Friday 13 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام.147

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 147)
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے عقیدہ‌ شرک کی مثال ایک ایسے خبیث‌ درخت کے ساتھ دی ہے جس کی جڑ میں استحکا‌م نہیں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ  ِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَـهَا مِنْ قَرَارٍ
ترجمہ: کلمہ خبیثہ (شرک‌) کی مثال ایک ایسے بدذات درخت کی سی ہے جو زمین کی بالائی سطح سے ہی اکھاڑ پھینکا جاتا ہے اور اس کے لئےکوئی‌استحکا‌م نہیں ہے۔ (سورہ‌ابراہیم‌آیت 26)‌
مذکورہ آیت کریمہ سے درج ذیل تین باتیں واضح ہوتی ہیں
الف) چونکہ کائنات کی کوئی چیز عقیدہ شرک کی تائید نہیں کرتی اس لئے اس شجر خبیثہ ‌کی کہیں بھی جڑ نہیں بننے پاتیں اور نہ اسے کہیں نشو و نما کے لئے ساز گار ماحول میسر آتا ہے۔
ب‌) اگر کبھی طاغوتی قوتوں کی سر پرستی میں یہ درخت ‌اگ بھی آئے تو اس کی جڑیں زمین کی صرف بالائی سطح تک رہتی ہیں جسے شجرہ طیبہ کا معمولی سا جھونکا بھی آسانی کے ساتھ بیخ ‌وبن سے اکھاڑ پھینکتا ہے اس لئے اسے کہیں قرار اور استحکا‌م نصیب نہیں ہو پاتا۔
ج‌) شرک چونکہ خود ایک خبیث اور بد ذات درخت کی مانند ہے لہذا اس کے برگ و بار اور پھل پھول بھی اسی طرح خبیث اور بدذات ہیں جو ہر آن معاشرے میں اپنا زہر اوربدبو پھیلاتے رہتے ہیں‌۔
مذکورہ بالا نکارت کے پیش نظر یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ دنیا میں شر اور فساد فی الارض کی تمام مختلف صورتیں مثلاً قتل و غارت گری' دہشت‌گردی' نسل‌کشی' قفا حز' لوٹ‌کھسوٹ' حق تلفی' دھوکہ ‌دہی' ظلم و ستم  معاشی استحصال' وغیرہ سب کا بنیادی سبب یہی شجرہ خبیثہ ‌یعنی عقیدہ شرک ہے۔
اگر ایک نظر وطن عزیز پر ڈالی جائے تو ہیمیں ‌یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہمارے سیاسی مذہبی' اخلاقی معاشرتی' سرکاری اور غیر سرکاری تمام معاملات میں بگاڑ کی اصل وجہ یہی شجرہ خبیثہ عقیدہ شرک ہے اس لئے ہمارے نزدیک ملک کے اندر اس وقت تک کوئی بھی اسلامی یا انقلابی جدوجہد بار آور نہیں ہو سکتی جب تک عوام الناس کی اکثریت  اپنے عقائد کی اصلاح نہ کر لے۔
کسی مرض کا علاج کرنے کے قبل چونکہ اس کے اسباب و علل کا کھوج لگانا بہت ضروری ہے تا کہ اصلاح احوال کے لئے صحیح سمت کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جا سکے' لہذا ہم نے آئندہ صفحات میں اپنی ناقص رائے کے مطابق ان اہم اسباب وعوامل کا تذکرہ بھی کر دیا ہے جو ہمارے معاشرے میں عقیدہ شرک کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں -اور ساتھ ساتھ شرک و بدعت کے قائم مراکز کے احوال بهی قلم بند کر دیئے ہیں-تا کہ اصل حقائق کو سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو-
ایک موقع پر قریش مکہ نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ افہام و تفہیم کی غرض سے یہ پیش کش کی کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی پوجا کر لیا کریں ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی پوجا کر لیا کریں اس پیش کش کے جواب میں اللہ تعالیٰ ‌نے پوری سورہ کافر ون نازل فرمائی‌۔
قُلْ يَآ اَيُّـهَا الْكَافِرُوْنَ(1) لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ (2) وَلَآ اَنْتُـمْ عَابِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ (3) وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّـمْ (4) وَلَآ اَنْـتُـمْ عَابِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ (5) لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِىَ دِيْنِ (6)
‌ترجمہ" اے نبی ﷺ کہو' اے کافرو' میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے' اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں‌۔ تمہارے لئےتمہارا دین اور میرے لئے میرا دین‌۔'' (سورۃ‌کافزون آیت1 تا 6)
کفار مکہ کی پیش کش اور اس کا جواب دونوں اس بات سی کھلی دلیل ہیں کہ فریقین میں نکتہ‌اختلا‌ف صرف عقیدہ‌ توحید تھا جس پر افہام تفہیم سے دو ٹوک انکار کر دیا گیا۔ ایک دوسرے موقع پر قریش مکہ کا ایک وفد جناب ابو طالب کے پاس آیا اور کہا کہ آپ اپنے بھتیجے یعنی حضرت محمد ﷺ  سے کہیں کہ وہ ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے ہم اس کو اس کے دین پر چھوڑ دیتے ہیں رسول اکرم ﷺ ‌نے یہ بات سن کر ارشاد فرمایا'' اگر میں تمہارے سامنے ایک ایسی بات پیش کروں جس کے آپ لوگ قائل ہو جائیں تو عرب کے بادشاہ بن جاؤ اور عجم تمہارے زیرنگیں آ جائے تو پھر آپ حضرات کی کیا رائے ہو گی ؟'' ابو جہل نے کہا'' اچھا' بتاؤ کیا بات ہےؐ تمہارے باپ کی قسم ایسی ایک بات تو کیا دس باتیں بھی کہو تو ہم ماننے کے لئے تیار ہیں‌۔'' آپ نے فرمایا'' آپ لوگ "لا الہ الا اللہ " کہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں'' اس پر مشرکین نے کہا'' اے محمد (ﷺ) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا ڈالیں واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے'' ۔
غور فرمایئے رسول اکرم ﷺ کی سرداران قریش سے گفتگو میں جو بات باعث نزاع تھی وہ صرف ایک معبود کا اقرار اور باقی تمام معبودوں کا انکار۔ اس کے لئے سرداران قریش تیار نہ ہوئے اور باہمی مخاصمت اور تصادم کا سلسلہ بدستور جاری رہا-
اور یہی حال سر زمین پاکستان کا ہے جہاں پر ایک اللہ تبارک وتعالی جو معبود برحق ہے کو چھوڑ کر ان گنت مزاروں آستانوں کی شکل میں معبود بنا لئے گئے ہیں-
مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان دوسرے بڑے مسلح تصادم' غزوہ احد' کے اختتام پر ابو سفیان جبل احد پر نمودار ہوا اور بلند آواز سے کہا'' کیا تم میں محمد(ﷺ‌) ہیں؟ مسلمانوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو پھر پوچھا'' کیا تمہارے درمیان ابو قحافہ ‌کے بیٹے( حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ ‌) ہیں‌؟ پھر خاموشی رہی تو کہنے لگا'' کیا تم میں عمر رضی اللہ عنہ ہیں‌؟رسول اکرم ﷺ نے مصلحتا صحابہ‌کرام رضوان ‌علیہم اجمین کو جواب سے منع فرما دیا تھا چنانچہ ابو سفیان نے کہا'' چلو ان تینوں سے نجات ملی'' اور نعرہ لگایا اعلی ھبل ‌(ہمارے معبود) ہبل کا نام بلند ہو' نبی اکرم ﷺ کے حکم پر صحابہ کرام ‌نے جواب دیا اللہ اعلی و اجل ‌( یعنی اللہ تعالیٰ ہی بلند اور بزرگ ہے ) ابو سفیان نے پھر کہا لنا عزی ولا عزی لکم ‌( یعنی ہمارے پاس عزی بت کا
نام‌) ہے اور تمہارے پاس عزی نہیں‌۔ نبی ﷺ کے حکم پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین نے پھر جواب دیا اللہ مولانا و لا مولی لکم ( یعنی اللہ تعالیٰ ہمارا سر پرست ہے اور تمہارا کوئی سر پرست نہیں معرکہ احد کے اختتام پر فریقین کے درمیان یہ کار اس بات کی واضح شہادت ہے کہ دعوت اسلامی کے آغاز میں تمسخر اور تکذ‌یب کے ذریعہ مخالفت کا اصل سبب بھی عقیدہ توحید تھا اس مخالفت نے آگے چل کر ظلم و ستم کے ہمہ گیر طوفان کی شکل اختیار کی تب بھی اس کا سبب عقیدہ ‌توحید تھا اور اگر فریقین کے درمیان خونی ‌معرکوں کا میدان گرم ہوا تو اس کا اصل سبب بھی عقیدہ توحید ہی تھا۔
مخالفت' محاذآرائی اور خونی مرکوں کا طویل سفر طے کرنے کے بعد تاریخ نے ایک نیا موڑ مڑا رمضان سنہ‌۸ھ میں رسول اکرم ﷺ فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ ‌میں داخل ہوئے  گویا اکیس سال کی مسلسل جد و جہد کے بعد آپ ﷺ کو اس انقلاب کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع میسر آ گیا جس کے لئے آپ ﷺ مبعوث کئے گئے تھے غور طلب بات یہ ہے کہ حکومت اور قتدار ملنے کے بعد وہ کون سے اقدام تھے جن پر
آپ ﷺ نے کسی بھی مصلحت اور حکمت کی پرواہ کئے بغیر بلا تاخیر عمل فرمایا وہ اقدامات درج ذیل تھے۔جاری ہے......
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...