورنہ راہبوں کی خدمت کرنی پڑے گی اور ان کی ہر بات کو خدا کا حکم سمجھ کر قبول کرنا پڑے گا۔

مذہب مخالف طبقات جو انسان کی محدود زندگی سے خدا کا عمل دخل ختم کرنا چاہتے تھے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ خدا وقت اور زمانے سے ماورا ہے جبکہ انسان “سیکولارس” ہے۔ سیکولارس قدیم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “وقت کے اندر محدود”۔ چونکہ انسان نہ خدا کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ اپنی محدود زندگی میں اس تک پہنچ سکتا ہے اس لیے کم ازکم وہ زمین پر اپنی محدود زندگی تو آزادی سے گزارے۔چنانچہ اسے چاہیئے کہ خدا کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کرکے صرف ایک فلسفہ سمجھے اور وقت کی قید کے اندر اپنی زندگی بھرپور آزادی سے گزارے۔اس فلسفے کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔

اگر ہم غیرجانبداری سے تجزیہ کریں تو ہم کہیں گے 

1620-1704 میں ہونے والا فلسفی سرجان لاک (John Lock)سچا تھا، جس نے لبرل ازم کے تحت خدا کے انکار کا تصور دیا تھا

جارج جیکب ہولیوٹ 1817-1906 بھی ٹھیک کہتا تھا۔ جس نے سیکولر ازم کا فلسفہ پیش کیا۔

اور ان کے علاوہ مذہب مخالف افکار اس زمانے میں بالکل درست تھے،آدم سمتھ ، جان سٹیوارٹ مل، ٹی ایچ گرین، جان ملٹن وغیرہ یہ لوگ بغاوت پر مجبور تھے۔ان کے پاس کوئی اور رستہ ہی نہیں تھا۔ مذہب کی الہامی تعلیمات بری طرح مسخ ہوچکی تھیں۔ مذہب پادریوں کے ہاتھوں اپنی اصل شکل کھو بیٹھا تھا۔صرف روحانیت کے شعبے میں ادھوری راہنمائی کے علاوہ انسان کی زندگی سے مذہب مکمل طور پر خارج ہوچکا تھا۔اگر مذہب اپنی الہامی تعلیمات سے منحرف ہوجائے تو ایسی ہی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

انسان کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا عیسائیت کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا۔انسان کے سوچنے پر پابندی تھی اور جو زیادہ سوچتا اسےحوالہ زنداں یا پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

انقلاب فرانس 1792کے بعد جب سیکولرازم کو طاقت ملی تو وہ اپنی طاقت کے نشے میں اندھا ہوگیا۔ اس نے دنیا کے ہر مذہب کو “عیسائیت” پر قیاس کیا اور مذہب کے مقابل خم ٹھونک کر میدان میں آگیا۔

لیکن ابھی دنیا میں ایک مذہب “اسلام” ایسا ہے جس کے پاس الہامی تعلیمات اپنی اصل شکل میں موجود ہیں۔جس کے پاس انسانی حقوق بھی ہیں، آزادی بھی اور مساوات بھی۔جس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی کوئی بھی لبرل یا سیکولرذہن تمنا کرسکتا ہے۔

مخالفین کی متنازعہ بنانے کی بے پناہ کوششوں کے باوجود، قسم قسم کے اعتراضات کرنے کے باوجود،شکوک وشبہات کی آندھیاں چلانے کے باوجود یہ مذہب اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے۔یہ ہر میدان میں اپنی پوری شان وشوکت سے سر اٹھا کے کھڑا ہے۔

اس کے پاس انسانی زندگی کے مکمل ضابطے ہیں۔جن پر عمل کرنے سے نہ تو عزت نفس پر زد پڑتی ہے اور نہ شخصی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ اس کا اصول مساوات انسان کو حقیقی مساوات کا درس دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لبرل ازم یا سیکولرازم نے اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کی تعلیمات کے مقابل جنم لیا۔

ورنہ مسلمان تو بہت پہلے فلسفے کی وادیوں میں قدم رکھ چکے تھے۔ آزادی فکر کا درس تو بہت پہلے مل چکا تھا، اگر اسلام میں کوئی خامی ہوتی تو 711ء سے 1492ء کے درمیان جب اسپین میں فلسفے اور منطق کا دور دورہ تھا،اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی مفکرین بھی اپنے چراغوں میں فلسفے کی آتش لینے جوق درجوق آتے تھے، وہ بہت آسانی سے اسلام کو اسی کے اصولوں سے غلط ثابت کرسکتے تھے۔اور اسلام کا یہ چیلنج آج بھی پوری دنیا کو ہے۔

“آؤ، اپنے سیکولرازم یا لبرل ازم کا کوئی ایک اصول بھی اسلام کے دیئے گئے اصول سے بہتر ثابت کرو۔

دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز

ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ دوقومی نظریے کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اس نظریئے کے کالعدم یا باطل ہونے سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دوقومی نظریہ آخر ہے کیا؟؟
جیسے ہر انسان کا الگ مزاج ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہر مذہب اور ہر نظریے کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہوتا ہے۔ 
اسلام کا قومی مزاج یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہنا چاہتا ہے ۔ یہ اسلام کی “مجبوری” ہے۔ ورنہ اسلام کے بہت سے احکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔جیسے نظام عدل، قاضیوں کا نظام، نظام زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ۔ حتیٰ کہ بقیہ دین (نماز روزہ وغیرہ)کی ادائیگی بھی مغلوبیت کی حالت میں اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔ پس اسلام کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر جگہ مسلمان کمیونٹی آزادی سے اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی طاقت حاصل کرے۔دوسرے لفظوں میں اسلام کی فطرت میں سربلندی ہے۔ مغلوبیت نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد 7111 ء میں ہوئی اور یہ وہی سال تھا جب طارق بن زیاد نے پہلی بار اسپین کے دروازوں پر دستک دی تھی۔ 711ء سے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی تک 1146 سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک ہزار ایک سو چھیالیس سالوں میں کبھی ہندوؤں نے دوقومی نظریہ پیش نہیں کیا۔کیوں؟ کیونکہ ہندومت مغلوبیت میں بھی خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی نظام عدل ہے نہ نظام حکومت۔ مختلف راجاؤں کی انفرادی بغاوتوں کا مقصد ہندومت کی تعلیمات یا فلسفہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی ملک گیری کی خواہش تھی۔
1857ء میں جب مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو اسلام کے فلسفے اور اسلام کی روح کے مطابق انہوں نے غلبہ اسلام کی تحریک شروع کی۔ اور صرف سو سال سے بھی کم عرصے (1947)میں اس تحریک کو کامیاب کر کے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر لیا، جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کا غلبہ تھا۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان میں پھر بھی اسلام کا غلبہ نہ ہوسکا، لیکن بہرحال وہ الگ موضوع ہے)
یہاں ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ” الگ وطن، جس میں اسلام کا غلبہ ہو” نامی تحریک کے لیے جو فلسفہ پیش کیا گیا وہ دوقومی نظریہ تھا۔ دوقومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ طاقتیں ہیں۔ جن میں سے ہندو غالب طاقت ہے اور مسلمان مغلوب۔ مغلوبیت کی حالت میں اسلام نامکمل ہے، لہٰذا ہم غالب طاقت (ہندو) سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن بنانا چاہتے ہیں۔
یہ نظریہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں سے دشمنی ہرگز نہیں۔ قطعی نہیں۔
اگر ہندوؤں کی بجائے غالب طاقت سکھ ہوتے تو دوقومی نظریئے میں ہندو کی جگہ سکھ کا لفظ آجاتا۔ یہ نظریہ ایک پیغام حریت ہے۔ آزادی کی خواہش جو اسلام کی روح کے مطابق ہو۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلام کی حکومت یا غلبے کے بعد غیر مسلموں کے لیے الگ ہدایات موجود ہیں۔ جن کے مطابق ان کی جان ومال اور عزت کا تحفظ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوقومی نظریہ اس لحاظ سے وقتی نظریہ یقیناً تھا کہ اس میں دوسری قوم ہندو تھی اور وہ غالب تھی۔ لیکن الگ وطن بننے کے بعد بھی جب تک نئے وطن میں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوجاتا ، دوقومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا کیونکہ اسلام کا فلسفہ غالبیت ابھی مکمل نہیں ہوا۔
فلسطین کا کوئی معصوم جب کسی اسرائیلی ٹینک پر غلیل سے ننھا سا پتھر پھینکتا ہے تو درحقیقت وہ دوقومی نظریے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ کہ مسلمان اور یہودی دو الگ قومیں ہیں۔ جن میں سے غالب یہودی ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ برما میں جب کوئی بے بس ماں آرمی کے آفیسر پر تھوکتی ہے تو وہ پکار کر دوقومی نظریے کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کشمیر میں جب کوئی برہان غالب طاقت کی طرف سنگینوں کا رخ کرتا ہے تو وہ بھی اسی نظریے کی صداقت کو گواہ بناتا ہے، شام میں جب کسی معصوم پھول کی لاش کو زمین سے نکال کراس کا والد پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور بشار کے خلاف موت پر بیعت کرتا ہے وہ بھی اسی دوقومی نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غلبہ اسلام کا فلسفہ ہے، یہ اسلام کی شوکت کا مظہر ہے۔
دوقومی نظریہ کسی مذہب سے نفرت نہیں سکھاتا، صرف اپنا حق مانگنا سکھاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستان میں محفوظ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے طاقت میں آنے کے بعد انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ دوقومی نظریے کے بالکل خلاف نہیں۔
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ دوقومی نظریئے کے مخاطب مسلمان ہیں اور یہ نظریہ “غلبہ اسلام” کا استعارہ ہے ۔ جب تک مکمل طور پر غلبہ اسلام نہیں ہوجاتا یہ نظریہ زندہ رہے گا، گویا پاکستان بننے کے بعد اس فلسفے کا ہندوؤں سے تعلق نہیں، مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس نظریئے کے تحت پڑوسی ممالک سے امن وامان قائم رکھنا ، تجارت کرنا وغیرہ کوئی جرم نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس نظریئے کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا ہے لیکن کیا ان کے غلط عمل سے یہ نظریہ غلط قرار دے دیا جائے؟
اگرمصطفیٰ کمال اتاترک کا ترکی ، جہاں اسلام کے بنیادی شعائر پر ظالمانہ پابندیاں تھیں، جہاں داڑھی اور حجاب تک پر پابندی تھی، وہاں طیب اردگان نے اسلام کو مغلوبیت سے نکال کر غالب طاقت بنا دیا، اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہےتو یہ قطعاً خلاف اسلام نہیں ۔ نہ اس سے غلبہ اسلام پر کوئی زد پڑتی ہے نہ دوقومی نظریے پر۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز “دوقومی نظریے” کی مخالفت پر کمر کیوں کسے ہوئے ہںے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگوں کو مذہب سے زیادہ پاکستانیت سکھائی جائے۔ وطنیت کی افیون انہیں اتنی مقدار میں کھلائی جائے کہ وہ اس کی بنیادوں میں موجود دوقومی نظریئے اور اس سے جڑی اسلامیت کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر فراموش کردیں۔ یہ دوقومی نظریہ ہی ہے جو آج کے پاکستانیوں کو بھی سکھاتا ہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے، قومیت یا وطنیت کی بنیا دپر نہیں۔
اسی نظریے کی وجہ سے آج تک پاکستانی قوم یہ نہیں بھولی کہ ابھی ان کی منزل ادھوری ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام غالب حالت میں نہیں آیا۔اور یہ بات لبرلز کو چڑانے کے لیے کافی ہے، جو پاکستان کو مذہب سے پاک ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
یہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو “نظریاتی” اور “اسلامی” ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی دوقومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے تو یوں سمجھیے وہ اس نظریاتی اور اسلامی وطن کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔
بشکریہ:ثوبان تابش

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
یا سابقہ اقساط پڑھنے کے لئے لنک وزٹ کریں

بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Tuesday 30 May 2017

اللہ ،انسان اور سائنس

اللہ ،انسان اور سائنس

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب،#16

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اللہ کی ذات کا ثبوت

قرآن نے اللہ کے ہونے کے ثبوت کے لیے براہِ راست خارجی دنیا کی صرف ایک دلیل پیش کی ہے۔ جو کہ سورۂ النور (24:40-53) میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک ہی توجیہ ممکن ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کو کائنات کا خالق مان لیا جائے۔

  اللہ کو نکال دینے کے بعد کائنات کی کوئی عقلی تو کیا غیر عقلی توجیہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح ایک اندھیرے کمرے میں جب تک روشنی نہیں ہے آپ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ جیسے ہی روشنی ہوگی ہر چیز اپنی جگہ ٹھکانے پر نظر آنے لگے گی۔ اسی طرح اللہ کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی کے بعد کائنات میں ہر چیز  اپنی درست جگہ پر نظر آئے گی اور اس کے بغیر آپ کائنات کے بارے میں بلا یقین متضاد باتیں کہتے رہیں گے۔ تاریکی پر تاریکی۔

  یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اللہ کے سوا اس کائنات کی کسی دوسری توجیہ کا نہ ہونا آخری حد تک ثابت کرتا ہے کہ اگر کائنات کے ہونے کو ہم مانتے ہیں تو ہمیں اللہ کو بھی ماننا ہوگا اور اگر نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم کائنات کے وجود کے منکر ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بنا پر اللہ تعالی  کو نہیں مانتے کہ وہ سائنسی طور پر ایک تسلیم شدہ حقیقت نہیں ہے، وہ ایک دوسری ہستی کو ماننے پر مجبور ہیں جو سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اور نہ اس کے دائرہ میں آتا ہے۔ یہ خود حضرتِ انسان کا اپنا شعوری وجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے شعوری یا روحانی وجود کو سائنس کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے نہ اس کے قوانین کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ انسان اپنی زندگی کا نقشہ بھی سائنس کی روشنی میں نہیں بناتا۔ اس کے باوجود انسان کے شعوری وجود کو نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ اس کے مطالعہ کے لیے علم النفسیات کے نام سے ایک پورا علم وجود میں آ گیا ہے۔

ارتقا کا نظریہ

اللہ کے سوا کائنات کی کسی دوسری توجیہ کی غیر موجودگی میں، انکارِ اللہ کے لیے، منکرینِ مذہب کے پاس صرف ارتقا کا نظریہ بچا ہے۔ جس کو وہ انکارِ رب الخالق کی اساس سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے اگر ہم ارتقا کے نظریے کو بالکل درست مان بھی لیں تب بھی یہ انکارِ رب الخالق کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے۔

  مذہب کا دعویٰ یہ ہے کہ مخلوقات کو اللہ نے بنایا۔ اس نے اللہ کے طریقۂ تخلیق کو بیان نہیں کیا۔ اس ضمن میں قرآن نے صرف ایک بات کہی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کوخصوصی تخلیق سے پیدا کیا۔ سورہ اٰلِ عمران آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم  جیسی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر فرمایا ہوجا تو ہو گیا‘‘۔  کیا کوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اللہ کی یہ بات غلط ہے اور جس آدم علیہ السلام سے یہ انسانیت وجود میں آئی وہ مٹی سے پیدا نہیں ہوئے۔

 انسانوں کو جانوروں کی ایک ترقی یافتہ شکل ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کہا اور پیش کیا جاتا ہے وہ اپنی خواہش کا اظہار تو ہو سکتا ہے حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اندازے اور قیاسات ہیں۔ جن پر مشرق اور مغرب دونوں جگہ بہت تنقید ہو چکی ہے۔ یہ لوگ تو انسان کے حیوانی وجود کے بارے میں بھی یہ ثابت نہیں کرسکے کہ یہ حیوانوں سے ترقی پا کر وجود پذیر ہوا ہے۔ کجا کہ وہ انسان کے اس شعوری اور روحانی وجود کے بارے میں کوئی دعویٰ کرسکیں جس کے قریب تو کیا دور تک بھی کوئی جانور نہیں پہنچ سکا۔

انسان کا روحانی وجود اور علم الانسان (Anthropology)

انسان ایک حیوانی وجود رکھتا ہے۔ اس میں وہ تمام بنیادی جبلتیں پائی جاتی ہیں جو حیوانوں کا خاصہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان جانوروں سے بلند تر ایک وجود اور شعور رکھتا ہے جسے مذہبی اصطلاح میں روحانی وجود کہا جاتا ہے۔

 اہل مغرب علم الحیوانات سے تو کسی طور یہ ثابت نہیں کرپائے کہ کب اور کیسے یہ نرا حیوان ایک بلند تر ذہنی اور روحانی شخصیت میں تبدیل ہوا۔ لیکن وہاں اصولی طور پر یہ طے ہوچکا تھا کہ انسان کی تشریح اللہ اور بائبل والے آدم علیہ السلام سے ہٹ کر ہی کرنی ہے۔ لہٰذا علم الانسان کی بنیاد رکھی گئی اور ایک پورا فلسفہ گھڑ لیا گیا۔ جس میں انسان کے ذہنی اور روحانی ارتقا کا سفر وحشی انسان سے متمدن انسان تک دکھایا گیا۔ اس سلسلے میں جس استدلال کا سہارا لیا گیا وہ تحقیق کا نہیں حماقت کا شاہکار تھا۔

  اس شعبے کے ماہرین کا طریقۂ کار یہ ہے کہ یہ معاصر غیر متمدن قبائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کی توہم پرستی اور وحشیانہ زندگی کو دیکھ کر انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ جس گوہرِ نایاب کی وہ تلاش میں تھے وہ ان کے ہاتھ آگیا۔ یعنی انہوں نے انسان کی اصل ڈھونڈ لی۔ وہ ان قبائل کی تمام خصوصیات کو دورِ قدیم کے انسان پر چسپاں کردیتے ہیں۔ پھر اپنی یہ نادر تحقیق دنیا کے سامنے بڑے اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا آغاز۔

 اس استدلال کی بنیادی کمزوری اصولی طور پر یہ مان لینا ہے کہ تمدن کا شجر اسی غیر متمدن بیج سے پھوٹا ہے، حالانکہ اس بات کا پور ا امکان ہے کہ یہ وحشی انسان شاخِ تمدن سے ٹوٹ کر گرا ہو اور ناموافق حالات میں پروان چڑھ کر اس حال کو پہنچا ہو۔ انسانی تمدن کو اپنے ارتقا کے لیے مناسب ماحول چاہیے۔ جس جگہ یہ حالات دستیاب نہ ہوں انسان مجبوراً خود کو صرف بنیادی جبلی ضروریات تک محدود کرلیتا ہے اور وحشیانہ اور جانوروں سے قریب تر اندازِ زندگی اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔

  آج کے متمدن انسان کو بھی تنہا کسی غیرآباد ویرانے میں پہنچا دیں جہاں کسی قسم کے وسائل نہ ہوں۔ پھر دیکھئے کہ وہ اپنی زندگی کا سفر کس طرح طے کرتا ہے۔ اسی طرح افریقہ، آسٹریلیا اور امریکا کے قدیم قبائل کی مثال کو بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ زمانہ قبل از تاریخ کے کسی دور میں تہذیبِ انسانی کے مرکزی دھارے سے کٹنے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہوں گے۔ ان کی موجودگی سے یہ نتیجہ کیسے برآمد ہوتا ہے کہ تہذیب کا دھارا لازماً ان سے نکلا ہے۔

  اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے۔ آج سے چند ہزارسال قبل ایک مرد و عورت میں عشق ہوا۔ ان کا تعلق باہمی دشمن قبائل سے تھا۔ جسکی بنا پر ان کی شادی ناممکن تھی۔ چنانچہ یہ دونوں نہ صرف اپنے قبائل بلکہ اس سارے علاقے سے دور فرار ہوگئے جہاں تک ان کی پہنچ ممکن تھی وگرنہ یہ دونوں قتل کردیے جاتے۔ اب یہ دونوں اس دور کی متمدن دنیا سے دور کسی ویرانے میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ جہاں ان کا واسطہ انسانوں سے زیادہ حیوانوں سے پڑتا ہے۔ یہ دونوں تنہا مل کر کونسا تمدن تعمیر کرینگے۔

   تمدن صرف انسانی ہاتھ تشکیل نہیں دیتے۔ یہ سیکڑوں نسلوں کے تجربات، ہزاروں سالوں کی تحقیق کے بعد جنم لینے والے آلات اور مخصوص قدرتی وسائل وحالات کا محتاج ہوتا ہے۔ ان سب کے بغیر یہ دونوں کیا تیر چلائیں گے؟ ان کی اولاد کی باہمی شادیوں کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ ان کے لباس، رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملات ان کے پرانے قبیلے کی سطح کا کیسے ہوسکتا ہے؟
لازمی طور پر چند صدیوں میں ان دونوں سے ایک غیر متمدن قبیلہ جنم لے لیگا۔ یہ محض ایک مثال ہے وگرنہ عشق کے علاوہ جنگ وجدل، قدرتی حوادث، معاشی مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر بارہا انسان اپنی اصل سے کٹے ہیں۔

  رہی عقائد و نظریات کی بات تو اس معاملے میں انسان نے ہر دور میں الٹی سمت میں سفر کیا ہے۔ یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ انسان نے شرک اور توہم پرستی سے اپنا آغاز کیا اور پھر خداؤں کی تعداد کم کرتا کرتا ایک خدا تک پہنچا۔ انسان نے تو معلوم تاریخ میں بھی ایک خدا سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے اور تین سے تین کروڑ خداؤں تک پہنچ گیا۔ خود اپنی امت کو دیکھ لیں۔ شرک کی جتنی مذمت اس دین میں ہے کسی اور میں نہیں۔ اس کا آغاز آخری درجے کے موحدین سے ہوا۔ اور آج حال دیکھ لیجیے۔ خدا کے گھر میں بیٹھ کر شرک کی دہائی دی جاتی ہے۔ انسان کی اس طبیعت سے واقف کوئی شخص کسی قبیلہ کے توہم پرستانہ عقائد دیکھ کر کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ یہ انسان کے ابتدائی عقائد ہیں۔

قرآن کا علم ا لانسان

اہل مغرب کے علم ا لانسان کی بنیادی غلطی واضح کردینے کے بعد یہ مناسب ہوتا ہے کہ قرآن کا علم ا لانسان بھی بیان کردیا جائے کیونکہ اس کے بغیر یہ بحث مکمل نہ ہوگی۔ مغرب کا علم ا لانسان ہمیں انسان کی ایک ایسی تصویر دکھاتا ہے جس میں وہ صرف ایک ترقی یافتہ جانور نظر آتا ہے۔ جو بخت و اتفاق کے ہاتھوں اس اتھاہ مگر بے آباد کائنات کے ایک حقیر سے ذرے یعنی زمین پر نمودار ہوگیا۔ جسے اپنے آغاز کا کچھ پتا ہے نہ ا نجام کا۔ بقول شاعر

"سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی"

"نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم"

قرآن اس بے یقینی کی کیفیت سے نکال کر ایک مکمل، معقول اور قابلِ قبول بات ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ قرآن کے مطابق اس دھرتی پر انسان کا وجود اللہ کی اس اسکیم کا حصہ ہے جس کے تحت اس نے اپنی تمام مخلوقات کے سامنے ایک پروگرام رکھا۔ جس میں مخلوقات کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے دیے گئے بارِ امانت کو اٹھا لیں۔

  امانت سے مراد یہ تھی کہ وہ مخلوق عارضی طور پر اللہ کے دائرہ قدرت سے باہر ہو جائے گی۔ یعنی اللہ غیب کے پردہ میں چلا جائے گا اور اس کے بعد اس مخلوق کو مکمل آزادی ہوگی کہ چاہے تو بلا جبر و اکراہ اللہ کے احکامات مانے اور چاہے تو انکار کردے۔ جس نے پہلا راستہ اختیار کیا اس کا بدلہ ابدی جنت کی نعمتیں اور جس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اس کا بدلہ جہنم کی سزا۔ تمام مخلوقات نے اس امتحان کی ممکنہ اور بہت حد تک متوقع ناکامی اور اسکے بھیانک نتائج کو دیکھ کر اس میں کودنے سے انکار کردیا۔ لیکن انسان نے اس بارِگراں کو اٹھانے کا فیصلہ کرلیا، ( الاحزاب 33:72)

   اس امتحان کے پہلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں (کی ارواح) کو ایک ساتھ پیدا کیا اور ان سب سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا۔ انہیں رسمی طور پر اس بات سے آگاہ کیا کہ قیامت کے دن جب ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہوگا تو اسکی بنیاد یہی توحید ہوگی۔ یعنی اللہ کو ماننا اور ایک ماننا، ( الاعراف : 172-174)۔ اس واقعے کو اصطلاحاً عہدِ الست کہا جاتا ہے۔

  دوسرے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو پیدا کر کے یہ بتایا کہ انہیں دنیا کے امتحان میں کیا کیا رکاوٹیں پیش آئیں گی جو انہیں ناکام کرسکتی ہیں۔ اسکا پہلا مظاہرہ اس وقت ہوا جب فرشتوں نے اللہ کے حکم پر، کچھ سوال و جواب کے بعد، بلا جھجک آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔ لیکن ابلیس نامی جن نے نہ صرف سجدے سے ان کار کیا بلکہ اپنی بڑائی کے زعم میں وہ اللہ سے بغاوت اور سرکشی پر اتر آیا۔ جس کے نتیجے میں اسے راندۂ درگاہ کردیا گیا۔ یہ پہلا سبق تھا کہ اللہ سرکشی کو معاف نہیں کرتا۔ اس لیے کبھی اللہ کے سامنے سرکشی مت کرنا۔

  دوسرا سبق انسان کو اس وقت دیاگیا جب آدم و حوا ابلیس کے بہکانے میں آگئے اور اپنی پوشاک(لباس) سے محروم ہوگئے۔ اللہ نے اس معاملے کو بڑے مہذب انداز میں بیان کیا ہے۔ لیکن قرآن بالخصوص سورۂ الاعراف کا گہرا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ دراصل یہ جنس کا درخت تھا جس کا ثمر وہ شیطان کے بہکانے میں آ کر چکھ بیٹھے۔ کیونکہ شیطان نے انہیں ابدی زندگی کا لالچ دیا تھا۔ تاہم شیطان کے برعکس انہوں نے سرکشی کا رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ندامت اورشرمندگی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالی نے انہیں معاف کردیا۔

  اس واقعے میں یہ سبق تھا کہ جس دنیا میں امتحان کے لیے رکھا جارہا ہے اس میں برائی کی طاقتیں وسوسہ اندازی کر کے ہمیشہ انہیں بہکاتی رہیں گی کہ وہ اللہ کے احکام کو سن لینے کے بعد بھی ان کی خلاف ورزی کریں۔ اور اس بہکانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ جنسی داعیات اور عریانیت ہوگی۔ تیسرا سبق یہ تھا کہ جب کبھی غلطی ہوجائے تو اللہ کے حضور معافی مانگنے سے معافی مل جائے گی۔

  آخری بات اللہ نے یہ بتائی کہ اب قیامت تک کے لیے میں اپنے اور انسانوں کے بیچ میں غیب کا پردہ حائل کر رہا ہوں اور اب تم جانو اور تمہارا امتحان۔ میرے پیغمبر آ کر میرے اس منصوبے کی یاددہانی تمہیں کراتے رہیں گے۔ اور میرے تازہ ترین احکامات تمہیں دیتے رہیں گے۔ جو ان کو مانے گا وہ نجات پا جائے گا وگرنہ بربادی اسکا مقدر ہوگی۔ قرآن میں یہ قصہ سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے یعنی البقرہ، الاعراف، الحجر، بنی اسرائیل، الکہف، طہ، ص۔

  یہ ہے قرآن کا علم الانسان جس کے مطابق انسان پورے دن کی روشنی میں اس دنیا میں آیا ہے۔ اس کے پاس ہر سوال کا جواب اول دن سے موجود تھا۔ وہ اپنی، کائنات کی اور اللہ کی حقیقت سے خوب باخبر تھا۔ انسان نہ کسی ارتقائی سفر کے نتیجے میں پیدا ہوا اور نہ ہی اسکا علم کسی ارتقائی مرحلے سے گزر کر اس مقام تک پہنچا۔

    قرآن کے مطابق ہاں یہ ضرور ہوا کہ ’’احسن تقویم‘‘ پر پیدا ہونے والا انسان بار بار پستی میں گرا اور اتنا گرا کہ جانوروں سے بھی نیچے پہنچ گیا۔ اس بحث کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے تمدن نے ارتقا نہیں کیا۔ تمدن نے تو کیا مگر اللہ تعالی کے بارے میں انسان کے علم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ بلکہ یہ الٹی سمت میں ہی گیا۔ کبھی اپنے سے کمتر درجے کی مخلوقات کو معبود بنا کر اور کبھی خود کو محض ایک ترقی یافتہ حیوان سمجھ کر۔ اب آپ اگر قرآن اور مغرب دونوں کے علم الانسان کا موازنہ کریں تو جان لیں گے کہ کون سی بات زیادہ معقول اور مکمل ہے۔

تاریخِ انسانی اور اللہ کے امتحان کی نوعیت

جب ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو قرآن کے بیان کردہ اس امتحان اور جن جن امور سے اللہ نے متنبہ کیا تھا ان میں انسانوں کا مبتلا ہونا بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کی اکثریت حسبِ توقع اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ کمال یہ ہے کہ انسانوں کے بارے میں جن توقعات کا اظہار فرشتوں اور شیطان نے کیاتھا، انسانوں نے ان سب کو پورا کیا۔

  فرشتوں نے فساد اور خونریزی کا امکان ظاہر کیا تھا۔ آپ عالم کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں، آپ کو اس میں سب سے زیاد ہ نمایاں چیز جنگ و جدل ہی ملے گی۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعویٰ کیا تھا کہ جن کو تو نے مجھ پر ترجیح دی ہے ان کی اکثریت میری پیروی کرے گی اور تو ان کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ ہم میں سے ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ بات کتنی سچی ثابت ہوئی۔ لمحے لمحے اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں پلنے والا انسان جس طرح اپنے رب کی ناشکری اور اپنے دشمن شیطان کی پیروی کرتا ہے اس کا حال ہر دور میں عیاں رہا ہے۔

  بنیادی طور پر انسانیت کے سامنے اصل مقصد پرچۂ توحید میں کامیابی کا حصول تھا۔ اس کی یاد اس کے لاشعور میں اتنی گہری ہے کہ انسان ہر دور میں ایک برتر ہستی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے بے قرار رہا ہے۔ منکرینِ مذہب بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ مافوق الفطری قوت کا تصور انسان میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان۔ شیطان انسانوں کے اندر سے توحید کی اس فطری پیاس کو تو ختم نہیں کر سکا لیکن اس نے کبھی ان کے سامنے شرک کی نشہ آور شراب رکھ دی اور کبھی مادیت و انکارِ خدا کا رنگین شربت۔

  حضرت آدم علیہ السلام کی داستان میں جن رکاوٹوں کا ذکر ہے وہ بالعموم رسولوں کی امتوں کو پیش آئیں۔ یہود و نصاریٰ آج بھی اس بات کی صداقت پر مہر لگانے کے لیے موجود ہیں۔ یہود اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ پہلی رکاوٹ کا شکار ہوگئے۔ شیطان کی طرح انہوں نے تکبر کیا اور اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہو کر مغضوب ہوگئے۔ جبکہ عیسائی دوسری رکاوٹ کا شکار ہوئے۔ توحید کے عَلم کو تین ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کے علاوہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام یعنی شریعت کی پابندی کا چوغہ ہی سر سے اتار پھینکا۔ بالخصوص عریانیت اور جنسی بے راہروی جس بڑے پیمانے پر ان کے ہاں عام ہے اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ خود بھی گمراہ ہوئے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جواکثر لوگ مجھ سے کرتے بھی ہیں کہ اللہ نے انسان کو اس آزمائش میں کیوں ڈالا جس میں ان کی اکثریت ناکام ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس امتحان سے انسانیت گزررہی ہے اس میں اسے اللہ تعالی نے نہیں ڈالا۔ انسان نے خود اس آگ میں چھلانگ لگائی ہے۔

  انسانوں کے رویے نے ہمیشہ اس بات کی تصدیق کی ہے۔ آج بھی انسان فائدہ حاصل کرنے کے لیے نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے۔ آج بھی انسان نے اپنی دنیا میں کامیابی کے لیے امتحان کا اصول قائم کررکھا ہے جس میں ناکامی کا پورا امکان ہوتا ہے۔ آج بھی انسان تجارت میں نفع کے حصول کے لیے اپنی پونجی کو داؤ پر لگانے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ یہ انسان کی طبیعت ہے۔ جو آج بھی ہے، ہمیشہ رہی ہے اور اس وقت بھی یقیناً ہوگی جب یہ امتحان ساری مخلوقات کے سامنے رکھا گیا تھا۔

    انسان نے ابدی کامیابی، جنت کی بے مثال نعمتوں اور اللہ کے تقرب کو دیکھ کر جہنم کے اندیشے سے آنکھیں بند کرلیں۔ کہانیوں کے اس غریب لکڑہارے کی طرح جو حسین و جمیل شہزادی اور شاہی تخت وتاج کو پالینے کی خواہش میں کسی بھی ناممکن مہم پر جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ وہ لکڑہارا کامیاب ہوجاتا ہے۔ آج کا انسان بھی اکثر دنیاوی امتحان اور تجارت میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہاں مہم کو مہم، تجارت کو تجارت اور امتحان کو امتحان سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسوس آخرت کی مہم، آخرت کی تجارت اور آخرت کے امتحان کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ انسان آخرت میں اس لیے ناکام ہوگا کہ وہ اس سے غافل ہوگیا، اس لیے نہیں کہ اس میں کامیابی کی صلاحیت نہیں تھی۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
(بشکریہ: ریحان احمد یوسفی)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...