Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 155

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 155)
ہندومذھب میں عبادت اور ریاضت کے طریقے​:
ہندو مذھب کی تعلیمات کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے ہندو سادهو جنگلوں اور غاروں میں رہتے اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے- گرمی ، سردی، بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس عمل سمجھتے جہاں یہ اپنے آپ کو دیوانہ وار تکلیفیں پہنچا کر انگاروں پر لوٹ کر، گرم سورج میں ننگے بدن بیٹھ کر، کانٹوں کے بستر پر لیٹ کر، درخت کی شاخوں پر گھنٹوں لٹک کر اور اپنے ہاتھوں کو بے حرکت بناکر، یا سر سے اونچا لے جاکر اتنے طویل عرصے تک رکھتے تاکہ وہ بے حس ہوجائيں اور سوکھ کر کانٹا بن جائيں- ان جسمانی آزار کی ریاضتوں کے ساتھ ہندومت میں دماغی اور روحانی مشقتوں کو بھی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا چنانچہ ہندو تنہا شہر سے باہر غور وفکر میں مصروف رہتے اور ان میں سے بہت سے جھونپڑیوں میں اپنے گرو کی رہنمائی میں گروپ بنا کر بھی رہتے- ان میں سے کچھ گروپ بھیک پر گزارہ کرتے ہوئے سیاحت کرتے ان میں سے کچھ مادر زاد ننگے رہتے اور کچھ لنگوٹی باندھ لیتے- بھارت کے طول و عرض میں اس قسم کے چٹادھاری یا ننگ دھڑنگ اور خاکستر میلے اب بهی لگتے ہیں- سادھوؤں کی ایک بڑی تعداد جنگلوں، دریاؤں اور پہاڑوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے، اور عام ہندو معاشرے میں ان کی پوجا تک کی جاتی ہے-(مقدمہ ارتھ شاستر:99)روحانی قوت اور ضبط نفس کے حصول کی خاطر ریاضت کا اہم طریقہ "يوگا" ایجاد کیا گیا جس پر ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کے پیروکار بھی عمل کرتے ہیں اس طریقہ ریاضت میں یوگی اتنی دیر تک سانس روک لیتے ہیں کہ موت کا شبہ ہونے لگتا ہے دل کی حرکت کا اس پر اثر نہیں ہوتا- سردی گرمی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی يوگی طویل ترین فاقے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں- ارتھ شاستر کے نامہ نگارکا اس طرز ریاضت پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں مغربی علم الاجسام کے ماہرین کے لیے تو حیران کن ہوسکتی ہے لیکن مسلمان صوفیاء کے لیے چنداں حیران کن نہیں، کیونکہ اس قسم طریقے اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلوں میں فنا فی اللہ یا فنا فی الشیخ یا ذکر قلب میں بهی پائے جاتے ہیں-​( مقدمہ ارتھ شاستر:129)
يوگا عبادت کا ایک بھیانک نظاوہ سادھوؤں اور يوگیوں کا دہکتے ہوئے شعلہ نشاں انگاروں پر ننگے قدم چلنا اور بغیر جلے سالم نکل آنا، تیز دھار نوکیلے خنجر سے ایک گال سے دوسرے گال تک اور ناک کے دونوں حصوں تک اور دونوں ہونٹوں کے آرپار خنجر اتار دینا اور اس طرح گنهٹوں کھڑے رہنا' تازہ کانٹوں اور نوکیلے کیلوں کے بستر پر لٹکے رہنا یا رات دن دونوں پیروں یا ایک پیر کے سہارے کھڑے رہنا یا ایک ٹانگ اور ایک ہاتھ کو اس طویل عرصہ تک بے مصروف بنادیا کہ وہ سوکھ جائے یا مسلسل الٹے لٹکے رہنا، ساری عمر ہر موسم اور بارش میں برہنہ (ننگا)رہنا، تمام عمر سنیاسی یعنی کنوارا رہنا یا اپنے تمام اہل خانہ سے الگ ہوکر بلند پہاڑوں کے غاروں میں گیان کرنا وغیرہ بھی يوگا عبادت کے مختلف طریقے ہیں- اسے ہندو يوگی ہندو دھرم یا دیدانت یعنی تصوف کے مظاہر قرار دیتے ہیں-​(مقدمہ ارتوشاستر:130)​ہندو مت اور بدھ مت میں جنتر منتر اور جادو کے ذریعے عبادت کا طریقہ بھی رائج ہے، عبادت کا یہ طریقہ اختیار کرنے والوں کو " تانترک" فرقہ کہتے ہیں یہ لوگ جادوئی منتر جیے آدم منی :پدمنی او: يوگا کے انداز میں گیان دھیان کو نجات کا ذریعہ سمجتھے ہیں قدیم ویدھ لٹریچر بتاتا ہے کہ سادھو اور ان کے بعض طبقات جادو اور سفلی عملیات پر مہارت حاصل کرنے کے عمل دھرایا کرتے تھے اس فرقہ میں تیز بے ہوش کرنے والی شرابوں کا پینا، گوشت اور مچھلی کھانا، جنسی افعال کا بڑھ چڑھ کر کرنا، غلاظتوں کو غذا بنانا مذھبی رسموں کے نام پر قتل کرنا جیسی قبیح اور مکروہ حرکات بھی عبادت سمجھی جاتی ہیں(مقدمہ ارتھ شاستر:117)ہندو بزرگوں کے مافوق الفطرت اختیارات ​جس طرح مسلمانوں کے غوث، قطب، نجیب، ابدال، ولی۔ فقیر اور درویش وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں، جنہیں مافوق الفطر قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں میں رشی، منی، مہاتما، اوتار، سادھو، سنیاسی، یو‏ی، گیانی، شاستری اور چتھرویدی وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں جنہیں مافوق الفطرت قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں- ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے مطابق یہ بزرگ ماضی، حال اور مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں، دیوتاؤں کے دربار میں ان کا بڑے اعزاز سے استقبال کیا جاتا ہے۔ یہ اتنی زبردست جادوئی طاقت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر چاہیں تو پہاڑوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں، یہ ایک نگاہ سے دشمنوں کو جلا کر خاکستر کر سکتے ہیں، تمام فصلوں کو برباد کرسکتے ہیں، اگر خوش ہوجائيں تو تو پورے شہر کو تباہی سے بچالیتے ہیں، دولت میں زبردست اظافہ کرسکتے ہیں، قحط سالی سے بچاسکتے ہیں، دشمنوں کے حملے روک سکتے ہیں- ​(مقدمہ ارتھ شاستر:99-100)-منی وہ مقدس انسان ہیں جو کوئی کپڑا نہیں پہنتے، ہوا کو بطور لباس استعمال کرتے ہیں، جن کی غذا ان کی خاموشی ہے، وہ ہوا میں اڑ سکتے ہیں اور پرندوں سے اوپر جاسکتے ہیں، یہ منی تمام انسانوں کے اندر پوشیدہ خیالوں کو جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے وہ شراب پی ہوئی ہے جو عام انسانوں کے لیے زہر ہے- (بحوالہ سابق)
شیو جی کے بیٹے لارڈ گنیش کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ ہےکہ وہ کسی بھی مشکل کو آسان کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو کسی کے لیے بھی مشکل پیدا کرسکتے ہیں اس لیے بچہ جب پڑھنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو سب سے پہلے اسے گنیش کی پوجا کرنا ہی سکھایا جاتا ہے-​(بحوالہ سابق: 98)
ہندو بزرگوں کی بعض کرامات ​ہندوؤں کی مقدس کتب میں اپنے بزرگوں سے منسوب بہت سی کرامات کا تذکرہ ملتا ہے ہم یہاں چند مثالوں پر ہی اکتفا کریں گے- 
1/ ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن میں رام اور راون کا طویل قصہ دیا گیا ہے کہ رام اپنی بیوی سیتا کے ساتھ جنگلات میں زندگی بسر کررہا تھا کہ لنکا کا راجہ راون اس کی بیوی اغوا کرکے لے گیا راو نے ہنو مان (بندروں کے شہنشاہ) کی مدد سے خونی جنگ کے بعد اپنی بیوی واپس حاصل کرلی لیکن مقدس قوانین کے تحت اسے بعد میں الگ کردیا گیا- سیتا یہ غم برداشت نہ کرسکی اور اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے لیے آگ میں کود گئی، اگنی دیوتا جو مقدس آگ کے مالک ہیں انہوں نے آگ کو حکم دیا کہ بجھ جا اور سیتا کو نہ جلا اس طرح سیتا دہکتی آگ سے سالم نکل آئی اور اپنے بے داغ کردار کا ثبوت فراہم کردیا- (مقدمہ ارتھ شاستر: 101-102)
2/ ایک بار بدھ مت کے درویش (بھکشو) نے یہ معجزہ دکھایا کہ ایک پتھر سے ایک ہی رات میں اس نے ھزاروں شاخوں والا آم کا درخت پیدا کردیا- 
3/ محبت کے دیوتا (کاما) اور اس کی دیوی (رتی) اور ان دونوں دیوی دیوتاؤں کے دوست خاص طور سے موسم بہار کے خدا جب باہم کھیلتے تو "کاما دیوتا" اپنے پھولوں کے تیروں سے "شیو دیوتا" پر بارش کرتے اور شیو دیوتا اپنی تیسری آنکھ سے ان تیروں پر نگاھ ڈالتے تو تو یہ تیر بهجی ہوئی خاک کی شکل میں تباہ ہوجاتے اور وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتا کیونکہ وہ جسمانی شکل سے آزاد تھا-(مقدمہ ارتھ شاستر:90)
 ہندو مت کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ایک بڑے فرقے 'اہل تصوف" کے عقائد اور تعلیمات ہندو مذھب سے کس قدر متاثر ہیں عقیدہ وحدۃ الوجود اور حلول یکساں- عبادت اور ریاضت کے طریقے یکساں- بزرگوں کے مافق الفطرت اختیارات یکساں اور بزرگوں کی کرامات کا سلسلہ بھی یکساں- اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے صرف ناموں کا- تمام معاملات میں ہم آہنگی اور یکسانیت پالینے کے بعد ہمارے لیے ہندوستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں باعث تعجب نہیں رہتیں کہ ہندو لوگ، مسلمانوں پیروں فقیروں کے مرید کیوں بن گئے اور مسلمان ہندو سادھوں اورجوگیوں کے گیان دھیان میں کیوں حصہ لینے لگے- اس اختلاط کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جس اسلام پر آج عمل پیرا ہے اس پر کتاب و سنت کی بحائے ہندو مذھب کے نقوش کہیں زیادہ گہرے اور نمايا ہے۔
اس سلسلہ میں چند صوفیوں کی مثالیں ملاحظہ کیجیے:
1/ ذھدۃ العارفین قدوۃ السالکین حافظ غلام قادر اپنے زمانے کے قطب الاقطاب اور غوث الاغواث اور محبوب خدا تھے جن کا فیض روحانی ہر عام و خاص کے لیے اب تک جاری ہے یہی وجہ تھی کہ ہندو، سکھ، عیسائی، ہر قوم اور فرقہ کے لوگ آپ سے فیض روحانی حاصل کرتے تھے، آپ کے عرس میں تمام فرقوں کے لوگ حاضر ہوتے تھے آپ کے تمام مریدان با صفا فیض روحانی سے مالا مال اور پابند شرع شریف ہیں- (ریاض السالکین ص:272 بحوالہ شریعت و طریقت ص:477)
2/ اسماعیلیہ فرقہ کے پیر شمس الدین صاحب کشمیر تشریف لائے تو تقیہ کرکے اپنے آپ کو یہاں کے باشندوں کے رنگ میں رنگ لیا ایک دن ہندو سہرے کی خوشی میں گربا رقص کررہے تھے پیر صاحب بھی اس رقص میں شریک ہوگئے اور 28 گربا گیت تصنیف فرمائے-
 3/ پیر صدر الدین صاحب (اسماعیلی) نے ہندوستان میں آکر اپنا ہندووانہ نام "شاہ دیو" (بڑا درویش) رکھ لیا اور لوگوں کو بتایا کہ وہ وشنو کا دسواں اوتار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے، اس کے پیروکار صوفیوں کی زبان میں محمد اور علی کی تعریف کے بھجن گیا کرتے تھے- (اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش، ص:32- 33)
جاری ہے........

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...