Tuesday 24 April 2018

وقت سے پہلے سنِ بلوغت اسباب اور احتیاط


وقت سے پہلے سنِ بلوغت اسباب اور احتیاط

(سائرہ شاہد)

ویسے تو یہ ایک قدرتی عمل ہے لیکن گزشتہ چند عشروں کے  مقابلے میں اب بچے وقت سے پہلے سنِ بلوغت کو پہنچ رہے ہیں۔پہلے گیارہ سے بارہ سال کی عمر لڑکے اور لڑکیوں کی اوسط سنِ بلوغت شمار ہوتی تھی۔لیکن اب یہ رفتارِ بلوغت تیز ہوکر نو اور دس سال تک آپہنچی ہے۔کم عمری میں بلوغت کی تبدیلیاں اکثر بچوں اور بچیوں کے لئے پیچیدہ اور جذباتی الجھن کاسبب بنتی ہے۔بظاہر یہ ایک سے دو سال کافرق اتنا اہم نہیں لگتا لیکن صحت کے اعتبار سے یہ تبدیلی بچوں پر دوررس اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

اسباب

ماہرین کے مطابق اسکا سبب افزائشی ہارمون ہیں۔ جوزیادہ انڈے،گوشت اوردودھ حاصل کرنے کے لئے مرغیوں اور گائے ،بھینسوں کے جسم میں پہنچائے جاتے ہیں۔انھیں کھانے سے کم عمر بچوں اور بچیوں کے غدودی نظام وقت سے پہلے سرگرم ہوکر انھیں بلوغت کے دور میں جلدی داخل کردیتے ہیں۔
 جانوروں کے ساتھ ساتھ یہی حالات کچھ پھلوں اور سبزیوں کے بھی دکھائی دیتے ہیں۔زیادہ پیداوار کی حوص میں ان میں بھی ایسے ہارمون داخل کئے جارہے ہیں جنکے مضر اثرات بڑھتے بچوں کو بھگتنے پڑرہے ہیں۔
 دیگر اہم وجوہات میں موٹاپا اور جسم میں واقع ہارمونز کی تیاری کی تعداد وتوازن کافرق نمایاں ہے۔ ساتھ ساتھ ماحول میں شامل کئی کیمیائی اجزاء بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ وہ کیمیائی اجزاء ہیں جوخصوصاً لڑکوں کے ہارمونی غدود پر قبل از وقت اثر انداز ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ غذائی، جینیاتی،نسلی،سماجی ومعاشی اسباب بھی وقت سے پہلے سنِ بلوغت کاسبب بن سکتے ہیں۔

احتیاط

اس ساری صورتحال میں بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی متفکراور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔تبدیلی کے اس عمل پر وہ اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔بچوں کو ذہنی الجھن سے دور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچے کو اعتماد میں لیتے ہوئے انکے جسم میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں پہلے سے مختصراضرور بتادیں۔اگر بچوں کو معلومات رہیں گی تو سنِ بلوغ کے تقاضوں اور مسائل کاسامناوہ بہتر طریقے سے کرسکیں گے۔
 اپنے بچوں کو نفسیاتی اعتبار سے اس قابل بنائیں کہ وہ اس ساری صورتحال سے ہمت اورسمجھداری سے نمٹ سکیں۔ مشاہدے کے مطابق بلوغت کے مرحلے میں عموماً بچے تشدد پسند ہوجاتے ہیں۔ایسی صورت میں والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی بچوں کو آنے والی تبدیلیوں کامقابلہ کرنے کیلئے تیار کرناچاہئے۔
 بچوں میں ان تبدیلیوں کے ابتدائی مراحل کوسمجھنے کاشعورنہیں ہوتا۔والدین کو چاہئے کہ انکی صحیح رہنمائی کریں۔اگر آپ اپنے بچے کو اعتماد نہیں دیں گے توانکی کارکردگی پر برااثر پڑسکتاہے۔
 اگر آپ اپنے بچوں کو کم عمر سمجھتے ہوئے ان سے اس بارے میں بات نہیں کریں گے تو ممکن ہے کہ وہ آپ کے بجائے کسی اور کا سہارا لیں جو شاید انکی بہتر گائیڈ لائن کے لئے مناسب نہ ہو ۔
 بچوں کی غذاکاخاص خیال رکھیں۔بچے بھی فصل کی طرح ہیں۔اگر ٹھیک طرح سے آبیاری کی جائے گی تو بے شک فصل اچھی رہے گی۔
www.dawatetohid.blogspot.com

Thursday 19 April 2018

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا اور آپ کے سامنے شکایات پیش کرنا کیسا ہے؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا اور آپ کے سامنے شکایات پیش کرنا کیسا ہے؟

(نگران اعلی: الشیخ محمد صالح المنجد)

سوال: میرا تعلق کیرلا سے ہے اور "مولد المنقوص" نامی کتاب ہمارے ہاں بہت مشہور ہے، ہر شخص اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے اس کتاب کو اپنے گھر میں پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے، لیکن کیرلا ہی میں کچھ لوگ ہیں جنہیں "سلفی" کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں بہت سی شرکیہ باتیں ہیں۔ 
مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ: " ارتكبت الخطايا ، لك أشكو يا سيدي يا خير النبيين"[میں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، یا سیدی! اے سب نبیوں سے بہتر نبی! میں آپ سے اس کا شکوہ کرتا ہوں] کیا ایسا کہنے میں شرک ہے؟ اور کیا ایسا کہنا حرام ہے؟

الحمد للہ:
سوال میں جس کتاب کی جانب اشارہ ہے  یہ کتاب خرافات، قصے کہانیوں، شرکیہ اور بدعتی امور پر مشتمل ہے، اس کتاب کے مصنف نے اس میں  جشن عید میلاد النبی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں غلو اور آپ سے حاجت روائی ، اور مانگنے اور اسی طرح دیگر انبیائے کرام سمیت نیک لوگوں کو پکارنے وغیرہ جیسے اعمال کو شریعت کا لبادہ پہناتے ہوئے مدلل بنانے کوشش کی ہے،موصوف نے   اس مقصد کیلیے بہت سی جھوٹی، من گھڑت احادیث اور عجیب و غریب عبارتوں کی بھر مار کر دی ہے، اور اگر ہم ان میں سے ایک ایک کا رد کرنے لگیں تو اس کیلیے بہت سا وقت درکار ہو گا، بلکہ مؤلف کی لکھی ہوئی ہر ایک سطر کا تعاقب اور رد لکھنا پڑے گا۔

مؤلف کے خود ساختہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس بات کی نسبت کرنا  ہے کہ آپ رحمہ اللہ ، پروردگار رب العالمین کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مانگتے تھے اور کہتے تھے:

يا سيد السادات جئتك قاصدا ،أرجو رضاك وأحتمي بحماكا،
اے سربراہوں کے سربراہ! میں تیری طرف آیا ہوں، میں تیری رضا چاہتا ہوں اور تیری پناہ میں آتا ہوں۔
والله يا خير الخلائق إن لي، قلبا مشــوقا لا يروم سواكا،
اے افضل المخلوقات! اللہ کی قسم میرا دل بہت ہی مشتاق ہے، اسے تیرے سوا کسی کی چاہت نہیں۔
وبحق جاهك إنني بك مغرم ، والله يعلم أنني أهــواكا
تیری جاہ کے حق کا واسطہ میں تیرا عاشق ہوں، اللہ جانتا ہے کہ میں تیرا ہی عاشق ہوں۔
يا أكرم الثقلين يا كنز الغنى، جد لي بجودك وارضني برضاكا،
اے جن و انس کی محترم ہستی! اے بے نیازی کے سرچشمے! اپنی سخاوت سے مجھے عطا کریں اور اپنی رضا  کے ساتھ مجھ سے راضی ہو جائیں۔
أنا طامع بالجود منك ولم يكن ، لأبي حنيفة في الأنام سواكا،
میں تو آپ ہی کی سخاوت کا منتظر ہوں، ابو حنیفہ کیلیے تیرے سوا کوئی نہیں ہے!

اسی طرح اس کتاب کے مؤلف نے امام شافعی رحمہ اللہ سے ذکر کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: 
" آل النبي ذريعتي ، وهمو إليه وسيلتي
نبی کے اہل بیت ہی میرا واسطہ ہیں وہی میرے لیے آپ تک وسیلہ ہیں۔
أرجو بهم أعطى غدا ، بيدي اليمين صحيفتي 
ان کے واسطے میں امید کرتا ہوں کہ کل مجھے میرے دائیں ہاتھ میں میرا نامہ اعمال دیا جائے گا۔

حالانکہ یہ ان دونوں جلیل القدر موحد ائمہ کرام کے بارے میں سفید جھوٹ ہے۔اگر یہ جھوٹ نہیں ہے تو پھر ان دونوں اماموں سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ یہ ثابت کر کے دکھا دے، یا کم از کم ضعیف سند سے ہی ثابت کر دے، کیا وہ ایسا کر سکے گا؟ کبھی بھی نہیں!!

اس کتاب میں آنے والے شرکیہ امور میں سے یہ بھی ہے کہ:

"یہ جان لو کہ  اللہ کے محبوب بندوں مثلاً: انبیائے کرام، اولیائے عظام اور نیک لوگوں سے حاجت روائی کا مطالبہ ان کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد ہر دو حالت میں جائز ہے۔۔۔"
پھر انہوں نے کہا کہ: 
"اس سے معلوم ہوا کہ : "یا رسول اللہ مدد "کہہ کر  حاجت روائی کا مطالبہ کرنا جائز ہے، اسی طرح  "یا غوث، یا محی الدین عبد القادر جیلانی" وغیرہ کہنا بھی درست ہے"

سائل کے سوال میں ذکر شدہ عبارت بھی اس کتاب میں مذکور شرکیہ امور میں سے ایک ہے:
" ارتكبت الخطايا ، لك أشكو يا سيدي يا خير النبيين"[میں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، یا سیدی! اے سب نبیوں  سے بہترین  نبی! میں آپ سے اس کا شکوہ کرتا ہوں]

یہ شرک اکبر ہے، کیونکہ گناہوں سے توبہ صرف اور صرف اللہ تعالی سے مانگی جاتی ہے، اسی طرح گناہوں کے اثرات اور وبال کی شکایت بھی اللہ تعالی سے کی جاتی ہے۔

پہلے سوال کی تفصیل اس لنک میں گزر چکی ہے(https://islamqa.info/ur/179363) کہ: ( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ...) یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، آپ کی وفات کے بعد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں امت کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ اگر وہ گناہ کر بیٹھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، یا اگر گناہ سے بھی بڑا پاپ مثلاً: شرک وغیرہ سر زد ہو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توبہ تائب ہو کر اور ندامت کے ساتھ آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلیے مغفرت طلب کریں، نیز یہاں پر آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی زندگی میں آنا مراد ہے؛ لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اس مقصد سے قبر مبارک پر آنا شرعی عمل نہیں ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعدصحابہ کرام نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا؛ حالانکہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، دینِ محمدی کے بارے میں سب سے زیادہ فقاہت بھی انہی کے پاس تھی؛اور  [صحابہ نے ایسا عمل اس لیے نہیں کیا ؛]کیونکہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلیے استغفار نہیں کر سکتے تھے" انتہی
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز (6/ 189-190)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ، اللہ کو چھوڑ کر آپ سے مانگنا، آپ کی وفات کے بعد آپ سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنا، شرک اکبر ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کا باعث ہے، تو کسی اور سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنے  کا کیا حکم ہو گا؟!

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:
" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ، آپ کو صدا لگانا ، آپ کی وفات کے بعد حاجت روائی یا مشکل کشائی کیلیے مدد کا مطالبہ کرنا، شرک اکبر ہے  جو کہ انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے علاوہ دیگر مخلوقات سے دعا مانگنا شرک اور گمراہی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی بھی دعا کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے انسان کو اس شرک سے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ کے سوا کسی سے بھی دعا  نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا ما شاء اللہ خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں تھے، اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ یہ بات اعلانیہ طور پر کہہ دیں، چنانچہ اللہ تعالی نے حکم دیا: 
(قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) 
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، ما سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت سے مفادات جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ایمان لانے والی قوم کو ڈرانے اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ [الأعراف:188]

ایک اور جگہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: 
( قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ ) 
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں  ۔[الأنعام:50]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے  اور اپنے لیے اللہ تعالی سے مغفرت اور رحمت مانگتے تھے، اسی طرح اپنے صحابہ کرام کیلیے بھی دعائیں کرتے تھے، اگر آپ کسی کی مغفرت کرنے یا رحم کرنے پر قادر ہوتے تو کبھی بھی اللہ تعالی سے دعا کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ، اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ساری مخلوقات اللہ تعالی کی محتاج ہیں، صرف اللہ تعالی ہی غنی اور تعریفوں کے لائق ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )
ترجمہ: اے ایمان والو! تم  سب اللہ تعالی کے محتاج ہو، اور اللہ تعالی ہی غنی اور تعریف کے لائق ہے۔[فاطر:15]

اگر شیطان ان لوگوں کی عقلوں اور نظریات سے کھلواڑ نہ کرتا تو انہیں یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی بھی کسی کیلیے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اور یہ کہ یہ تمام ہستیاں صرف ایک اللہ تعالی کو ہی پکارتی تھیں:
( أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ )
ترجمہ: بھلا کون  ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین میں جانشین  بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ [النمل:62]" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (21/ 218-219)

خلاصہ یہ ہے کہ:

کسی بھی بشر کے سامنےاپنی زبوں حالی، گناہوں کی شکایت ، گناہوں کا اقرار اور کوتاہیوں سے توبہ کرنا، اور اس طرح ان سے مدد و نصرت کا مطالبہ کرنا یہ سب کچھ اللہ عز وجل کے ساتھ شرک ہے؛ کیونکہ یہ امور خالص عبادات میں شامل ہیں، انہیں غیر اللہ کیلیے بجا لانا جائز نہیں ہے۔

صحیح مسلم : (2577) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب  بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں  ، اس لیے مجھ سے رزق مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔  میرے بندو!تم  سب کے سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں پہننے کیلیے دوں ، اس لیے مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، اور میں سب گناہ معاف کرتا ہوں، اس لیے مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"ایسا کوئی کام جو صرف اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے اس کا مطالبہ صرف اللہ تعالی سے ہی کرنا جائز ہے، ایسے امور کا مطالبہ  فرشتوں، نبیوں یا کسی اور سے کرنا جائز نہیں ہے، غیر اللہ کو یہ  نہیں کہا جا سکتا کہ: "مجھے معاف کر دے، ہمیں بارش عطا فرما، ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما، یا ہمارے دلوں کی رہنمائی فرما، یا اسی طرح کا کوئی اور جملہ " طبرانی نے اپنی کتاب معجم  میں روایت کی ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک منافق مومنوں کو تکلیف دیا کرتا تھا، تو صحابہ کرام نے کہا: کہ چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اس منافق کے مقابلے میں مدد مانگتے  ہیں، تو صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (مجھے غوث نہیں بنایا جا سکتا، غوث تو صرف اللہ ہے)" انتہی
"مجموع الفتاوى" (1/ 329)واللہ اعلم .
https://islamqa.info/ur/200862
by post:
www.dawatetohid.blogspot.com
www.bestfuturepk.blogspot.com
+923462115913

Sunday 15 April 2018

شاہ دولہ کے مزار پر انسانوں کی بھینٹ


شاہ دولہ کے مزار پر انسانوں کی بھینٹ

(استفادہ تحریر :سعادت حسن منٹو اور ترمیم عمران شہزاد تارڑ)

نوٹ:بطور نصیحت افسانوی انداز میں یہ کہانی پیش کی جا رہی ہے۔اس تحریر کے کردار اور نام فرضی ہیں اگر یہ کہانی کسی خاندان سے متابقت رکھتی ہے تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

سلیمہ کی جب شادی ہوئی تو وہ اکیس برس کی تھی۔ پانچ برس ہو گئے مگر اُسے اولاد نہ ہوئی۔ اُس کی ماں اور ساس کو بہت فکر تھی۔ ماں کو زیادہ تھی کہ کہیں اس کا نجیب دوسری شادی نہ کرلے۔ چنانچہ کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا مگر کوئی بات نہ بنی ۔ سلیمہ بہت متفکر تھی۔ شادی کے بعد بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اولاد کی خواہش مند نہ ہوں۔ اُس نے اپنی ماں سے کئی بار مشورہ کیا۔ ماں کی ہدایتوں پر بھی عمل کیا۔ مگر نتیجہ صفر تھا۔ ایک دن اُس کی ایک سہیلی جو بانجھ قرار دے دی گئی تھی۔ اس کے پاس آئی۔ سلیمہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اُس کی گود میں ایک پهول سا لڑکا تھا۔ سلیمہ نے اُس سے بڑے  حسرت انداز میں پوچھا’’فاطمہ تمہارے ہاں یہ لڑکا کیسے پیدا ہو گیا۔ ‘‘فاطمہ اُس سے پانچ سال بڑی تھی۔ اُس نے مسکرا کر کہا۔’’یہ شاہ دولے صاحب کی برکت ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے کہا کہ اگر تم اولاد چاہتی ہو تو گجرات جا کر شاہ دولے صاحب کے مزار پر منت مانو۔ کہو کہ حضور میرے ہاں جو پہلے بچہ ہو گا وہ آپ کی خانقاہ پر چڑھا دوں گی۔ اس نے یہ بھی سلیمہ کو بتایا کہ جب شاہ دولے صاحب کے مزار پر ایسی منت مانی جائے تو پہلا بچہ ایسا ہوتا ہے جس کا سر بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ فاطمہ کی یہ بات سلیمہ کو پسند نہ آئی اور جب اس نے مزید کہا کہ پہلا بچہ اس خانقاہ میں چھوڑ کر آنا پڑتا ہے تو اس کو اور بھی دُکھ  ہوا۔ اس نے سوچا کون ایسی ماں ہے جو اپنے بچے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے۔ اُس کا سر چھوٹا ہو۔ ناک چپٹی ہو۔ آنکھیں بھینگی ہوں۔اور لوگ اس کا مذاق اڑایئں ، لیکن ماں اُس کو کسی غیر کے حوالے نہیں کر سکتی جو اپنے لخت جگر کو بھینٹ چڑھائے وہ کوئی ڈائن ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن اُسے اولاد چاہیے تھی اس لیے وہ اپنی عمر سے زیادہ سہیلی کی بات مان گئی۔ وہ گجرات کی رہنے والی تو تھی ہی جہاں شاہ دولے کا مزار تھا۔ اُس نے اپنے خاوند سے کہا۔’’فاطمہ مجبور کر رہی ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اس لیے آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔ ‘‘اس کے خاوند کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس نے کہا۔’’جاؤ مگر جلدی لوٹ آنا۔ ‘‘وہ فاطمہ کے ساتھ گجرات چلی گئی۔ شاہ دولہ کا مزار جیسا کہ اُس نے سمجھا تھا کوئی عہد عتیق کی عمارت نہیں تھی۔ اچھی خاصی جگہ تھی۔اور لوگوں کا ہجوم تها جو اپنی منتوں کیلئے دور دراز سے آئے ہوئے تهے،سلیمہ ان عورتوں کو دیکھ کر کچھ مطمئن ہوئی۔سلیمہ نے ایک حجرے میں شاہ دولہ کی چوہیا کی عجیب و غریب حرکات کرتے دیکھا
جیسے کسی خاص غرض کے ماتحت اس کے حواس مختل کردیے گئے ہوں۔
اور ان کا دماغ بالکل ماؤف تھا'اور وہ اپنی بے بسی کی مثال آپ تهے'سلیمہ یہ منظر دیکھ کر گهبرا گئی۔ ایک جوان لڑکی پورے شباب پر مگر وہ ایسی حرکتیں کر رہی تھی کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آ سکتی تھی۔ سلیمہ اُس کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ہنسی مگر فوراً ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو بهر آئے۔ سوچنے لگی اس لڑکی کی اس حالت کے ذمہ دار کون ہیں یہ مجاور یا اس کے والدین...؟کتنے پتهر دل اور بے پرواہ ہیں وہ والدین جو  اپنی پهول سے پیاری لخت جگر اپنی عزت و آبرو ان مجاوروں اور سانڈوں کے حوالے کر کے ہمیشہ کے لئے بهول جاتے ہیں ۔ یہاں کے مجاور اس کے ساتھ کیا روا رکهتے ہوں گے یا بندر کی طرح اُسے شہر بہ شہر گھماتے ہوں گے۔سلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ اسی غرض کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احساسات کے باوجود اُس نے اپنی سہیلی فاطمہ کے کہنے پر شاہ دولا صاحب کے مزار پر منت مانی کہ اگر میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو وہ میں شاہ دولا  کی نذر کروں گی۔ ڈاکٹری علاج سلیمہ نے جاری رکھا۔ دو ماہ بعد بچے کی پیدائش کے آثار پیدا ہو گئے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ مقررہ وقت پر اُس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا،جو بڑا ہی خوبصورت اور تندرست تها۔ لیکن اس کے داہنے گال پر ایک چھوٹا سا دھبا(تل) تھا جو بُرا نہیں لگتا تھا۔ فاطمہ آئی تو اُس نے کہا کہ اس بچے کو فوراً شاہ دولے صاحب کے حوالے کر دینا چاہیے۔ سلیمہ خود یہی مان چکی تھی۔ کئی دنوں تک وہ ٹال مٹول کرتی رہی۔ اس کی ممتا نہیں مانتی تھی کہ وہ اپنا لختِ جگر وہاں کیسے پھینک آئے۔ سلیمہ  سے کہا گیا تھا کہ شاہ دولے سے جو اولاد مانگتا ہے اُس کے پہلے بچے کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن سلیمہ کے بچے کا سر بڑا اور عام لوگوں کی طرح تھا۔ اور فاطمہ نے اس سے کہا۔’’یہ کوئی ایسی بات نہیں جو تم بہانے کے طور پر اس بچے کو شاہ دولہ کے حوالے نہ کرو۔ تمہارا یہ بچہ شاہ دولے صاحب کی ملکیت ہے تمہارا اس پر کوئی حق نہیں۔ اگر تم اپنے وعدہ سے پھر گئ تو یاد رکھو تم پر ایسا عذاب نازل ہو گا کہ ساری عمر یاد رکھو گی۔ ‘‘ ضعیف الاعتقاد سلیمہ اپنی سہیلی کی باتیں سن کر ڈر گئی اور جگر کے ٹکڑے اور پهول سے زیادہ خوبصورت اپنی آنکھوں کی ٹهنڈک ہنستے کهیلتے اپنے بیٹے کو گجرات جا کر شاہ دولے کے مزار کے مجاوروں کے حوالے کرنا پڑا۔ بچے کی جدائی میں سلیمہ اس قدر روئی کہ اس کے آنسو خشک ہو گئے-اس کو اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار ہو گئی۔ ایک برس تک زندگی اور موت کے درمیان معلق رہی۔ اُس کو اپنا بچہ بھولتا ہی نہیں تھا۔ اس دوران میں اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بچے کو فراموش نہ کیا۔ عجیب عجیب خواب دیکھتی اور سوچتی کہ نہ جانے میرے لخت جگر کو کسی نے دودھ پلایا ہو گا کہ نہیں... یہاں پر میرے پاس الفاظ  نہیں کہ میں ایک ماں کا بیٹے کی جدائی کا دکھ بیان کروں ........۔ 
بہرحال! سلیمہ کی یہ حالت قابل رحم تھی۔ بخار ہلکا ہوا تو سلیمہ کی طبیعت کسی قدر سنبھل گئی اس کا خاوند نجیب بھی قدرے مطمئن ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی علالت کا باعث کیا ہے۔ لیکن وہ بهی ضعیف الاعتقاد یعنی توحید کی مٹهاس سے کوسوں دور تھا۔ اُس کو اپنی پہلی اولاد کو بھینٹ چڑھائے جانے کا کوئی احساس نہ تھا۔ جو کچھ کیا گیا تھا وہ اسے مناسب سمجھتا تھا۔ بلکہ وہ تو یہ سوچتا تھا کہ اس کے جو بیٹا ہوا تھا وہ اس کا نہیں شاہ دولے صاحب کا تھا۔ جب سلیمہ کی طبیعت کچھ سنبھلی اور اس کے دل و دماغ کا طوفان ٹھنڈا ہوا تو نجیب نے اُس سے کہا’’میری جان۔ اپنے بچے کو بھول جاؤ۔ وہ صدقے کا تھا۔ ‘‘سلیمہ نے بڑے زخم خوردہ لہجے میں کہا۔’’میں نہیں مانتی۔ ساری عمر اپنی ممتا پر لعنتیں بھیجتی رہوں گی کہ میں نے اتنا بڑا گناہ کیوں کیا کہ اپنا لختِ جگر شاہ دولہ کے مجاورں کے حوالے کر دیا۔ یہ مجاور ماں تو نہیں ہو سکتے۔ ‘سلیمہ اچانک ایک دن گهر سے غائب ہو گئی۔ سیدھی گجرات شاہ دولہ کے مزار پر پہنچی۔ سات آٹھ روز وہاں رہی۔ اپنے بچے کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر کوئی اتا پتہ نہ ملا مایوس ہو کر واپس آ گئی۔ اپنے خاوند سے کہا۔’’میں اب اسے یاد نہیں کروں گی۔ ‘‘یاد تو وہ کرتی رہی۔ لیکن دل ہی دل میں اس کے بچے کے داہنے گال کا دھبا اُس کے دل کا داغ بن کر رہ گیا تھا۔ ایک برس کے بعد اُس کے ہاں لڑکی ہوئی۔ اس کی شکل اُس بچے سے بہت ملتی جلتی تھی جسے وہ شاہ دولہ کے مزار پر چهوڑ کر آئی تهی۔البتہ اس کے داہنے گال پر داغ نہیں تھا اس کا نام اس نے مجیب رکھا کیونکہ اپنے بیٹے کا نام اُس نے مجیب سوچا تھا۔ جب وہ دو مہینے کی ہوئی تو اُس نے اس کو گود میں اٹھایا اور سرمہ دانی سے تھوڑا سا سرمہ نکال کر اس کے داہنے گال پر ایک بڑا سا تل بنا دیا اور مجیب کو یاد کر کے رونے لگی۔ اُس کے آنسو بچی کی گالوں پر گرے تو اُس نے اپنے دوپٹے سے پونچھے اور ہنسنے لگی۔ وہ کوشش کرنا چاہتی تھی کہ اپنا صدمہ بھول جائے۔ اس کے بعد سلیمہ کے ہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اُس کا خاوند اب بہت خوش تھا۔ ایک بار سلیمہ کو کسی سہیلی کی شادی کے موقع پر گجرات جانا پڑا تو اُس نے ایک بار پھر مجیب کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر اُسے ناکامی ہوئی۔ اس نے سوچا شاید مر گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے گهر آ کر جمعرات کو فاتحہ خوانی بڑے اہتمام سے کرائی۔ اڑوس پڑوس کی سب عورتیں حیران تھی کہ یہ کس کی مرگ کے سلسلے میں اتنا تکلف کیا گیا ہے۔ بعض نے سلیمہ سے پوچھا بھی، مگر اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ شام کو اس نے اپنی دس برس کی لڑکی مجیبہ کا ہاتھ پکڑا۔ اندر کمرے میں لے گئی۔ سرے سے اُس کے داہنے گال پر بڑا سا دھبا بنایا اور اُس کو دیر تک چومتی رہی۔ وہ مجیبہ ہی کو اپنا گم شدہ مجیب سمجھتی تھی۔ اب اُس کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا، اس لیے کہ اُس کی فاتحہ خوانی کرانے کے بعد
اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دے کر دل کا بوجھ ہلکا محسوس کرنے لگی۔ اس کے تین بچے اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کو ہر صبح سلیمہ تیار کرتی۔ ان کے لیے ناشتہ بناتی۔ جب وہ اسکول  چلے جاتے تو ایک لحظہ کے لیے اسے اپنے مجیب کا خیال آتا کہ وہ اس کی فاتحہ خوانی کرا چکی تھی۔ دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ پھر بھی اُس کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ مجیب کے داہنے گال کا سیاہ دھبا اُس کے دماغ میں موجود ہے۔ ایک دن اُس کے تینوں بچے بھاگے بھاگے آئے اور کہنے لگے’’امی ہم تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘اُس نے بڑی شفقت سے پوچھا۔’’کیسا تماشا؟‘‘اس لڑکی نے جو سب سے بڑی تھی کہا’’امی جان ایک آدمی ہے وہ تماشا دکھاتا ہے۔ ‘‘سلیمہ نے کہا۔’’جاؤ اُس کو بُلا لاؤ۔ مگر گھر کے اندر نہ آئے۔ باہر تماشا کرے۔ ‘‘بچے بھاگے ہوئے گئے اور اُس آدمی کو بُلا لائے اور تماشا دیکھنے لگے۔جب تماشا ختم ہوا تو مجیبہ اپنی ماں کے پاس گئی کہ امی پیسے دے دو۔ ماں نے اپنے پرس سے ایک روپیہ نکالا اور باہر برآمدے میں گئی۔ دروازے کے پاس پہنچی تو شاہ دولہ کا ایک چوہا کھڑا عجیب احمقانہ انداز میں اپنا سر ہلا رہا تھا سلیمہ کو ہنسی آ گئی۔ دس بارہ بچے اُس کے گرد جمع تھے جو بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ اتنا شور مچا تھا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ سلیمہ روپیہ ہاتھ میں لیے آگے بڑھی اور اُس نے شاہ دولے کے اُس چوہے کو دینا چاہا تو اُس کا ہاتھ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بجلی کا کرنٹ چھو گیا۔ اُس چوہے کے داہنے گال پر سیاہ داغ تھا۔ سلیمہ نے غور سے اُس کی طرف دیکھا۔ اس کی ناک بہہ رہی  تھی اور سر بهی اب چهوٹا تها۔ مجیبہ نے جو اُس کے پاس کھڑی تھی، اپنی ماں سے کہا۔’’یہ۔ یہ چوہا۔ امی جان اس کی شکل مجھ سے کیوں ملتی ہے۔ میں بھی کیا چوہیا ہوں۔ ‘‘سلیمہ نے اس شاہ دولے کے چوہے کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئی۔ دروازہ بند کر کے اُس کو چوما بھر پور پیار کیا۔ وہ اس کا مجیب تھا۔ لیکن وہ ایسی احمقانہ حرکتیں کرتا تھا کہ سلیمہ کے غم واندوہ میں ڈُوبے ہوئے دل میں بھی ہنسی کے آثار نمودار ہو جاتے۔ اُس نے مجیب سے کہا۔’’بیٹے میں تیری ماں ہوں۔ ‘‘شاہ دولے کا چوہا بڑے بے ہنگم طور پر ہنسا۔ اپنی بہتی ہوئی ناک کو  آستین سے پونچھ کر اُس نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ پھیلایا’’ایک روپیہ۔ ‘‘ماں نے اپنا پرس کھولا۔ اُس نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور باہر جا کر اُس آدمی کو دیا۔ جو اُس کو تماشا بنائے ہوئے تھا۔ اس نے انکار کر دیا کہ اتنی کم قیمت پر میں اپنی روزی کے ذریعے کو نہیں بیچ سکتا۔ سلیمہ نے اُسے بالآخر پانچ سو روپوں پر راضی کر لیا۔ یہ رقم ادا کر کے جب وہ اندر آئی تو مجیب غائب تھا، ۔ مجیبہ نے اُس کو بتایا کہ وہ پچھواڑے سے باہر نکل گیا ہے۔ سلیمہ پکارتی رہی کہ مجیب واپس آ جاؤ، مگر وہ ایسا گیا کہ پھر نہ آیا....۔
نہ جانے اور کتنی ایسی سلیمہ ہیں جو اپنی اولاد کو اس طرح بے دردی سے ضعف الاعتقادی کے بهینٹ چڑها دیتی ہیں۔
ایسی بے شمار سلیمہ کو اپنے خالق و مالک اللہ سبحانہ وتعالی کے سامنے اپنی اولاد کے حوالہ سے جوابدہی کے لئے تیار رہنا چایئے۔
جاری ہے۔۔۔۔

کہ ان چوہوں یعنی سپیشل بچوں کی حقیقت کیا ہے ان کی پیدوار کہاں اور کیسے ہوتی ہے اور ایک ہی طرح کے یہ انسان جگہ جگہ بھیک مانگتے کیوں دکھائی دیتے ہیں....؟یقیناً ان کے بارے آپ نے بہت کچھ سن رکھا ہو گا بلکہ ان کو دیکھا بھی ہو گا۔
مکمل تفصیلات مضمون "شاہ دولہ کے چوہے اور جہالت و بد عقیدگی کی انتہا" میں پڑھیں.
یہ تحریر اس کی حقیقت اور اس کی پیش بندی کی ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کی غرض سے قلمبند کیا گیا ہے۔ جو عنقریب پیش کر دیا جائے ھا ان شاء اللہ
www.dawatetohid.blogspot.com
www.bestfuturepk.blogspot.com
WhatsApp: +923462115913

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...