Saturday 29 April 2017

جعلی عامل: دین و دنیا کے دُشمن


جعلی عامل: دین و دنیا کے دُشمن

(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ )

آج کل ہمارے ملک میں جعلی عاملوں کی بھرمار ہے۔ ملک کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹی وی چینلوں پر بھی اشتہارات چل رہے ہیں اور کھمبوں، دیواروں پر بھی اشتہارات کی بھرمار ہے۔ اسی طرح اخبارات و رسائل میں بھی قسما قسم اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسان کی مختلف طبعی اور بشری خواہشیں پوری کرنے کے لیے اعلان دیتے ہیں کہ آپ تمام کام یہاں پر فی سبیل اللہ نورانی عمل سے ہوں گے۔ پھر فی سبیل اللہ کے نام پر رقم اینٹھنے کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ نمٹنے میں نہیں آتا۔ اشتہارات کے ذریعے شہرت کا خواہش مند عامل فراڈ ہوتا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ان کے پاس جانے سے اپنی دنیا برباد کرنے کے ساتھ دین اور ایمان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

ایک ایسے ہی ساتھی جو ایسے لوگوں کے ساتھ رہے اور وہ ان کے طریقہ کار سے بہت حد تک واقف اور ان کی تکنیک سے آگاہ ہیں۔ ان سے ایک گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے تاکہ وہ ایسے جعلی عاملوں کے ہتھکنڈوں کو سمجھیں اور اپنے دین اور دنیا کو برباد ہونے سے بچائیں۔ ہم اس گفتگو کو سوال جواب کی شکل میں نقل کریں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کوئی بھی جعلی عامل، پہلے جعلی عامل کیسے بنتا ہے؟ چونکہ حقیقت میں جو اصلی عامل ہوگا وہ بھی محنت کرے گا، چلّے کاٹے گا، ریاضت کرے گا۔ اسی طرح جو جعلی عامل ہو گا آخر وہ بھی تو جعلی پن کو تو سیکھے گا؟ یہ دھوکا دینے کے فن کو کیسے سیکھتے ہیں اور کیسے ماحول اور حلیہ بناتے ہیں اور کیسے اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں
قلعہ دیدار سنگھ کی رہنے والی ایک قوم ہے جو منک کہلاتی ہے۔ یہ گجرانوالہ میں ہے۔ یہ اس فن کی یونیورسٹی کہلاتی ہے اور اس فن کا نام ’’جھپکائی‘‘ ہے۔ یعنی پلک جھپکنے میں دھوکا دینا۔ پلک جھپکی نہیں اور جعلی عامل نے ہاتھ دکھایا نہیں۔ 

اس کام کی اپنی مستقل زبان ہے جس طرح پنجابی، پشتو اور دیگر زبانیں ہیں۔ اسی طرح ان کی ایک اپنی زبان ہے جو کسی دوسرے کو سمجھ نہیں آتی۔ اس میں ہرچیز کے کچھ کوڈ ہیں، مثلاً: پیسوں کو کیا کہتے ہیں؟ گاہک کے لیے کیا اصطلاح ہے؟ گاہک بگڑ جائے اور جان کو آنے لگے تو اس کے لیے کیا لفظ استعمال ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ منک لوگ عام طور پر یہ زبان کسی کو نہیں سکھاتے۔ ہاں! البتہ یہ زبان کو ئی ان سے چھین لے یا کوئی ان کا بہت ہی قریبی یا دوستی یار ہو تو وہ سیکھ لے۔ یعنی آپ لے لیتے یا سیکھ لیتے ہیں، ویسے وہ سکھاتے نہیں ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنا اصل کام کسی کو بتاتے نہیں ہیں۔ کسی بھی شہر میں جاکر ایک دکان لیتے ہیں۔ بہت اچھا اور صاف ستھرا سا آفس بناتے ہیں جس میں میز، صوفے اور تزئین کے دیگر تمام لوازمات بھرپور ہوتے ہیں۔ ایسے ہی فقیروں کی طرح دریاں وغیرہ ڈال کر نہیں بیٹھتے، بلکہ ایسا دیدہ زیب دفتر بناتے ہیں جیسے کسی افسر کا ہو۔ اس آفس پر کوئی بھی نام لگا دیتے ہیں، جیسے: سید صداقت شاہ، حضرت بڑی سرکار، پروفیسر اسرارعظیم، کوئی بابا بنگالی لکھ لے گا کوئی مائی کلکتے والی۔ اس طرح کے مختلف نام ہوتے ہیں۔ حقیقت میں بنگالی نہیں ہیں۔ مختلف جگہوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کہیں عیسائیوں، ہندوئوں والا نام بھی رکھ لیتے ہیں۔ بنگالی اس لیے لکھتے ہیں کہ بنگال کا جادو بہت مشہور ہے۔ اس لیے یہ نام سے بنگالی، عیسائی، ہندو کچھ بھی بن جاتے ہیں اپنا اصل اس ذات یا مذہب کے نہیں ہوتے اور اصل نام وغیرہ استعمال ہی نہیں کرتے۔ یہ اپنا نک نام خالد بنگالی، نزاکت شاہ، گنگا رام، پرکاش بنگالی، موہن داس، پوجا دیوی، پھولن دیوی وغیرہ رکھتے ہیں۔ جھوٹے عامل کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ یہ اخبارات ٹی وی میں اشتہارات وغیرہ بہت دیتے ہیں۔ (ممکن ہے کوئی سچا بھی ہو، لیکن ایسا بہت کم بلکہ کالعدم ہے) اور اب تو ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں اور ایک ایک گھنٹہ لائیو بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ اشتہار یہ دیتے ہیں کہ آپ کا ہر علاج، ہرکام مفت تین منٹ یا تین گھنٹے کے اندر اندر ہو جائے گا۔ بعض اپنا اشتہار یوں لگواتے ہیں کہ آپ کا ہر کام سوا منٹ، سوا گھنٹہ، سوا دن کے اندر، بغیر کسی فیس کے ہوگا۔ اور لوگ اشتہار پڑھ کر دوڑے چلے آتے ہیں۔ 

ایک منک نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم یہ کام سیکھ لو۔ بیٹے نے کہا کہ ابا جی! میں یہ جھوٹا کام نہیں کرسکتا۔ باپ نے بیٹے کو اس کام کی شارٹ کٹ اسٹوری بتائی۔ اس نے کہا کہ بیٹا آخر تم کرنا کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ ابا جی! میں ایک چھوٹا سا گھر چاہتا ہوں، چھوٹا سا کاروبار اور ایک بیوی چاہتاہوں تاکہ میری فیملی خوش ہو۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں ایک چھوٹاگھر، ایک چھوٹا سا کاروبار اور گھرکی خوشی چاہتا ہوں۔ مجھے کوئی اور چیز نہیں چاہیے۔ میں نے فراڈ کے ذریعے اتنے پیسے کما کر کیا کرنا ہے۔ اس لیے یہ کام میرے لیے بہت مشکل ہے۔ مجھے آئے گا نہیں۔ 

باپ نے بیٹے کو زور دار تھپڑ مارا کہ: خبیث ان تین کاموں کے علاوہ دنیا میں کسی کو کوئی پریشانی ہے ہی نہیں۔ یہی تین تو وہ کام ہیں کہ جن کے لیے لوگ عامل کے پاس آتے ہیں۔ کسی کو کاروبار میں پریشانی ہے، کسی کے پاس چھوٹا سا گھر نہیں ہے اور کسی کے گھر میں خوشیاں نہیں ہیں۔ یہ تین چیزیں ہی تو ہیں اس کے علاوہ کوئی چوتھی پریشانی دنیا میں نہیں ہے۔ اب جو بھی کوئی ان کے پاس جاتا ہے اسے وہ سیدھا سیدھا کہہ دیتے ہیں کہ آپ پر تو جادو ہوا ہے۔ آپ کاروبار میں ایک قدم آگے جاتے ہیں تو تین قدم پیچھے آجاتے ہیں۔ 

آپ خاندان میں کسی کے ساتھ پیار، اچھائی اور بھلائی کرتے ہیں، (جاری ہے) بدلے میں وہ آپ کے ساتھ دغا بازی، برائی اور بے وفائی کرتا ہے۔ بیوی کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہتے ہیں اس کے باوجود وہ ناراض ہو جاتی ہے۔ ہر گھر کی کہانی یہی ہے۔ ہر گھر کے یہی تین مسئلے ہیں۔ یہی تین آزمائشیں ہیں۔ کسی بھی ڈاکٹر، پروفیسر، تاجریا سرکاری افسر کو لے لیں اس کا گھر ان تین مسئلوں میں سے کسی نہ کسی نہ مسئلے میں مبتلا ہوگا۔اگر تینوں نہیں ہوں گے تو کم از کم ایک تو ضرور ہوگا ہی۔ جب وہ ان کے پاس آتا ہے تو اسے بتاتے ہیں کہ تم پر جادو ہوا ہے۔ اسی لیے جب تم کوئی بھی کام کرتے ہو وہ سیدھا نہیں ہوتا، الٹا ہی ہوتا ہے۔ یعنی زندگی میں جو بھی کام یا کاروبار کرتے ہیں اور ایک قدم آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں، تین قدم پیچھے ہو جاتے ہیں۔ کاروبار میں آپ کے اخراجات زیادہ ہیں اور منافع کم ہے۔ تھوڑے سے آپ سیدھے ہونے لگتے ہیں تو اچانک زندگی میں کوئی چیز آتی ہے کہ پھر کسی آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ آپ کا کام تو ہو جائے گا، لیکن اس کام کا خرچ آئے گا۔ میری کوئی فیس نہیں ہے، لیکن آپ کا کام جنّات نے کرنا ہے۔ ان کے لیے خرچہ کرنا ہوگا۔ یہاں سے ان کے کام کا آغاز ہوتا ہے۔ سننے والا متاثر ہوجاتا ہے کہ میرا کام تو جنات کریں گے تو پھر تو ضرور ہوگا۔ 

اخبارات میں عملیات اشتہارات اور ٹی وی میں وظیفہ پروگرام وغیرہ سب فراڈ ہے۔ وہ ان پروگرامز کے ذریعے لوگوں کو چنتے ہیں کہ کون سی پارٹی موٹی ہے۔ خواتین زیادہ رابطہ کرتی ہیں۔ مرد بھی پھنستے ہیں اور وہ بھی تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ ڈاکٹر، پروفیسر اور تاجر پیشہ حضرات سب پیسے دے کر گئے۔ ہر مسلک والا ان کے ہاتھ پھنس جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اہلحدیث ان چیزوں میں نہیں پڑتے، لیکن وہ لوگ بھی پیسے دے کر گئے ہیں۔ دیوبندی بھی دے کر گئے۔ بریلوی حضرات تو بے چارے ہیں ہی عقیدت کے مارے۔ تمام مسالک کے لوگ آتے ہیں اور اپنا پیسہ اور عقیدہ لٹاکر جاتے ہیں۔ 

کام اس طرح شروع ہوگا کہ انہوں نے آپ کا ہاتھ دیکھنا ہے۔ پھر جھوٹا موٹا زائچہ بنانا ہے۔ ہندسوں کی جمع تفریق کرنی ہے۔ پھر کہیں گے کہ آپ کا یہ مسئلہ بھی ہے، یہ بھی ہے۔ کبھی کاروبار میں کوئی رکاوٹ نکال لیں گے اور کبھی گھریلو مسائل میں۔ ان کا فن محبت اور دولت کے گرد گھومتا ہے۔ پھر کام شروع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے گھر کا پانی، تولیہ اور نمک لے کر آنا۔ کیونکہ یہ سب چیزیں جنات کی حاضری کے لیے چاہییں۔ پھر کہیں گے کہ آپ کے کام کا اتنے ہزار خرچہ آئے گا اور جنات کی حاضری ہوجائے گی۔ اس طرح آپ کا کام ہوجائے گا۔ لوگ جب پانی، تولیہ، نمک اور خرچہ وغیرہ لے کر آجاتے ہیں تو وہ جھوٹ موٹ جنات کو حاضر کرتے ہیں۔ سیکھی سکھائی اداکاری دکھاتے ہیں کہ بابا پر جن حاضر ہوگیا ہے اور گاہک کے مسئلے کا حل بتاگیا ہے۔ 

یہاں سے ان کی عملی تیکنیک کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ گاہک کو فرضی جنّات کا لایا ہوا ایک جعلی تعویذ دیتے ہیں کہ جو چیز بھی آپ کے گھر میں پڑی ہوئی ہے، یا جہاں بھی کسی نے جادو کیا ہے وہ چیز وہاں سے خود آپ کے پاس گھر میں پہنچ جائے گی۔ وہ کیا چیز ہے؟ وہ بال، اعداد والے تعویذات اور زنگ آلود سوئیاں ہوتی ہیں کہ ان کے ذریعے آپ کو جادو کیا گیا ہے۔ وہ سوا منٹ، سوا گھنٹہ یا سوا سوا دن کے اندر اندر آپ کے گھر میں پہنچ جائیں گی۔ 

وہ اس طرح کہ آپ کو چند تعویذ ایک پڑیا میں بند کرکے دیتے ہیں۔ اور آپ کو دکھاتے ہیں کہ یہ ایک، دو یا تین تعویذ ہیں اور لکھ کر بتاتے ہیں کہ ایک کا کام ہے جادو ختم کرنا۔ دوسرے کا کام ہے کہ جہاں بھی چیزیں چھپائی ہوں یا دفنائی ہوں ان چیزوں کو لے کر آپ کے گھر پہنچانا۔ اور تیسرے کا کام ہے کہ آگے کا راستہ صاف کرنا کہ آگے کوئی مشکل یا رکاوٹ نہ رہے۔ اب یہ تین تعویذ آپ کو دکھاکر، اطمینان کرواکر واپس لیتے ہیں۔ پھر دوبارہ دیتے ہوئے تبدیل کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کے چند مزید تعویذات انہوں نے پہلے سے تیار کر کے رکھے ہوتے ہیں اور ان میں زنگ لگی سوئیاں، سر کے بال، بکری کے بال، عورتوں کے سر کے بال رکھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جلی ہوئی راکھ، سڑی ہوئی مٹی بھی رکھی ہوتی ہے۔ اور وہ دوسری مرتبہ آپ کو دیتے ہوئے آپ کی آنکھوں کے سامنے تبدیل کر دیتے ہیں اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ سامنے انہوں نے تعویذ کی چند موٹی کتابیں رکھی ہوتی ہیں اور آپ کے سامنے ویسے ہی تعویذ بنا کر اوپر دھاگہ باندھ دیتے ہیں۔ نیا تعویذ بناکر انہوں نے اس کتاب پر رکھنا ہے اور باتوں باتوں میں کتاب اٹھا کر تعویذ بدل لینے ہیں۔ پھر آپ سے دعا منگوا کر کہ آپ کا کام ہوجائے گا۔ جی! اب آپ بسم اللہ پڑھ کر یہ تعویذ اٹھا لیں۔ اس طرح انہوں نے تعویذ بدل دیا اور اوپر والا تعویذ نیچے اور نیچے والا تعویذ اوپر کرکے آپ کو دے دیا۔ 

اب یہ تعویذ لوگ گھر لے کر چلے جاتے ہیں۔ اب انہوں نے کہا ہوتا ہے کہ سوا منٹ، سوا گھنٹے، سوا دن کے اندر اندر چیز آپ کے پاس پہنچ جائے گی۔ کئی لوگوں نے لکھا ہوتا ہے کہ تین منٹ سے لے کر تین گھنٹے تک چیز آپ کے پاس پہنچ جائے گی۔ اب وہ سوا منٹ یا تین منٹ کیوں شرط لگاتے ہیں؟ اس لیے کہ اگر یہ راستے میں بھی کھول لے تو چیز اسے موجود ملے، کیونکہ وقت تو پورا ہوچکا ہوتا ہے۔ وہ جب بھی کھولیں وہ چیزیں تو اس میں موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ سوا منٹ اور تین منٹ کی تیکنیک استعمال کرتے ہیں۔ پھر اگلے دن وہ اس سے منگواتے ہیں یا پھر گھر میں ہی فون پر کہتے ہیں کہ ان تعویذوں کو کھولو۔ 

اسی طرح بعض لوگ انڈے میں بھی تعویذ بند کر کے پہلے سے رکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح انڈے کو بھی بدل دیتے ہیں۔ آپ سے تین انڈے منگوالیے۔ ایک آپ کو دے دیا اور دو خود رکھ لیے۔ اس طرح وہ چیزیں انڈے کے اندر پہنچ جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ انڈے کے اندر پہلے سے ایک چھوٹا سا سوراخ کر کے وہ چیزیں ڈال دیتے ہیں اور اس سوراخ کی جگہ پر تھوڑا سا آگ کا سیک دیتے ہیں تو وہ حرارت سے ابلے ہوئے انڈے کی طرح ہوجاتا ہے۔ اور دیکھنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہاں سوراخ کیا گیا تھا، یا پھر موم بھی لگا دیتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہی نہیں کہ یہ وہ انڈا ہے کہ جس میں سوراخ بھی ہوا ہے۔ وہ گاہک کو دے دیتے ہیں کہ رات اسے تکیے کے نیچے رکھ کے سونا ہے۔ اب وہ انڈا تکیے کے نیچے ویسے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر سے تعویذ اور زنگ لگی سوئیاں، کیلیں اور سر کے بال وغیرہ نکل آتے ہیں۔ اس طریقہ واردات سے انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ٹھیک آدمی ہے۔ اصلی پہنچا ہوا عامل ہے۔ جب بال وغیرہ نکلتے ہیں تو وہ کسی کے بھی بال ہوں، عورتیں کہتی ہیں یہ تو میرے ہی بال ہیں۔ انہی کے ذریعے مجھ پر جادو کیا گیا ہے۔ 

اس مرحلے پر جادو کی ہوئی اشیاء ’’خودبخود‘‘ تک پہنچ گئیں اور ان کا یقین بھی کامل ہوگیا۔ اس ابتدائی کام کے بھی انہوں نے تین، چار یا پانچ ہزار لیے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رات کو بیٹھ کر زعفران جلائیں گے اور اپنا عمل کریں گے تو جنوں کی حاضری ہوگی۔ پھر یہ چیزیں آپ کے گھر پہنچیں گی۔ اب یہ چیزیں جو ان کے ہاں پہنچ جاتی ہیں یا ان کے ہاں پہنچائی ہوتی ہیں۔ جب وہ انہیں کھولتے ہیں اس کے ساتھ انہوں نے ایک رقعہ لکھا ہوتا ہے۔ یہ رقعہ گاہک کی زبان میں لکھا ہوتا ہے۔ اب اگر گاہک باہر کے ممالک کا ہو تو انگلش میں لکھا ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے فراڈیے ہر ملک میں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں اس ملک کی زبان ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ رقعہ جنات کی طرف سے ایک پیغام ہوتا ہے۔ یہ سرخ رنگ کی سیاہی یا خون وغیرہ سے لکھا ہوتا ہے کہ آپ پر یہ یہ جادو ہوا تھا۔ آپ کے کسی قریبی رشتہ دار نے کیا تھا۔ جن چیزوں کے ذریعے جادو ہوا تھا وہ تو نکل آئی ہیں۔ اب چیزیں تو نکل آئی ہیں، لیکن جادو بہت سخت تھا اس کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ابھی آپ کو سخت خطرہ ہے۔ اب آپ کا کوئی بھی قریبی یا محبوب شخص یا چیز ہوگی، اس کی جان کو خطرہ ہے۔ انہوں نے پہلے جو معلومات لی ہوتی ہے کہ آپ کے کتنے بچے، بچیاں ہیں؟ ان کے نام وغیرہ لکھے ہوتے ہیں۔ آپ کی کمزوری کا اندازہ کر کے، مثلاً: لکھا ہوگا کہ آپ کے بچے کی جان کو خطرہ ہے۔ اگر آپ نے یہ جادو ختم نہیں کروایا تو آپ کا بچہ یا جسے بھی کوئی کمزوری ہو، وہ اتنے دنوں میں مر جائے گا۔ 

اب جادو کا یہ اثر ختم کرنے کے لیے ہرن کی کھال چاہیے۔ شیر کی کھال چاہیے۔ہرن کا نافہ اور کستوری چاہیے۔ مشک، عنبر، زعفران اور فلاں فلاں چیزیں چاہیے۔ (عام طور پر جو چیزیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں وہ سب لکھ دیتے ہیں)۔ ان چیزوں کے ذریعے عمل کر کے فلاں قبرستان میں جنات کی حاضری کریں گے۔ کوئی کہتا ہے ہنومان کی حاضری کرنی ہے۔ کوئی کہتا ہے فلاں، فلاں جن کی حاضری کریں گے۔ پھر جاکر اس جادو کا اثر ختم ہوگا۔ اور پھر نیچے لکھا بھی ہوتا ہے کہ یا عمل خود کریں یا اس عامل سے کرائیں جو آپ کا کام کر رہا ہے۔ اب وہ شخص خود تو ڈر جاتا ہے کہ رات کے بارہ بجے فلاں قبرستان میں کون جائے گا۔ ساتھ بتایا گیا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے قبرستان میں جانا ہے یا عیسائیوں یا ہندوؤں وغیرہ کے قبرستان میں یہ عمل کرنا ہے۔ اب وہ خط لے کر آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بابا جی! آپ ہی کریں جو کچھ کرنا ہے۔ بعض تو منت سماجت کرتے ہیں اور پاؤں بھی پڑ جاتے ہیں۔ بس! آپ یہ بتائیں کہ یہ خرچہ کتنا ہے؟ یہ چیزیں کدھر سے ملیں گی؟ اب بابا جی کہتے ہیں کہ آپ مارکیٹ میں جائیں گے تو آپ کو اصلی کستوری اور ان چیزوں وغیرہ کی پہچان نہیں ہے۔ ویسے میں یہ کام کرتا نہیں ہوں، لیکن آپ میرے بہت خاص اور قریبی لوگ ہیں۔ اس لیے میرا ایک جاننے والا آدمی ہے، وہ یہ کام کرتا ہے، میں اس سے آپ کو یہ چیزیں منگوا دیتا ہوں۔ اب انہوں نے ایک آدمی رکھا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے سامنے فون پر اس کی بات کرواتے ہیں کہ یہ چیزیں کتنے کی ہیں؟ اب سے پہلے وہ یہ اندازہ کرچکے ہوتے ہیں کہ یہ آدمی کتنے پیسے نکال سکتا ہے؟ اگر اس شخص کی حیثیت پاکستانی روپے میں پچاس ہزار کی ہے تو اسے ایک لاکھ روپے بتائیں گے۔ ہرن کی کھال 35ہزار کی آئے گی۔ کستوری اتنے کی آئے گی۔ اب اس کی ویلیو کے حساب سے چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیں گے۔ اب وہ شخص پچاس ہزار لوگوں سے ادھار بھی لے کر آجاتا ہے۔ بہت مجبوری میں بعض اوقات چیزیں ادھار بھی کرلیتے ہیں۔ اگر اس آدمی کے بس میں اتنی رقم نہ ہو تو پھر اسے کہتے ہیں کہ جب تک آپ اتنے پیسے دیں تو ہم آپ کی جان کو جب تک روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ کی موت کو تھوڑے دن کے لیے ٹالتا ہوں۔ جب آپ کے پاس پیسوں کا بندو بست ہوجائے تو اصل عمل تو وہی کرنا پڑے گا۔ بہرحال! اس طرح وہ عمل کر کے جھوٹی موٹھی کی جنات کی حاضری بھی کردیتے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ یا تو جن آپ میں آسکتا ہے یا مجھ میں آسکتا ہے۔ 

پاکستان میں تو شروع میں تین سے پانچ ہزار تک لگواتے ہیں۔ پھر اس کے اوپر 15ہزار اور لگواتے ہیں۔ اب آدمی سوچتا ہے کہ پانچ ہزار پہلے ہی لگا چکا ہوں تو مزید 15ہزار روپے لگاؤں گا تو کل 20 ہزار میں پورا کام ہوجائے گا۔ اب وہ 20 ہزار لگا چکا ہوتا ہے تو اس سے اس کا ڈبل 40 سے 60 تک بتاتے ہیں۔ اب وہ شخص سوچتا ہے کہ میں نے 50 ہزار والا کام نہیں کیا تو میرا 20 ہزار ضائع ہوجائے گا۔ اس ترتیب سے وہ ہر دن نیا کام بتاتے رہتے ہیں اور اس حساب سے پیسے بڑھاتے رہتے ہیں۔ اب وہ شخص پچھلے کو بچانے کے لیے اور دیتا رہتا ہے۔ اب یہ کام نہ کیا تو پچھلے پیسے ضائع ہوجائیں گے۔ چلو یہ بھی کر لو۔ اس طرح ان کا کام بڑھتا رہتا ہے۔ 

پہلا کام جنات کی حاضری کرواتے ہیں۔ چار یا چھ تعویذ دیتے ہیں۔ اب جنات کی حاضری مجھ پر ہوگی یا آپ پر ہوگی۔ اب جنات کی حاضری کیسے ہوتی ہے؟ وہ ایسے ہوتی ہے کہ فاسفورس نام کا ایک کیمیکل اور ایک چیز بھی ہوتی ہے جس کا نام میرے ذہن میں نہیں ہے۔ البتہ نمک کی طرح ہوتا ہے اور باریک پیسا ہوتا ہے۔ یہ ہاتھ کو جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ عام طور پر پنسار کی دکانوں سے مل جاتی ہے۔ اب انہوں نے یہ پاؤڈر ذرا سا انگلی کو لگایا ہوتا ہے۔ اب سگریٹ کی سلور رنگ کی کلی والی پنی پر تعویذ لکھ کر اس کی مٹھی میں رکھ کر حاضری کرتے ہیں کہ جنات کیوں کہ آگ کے بنے ہوتے ہیں اور آگ کی شکل میں آپ کے اندر چلے جائیں گے اور آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کو آگ لگ گئی ہے۔ پھر اگر آپ سے قابو میں نہ آئے تو مجھے دے دینا۔ اب وہ اس پاؤڈر کو تھوڑا سا اس تعویز میں لگا کر بند کرتے ہیں۔ تھوڑا سا پانی لگاتے ہیں تو وہ گرم ہوجاتی ہے۔ یہ پاؤڈر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پانی میں ہو تو زندہ رہتا ہے اور خشک ہوتو اسے آگ لگ جاتی ہے۔ اسے فاسفورس کہتے ہیں۔ دوسرا خشک ہوتو زندہ ہوتا ہے اور پانی لگاؤ تو آگ پکڑ لیتا ہے۔ اب وہ یہکرتے ہیں کہ انگلی سے تھوڑا سا پاؤڈر جو لگایا ہوتا ہے تو اس پر اس کے گھر سے منگوایا ہوا پانی ڈبو کر اور گاہک کو یہی دکھاتے ہیں کہ یہ آپ کے گھر کا نمک ہی لگایا ہے جو آپ کے گھر سے منگوایا ہے۔ اب تعویز اس کی مٹھی میں بند کرواتے ہیں۔ اور جھوٹی موٹھی کا دم پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں: حاضر ہو…حاضر ہو۔ اب وہ تعویذ اس بندے کی مٹھی میں بہت گرم ہوجاتا اور ایسے لگتا ہے کہ اس کا ہاتھ جل جائے گا۔ 

اگر یہ فاسفورس زیادہ مقدار میں لگایا ہوتو ہاتھ جل بھی جاتا ہے۔ اب وہ شخص فوراً کہتا ہے کہ بابا جی! اب یہ مجھ سے نہیں برداشت ہورہا، آپ ہی پکڑ لو۔ اب وہ تعویذ اس کے ہاتھ لے کر ایسے ہی مسل دیتا ہے کیونکہ اس کا اثر ویسے ہی چند سیکنڈ کے لیے ہوتا ہے۔ اب وہ اپنے اوپر حاضری لے لیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے پھینک بھی دیتا ہے کہ بس اب اس میں جن آگے۔ پھر وہ بات نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ جن بات کررہا ہوتا ہے۔ اب وہ اپنی آواز بدل کر، بیچ میں اس کو تھپڑ بھی مار دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لیٹر کی دو دو بوتلیں پانی بھی پی جاتا ہے، لوگوں کو دکھانے کے لیے اور کچھ پانی اپنے اوپر بھی انڈیل لیتے ہیں۔ اس طرح وہ پورا ڈرامہ کرتے ہیں۔ اس طرح گاہک کو لگتا ہے کہ واقعی یہ تو جن ہے ورنہ یہ تو انسان کا کام ہی نہیں ہے کہ دو دو بوتلیں پانی پی جانا۔ اب وہ جن کہہ رہا ہوتا ہے کہ ابھی تو میں نے تمہاری جان کو ٹال دیا ہے۔ ابھی اسے بخشا نہیں ہے، بلکہ اگلی اسٹوری بتا دینی ہے کہ اس کے بعد فلاں جن کو حاضری کرنا ہے۔ 

ایک جن نکل گیا۔ اب اگلا مرحلہ شروع ہوگیا۔ پہلے جن نے ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ میرا کام اتنا ہی تھا۔ اب آپ نے مزید یہ یہ چیزیں لانی ہیں اور یہ یہ کام کرو گے تو جادو کا اثر جائے گا۔ اور یہ کام اسی بابے سے کروا لو، یہی بابا یہ کام کرسکتا ہے۔ اب وہ اور ڈبل چیزیں بتا دے گا۔ پہلے اگر اس نے ہرن کی کھال منگوائی ہے تو اب کہے گا کہ شیر کی کھال لے کر آؤ۔ اتنی مقدار میں کستوری لے کر آؤ۔ تین اُلو لے کر آؤ۔ شاہین لے کر آؤ۔ ان کے خون سے یہ کام کریں گے۔ اتنی چیزوں کی فہرست بنائیں گے کہ وہ چیزیں مارکیٹ میں دستیاب بھی نہیں ہوں گی۔ پہلے اگر کام پچاس ہزار کا تھا تو اب ایک لاکھ کا کام اسے بتا دیتے ہیں۔ انہوں نے آدمی کی حیثیت کے علاوہ پچھلے سے ڈبل پیسے منگوا لینے ہیں۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے جب تک کہ آدمی کی بس نہیں ہوجاتی۔ بس آدمی ہی بھاگ جاتا ہے، ورنہ ان کی فٹیکیں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ جب پیسے ختم ہوجائیں گے تو بھاگنا گاہک نے ہے۔ یعنی ہر حال میں ہار اُسی کی ہے۔ 

بعض ایسے بھی کرتے ہیں کہ چار یا چھ تعویذ دیتے ہیں۔ یہ آپ نے جلانے ہیں، اس سے آپ کا اثر اب ختم ہوجائے گا اور آپ کا کام ختم ہوگیا۔ اس کی تیکنیک یہ ہوتی ہے کہ یہ تعویذ آپ سے بند کرواتے ہیں اور آپ سے ہی گنوا کر لفافے میں بند کرواتے ہیں۔ اسے گوند لگا کر خشک ہونے کے لییکتاب میں رکھ دیتے ہیں۔ اب انہوں نے اسی طرح کا ایک لفافہ پہلے تیار کیا ہوتا ہے جس میں پانچ تعویذ ہوتے ہیں۔ اگر اس سے پانچ بند کروائے ہوں تو اس لفافے میں چار ہوتے ہیں۔ بہر حال! اس سے ایک تعویذ کم ہی ہوتا ہے۔ اب یہ لفافہ کتاب میں رکھواتے بھی اسی سے ہیں اور دیتے ہوئے اسی سے کہتے ہیں کہ اب یہ اپنے ہاتھ سے نکال لو۔ دیتے ہوئے پہلے سے رکھا ہوا لفافہ اسی کے ہاتھ سے نکلوا بھی لیتے ہیں۔ اب اس کی ایک شرط ہوتی ہے کہ روازانہ کا ایک تعویذ جلانا ہے اور اس لفافے کے اندر کبھی دیکھنا نہیں ہے۔ اندر اگر دیکھا تو تعویذ غائب ہوجائیں گے، یا پھر جنات آپ پر الٹے ہوجائیں گے۔ آپ ہاتھ اندر ڈال کر ایک ہی تعویذ نکالنا ہے دو تعویذ بھی باہر نہیں نکالنے۔ اگر دو تعویذ بھی نکال لیے تو آپ کا کام ختم۔ دو اکھٹے جلا دیے تو بھی ختم۔ 

اب وہ بے چارے بڑی احتیاط کے ساتھ آرام آرام سے ایک ایک تعویذ نکالتے ہیں اور روز کا ایک ہی جلاتے ہیں اور پانچویں دن یا چھٹے دن کا آخری تعویذ ہی نہیں نکل رہا۔ کیسے نکلے گا؟ انہوں نے تو ایک کم ہی ڈالا ہوتا ہے۔ اب ان تعویذات کی راکھ انہوں نے سنبھال کے رکھنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض گاہک سیانے بنتے ہیں اور ایک ویسے ہی کاغذ جلا کر لے آتے ہیں کہ بابے کو کیا پتا چلنا ہے۔ اب بابے کو تو پتا ہوتا ہے ک میں نے اسے دیے ہی پانچ ہیں تو چھ اس نے کہاں سے لے کر آنے ہیں۔ اب بابے کے پاس وہ پورے لے کر آیا ہوتا ہے تو بابا کیا کرتا ہے کہ ان کی حاضری کرتا ہے۔ ان جنات کی حاضری کرنی ہے۔ اب وہ ایسے ہی اپنے آپ کو بے ہوش کر لیتا ہے۔ اب بابے کا اسسٹنڈ کہتا ہے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ اب وہ بڑی مشکل سے بابے کو ہوش میں لاتا ہے۔ اب بابا کہتا ہے کہ اس ظالم نے میرے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ یہ تو مجھے مروانے لگا تھا۔ جن تو میرے پیچھے پڑ گئے تھے۔ یہ سارے تعویذ اکھٹے جلادیے ہیں یا پھر چھٹے دن یہ کاغذ جلا کر میرے پاس لے آیا ہے۔ اب تو گاہک کہتا ہے کہ واقعی بابا تو پہنچا ہوا ہے اس کو تو سارا پتا چل جاتا ہے۔ اب اگر کوئی سچ بتا دیتا ہے کہ پانچ ہی نکلے تھے تو بابا جی اسے کہتے ہیں کہ آپ نے غلطی سے دو جلا دیے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان تعویذات کا سائز بالکل ایک جیسا کاٹا ہوتا ہے۔ اب اس کے لیے جواب یہ ہوتا ہے کہ پچھلا سارا عمل ضائع اور اب نئے سرے سے عمل شروع ہوگا۔ اب دوبارا اس کے پیسے لیں گے۔ اس طرح یہ چکی چلتی رہتی ہے، کبھی رکتی نہیں۔ بھاگنا گاہک نے ہی ہے با با کبھی نہیں بھاگے گا۔ 

٭ اس کا مطلب ہے کہ انہیں حقیقی عملیات کا کچھ بھی پتا نہیں ہوتا؟ 
جی ہاں! اس کا حقیقی عملیات سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ سارا فراڈ ہی ہوتا ہے۔ جھپکائی کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ نے پلک جھپکنی ہے اور اسی لمحے میں انہوں نے چینجنگ کر لینی ہے۔ آپ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے کہ وہ میرے سامنے ایسا کر سکتے ہیں۔ نمک آپ گھر سے لے کر آتے ہیں، لیکن وہ نہیں لگاتے۔ کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی انگلی پر فاسفورس لگا کر رکھا ہوتا ہے۔ اسی طرح بار بار جنات حاضر کرتے رہتے ہیں اورکوئی نہ کوئی غلطی آپ سے کرواتے ہی رہیں گے۔ اس طرح یہ چکی چلتی ہی رہتی ہے، چلتی ہی رہتی ہے اور آپ سے پیسے لیتے ہی رہیں گے۔ 

بعض لوگ ایسے بھی کرتے ہیں جنہوں نے بھاگنا ہوتا ہے اور اینڈ کام کرنا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا سب کچھ ڈبل ہوجائے گا۔ پیسے، سونا اور جو کچھ بھی ہے سب لے آؤ، سارا ڈبل ہوجائے گا۔ انہوں نے سب کچھ لے آنا ہے۔ اب انہوں نے خود ہی یا پھر گاہک سے ہیدو ہانڈیاں ایک جیسی منگوانی ہیں۔ وہ سارا کچھ آپ کے ہاتھ سے اس میں بند کرواتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہانڈیا بھی تبدیل کردیں گے اور آپ کو پتا بھی نہیں لگنے دیں گے۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے بیٹھے بیٹھے کریں گے۔ بعض اوقات ایسے کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اوپر چادر اوڑھی ہوتی ہے اور دم کرنے کے بہانے اسے ادھر سے پکڑ کر ادھر کر دیں گے۔ اب وہ آپ کو گھر لے جانے کے لیے دے دیتیہیں۔ ساتھ ہی کچھ تعویذات دے دیتے ہیں۔ اس میں اگر ذرا سی بھی کوئی غلطی کی تو یہ سارے زیورات اور پیسے وغیرہ مٹی اور پتھر بن جائیں گے۔ اب پھر پہلے ہی تعویذوں کی طرح آپ سے کوئی غلطی ہونی ہے اور آپ کا سب کچھ مٹی اور پتھر بن جانا ہے۔ یہ کام انہوں تب ہی کرنا ہوتا ہے جب انہوں بھاگنا ہو تو دو تین گاہکوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ اس کے بعد نام بھی چینج اور جگہ بھی چینج کر لیتے ہیں۔ 

ویسے بھی دو تین مہینے میں انہوں نے نام اور جگہ تبدیل کرنی ہوتی ہے۔ بہت ہو تو کسی جگہ چھ مہینے تک چلیں گے۔ کیونکہ گاہک بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس کے اشتہارات دو تین مہینے سے مسلسل اخبارات اور ٹی وی پر آرہے ہیں تو یہ پکا ہے۔ کیونکہ گاہک بھی کئیوں سے ڈسے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی باز نہیں آتے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہ ’’جھپکارے‘‘ کہتے ہیں کہ یہ پیسا ہمارا ہی ہے، یہ انہوں نے کسی نہ کسی کو جا کہ دینا ہی ہے۔ ہم نے نہ لیا تو کوئی اور لے لیگا۔ اس طرح بعض اوقات دو تین مہینے گاہک آنے میں لگتے ہیں اور اس کے بعد دو تین مہینوں میں جب وہ دیکھتے ہیں کہ آٹھ دس گاہک اچھے لگ گئے ہیں تو ان کا کام بن جاتا ہے۔ وہ اپنے تمام تر خرچے نکال کر20 سے 25 لاکھ روپے تقریباً آرام سے کما لیتے ہیں۔ خود وہ یومیہ لاکھوں کے خرچے کرتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں کم سے کم بھی ماہانہ چار سے پانچ لاکھ تو یہ کما لیتے ہیں۔ 

سوال: اگر کوئی صاحب حیثیت شخص ان کے پیچھے پڑ جائے یا کوئی پڑھا لکھا سمجھدار آدمی ان کا فراڈ پکڑ لے تو وہ اپنے تحفظات کے لیے کیا کرتے ہیں؟ 

اس کے جواب میں سیدھا ایک کام کرتے ہیں کہ اپنا بوریا بستر گول کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں ایک دفتر پر انہوں نے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ لگایا ہوتا ہے۔ کرائے کی دکان ہوتی ہے۔ مالک کو اس کا کرایہ دیا اور اپنا سامان لیا اور بھاگ گئے۔ بہت تھوڑے پیسے ہوں تو واپس بھی دے دیتے ہیں۔ بعض اوقات واپسی کا ٹائم دے دیتے ہیں۔ اسے وہ کہتے ہیں کہ ’’ٹنہ مچھ ہوگیا ہے۔‘‘ یعنی یہ گاہک خراب ہوگیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے پولیس والے کا بھی ایک نام رکھا ہوتا ہے۔ اس طرح ان کی ایک مستقل لینگویج ہے۔ 

یہ ایک اکیلا آدمی نہیں ہوتا اس میں کئی پارٹنر ہوتے ہیں۔ کم از کم دو تو ضرور ہوتے ہیں۔اب یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ان سے کافی پیسے لے لیے ہیں اور اب وہ ان سے قابو نہیں آرہا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ کام میرے بس سے باہر ہے۔ کیونکہ گاہک نے ہی کوئی نہ کوئی غلطی کی ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ اتنی غلطیاں کرچکے ہیں کہ اب مین تنگ آگیا ہوں۔ یہ کام میرے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ ایسا کریں کہ میرے استاد جی ہیں۔ اب وہ دوسرے کے پاس بھیجیں گے اب وہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ہو، اسے استاد بنا دیتے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے داڑھیاں رکھی ہوں۔ بغیر داڑھیوں کے کلین شیو بیٹھے ہوتے ہیں۔ شراب تو ان میںکچھ کم ہی پیتے ہیں، لیکن چرس تو ان میں ہر کوئی پیتا ہے۔ اس کاروبار میں 95 فیصد لوگ اس کام میں چرس ضرور پیتے ہیں۔ اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، بلکہ ویسے ہی عیاشی کے طور پر پیتے ہیں۔ کیونکہ بے تہاشا پیسا آرہا ہوتا ہے۔ جیسا پیسا آتا ہے ویسے ہی فضول خرچے انہوں نے کرنے ہوتے ہیں۔ یومیہ دس دس ہزار کا تو کھانا کھا جاتے ہیں۔ گاڑیاں رینٹ پہ ہوتی ہیں۔ یعنی پیسے جس رفتار سے آرہے ہوتے ہیں اسی رفتار سے جا بھی رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ پانچ سو اور ہزار والے گاہک تو ان کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ مجموعی طور پرمہینے بھر کے لیے انہیں دو سے تین گاہک اچھے چاہیے ہوتے ہیں جو لاکھوں والے ہوتے ہیں۔ 

اب وہ کہتے ہیں کہ یہ کام تو مجھ سے نہیں ہوتا۔ یہ میرے استاد جی ہیں۔ یہ بہت بڑے عالم ہیں۔ میں نے ان سے آپ کے لیے بہت ہی زیادہ ریکوئسٹ کی ہے۔ یہ بڑا مضبوط عمل کرتے ہیں۔ اب جو یہ کہیںویسے ہی کرنا، کوئی غلطی مت کرنا اور بڑے ہی دھیان سے کرنا۔ اس طرح وہ اسے دوسرے کے پلے باندھ دیتے ہیں۔ اب دوسرے بندے کے پاس ایسے گاہک کے لیے نئے گُر ہوتے ہیں۔ اس طرح پھر وہ نئے طریقے سے اپنا کام شروع کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسی نہ ختم ہونے والی کتاب ہے۔ 
یہ سارے منک قوم کے لوگ ہیں۔ اس قوم کے لوگوں کے ہر فرد کے پاس مختلف طرح کے نئے نئے حربے ہوتے ہیں، جو گاہک جتنی مرتبہ جائے گا وہ اتنی مرتبہ ہی نئے طریقے سے پھنسے گا۔ نارمل عام طور پر گاہک پانچ سے سات حربوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کے پاس پانچ سات حربے تو ہوتے ہی ہیں۔ اس کے بعد وہ نئے حربے شروع کردیتا ہے۔ ہر ایک کے پاس آٹھ دس حربے تو ہوتے ہی ہیں۔ عام طور پر گاہک تو ابتدائی تین حربوں میں ہی عاجز آجاتا ہے یا پھر بھاگ جاتا ہے۔ اور جنات کی حاضری والا حربہ تو پکا چلتا ہی رہتا ہے۔ یہ چاہیے جتنی بار مرضی کر لیں اس طرح جنات آتے رہتے ہیں اور فٹیکیں ڈالتے رہتے ہیں۔ 

عام طور پر پیسے واپس کرنے کی نوبت اس لیے بھی نہیں آتی کہ وہ کہتا ہے کہ پیسے میں نہیں لے رہا، بلکہ آپ اپنے کام پہ خود خرچ کرو گے۔ یہ بات وہ اشتہار میں لکھ دیتے ہیں۔ البتہ میں نے کوئی فیس نہیں لینی۔ میں یہ کام بالکل مفت کرتا ہوں۔ انہیں مطمین کرنے کے لیے ان کا اپنا بندہ ہوتا ہے اس کے پاس پہلے سے ایک عدد کھالیں، کستوری وغیرہ یہ سامان رکھا ہوتا ہے۔ اس سے فون پر بات کروا دیتے ہیں۔ دکان تو ہوتی نہیں بس ہوم ڈیلیوری کا انتظام ہوتا ہے۔ اسی ایک کھال اور سامان سے ان کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ وہ سامان کئی دفعہ بکنے کے بعد گھوم پھر کر واپس انہی کے پاس آجاتی ہے۔ اس میں صرف مال ہی ضایع نہیں ہوتا، بلکہ اس میں مال کے ساتھ ساتھ ایمان تو جاتا ہی ہے، بلکہ اس میں عورتوں کی عزت بھی جاتی ہے۔ 

عام طور خواتین اور لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ مثلاً: نوجوان کنواری لڑکی نے عشق معشوقی اور پیار کے چکر میں زنا کرچکی ہوتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہماری شادی ہونے والی ہے تو ہماری سیل بند ہوجائے تاکہ میرے شوہر اور سسرال والوں کو یہ نہ پتا چلے کہ سیل ٹوٹی ہوئی ہے۔ اب وہ سیل کو دوبارہ جوڑتے ہیں اور وہ کیسے جوڑتے ہیں؟ وہ دوبارہ اس کے ساتھ زنا کرتے ہیں کہ تمہارے ساتھ دوبارہ ایسے کرنا پڑے گا تب جاکر سیل دوبارہ بند ہوجائے گی۔ اس طرح آپ کے شوہر کو ایسے ہی لگے گا کہ آپ بالکل فریش اور کنواری لڑکی ہیں۔ 

بعض لوگ ان لڑکیوں سے یہ کہتے ہیں کہ آپ کے اندر یہ تعویذ لکھنے پڑیں گے۔ پھر وہ زنا کے ذریعے وہ تعویذات آپ کے اندر لکھتے ہیں۔ یہ عمل پاکستان کے اندر بہت عام ہے، کیونکہ بہت سے لوگ بالکل جاہل ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس عمل کے بغیر آپ کی سیل بند نہیں ہوسکتی۔ بعض اوقات تو لوگوں سے چرس اور شراب بھی منگواتے ہیں کہ جناب! آپ پر تو کالا جادو ہوا پڑا ہے اس کے لیے کالے علم کے جنات حاضر کرنے ہوں اور کالے جادو والے جنات تو شراب اور چرس ہی پیتے ہیں۔ یہ سب چیزیں گاہک سے ہی منگوا لیتے ہیں۔ 

اس لیے زنا کے دو خطرناک عمل ہیں۔ ایک تو سیل بند کروانے کے لیے اور دوسرا زنا کے ذریعے ہی کالے جادو کاٹ کرنا۔ یہ عمل کراچی میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ 

اسی طرح عاملیں حضرات کی طرح چند شعبدہ باز حکیم حضرات بھی ہوتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے حکیم ہیں، مثلاً: حکیم داؤد ہے ۔ اسی طرح حکیم سلیمان ہیں۔ یہ دونوں سگے بھائی ہیں ۔ حکیم داؤد نے تقریباً پاکستان کے ہر ضلعے میں ایک دواخانہ بنایا ہوا ہے۔ وہ دواخانہ اور جھپکائی دو نوں عمل اکھٹے ہی کرتے ہیں۔ یہ ایسے کرتے ہیں کہ دواخانے کے باہر مجمہ لگواتے ہیں۔ اس مجمے سے بندے کو منتخب کرتے ہیں۔ پھر اس کے پاس ایک بندہ بھیجتے ہیں کہ حکیم صاحب آپ کو شیشے سے دیکھ رہے تھے۔ آپ کو یہ یہ بیماری ہے اس لیے حکیم صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں۔ وہ اس کو اندر بلا کر لے جاتا ہے۔ اب حکیم صاحب اسے بتاتے ہیں کہ آپ کا جگر کام نہیں کرتا۔ تمہیں سیکشل پروبلم ہے۔ یہ آج کل ہر بندے کو ہے۔ پاکستان میں ہر بندے کا جگر کام نہیں کرتا۔ میں آپ کو یہ دوائی لکھ دیتا ہوں۔ یہ آپ جا کر خرید لیں۔ آس پاس کسی بھی کلینک سے جاکر لے لیں۔ اب انہوں نے یہ کیا ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس دوا خانے اپنے ہی بنائے ہوتے ہیں۔ اس نے بہت سارے کُشتے اور دیگر چیزیں لکھ کر دی ہوتی ہیں۔ تم ایسا کرو کہ ساتھ یہ لڑکا لے جاؤ اور جاکر جہاں سے مرضی ہے لے لو۔ اب اس میں چھ سات چیزیں اس میں لکھی ہوتی ہیں۔ تین چار چیزیں اس میں ڈال کر کہتے ہیں کہ پہلے ان کے پیسے دو۔ اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ اس آدمی کے پاس کتنے پیسے ہیں اور یہ کتنے نکال سکتا ہے؟ اس کے بعد جو چار چیزیں رہتی ہیں پھر ان چیزوں کی اور قیمتیں لگتی ہیں۔ وہ نوٹ دیکھ کر پیسے لگاتے ہیں۔ پھر ان کی چیزوں کے ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ جناب! یہ بیس یا پچیس روپے کی رتی ہے۔ اب وہ چاول پیسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب بھائی یہ پچاس روپے کی ہے اور بیس رتی ڈالنی ہے۔ اب ہزار روپے کی تو یہی ہوگئی۔ پھر اس کے حساب سے دو تین ہزار سے زیادہ کی دوائی بنا دیتے ہیں۔ پھر وہ سونے کی گھڑی وغیرہ پہنی ہوتی ہے تو وہ بھی جمع کروا جاتے ہیں۔ اس طرح ادھار بھی کرلیتے ہیں۔ اسی طرح کوئی آدمی یا خاتون آجائے تو اسے کہتے ہیں کہ آپ کو جنات کے بھی اثرات ہیں۔ یہ دو آدمی بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک حکیم بن گیا اور دوسرا ساتھ ہی عامل بن گیا۔ اس طرح حکیم صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو جادو اور جنات کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ ساتھ عامل صاحب بیٹھے ہیں۔ یہ بہت اچھا کام کرتے ہیں۔ ویسے یہ عام طور پر کام کرتے نہیں ہیں، لیکن مجھے تم پر ترس آرہا ہے اس لیے تمہیں یہ مشورہ دیا ہے۔ میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔ میں ان سے کہہ دیتا ہوں۔ اس طرح ساتھ ہی دوسرا کام بھی شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک ہی کام اور چیزکے دو طریقے ہیں۔ 

قارئینِ کرام! یہ داستان ہے کہ کس طرح ان پڑھ اور جاہل لوگ پڑھے لکھے اور دین داروں کو بھی لوٹ رہے ہیں۔ اور اس داستان کو سنانے والے وہ ساتھی ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ایمان بھی سلامت رکھا اور انہیں سمجھ بھی دی کہ ان حالات سے واقف ہونے کے بعد ان حالات سے واپس نکل بھی آئے۔ انہوں نے پوری معلومات بھی آپ کو اس خاطر دیں کہ آپ ان کے ہتھکنڈوں میں نہ آئیں۔ اور ان کے گاہکوں کو پھنسانے کے جو ہربے ہیں انہیں آپ سمجھ جائیں۔ اور جو حربے یہاں ذکر نہیں ہوئے انہیں بھی سمجھ لیں کہ بس وہ بھی اسی طرح کے طریقے ہوتے ہیں کہ جس سے وہ ہاتھ کی صفائی، شعبدہ بازی، اپنی قیافہ شناسی اور مہارت دکھا کر انسان کی طبعی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر کچھ بتا دیتے ہیں جو آپ کو سچ لگتا ہے۔ سب کا سب جھوٹ اور فراڈ ہے۔ بس اللہ تعالیٰ کے آستانے کو چھوڑ کر کسی کے آستانے پر نہ جائیں۔ صرف اللہ تعالیٰ سے لو لگائیں۔ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کسی کو مغفرت چاہیے تو مغفرت دوں اور کسی کو رزق چاہیے تو اسے رزق دوں۔ کسی کی حاجت ہو تو اس کی حاجت پوری کروں۔ تو اللہ تعالی سے مانگیں کسی کے پاس ہر گز نہ جائیں۔ ایسے شخص کے پاس نہ جائیں جو متبع شریعت نہ ہو اور صرف اشتہار بازی کے ذریعے سے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ وہ خود رُو جھاڑیوں کی طرح اُگ جاتے ہیں۔ پھر اچانک غائب ہوجاتے ہیں اور کسی دوسری جگہ جاکر رونما ہوجاتے ہیں۔ یہ دو باطل قوتوں اور جعلی عاملوں کی پکی علامتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ متبع شریعت و سنت نہیں ہوتے۔ دوسرا یہ کہ اشتہار بازی کے ذریعے لوگوں کو بلاتے ہیں۔ اللہ والے جو ہوتے ہیں وہ اپنے ظاہر و باطن میں سو فیصد شریعت کی اتباع کرتے ہیں۔ دوسرا وہ کسی کو اشتہار بازی کے ذریعے نہیں بلاتے، بلکہ ان کی خوشبو خود ہی پھیل جاتی ہے۔ 

بہر حال! یہ ایک صاحب ایمان اور ہمارے ہمدرد انسان تھے جنہوں نے آپ کو سارا حال بتا دیا تاکہ آپ اپنے ایمان کی بھی اور اپنی دنیا کی حفاظت خود کرسکیں اور ایسے لوگوں کے جال میں پھنسنے سے بچ سکیں۔ آپ سے درخواست ہے اس شخص کے لیے بھی دعا کریں جس نے یہ سب معلومات آپ کو فراہم کیں اور بندہ عاجز کے لیے بھی جو اس کا سبب بنا۔
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...