Thursday 29 March 2018

یوگا عالمی مذاہب کی نظر میں !

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:12)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
یوگا عالمی مذاہب کی نظر میں !
دنیا کے مشہور مذاہب عیسائیت اور یہودیت کے مذہبی اسکالر کا یوگا کے متعلق واضح موقف یہی ہے کہ یوگا ہندو مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے۔ انگلیکین چرچس Anglican۔churches۔  اور Catholic churches  کے رہنماؤں نے کئی مرتبہ دو ٹوک انداز میں اس سلسلے میں نہ صرف اظہار خیال کیا بلکہ اپنے مذہب کے پیروکاروں کو ’’یوگا‘‘ سے منع کیا ہے وہ اسے صرف صحت و تندرستی اور جسمانی ورزش کی سائنس ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حتی کہ ہندوستان میں ہندو سے قربت رکھنے والا طبقہ سکھ بھی اس سے اختلاف کرتے  ہیں اور ان کے مذہبی رہنما بھی اپنی برادری کے لوگوں کو یوگا کی پریکٹس سے منع کرتے ہیں۔
جب بین الاقوامی مذاہب کے مذہبی رہنماء بھی ’’یوگا‘‘ کو خالص ہندو مذہبی کفر سے بھر پور عمل قرار دیتے ہیں اور اسے ہندو مذہبی رہنماؤں کے مہارشیوں کے طریقہ عبادت کا ایک جز قرار دیتے ہیں تو ان تمام حقائق کی موجودگی میں ہمارے چند مٹھی بھر دانشور حضرات ذہنی انتشار اور فکری انحطاط کا  شکار ہو کر  ’’یوگا‘‘  کی عدم ممانعت کی وکالت اور نمائندگی کرتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو اس معاملے میں گمراہ کر رہے ہیں۔
 کیا مسلمانوں کا روحانی ارتقاء کے لئے مسجدوں کو چھوڑ کر مٹوں، آشرموں اور کیندروں میں حلقہ کفر کے درمیان بیٹھ کر مراقبہ کرنا اسلامی روح کے سخت خلاف قرار نہیں پائے گا ؟۔اس طرح کے تمام اعمال و حرکات اسلامی روح و مزاج سے قطعی میل نہیں کھاتے اور یہ غیر شرعی اور سخت ممنوع ہے۔
ایک مسلمان کا ‎مصادر کفر، منادر، آشرموں اور یوگا کیندروں سے دلی وابستکی پیدا کر لینا اور اپنا ربط و تعلق بڑھا کر ایسا طرز عمل یا معمول اختیار کر لینا جو ہندو مت اور کفر میں پسندیدہ اور اشرف ہے اور پھر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر کرنا سراسر اسلام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ایک مسلمان کس اقدام اور عمل سے کفر کے قریب ہو رہا ہے یا اسلام اور تقویٰ و پرہیزگاری سے قریب ہو رہا ہے۔
ایسے تمام افکار و رجحانات  اور طرز عمل جو مسلمانوں کو کفر کے قریب کرتے ہیں اس پر تنقید اور تنقیص کرنا اور ان کی فوری اصلاح کرنا اسلامی اسکالرس و مصلحین و داعیان حق کی اولین ذمہ داری ہے۔بے حسی، بے غیرتی، غلامانہ ذہنیت، جی حضوری، اغیار کی اقتداء اسلامی روح واسپرٹ کے منافی ہے۔
اسلامی روح و مزاج کی برقراری کے لئے جو بات بنیادی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
"وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ۔(سورہ الزمر: ۱۷)
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور (ہمہ تن) اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے وه خوش خبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔"
جہاں اسلام کی روح اور مزاج پر اثر پڑھتا ہے وہاں احکامات بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔
اسلام کی روح اور مزاج کی سالمیت، صیانت اور حفاظت عصر جدید کا تقاضا ہے۔ محض جسمانی ورزش، بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پراکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔بلکہ ان تمام فرسودہ طریقوں اور طاغوت کے راستے کو ترک کر کے صرف مضبوط ایمان و موجبات تقویٰ کے ذریعہ اسلامی روح کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بغیر اسلامی روح کے باقی نہیں رہ سکتا۔ ایسا طور طریقہ،نہج و سلوک،لباس و لبادہ،فیشن زدہ طرز زندگی و رجحان کو اختیار کرنا جو من حیث کل  مجموعی طور پر اسلامی مبادیات اور تعلیمات کے منافی ہوں۔ایمان و جذبہ اسلامی کے زوال کا سبب بنتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان توہمات کے قائل ہوتے ہیں۔ اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر گنڈے پلیتے لٹکاتے،ہاتھ،کمر اور پیر میں کالے پیلے دھاگے باندھتے اور منحوس و متبرک شب دنوں کی تخصیص کرتے ہیں۔ مرد نوجوان سر پر جٹو رکھنے،کان میں بالیاں پہننے اور خوشی کے موقع پر پیلا رنگ لگانے اور ناریل پھوڑنے کو باعث فضیلت و برکت سمجھتے ہیں۔یہیں سے ان کی بد عقیدگی اور شرک کی ابتدا ء ہو جاتی ہے اور وہ بگاڑ،گمراہی اور ضلالتوں کی گہری کھائی میں گر پڑتے ہیں۔
جن لوگوں کے قلب میں ایمانی حرارت ہوتی ہے وہ کفر کرنا تو درکنار کفر کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ وہ ایسے موحد ہوتے ہیں کہ توحید پرستی ان کی زندگی کا عظیم قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔
کفر و شرک، نفاق جیسے گناہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے۔ و ہ شیطان کی چال بازیوں اور نٹ ورک سے بچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک شخص کو اندر سے جو چیز طاقتور بناتی ہے وہ پختہ عقیدہ، توحید اور اعلیٰ کردار کو اعلیٰ و خشیت الٰہی کے ذریعہ نفس کو مطمئن بنائے رکھتی ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مکمل مسلمان ہوتا ہے۔ یہی وہ اسلامی اسپرٹ ہے جو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ اور دنیا میں بلند و مشرف و مکرم بناتی ہے۔
شریعت اسلامی میں دی گئی رخصتوں،اجازتوں،حیلوں اور نظریاتی تاویلات Conceptional interpretation  پر زندگی کا انحصار کرنا، پر شکوہ عصری مادی جگمگاتی تہذیب و کلچر میں گھل مل جانا۔ دراصل مسلمان کے لئے خودسپردگی اور شکست خوردگی کی علامت ہے۔
یہ نام نہاد روشن خیالی،کھلے دماغ اور آزاد فکر کی سوغات ہیں۔ جس کی بناء پر اسلام اور مسلمان دونوں کمزور ہو کر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ان کی اسی تساہلی، غفلت اور اسلام سے عدم دلچسپی کی وجہ سے دنیا کے مسائل اور چیالنجس میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اور باطل طاقتوں و مخالفتوں کی ایک سونامی سب کچھ اپنے کوہ کی چوٹیوں کو چھوتے ہوئے تیز تموج میں بہا لے جاتی ہے۔ اسلام سے عاری و ناواقف مسلمان ادیان باطلہ و افکار فاسدہ سے مرعوب ہو کر جب تعقدی اور تہذیبی یلغار سے مقابلے کے لئے اٹھتا ہے تو ایمانی کمزوری کی بناء پر اس خاموش جنگ کو ہار جاتا ہے جس سے اسلام کی روح فنا ہو جاتی ہے اور اسلامی مزاج کے خاتمہ میں چند لمحے بھی نہیں لگتے۔
اسلام کی اسپرٹ اور مزاج کا انحصار قرآن اور منہج رسول ؑ و صحابہ اکرام پر ہے۔ اس کے علاوہ جو اسپرٹ ابھر رہی ہے وہ قابل رد ہے۔
یوگا کو بطور عقیدہ یا پھر صرف ہندوستانی قدیم طریقہ و کھیل تصور کیا جائے تو ہر دو صورتوں میں ایمان کی حفاظت کا مسئلہ درپیش رہے گا۔یوگا کی پراکٹس کرنے سے اہل ایمان کے عقل، حسب نسب اور پھر وقار کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گا اور تعقدی کمزوریوں اور غیر مذہب کی اتباع ملت کے تمام حصوں کو نقصان پہنچائے گی اور اس کا اثر آنے والی نسلوں تک جاری رہے گا۔
قومی یکجہتی:-
آج ہر شخص قومی یکجہتی، سیکولرازم، جمہوریت نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ایسا لگا ہوا ہے کہ وہ یہ تک نہیں سوچ رہا ہے کہ اس قومی یکجہتی، سیکولرازم اور جمہوریت نوازی سے میرے کن عقائد اور افکار ونظریات پر زد پڑتی ہے۔
اور کبھی یہ کہہ کر دین میں مداہنت کو برداشت کرلیا جاتا ہے، کہ قوم وملت کے لیے مصلحت اسی میں ہے۔
یاد رکھیں! کسی قوم کی دوسری قوم کے ساتھ اس طرح کی یکجہتی کہ اس کا اپنا تشخص وامتیاز ہی ختم ہو اور وہ اپنے افکار ونظریات سے دستبردار ہو ، یہ یکجہتی نہیں بلکہ اس قوم کے عقائد اور اس کے افکار ونظریات سے ہم آہنگی ہے، اور یہی غیروں کا مقصد بھی ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
"وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔(سورہ البقرة:۱۲۰)
آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔"
  
یوگا، یوگیوں کے عقائد کا التزام نہ کرنے کے باوجود بھی حرام ہے ، کیوں کہ یہ اس تشبہ میں داخل ہے جو شرعاً ممنوع ہے ۔
کیوں کہ 'یوگا' ایک خاص قسم کی ورزشی نشست ہے، جو ہندووں کا شعار ہے،اور جب وہ ایک خاص قوم کا دینی شعار ہے، تو وہ خواہ ریاضت ہی ہو ، ہمیں اس طرح کی ریاضت سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ہمیں عبادتوں میں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا،تو ریاضتوں اور ورزشوں میں بدرجہ اولی یہ ممانعت ہوگی،خصوصاً جبکہ وہ ریاضتیں کسی قوم کا شعار، مشرکانہ کلمات ،اورغیر اسلامی عقائد وافکار پر مشتمل ہوں۔
اگر کسی کو ریاضت وورزش کر کے صحت وتندرستی ہی حاصل کرنی ہے تو وہ مباح ورزشوں اور ریاضتوں کو اپنائے۔اسلامی عبادتوں میں صحت وتوانائی، تندرستی وچستی کا بھرپور سامان موجود ہے۔
اگر کوئی مسلمان اسلامی عبادتوں کو پورے اہتمام واعتناء کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طرق ونقوش کے مطابق انجام دیں تو یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف ان سے اخروی فلاح وبہبودی حاصل ہوگی بلکہ اس دنیا میں بھرپور صحت وتندرستی بھی ملے گی۔جیسا کہ نماز وروزہ کی حکمتوں اور اسرار ورموز پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

Wednesday 28 March 2018

ڈارک ویب کیا ہے؟

ڈارک ویب کیا ہے؟

(از قلم:عمران شہزاد تارڑ)

انتباہ:اس آرٹیکل کا مقصد آپ کو درست معلومات سے آگاہ کرنا ہے۔انٹر نیٹ پر ڈارک ویب سے متعلقہ رسائی کی کوشش یا اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ڈارک ویب تک گئے ہیں تو آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر سزا ہو سکتی ہے۔
لہذا اگر آپ اپنے موبائل یا کمپیوٹر سے ڈارک ویب سے متعلقہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تو اپنے نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے..۔

اس ساری بات کو سمجھنے کے لئے پہلے ایک مثال ذہن میں رکھیں کہ ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آتا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ پانی سے باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹر نیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔

پھر ایک بڑا حصہ نیچے پانی میں ہے، یعنی وہ سروس جو آپ کو کسی خاص ذریعے (مثلاً یوزر آئی ڈی اور پاسورڈ) سے رسائی فراہم کرتی ہے اور جس کے بغیر اس مواد تک رسائی ممکن نہیں۔ ڈیپ ویب کہلاتا ہے۔

پھر اس سے بھی ایک بڑا حصہ
نیچے جو سمندر کی تہہ میں ہے اسے ڈارک ویب یا مریانازویب(Marianas web) کہا جاتا ہے۔
ڈارک ویب سائٹس کے سرور کا آئی پی ایڈریس اور اس کی لوکیشن خاص براوزر یا نیٹ ورکنگ کے ذریعے چھپائے جاتے ہیں،جس کے لئے یہ جاننا کافی دشوار ہے کہ انہیں کون چلا رہا ہے اور کس جگہ سے چلا رہا ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ یہ انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹر نیٹ کی دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہو گی۔

1۔ ہم جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لئے تین بار ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو (WWW)لکھنا پڑتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ورلڈ وائڈ ویب یا سرفیس ویب یہ وہ انٹر نیٹ ہے جو ہم میں سے ہر کوئی اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتا ہے جس میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل فیس بک ویکیپیڈیا یوٹیوب اور دیگر سائٹس وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔ جن کے لنکس کو گوگل یا دیگر سرچ انجن میں سرچ کرتے ہوئے اُن تک رسائی ممکن ہے۔
کہا جاتا ہےکہ یہ حصہ کل انٹر نیٹ کا تقریبا پندرہ فیصد ہے۔ باقی کا پچاسی فیصد انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔جبکہ بعض آئی ٹی ریسرچر اس پرسینٹیج(percentage) سے اتفاق نہیں کرتے ان کے نزدیک کوئی حتمی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ہے۔بہرحال پرسینٹیج جو بھی ہو ہمارا یہ مدعا نہیں ہے۔

ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989ء میں ایجاد کیا اور 6اگست 1991ء کو باقاعدہ منظر عام پر لایا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی نہایت رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی کہ چند لمحات میں آپ اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر  یا موبائل کی سکرین پر اکھٹی یعنی گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی۔
ورلڈ وائڈ ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی۔ ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط وکتاب ای میل کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اور کمپنیوں اور اداروں نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔

یہاں سے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے، اور حکومتیں اور ادارے یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لئے کوئی نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری یا ہیک نہ کر سکے۔چنانچہ اس مقصد کے لئے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کیا۔ اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن کر سکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کر دیا۔ یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھناونے جرائم کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

2۔ ورلڈ وائڈ ویب سے نیچے ڈیپ ویب ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ مثلا آپ کسی ملک میں جانے کے لئے اپنے ملک میں موجود سفارت خانہ سے ویزا حاصل کرتے ہیں جب آپ اس ملک کے ائیر پورٹ پر پہنچتے ہیں تو ویزا دکھانے پر امیگریشن آفیسر اپنا انٹر نیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتا ہے کہ آپ وہی شخص ہیں جس نے ہمارے سفارت خانہ سے ویزا حاصل کیا ہے۔ یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے،
چنانچہ امیگریشن آفیسر اپنا ڈیٹا اوپن کر سکتے ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی یا امیگریشن  کی رسائی صرف اپنے ڈیٹا تک ہوتی ہے۔
یعنی یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔یہ بنک ریکارڈز، کمپنیوں کے ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن حکومتی اور غیر حکومتی ریکارڈ وغیرہ یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں۔ جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب اُن کا ایڈریس یا ایڈمنسٹریشن ہمارے پاس ہو۔

3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے نمبر آتا ہے ڈارک ویب جسےمریاناز ویب (Marianas web)بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے۔ حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہایت مشکل ہے، سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو۔ عام طور پر ڈارک ویب کی ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور، یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے۔یہاں جانے کے لئے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جب آپ پورا اور درست ایڈریس ڈالتے ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتی ، یہ صرفtor یا Onion ایکسٹینشنز پر ہی اوپن ہوتی ہے۔ان کے کچھ اپنے سرچ انجن بھی ہوتے ہیں جن پر  مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کر کے تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین، سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتیں ہیں۔انٹرنیٹ کی دنیا کے اس حصے یعنی ڈارک ویب میں خصوصی مارکیٹیں یعنی ’ڈارک نیٹ مارکیٹس قائم ہوتی ہیں جہاں غیر قانونی دھندہ ،ڈرگز، ویپنز، کنٹریکٹ کلنگز، چائیلڈز پورنو گرافی، پرائیویٹ لائیو فائٹس، ملکوں کے راز چُرانے اور بیچنے، انسانی اعضاء بیچنے اور خریدنے اور لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے۔
ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں۔یعنی ایسے پیچز یا روم ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری،بدترین تشدد،چائلڈ پورنوگرافی وغیرہ دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں،
قارئین یقینا سوچیں گے کہ یہ بات نہ سمجھ میں آنے والی ہے بلا کوئی انسان بھی اس حد تک گر سکتا ہے،جو انسانوں کو اپنی ہوس و تشدد کا نشانہ بنائے،انسان کی درندگی و شیطانیت کی حدیں عبور کرنے کی مثالیں تو سینکڑوں پیش کی جا سکتی ہے لیکن ہم صرف ایک ہی مثال پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ آج سے تقریبا بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہو گا جاوید اقبال مغل سو بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُن کو قتل کرتا تھا اور اُن کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے سو دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حُکم دیا تھا۔ اُسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔
چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگا کر دیکھتے ہیں۔
یہ دنیا ایسے معافیہ اور گروہوں کا مسکن ہوتی ہیں جو خود کو عام دنیا یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ ، پنک متھ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کر کے2015ء میں بلاک کر دیا تھا۔(یہ ویب سائٹس چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی اس لیے نام ذکر کیا گیا)
ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہو سکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں۔ ڈارک ویب پر اربوں کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔
یہ ڈارک ویب یا مریاناز ویب گوگل یا دیگر سرچ انجن کی پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے انہیں تلاش کرنا کافی دشوار ہوتا ہے۔

ایسی صورتحال میں ڈارک ویب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو مشکل ضرور بنا دیتی ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب سیکیورٹی ایجنسیاں ایسی ویب سائٹس تک پہنچنے اور ان کو چلانے یا استعمال کرنے والوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہیں۔

اس کی ایک مثال ڈارک ویب پر منشیات کا کاروبار کرنے والی بڑی مارکیٹ ’ سلک روڈ‘ کو چلانے والے شخص راس البرکٹ کی گرفتاری میں کامیابی ہے۔
اسی طرح امریکی ادارے ایف بی آئی نے حال ہی میں ڈاک ویب پر بچوں سے جنسی تشدد کی ویب سائٹ چلانے والے دو افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔
اسی طرح چند دن پہلے پاکستان میں بھی ڈارک ویب پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز دکھانے والے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ڈارک ویب میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام ” سیڈستان (شیطان ) ” ہے ۔۔۔ اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔کیونکہ اس میں آپ کی جان جا سکتی ہے۔
لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔ آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا کافی ہے۔۔۔
ان تمام ٹیکنالوجیز کے برے استعمال ہیں تو ان سے بڑھ کر اچھے استعمالات بھی ہیں۔
ان کو اپنی نجی بات چیت خفیہ رکھنے، اپنی شناخت کو چھپا کر کسی جرم کی اطلاع دینے، حکومتی نگرانی سے بچنے، سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ریاست کے انتقام کا نشانہ بننے، حکومتی سینسر شپ سے بچنے، فری سپیچ،جاسوسی اور دیگر کاموں کے لئے مفید انداز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی۔؟

لیکن حقیقت یہ ہے کہ تکنیکی طور پر یہ پابندی محض ایک خام خیالی ہے۔ ٹیکنالوجی ایسی کسی پابندی کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ یہ چور سپاہی کی دوڑ ہے۔ دنیا بھر کے حکومتی ادارے چاہتے ہیں کہ آپ کی پرائیویسی نہ ہو، اور ٹیکنالوجی یہ ممکن بناتی ہے کہ آپ کی پرائیویسی برقرار رہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس پرائیویسی کو قانونی استعمالات میں لاتے ہیں یا جرائم کرنے کے لئے۔ ہر اچھی بری چیز کو اپنے خلاف سازش سمجھنا عقل مندی کی بات نہیں ہے اگر آپ ڈیپ ویب یا ڈارک ویب پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو یہ سوچ لیں کہ آپ انٹرنیٹ کی ان تمام سروسز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہیں آپ پاسورڈ دے کر استعمال کرتے ہیں اور ان کے مواد کو پبلک نہیں کرنا چاہتے۔

مثال کے طور پر جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لئے بناتے ہیں، چھری سبزی کاٹنے کے لئے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگا دی جائے تو تمام انسان اس کے فوائد سے متاثر ہوں گے لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کر سکتا ہے۔
(بشکریہ  ای مصنفین جن کی نگارشات سے استفادہ کیا گیا۔)
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.dawatetohid.blogspot.com
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:10)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت
اللہ تعالی نےٰ نبی اکرمﷺ کو حکم فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کی اتباع و تقلید نہ کرو۔
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ..۔
اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا۔"(سورہ الاحزاب:آیت:۱)
"..أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي...۔
میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے۔"(سورہ الاعراف:۲۰۳)
چاہے عہد نبوی کے کافر و منافقین ہوں یا موجودہ و آئندہ دور کے ہوں۔ سب کا حکم قطعی اور ثابت ہے۔ سیاسی معاشی صورتحال، اکثریت و اقلیت کی بناء پر یہ حکم ممکن الزول  subject to change  کے زمرے میں شامل نہیں۔
دوسری آیت میں حکم کی مزید وضاحت کر دی گئی کہ اتباع صرف اس حکم کی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جاتی ہے۔
 7۔ تاریخ سے سبق حاصل کریں:-
اسلام نے حصول علوم اور سائنسی تحقیقات و ایجادات سے کبھی نہیں روکا۔ جس چیز سے فائدہ ہے اور جو انسانی زندگی کی بقاء، تحفظ و ترقی میں مدد دیتی ہے وہ مباح و جائز ہے۔لیکن مسلمانوں کی ایسی باتیں جو عقائد اور احکامات و فرائض سے ٹکراتی ہیں اسے یکسر رد کرتا ہے اور وہ ناقابل قبول ہیں۔
مسلمانوں کا سب سے روشن پہلو وہ تحقیقات اور تجارب کا میدان ہے جس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مسلمانوں نے اس میں اپنی کافی خدمات دی ہیں۔ چونکہ یوگا سائنسی علوم میں شامل نہیں ہے اسی لئے اس موضوع پر انھوں نے اپنا وقت برباد نہیں کیا۔
مسلمانوں نے دوسری و تیسری صدی ہجری میں مختلف علوم جیسے ریاضیات، کیمسٹری،  علوم طب، ادویات اور علوم الہیت پر تحقیقاتی کام کئے اس کے بعد نئے انکشافات اور ایجادات کا کئی صدیوں تک سلسلہ جاری رہا۔ ہندو یونان کے ماہرین علوم نے اس سے کھل کر استفادہ کیا۔
خلیفہ ابو جعفر منصور(136-158ھ)  اور ہارون رشید(160-193ھ) کے دور میں ہندوستان کے قدیم سائنسدانوں اور ماہرین علوم کو بڑی عزت بخشی گئی اور طب ایورویدک و Dhanwanthari اور علوم نجوم Astrology اور علم فلکیات کے سنسکرت اسنادات و تحقیقات و کتب کا بڑے پیمانے پر عربی میں ترجمے کروائے گئے اور بغداد و دمشق و بلاد اسلامیہ نے لباریٹریز (دار التجزیہ) کے قیام کے علاوہ ہندوستانیوں سے سائنس اور دیگر علوم کے سلسلہ میں تعاون حاصل کیا۔ عرب اسکالرس نے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہندو مذہبی عقائد اور تعلیمات سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ کسی قسم کی آمیزش کی اجازت نہیں دی۔ لیکن بعد میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا دور شروع ہوا اور طویل عہد حکومت کے دور ان ہندو مذہبی روایات و رسومات جاہل مسلمانوں کے درمیان جاگزیں ہونے لگیں۔
بطور مثال ایک ورد کئے جانے والے کلام پر غور فرمائیں؛
  انسخات للہ کی ڈھال ہوئی سی عطا  الم تر کیف فعل ربک تحشیر نی لگا
  لا یلاف قریش کٹارسان لگا  قل ھو اللہ احد کا نیزہ دست میں پڑا
  داؤں متندر شاہ شرف کو بانھ لا  جسرتھ گو روگورکھ ناتھ بوعلی کافرا
  کفاک جہل کاف پکڑ رام کو بلا  سیتا کو لاؤپکڑ رام کے سوا
   جوگی اسماعیل رام چندر کو قید کر دیا  دھنت بھیم سین غیر ماہو کو پکڑا
رضا کو کہو، الحمد للہ، رب العالمین، آمین آمین
(عامل کامل/ صفحہ۱۳۳)
اس طرح کے سینکڑوں سفلی جنتر منتر ہیں۔ کفر سے بھرے ان منتروں اور سفلی عملیات کی کتابیں بازاروں میں کھلے عام آج بھی فروخت ہوتی ہیں۔ گمراہ عامل نہ صرف عملیات کرتے ہیں بلکہ اپنے معتقدین کو ہندوؤں کے مخصوص تیوہاروں کے موقعوں پر مندر میں جا کر پوجا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دیوالی اور ناگ پنچھی،پونم،اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ نام نہاد مسلم عامل سفلی عملیات کے لئے چھپا کر چھوٹی چھوٹی مورتیاں یا تصاویر اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر رکھتے ہیں اور اپنے مریدوں کو خفیہ طور پر مورتی پوجا کا حکم دیتے ہیں۔
کیا سحر، جادو، بھوت پریت، شیطان کے باطنی امراض و اثرات کا علاج کفر و شرک و سفلی عمل کے ذریعہ کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا پھر دین خالص اور ایمان باللہ پر یقین کامل، اللہ پر توکل، مصائب پر صبر زیادہ اہم ہے۔ ایمانیات کی بنیادوں کو ڈھا کر محض اپنے اور دوسروں کے مصائب کے علاج کے لئے کفر و شرک اختیار کرنا سراسر گمراہی اور طاغوت و باطل ہے۔ ایسے بدترین افراد کے خارج اسلام ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح سے ہے محض صحت و تندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار استعمال کرنا جس کی جڑیں کفر سے ملتی ہیں۔ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر ناجائز کو جائز اور ممنوعات و منھیات کو مباح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
مسلم جوگیوں اور مسلم یوگیوں میں گٹھ جوڑ ہو جائے تو پھر بڑے پیمانے پر غلو و گمراہی کا ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور مسلمانوں میں جوگیوں اور یوگیوں کا علیحدہ طبقہ جنم لے گا۔ جو آنے والی نسلوں کے لئے درد سر بن سکتا ہے۔ یوگا کے تعقدی خباثتوں کے متعلق شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
یوگا کو جائز قرار دینے والوں کو یہ غور کرنا چاہئے۔ یوگا واضح و صریح کفر کے راستہ  پر پہلا قدم ہے۔ جلد یا دیر سے یوگا کا یہ راستہ کفر کی سمت جاتا ہے اور  پھر لوگ جب اس راستہ پر دور تک نکل جائیں گے تو ایمان اور اصلاح اور توبہ کے تمام راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔اور اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب و ذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑ جائیں گے۔
آپسی مسلکی اختلاف سے زیادہ سنگین معاملہ فرقوں کی ضلالتوں کا ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی گمراہ فرقے پیدا ہوئے۔ان میں اکثر نے قرآنی سورتوں کی مدد لی اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے جیسا چاہا معنی و مطالب کو توڑا موڑا اور کسی سے بھی منسلک کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کے ساتھ جنتر منتر اور اشلوکوں کو ملا کر ورد کرنے اور اپنے مریدوں کو اس کی تلقین کرنے کا کیا جواز ہے۔ اس بدترین گمراہی نے سفلی عمل  کرنے والے عاملوں کے ایک نئے گروہ کی تخلیق کی۔
کفر کے دساتیر سے مشرکانہ،ملحدانہ طور طریقوں کو شریعت اسلامی میں داخل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سرزمین ہند زندگی کے کئی حصوں کو کفر و شرک اور باطل سے خلط ملط کر دیا۔
(نوٹ:جعلی وظائف سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لئے مولف:عمران شہزاد تارڑ کی کتاب "رزق میں فراخی اور مشکلات کا حل" میں پڑھیں۔)
اگر زہر کو آہستہ آہستہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیتے رہیں وہ اپنا مہلک اثر ضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں ڈھکیل دے گا۔
یہی معاملہ ایمان و کفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک اہل ایمان اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے رد کفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان و کفر کے فرق کو اپنی فکر و نظر سے اوجھل کر دے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اور اس سے مسلمان کو ہر کافرانہ دعوت و عمل جاذب نظر آنے لگتی ہے۔
یوگا کی وکالت کرنے والے حضرات کی ہو سکتا ہے کہ آج نیت بہت اچھی ہے۔ لیکن اگر اس کا شوق بڑھنے لگا اور نوجوان نسل میں یہ رجحان وسعت اختیار کر لے گا تو اسلام اور ملت اسلامیہ میں ایک نئی گمراہی کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بے شمار فاسد نظریات، بدعات اور لغو ابلیسی کاموں کو ملت اسلامیہ میں دین کے نام پر داخل کر دیا گیا ہے۔ جس سے وحدانیت اور اسلام کی دو ٹوک روشن صاف ستھری شاہراہ میں رخنے پڑھنے لگے ہیں۔
ایک مسلمان کثرت اور جسمانی ورزش کے عنوان پر اگر یوگا کر رہا ہے تو وہ آگے چل کر یوگیوں کی تعلیمات میں دلچسپی لینا بھی شروع کر دے گا اور یوگا کو سری کرشنا کی تعلیمات کے مطابق روحانیت کے حصول کا ذریعہ بھی تصور کرنے لگے گا۔ اس طرح کفر و شرک اور شیطان ایک مومن کو اپنے گرفت میں جکڑ لے گا اور ہو سکتا ہے کہ یوگا کرنے والے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
’’ہمارے مشاہدے میں کئی افسوسناک واقعات آئے ہیں  جن کمزور ایمان اور عقل والوں نے یوگا کیندروں کا رخ کیا۔ اور مہایوگیوں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر انھوں نے ایمان کھو دیا اور بعض تو ہندو ہو گئے اور بعض اپنی شکل و صورت اور لبادہ سادھوں جیسا بنا لیا۔ یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے گذشتہ صدیوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوتا رہا اور ملت کے لئے ہمیشہ ایک نیا اعتقادی مسئلہ کھڑا ہوتا رہا۔کیا کوئی ادنی درجہ کا مسلمان بھی کفر و شرک اور شیطانی کلمات سے بھر پور ان باتوں پر عقیدہ رکھ سکتا ہے۔؟
ملت اسلامیہ کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس طرح کے عقیدہ و تہذیبی بگاڑ کی اصلاح کے لئے کئی نسلوں تک کوششیں کرنا پڑھتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

Friday 23 March 2018

کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:10)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت
اللہ تعالی نےٰ نبی اکرمﷺ کو حکم فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کی اتباع و تقلید نہ کرو۔
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ..۔
اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا۔"(سورہ الاحزاب:آیت:۱)
"..أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي...۔
میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے۔"(سورہ الاعراف:۲۰۳)
چاہے عہد نبوی کے کافر و منافقین ہوں یا موجودہ و آئندہ دور کے ہوں۔ سب کا حکم قطعی اور ثابت ہے۔ سیاسی معاشی صورتحال، اکثریت و اقلیت کی بناء پر یہ حکم ممکن الزول  subject to change  کے زمرے میں شامل نہیں۔
دوسری آیت میں حکم کی مزید وضاحت کر دی گئی کہ اتباع صرف اس حکم کی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جاتی ہے۔
 7۔ تاریخ سے سبق حاصل کریں:-
اسلام نے حصول علوم اور سائنسی تحقیقات و ایجادات سے کبھی نہیں روکا۔ جس چیز سے فائدہ ہے اور جو انسانی زندگی کی بقاء، تحفظ و ترقی میں مدد دیتی ہے وہ مباح و جائز ہے۔لیکن مسلمانوں کی ایسی باتیں جو عقائد اور احکامات و فرائض سے ٹکراتی ہیں اسے یکسر رد کرتا ہے اور وہ ناقابل قبول ہیں۔
مسلمانوں کا سب سے روشن پہلو وہ تحقیقات اور تجارب کا میدان ہے جس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مسلمانوں نے اس میں اپنی کافی خدمات دی ہیں۔ چونکہ یوگا سائنسی علوم میں شامل نہیں ہے اسی لئے اس موضوع پر انھوں نے اپنا وقت برباد نہیں کیا۔
مسلمانوں نے دوسری و تیسری صدی ہجری میں مختلف علوم جیسے ریاضیات، کیمسٹری،  علوم طب، ادویات اور علوم الہیت پر تحقیقاتی کام کئے اس کے بعد نئے انکشافات اور ایجادات کا کئی صدیوں تک سلسلہ جاری رہا۔ ہندو یونان کے ماہرین علوم نے اس سے کھل کر استفادہ کیا۔
خلیفہ ابو جعفر منصور(136-158ھ)  اور ہارون رشید(160-193ھ) کے دور میں ہندوستان کے قدیم سائنسدانوں اور ماہرین علوم کو بڑی عزت بخشی گئی اور طب ایورویدک و Dhanwanthari اور علوم نجوم Astrology اور علم فلکیات کے سنسکرت اسنادات و تحقیقات و کتب کا بڑے پیمانے پر عربی میں ترجمے کروائے گئے اور بغداد و دمشق و بلاد اسلامیہ نے لباریٹریز (دار التجزیہ) کے قیام کے علاوہ ہندوستانیوں سے سائنس اور دیگر علوم کے سلسلہ میں تعاون حاصل کیا۔ عرب اسکالرس نے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہندو مذہبی عقائد اور تعلیمات سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ کسی قسم کی آمیزش کی اجازت نہیں دی۔ لیکن بعد میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا دور شروع ہوا اور طویل عہد حکومت کے دور ان ہندو مذہبی روایات و رسومات جاہل مسلمانوں کے درمیان جاگزیں ہونے لگیں۔
بطور مثال ایک ورد کئے جانے والے کلام پر غور فرمائیں؛
  انسخات للہ کی ڈھال ہوئی سی عطا  الم تر کیف فعل ربک تحشیر نی لگا
  لا یلاف قریش کٹارسان لگا  قل ھو اللہ احد کا نیزہ دست میں پڑا
  داؤں متندر شاہ شرف کو بانھ لا  جسرتھ گو روگورکھ ناتھ بوعلی کافرا
  کفاک جہل کاف پکڑ رام کو بلا  سیتا کو لاؤپکڑ رام کے سوا
   جوگی اسماعیل رام چندر کو قید کر دیا  دھنت بھیم سین غیر ماہو کو پکڑا
رضا کو کہو، الحمد للہ، رب العالمین، آمین آمین
(عامل کامل/ صفحہ۱۳۳)
اس طرح کے سینکڑوں سفلی جنتر منتر ہیں۔ کفر سے بھرے ان منتروں اور سفلی عملیات کی کتابیں بازاروں میں کھلے عام آج بھی فروخت ہوتی ہیں۔ گمراہ عامل نہ صرف عملیات کرتے ہیں بلکہ اپنے معتقدین کو ہندوؤں کے مخصوص تیوہاروں کے موقعوں پر مندر میں جا کر پوجا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دیوالی اور ناگ پنچھی،پونم،اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ نام نہاد مسلم عامل سفلی عملیات کے لئے چھپا کر چھوٹی چھوٹی مورتیاں یا تصاویر اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر رکھتے ہیں اور اپنے مریدوں کو خفیہ طور پر مورتی پوجا کا حکم دیتے ہیں۔
کیا سحر، جادو، بھوت پریت، شیطان کے باطنی امراض و اثرات کا علاج کفر و شرک و سفلی عمل کے ذریعہ کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا پھر دین خالص اور ایمان باللہ پر یقین کامل، اللہ پر توکل، مصائب پر صبر زیادہ اہم ہے۔ ایمانیات کی بنیادوں کو ڈھا کر محض اپنے اور دوسروں کے مصائب کے علاج کے لئے کفر و شرک اختیار کرنا سراسر گمراہی اور طاغوت و باطل ہے۔ ایسے بدترین افراد کے خارج اسلام ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح سے ہے محض صحت و تندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار استعمال کرنا جس کی جڑیں کفر سے ملتی ہیں۔ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر ناجائز کو جائز اور ممنوعات و منھیات کو مباح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
مسلم جوگیوں اور مسلم یوگیوں میں گٹھ جوڑ ہو جائے تو پھر بڑے پیمانے پر غلو و گمراہی کا ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور مسلمانوں میں جوگیوں اور یوگیوں کا علیحدہ طبقہ جنم لے گا۔ جو آنے والی نسلوں کے لئے درد سر بن سکتا ہے۔ یوگا کے تعقدی خباثتوں کے متعلق شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
یوگا کو جائز قرار دینے والوں کو یہ غور کرنا چاہئے۔ یوگا واضح و صریح کفر کے راستہ  پر پہلا قدم ہے۔ جلد یا دیر سے یوگا کا یہ راستہ کفر کی سمت جاتا ہے اور  پھر لوگ جب اس راستہ پر دور تک نکل جائیں گے تو ایمان اور اصلاح اور توبہ کے تمام راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔اور اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب و ذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑ جائیں گے۔
آپسی مسلکی اختلاف سے زیادہ سنگین معاملہ فرقوں کی ضلالتوں کا ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی گمراہ فرقے پیدا ہوئے۔ان میں اکثر نے قرآنی سورتوں کی مدد لی اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے جیسا چاہا معنی و مطالب کو توڑا موڑا اور کسی سے بھی منسلک کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کے ساتھ جنتر منتر اور اشلوکوں کو ملا کر ورد کرنے اور اپنے مریدوں کو اس کی تلقین کرنے کا کیا جواز ہے۔ اس بدترین گمراہی نے سفلی عمل  کرنے والے عاملوں کے ایک نئے گروہ کی تخلیق کی۔
کفر کے دساتیر سے مشرکانہ،ملحدانہ طور طریقوں کو شریعت اسلامی میں داخل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سرزمین ہند زندگی کے کئی حصوں کو کفر و شرک اور باطل سے خلط ملط کر دیا۔
(نوٹ:جعلی وظائف سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لئے مولف:عمران شہزاد تارڑ کی کتاب "رزق میں فراخی اور مشکلات کا حل" میں پڑھیں۔)
اگر زہر کو آہستہ آہستہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیتے رہیں وہ اپنا مہلک اثر ضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں ڈھکیل دے گا۔
یہی معاملہ ایمان و کفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک اہل ایمان اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے رد کفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان و کفر کے فرق کو اپنی فکر و نظر سے اوجھل کر دے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اور اس سے مسلمان کو ہر کافرانہ دعوت و عمل جاذب نظر آنے لگتی ہے۔
یوگا کی وکالت کرنے والے حضرات کی ہو سکتا ہے کہ آج نیت بہت اچھی ہے۔ لیکن اگر اس کا شوق بڑھنے لگا اور نوجوان نسل میں یہ رجحان وسعت اختیار کر لے گا تو اسلام اور ملت اسلامیہ میں ایک نئی گمراہی کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بے شمار فاسد نظریات، بدعات اور لغو ابلیسی کاموں کو ملت اسلامیہ میں دین کے نام پر داخل کر دیا گیا ہے۔ جس سے وحدانیت اور اسلام کی دو ٹوک روشن صاف ستھری شاہراہ میں رخنے پڑھنے لگے ہیں۔
ایک مسلمان کثرت اور جسمانی ورزش کے عنوان پر اگر یوگا کر رہا ہے تو وہ آگے چل کر یوگیوں کی تعلیمات میں دلچسپی لینا بھی شروع کر دے گا اور یوگا کو سری کرشنا کی تعلیمات کے مطابق روحانیت کے حصول کا ذریعہ بھی تصور کرنے لگے گا۔ اس طرح کفر و شرک اور شیطان ایک مومن کو اپنے گرفت میں جکڑ لے گا اور ہو سکتا ہے کہ یوگا کرنے والے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
’’ہمارے مشاہدے میں کئی افسوسناک واقعات آئے ہیں  جن کمزور ایمان اور عقل والوں نے یوگا کیندروں کا رخ کیا۔ اور مہایوگیوں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر انھوں نے ایمان کھو دیا اور بعض تو ہندو ہو گئے اور بعض اپنی شکل و صورت اور لبادہ سادھوں جیسا بنا لیا۔ یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے گذشتہ صدیوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوتا رہا اور ملت کے لئے ہمیشہ ایک نیا اعتقادی مسئلہ کھڑا ہوتا رہا۔کیا کوئی ادنی درجہ کا مسلمان بھی کفر و شرک اور شیطانی کلمات سے بھر پور ان باتوں پر عقیدہ رکھ سکتا ہے۔؟
ملت اسلامیہ کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس طرح کے عقیدہ و تہذیبی بگاڑ کی اصلاح کے لئے کئی نسلوں تک کوششیں کرنا پڑھتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

ہائی بلڈ پریشر کا علاج آپ کے کچن میں

ہائی بلڈ پریشر کا علاج آپ کے کچن میں
(علینہ اسلام)

پاکستان میں جب کبھی بھی آپ کے گھرانے کا کوئی عمر رسیدہ شخص آپ سے کہے کہ آپ ان کا بلڈ پریشر بڑھا رہے ہیں تو تین میں سے ایک امکان ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں اور یہ صرف ڈرامہ نہیں ہے۔

عالمی ادارہء صحت کی ڈائریکٹر مارگریٹ چین کے مطابق پاکستان میں 18 فیصد بالغان اور 45 سال سے زیادہ عمر کے 33 فیصد لوگوں کو بلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر) کی بیماری لاحق ہے۔ بدقسمتی سے صرف 50 فیصد کیسز میں ہی تشخیص ہو پاتی ہے، اور ان میں سے بھی صرف آدھے کیسز میں علاج کروایا جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف 12.5 فیصد کیسز کو باقاعدہ طور پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

آئیں سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ بلڈ پریشر ہے کیا۔ 120/80 mmHG کے بلڈ پریشر کو نارمل تصور کیا جاتا ہے جبکہ 135/85 mmHG باعثِ تشویش ہوتا ہے کیونکہ ریڈنگ اس سے زیادہ ہونا ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے۔

پیتھولوجی (یعنی آپ کے جسم کے اندر کیا ہو رہا ہے) کے نظریے سے دیکھیں تو ہائی بلڈ پریشر کا مطلب ہے کہ جب آپ کا دل جسم میں خون پمپ کرتا ہے، تو آپ کی شریانوں پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ یہ زیادہ دباؤ تب پڑتا ہے جب آپ کی شریانیں سکڑ کر چھوٹی ہوجائیں یا آپ کے جسم میں خون زیادہ ہوجائے۔

اس بارے میں سب ہی جانتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر نمک کے زیادہ استعمال اور ذہنی تناؤ سے منسلک ہے، اس لیے پڑھنے والوں کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ ہائی بلڈ پریشر معمولاتِ زندگی میں خرابی جیسے کھانے پینے میں بے اعتدالی، ورزش کی کمی، اور اسٹریس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یہی اس بیماری سے نمٹنے کا حل بھی ہے۔

اگر آپ نے میرا پچھلا مضمون دواؤں سے دوری کیوں ضروری ہے پڑھا ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ میں صرف دواؤں پر انحصار کرنے کے بجائے بیماری کی جڑ تک پہنچنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوں۔ دواؤں سے آپ سامنے نظر آنے والی علامات کو ختم کر سکتے ہیں لیکن دوائیں انہیں واپس سر اٹھانے سے نہیں روک سکتیں۔

لہٰذا آئیں ہم ہائی بلڈ پریشر کی وجوہات جانتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کس طرح ان سے نمٹا جا سکتا ہے۔

زیادہ کیلوریز کا استعمال

کھانے کے وقت ہر چیز حصوں میں کھائیں، خاص طور پر گوشت، روٹی، اور چاول۔ کھانے میں گوشت آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے (مردوں کے لیے دو) اور اجناس اور نشاستہ ایک ہاتھ سے زیادہ نہیں (مردوں کے لیے دو) ہونا چاہیے۔ باقی کی کیلوریز آپ کو سبزیوں سے حاصل کرنی چاہیئں۔

تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ وزن گھٹانے سے بلڈ پریشر اعتدال پر آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کے لیے تجویز کردہ دواؤں کی مقدار میں بھی کمی آتی ہے۔

سوڈیم-پوٹاشیم کا بلند تناسب

پوٹاشیم اور سوڈیم ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جسم میں پانی اور نمکیات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ان دونوں کو متناسب رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایک بڑھ جاتا ہے تو دوسرا لازماً کم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے جسم میں بہت زیادہ سوڈیم ہے، تو ڈاکٹرز آپ کو اکثر پوٹاشیم کی دوائیں دیں گے تاکہ آپ کا سوڈیم پیشاب کے ذریعے خارج ہوجائے۔ غذا میں پوٹاشیم شامل کرنے کے لیے کیلے، ٹماٹر، شکر قندی، پھلیاں، دالیں، کھجوریں، اور ناریل کا پانی زیادہ استعمال کریں۔

ٹیبل سالٹ کا استعمال ختم کر دیں اور جب بھی ضرورت ہو تو سمندری نمک یا ہمالیائی گلابی نمک کا استعمال کریں۔ پہلے میں صرف دو معدنیات سوڈیم اور کلورائیڈ ہوتے ہیں جبکہ دوسرے میں 70 سے زیادہ معدنیات مختلف مقدار میں ہوتے ہیں جو اعصاب اور نظامِ قلب کے درست کام کرنے کے لیے ضروری ہے، جبکہ اس میں سوڈیم کم ہوتا ہے۔ زیادہ سوڈیم سے آپ کے جسم میں پانی جمع رہتا ہے، نتیجتاً خون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

کم فائبر، کیلشیئم، میگنیشیئم، اور وٹامن سی والی غذائیں

ہر کھانے کے وقت یہ یقینی بنائیں کہ آپ کی آدھی پلیٹ سبزیوں سے بھری ہے۔

گہرے سبز رنگ کی سبزیاں ان معدنیات کا بہترین ذریعہ ہیں، خاص طور پر میگنیشیئم، کیونکہ یہ کلوروفل (پودوں کے خون) کا مرکزی جزو ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آئرن انسانی خون کا مرکزی جزو ہوتا ہے۔

پراسس شدہ کھانے مثلاً بسکٹ، چپس، نمکو وغیرہ غذائیت اور فائبر سے خالی ہوتے ہیں جبکہ ان میں نمک اور چینی زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں تازہ پھلوں اور سبزیوں سے بدل دیں جو بلاشبہ بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

اومیگا 3 کے مقابلے میں سیر شدہ چکنائی کا زیادہ استعمال

60 سے زیادہ تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ مچھلی کے تیل کی سپلیمنٹس بلڈ پریشر گھٹانے میں مددگار ہیں۔

ای پی اے اور ڈی ایچ اے کا 3000 ملی گرام روزانہ کھائیں (یہ مچھلی کے تیل کے 1 چمچ کے برابر ہوتا ہے)۔ اس سے آپ کا بلڈ پریشر 2 mmHG کم ہوگا۔

اپنی غذا میں زیادہ اومیگا 3 شامل کریں۔ مچھلی، اخروٹ، پیکن (امریکی اخروٹ)، صنوبری بادام، فلیکس، اور تخملنگے کا استعمال زیادہ کریں۔

ذہنی تناؤ

روزانہ 10 سے 15 منٹ صرف گہری سانسیں لینے کے لیے نکالیں (ایک منٹ میں تقریباً 6 سانس)۔ یہ آپ گھر پر بھی کر سکتے ہیں، اور اگر ناممکن ہو تو یوگا کلاس میں داخلہ لے لیں۔

تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ چھوٹے سانس لینے سے جسم میں سوڈیم جمع رہتا ہے جبکہ گہری اور آہستہ سانس لینے سے آکسیجن زیادہ مل پاتی ہے، ورزش کے لیے برداشت پیدا ہوتی ہے، اور بلڈ پریشر کی مانیٹرنگ بہتر ہوتی ہے۔

ورزش کی کمی

تحقیق بتاتی ہے کہ ہفتے میں 3 دفعہ 20 منٹ کی ہلکی یا درمیانی ورزش بلڈ پریشر گھٹانے میں مدد دیتی ہے۔

بلڈ پریشر کے مریضوں پر کیے گئے تجربات نے ورزش کو بلڈ پریشر کا بہترین علاج قرار دیا ہے۔

اوپر دی گئی ہدایات کے علاوہ یہ کچھ قدرتی علاج ہیں جو بلڈ پریشر کم کرنے میں کلینکلی ثابت شدہ ہیں۔

اجوائن میں ایک کمپاؤنڈ 3-n-butylphthalide ہوتا ہے جس کے بارے میں ثابت شدہ ہے کہ یہ بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔ جانوروں پر کی گئی تحقیق میں اس کمپاؤنڈ کی تھوڑی سی مقدار نے بلڈ پریشر 12 سے 14 فیصد گھٹانے میں مدد دی جو اجوائن کے 4 سے 6 ٹکڑوں کے برابر ہے۔ اجوائن جوس وغیرہ میں اچھا ذائقہ فراہم کرتی ہے اس لیے اسے اپنی غذا میں شامل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

ہر کھانے کے ساتھ ادرک کا ایک ٹکڑا ضرور کھائیں۔ ادرک کے پاؤڈر کی کچھ مقدار (1.8 سے 2.7 گرام تازہ ادرک کے برابر) کے ساتھ کی گئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ سسٹولک بلڈ پریشر میں mmHG 11 جبکہ ڈائسٹولک بلڈ پریشر میں 5 mmHG کمی صرف 2 سے 3 ماہ میں ہوئی۔

چقندر کے جوس میں l-arginine ہوتا ہے جو شریانوں کو نرم کرتا ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ روزانہ چقندر کا ایک کپ جوس پینا اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا کہ بلڈ پریشر کی دوائیں، اور اس سے 9/5 mmHG بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد ملی۔

کئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گل خطمی (Hibiscus) کی چائے بلڈ پریشر گھٹاتی ہے۔ ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ 240 ml کے تین کپ روزانہ پینے سے صرف 6 ہفتوں میں سسٹولک بلڈ پریشر 7.2 mmHG کم ہوا۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر اینڈ بیسٹ فیوچر ٹراویل اینڈ ٹورازم
www.dswatetohid.blogspot.com
www.bestfuturepk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...