"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر43)
دوسرے مسالک سے قطع تعلق:
مسالک سے وابستہ کٹڑ لوگ اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ جو افراد ان کے خیال میں کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، ان سے وہ قطع تعلق کر لیں، ان سے رشتے ناطے توڑ لیں، ان سے اپنی مساجد الگ کر لیں، ان سے نفرت کریں اور ان سے الگ تھلگ زندگی گزاریں۔ بعض لوگ اس انتہا تک چلے جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک مخالف مسلک کے کسی فرد سے ہاتھ ملانے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر پنجاب کا ایک سچا واقعہ پیش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔ ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی صاحب تک جب یہ بات پہنچی تو وہ اگلے جمعہ کے دن فتوی دینے والے صاحب کی مسجد کے باہر کھڑے ہو گئے اور ہر نمازی سے ہاتھ ملانے لگے۔ کسی نے استفسار کیا تو فرمایا: ان کے نکاح توڑ رہا ہوں۔
ماورائے مسلک حضرات اور مسالک سے وابستہ اعتدال پسند افراد بھی اس نقطہ نظر کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کو مل جل کر رہنا چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہیں، مل کر نمازیں پڑھنی چاہیں اور اچھا رویہ رکھنا چاہیے۔
مسالک سے وابستہ حضرات کے دلائل
مسالک سے وابستہ افراد کی دلیل یہ آیات اور احادیث ہیں:
ترجمہ:
"اے اہل ایمان! تم سے پہلے کے اہل کتاب اور کفار میں سے جب لوگوں نے اپنے دین کو مذاق اور کھیل کود بنا لیا ہے، انہیں دوست مت بناؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ 5:57)
وحدثنی محمد بن عبداللہ بن نمیر وزھیر من حرب۔ قالا: حدثنا عبداللہ بن یزید۔ قال: حدثنی سعید من ابی ایوب۔ قال: حدثنی ابو ھانی، عن ابی عثمان مسلم بن یسار، عن ابی ھریرۃ، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، انہ قال، سیکون فی آخر امتی اناس یحدثونکم مالم نسمعو انتم ولاآباوکم۔ فایا کم اایاھم۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے بعد کے زمانہ میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی احادیث بیان کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے۔ ان سے بچ کر رہنا۔ (مسلم۔ مقدمہ، حدیث 6)
حدثنا موسی بن اسماعیل، ثنا عبد العزیز بن ابی حازم، قال: حدثنی بمنی عن ابیہ عن ابن عمر، عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال: القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ: ان مرضوافلاتعودوھم، وان ماتوا فلا تشھدوھم۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قدریہ فرقے کے لوگ اس امت کے مجوس ہیں۔ اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت کے لیے مت جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں بھی شرکت نہ کرو۔ (ابوداؤد ، کتاب السنۃ، حدیث 4691)
ان دلائل کے جواب میں اعتدال پسند اور ماورائے مسلک حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان آیات اور احادیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اسلام دشمنی کا رویہ رکھتے ہوں اور جان بوجھ کر مسلمانوں میں گمراہی پھیلا رہے ہوں۔ موجودہ مسالک کا یہ معاملہ نہیں ہے۔ ان سب میں جو اختلاف ہے وہ تاویل کا اختلاف ہے جس پر ان آیات اور احادیث کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اوپر بیان کردہ آیت میں بھی ذکر ہے کہ جب وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں تو ان کے ساتھ بیٹھا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم دوسرے کی بات کو غلط بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھنا چاہیے تا کہ ہم درست بات کو ان تک پہنچا سکیں۔
ماورائے مسلک حضرات کے دلائل:
ماورائے مسلک لوگ اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیات و احادیث پیش کرتے ہیں:
ترجمہ:"جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے، ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے اللہ نے تمہیں منع نہیں فرمایا ہے۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہے۔ اللہ تو تمہیں انہی سے دوستی سے منع فرماتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی، تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے اخراج کے خلاف جتھہ بندی کی۔ جس نے انہیں دوست بنایا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔" (الممتحنہ 9-8-60)
حدثنا عبید بن اسماعیل: حدثنا ابو اسامۃ، عن ابیۃ، عن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما قالت: قدمت علی امی وھی مشرکۃ، فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، فاستفتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، قلت: ان امی قدمت وھی راغبۃ افاصل امی؟ قال: نعم، صلی امک
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں میری والدہ مجھ سے ملنے آئیں جبکہ وہ مشرکہ تھیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے بارے میں پوچھا: "میری والدہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں جبکہ وہ دین سے بیزار ہیں؟ کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ان سے صلہ رحمی کرو۔ (بخاری، کتاب الہبہ حدیث 2477)
ماورائے مسلک حضرات کہتے ہیں کہ جب غیر مسلم مشرکین اور کفار کا یہ معاملہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک اور صلہ رحمی کرنی چاہیے تو پھر ان مسلمانوں کا معاملہ تو اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے جو ہمارے خیال میں کسی غلط عقیدہ یا عمل میں مبتلا ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیے، ان سے محبت سے پیش آنا چاہیے اور مناسب موقع پر احسن انداز میں ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کر دینی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ اچھے سلوک کی وجہ سے وہ اپنے غلط عقیدے یا عمل کو چھوڑ دیں لیکن اگر ہم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا اور کفر و شرک کے فتوں سے ان کی تواضع کی تو اس کے سوا اور کچھ نہ ہو گا کہ وہ اپنے غلط عقیدے یا عمل پر مزید پختہ ہو جائیں گے۔
منفرد آراء یا تفردات
بعض ماورائے مسلک علماء کا یہ معاملہ رہا ہے کہ انہوں نے کسی اجتہادی مسئلے (یعنی وہ مسئلہ جو قرآن و سنت کی واضح عبارتوں میں درج نہ ہو بلکہ اس میں کسی عالم کو اپنے غور و فکر اجتہاد کرنا پڑے یا پھر جس میں قرآن و سنت کی عبارت کے مفہوم میں اختلاف ہو) میں ایسا نقطہ نظر اختیار کر لیا جو باقی تمام مسالک کے متفقہ نقطہ نظر سے ہٹ کر تھا۔ اس کے نتیجے میں انہیں سب کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے امت کے اجماع یعنی اتفاق رائے کی مخالفت کی ہے۔
ان ماورائے مسلک علماء کہ کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجماع کو وہ بھی حجت مانتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن مسائل میں اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے ، وہ درست نہیں ہے۔ اجماع یا توعہد صحابہ کے اولین دور میں ممکن تھا جب دین کے سبھی عالم صحابہ مدینہ منورہ میں اکٹھے تھے یا پھر موجودہ دور میں ممکن ہے کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجادات نے دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے علماء کے تبادلہ خیال کو ممکن بنا دیا ہے۔ درمیان کے ادوار میں علماء پوری دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئے تھے، اس وجہ سے پوری امت کا کسی مسئلے پر اجماع ناممکن تھا۔ اس دور میں کسی خاص علاقے کے مسلمانوں کا اجماع تو عملًا ممکن تھا مگر پوری امت کا اجماع ممکن نہ تھا۔
ماورائے مسلک علماء کے نزدیک کسی اجتہادی مسئلہ میں ایسا نقطہ نظر اختیار کرنا جو اس سے پہلے کسی عالم کی رائے نہ ہو، کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں ایسا معاملہ تھا کہ ان کے رائے بسا اوقات دوسرے صحابہ سے مختلف ہوا کرتی تھی مگر چونکہ وہ خود اپنے دلائل کی بنیاد پر مطمئن ہوتے تھے، اس وجہ سے اپنی رائے تبدیل نہ کیا کرتے تھے۔ ہاں اگر دوسرے عالم صحابی کے دلائل سے وہ قائل ہو جاتے تو اپنی رائے تبدیل کر دیا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رائے باقی صحابہ سے کئی معاملات میں مختلف تھی۔ اس طرح تابعین بھی صحابہ کرام کی آراء سے اختلاف رائے کر لیا کرتے تھے۔ ایسا کرنے کو کسی صحابی نے غلط نہیں کہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث ماڈیول CS07 میں "تقلید" کے باب کے تحت ملاحظہ فرمائے۔جو کہ اس سلسلہ کے بعد شروع کیا جائے گا.....
جماعت المسلمین:
جو حضرات جو کسی بھی مخصوص فرقے یا مسلک سے تعلق نہیں رکھتے یہ دعویٰ ہے ان کا، ان میں ایک گروہ "جماعت المسلمین" کا بھی ہے۔ یہ پاکستان کا ایک گروہ ہے جس کے بانی مسعود احمد صاحب تھے۔ انہوں نے پہلے سے موجود تمام فرقوں پر کڑی تنقید کی اور ان سے علیحدہ ہو کر ایک گروہ بنا کر اس کے امیر کی بیعت کی دعوت دی۔ نمازوں کے لیے انہوں نے سب فرقوں کی مساجد سے الگ مساجد تعمیر کیں اور سب سے علیحدہ ہو کر اپنے دینی تشخص "جماعت المسلمین" پر زور دیا۔
جماعت المسلمین کا توحید و شرک اور تقلید وغیرہ کے ضمن میں وہی موقف ہے جو عام سلفی حضرات کا ہے مگر وہ اس بات پر سختی سے اصرار کرتے ہیں کہ انسان کو کسی فرقے سے منسلک نہیں سمجھنا چاہیے اور صرف ایک امام کی اطاعت کرنی چاہیے۔
جماعت المسلمین میں اور عام ماورائے مسلک حضرات میں فرق یہ ہے کہ عام ماورائے مسلک حضرات سبھی مسالک کے لوگوں کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان سے شادی بیاہ کا تعلق بھی قائم کر لیتے ہیں مگر جماعت المسلمین کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ اپنے نقطہ نظر کے حق میں جماعت المسلمین کے احباب یہ احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا محمد بن المثنی: حدثنا الولید بن مسلم: حدثنا ابن جابر: حدثنی بسر بن عبید اللہ الحضرمی: انہ سمع ابا ادریس الخولانی: انہ سمع حذیفۃ بن الیمان یقول: کان الناس یسالون رسول اللہ ﷺ عن الخیر، وکنت اسالہ عن الشر، مخافۃ ان یدرکنی فقلت: یا رسول اللہ، انا کنا فی جاھلیۃ و شر، فجاء نا اللہ بھذا الخیر فھل بعد ھذا الخیر من شر؟ قال: تعم قلت: وھل بعد ذلک الشر من خیر؟ قال: نعم وفیۃ دخن۔ قلت و ما دخنہ؟ قال: قوم یھدون بغیر ھدیی، تعرف منھم وتنکر۔ قلت فھل بعد ذلک الخیر من شر؟ قال: تعم دعاۃ علی ابواب جھنم، من اجابھم الیھا قذفوہ فیھا۔ قلت: یا رسول اللہ صفھم لنا، قال: ھم من جلد تنا، ویتکلمون بالسنتنا۔ قلت فما تامرنی ان ادرکنی ذلک؟ قال: تلزم جماعۃ المسلمین و امامھم۔ قلٹ فان لم یکن لھم جماعۃ ولا امام؟ قال: فاعرزل تلک الفرق کلھا، ولو ان تعض باصل شجرۃ، حتی بدرکلک الوت و انت علی ذلک۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے اس اندیشے کے باعث شر سے متعلق سوال کرتا تھا کہ کہیں یہ مجھ تک آن نہ پہنچے۔ میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ" ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ یہ خیر ہم تک لے آیا۔ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ فرمایا: جی ہاں۔ میں نے عرض کیا: کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں مگر اس میں کچھ دھواں سا ہو گا۔ عرض کیا: وہ دھوں کیا ہو گا؟ فرمایا: ایسی قوم جو میری ہدایت کی پیروی نہ کرے گی۔ ان میں سے بعض باتیں تو اچھی ہوں گی اور بعض بری ہوں گی۔
میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا؟ فرمایا: ہاں۔ بلانے والے جہنم کے دروازوں کی طرف جلائیں گے، جو ان کی پیروی کرے گا، وہ اسے اس میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی صفات ہمارے لیے بیان فرما دیجیے۔ فرمایا: وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں بات کریں گے۔ عرض کیا: تو اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو اس معاملے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہیے۔ میں نے عرض کیا: اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو تو پھر؟ فرمایا: ان سب فرقوں سے الگ ہو جائے، اگرچہ اس کے لیے آپ کو درخت کی جڑ چبانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت
میں فوت ہو جائیں۔ (بخاری کتاب الفتن حدیث 6673۔ مسلم کتاب الامارہ حدیث 1847)
اسی طرح متعد احادیث ہیں جن میں مسلمانوں کو جماعت اور امام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کی بنیاد پر جماعت المسلمین کے احباب کا موقف یہ ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان کی جماعت المسلمین میں شامل ہو کر ان کے امام کی اطاعت کرے۔
اس کے جواب میں عام مسلمان کہتے ہیں کہ ان احادیث سے واضح ہے کہ ان میں جماعت المسلمین سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی یعنی ان کی حکومت ہے۔ احادیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف گروہوں اور جماعتوں کی موجودگی میں صرف اور صرف حکومت کا ساتھ دینے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا تا کہ انارکی نہ پھیلے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جماعت المسلمین نامی کسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جائے اور اس کے امیر کی بیعت کر لی جائے۔ جو مسلمان کسی منظم حکومت کے تحت رہتے ہیں اور قانون کا احترام کرتے ہیں، وہ عین اس حدیث پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے نقطہ نظر کے حق میں عام مسلمان یہ احادیث پیش کرتے ہیں۔
حدثنا مسدد، عن عبد الوارث، عن الجعد، عن ابی رجاء عن ابن عباس عن النبی ﷺ قال: من کرہ من امیرہ شیا فلیصبر فانۃ من خرج من السلطان شبرا مات میتۃ جاھلیۃ
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو صبر کرے، کیونکہ جو شحص بھی حکومت سے بالشت بھر نکل گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (بخاری کتاب الفتین حدیث 6645 ، مسلم کتاب الامارہ)
حدثنا ابو النعمان: حدثنا حماد بن زید، عن الجعد ابی عثمان: حدثنیی ابو رجاء العطاردی قال: سمعت ابن عباسؓ عن النبی ﷺ قال: (من رای من امیرہ شیا یکرھہ فلیصبر علیہ فانہ من فارق الجماعۃ شبرا فمات، الا مات میتۃ جاھلیۃ)۔
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو صبر کرے، کیونکہ جو شخص بھی جماعت سے بالشت بھر نکل گیا، وہ جاہلیت کی موت مر۔ (بخاری کتاب الفتن حدیث 6646۔ مسلم کتاب الامرہ)
عام مسلمانوں کے برعکس جماعت المسلمین کے احباب ان احادیث میں جماعت سے مراد اپنی جماعت المسلمین اور اس کے امیر سے مراد سے اپنی جماعت کا میر لیتے ہیں-
عام مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکومت کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے اگرچہ حکمران میں کچھ ناپسندیدہ باتیں موجود ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر حکومت کی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کر دی جائے تو معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے، اس سے جرائم پیشہ گرہ منظم ہوتے ہیں اور پورا معاشرہ تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں کی برائیوں کا اثر پھر بھی محدود رہتا ہے مگر اطاعت سے نکلنے کیا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر ہر شخص ڈاکہ زنی، ریپ اور قتل کا شکار ہونے لگتا ہے اور کسی کی جان، مال، اور عزت محفوظ نہیں رہتی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان احادیث میں جماعت المسلمین سے مراد تمام مسلمانوں کی جماعت اور ان کی حکومت ہے، کوئی مخصوص گروپ یا تنظیم یہاں زیر بحث نہیں ہے۔
اگر اس سے مراد کوئی مخصوص تنظیم لی جائے اور اس کے امیر کی اطاعت کا عزم کیا جائے تو پھر ریاست کے اندر ریاست وجود میں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص اپنی تنظیم بنا کر دوسروں کو اپنی اطاعت کی دعوت دے اور اس کے لیے انہی احادیث کو پیش کرے، تو پھر یہی کام دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تنظیموں اور جماعتوں کی کثرت ہوتی ہے اور وہ سب ایک دوسرے پر تنقید کر کے انہیں اطاعت امیر کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دیتے ہیں۔ پھر ان میں لڑائیاں بڑھتی ہیں اور فرقہ واریت وجود میں آتی ہے۔ ان تفصیلات کے دلیل کے طور پر وہ پاکستان کے معاشرے کو پیش کرتے ہیں جو تادم تحریر اسی کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے۔
عام ماورائے مسلک حضرات کا کہنا یہ ہے کہ حکومت سے ہٹ کر کوئی بھی جماعت بنانے اور اس کے امیر کی اطاعت کی دعوت دینے کے نتیجے میں فرقہ واریت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ ایک نیا فرقہ وجود میں آ جاتا ہے۔ جیسے جماعت المسلمین کی دعوت کے نتیجے میں ایک الگ گروہ بنا، جس نے اپنی مساجد الگ کر لیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ جہاں پہلے مثلا پانچ فرقے موجود تھے، ان میں ایک چھٹے فرقے کا اضافہ ہو گیا۔
جاری ہے......
whatsapp:0096176390670
whatsapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr
www.mubashirnazir.org
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
----------------------------
Pages
Wednesday, 25 May 2016
مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط43
خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ
خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...
-
تزکیہ نفس کیا ہے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#109 (مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلا...
-
پچاس خامیاں جو آپ کو خوبیاں لگتی ہیں (انتخاب:عمران شہزاد تارڑ) کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟؟؟ * آپ زندگی میں اس سے بہتر مقام پر ہو سکتے ت...
-
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 93) لاہور میں بی بی پاک دامن کا مزار اور خرافات : جیسا کہ گزشتہ اقساط میں گزر چکا ہے ہے اسی ...