Wednesday 25 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط38

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر38)
باب 8: مسئلہ بدعت:
عقائد سے ہٹ کر سلفی اور غیر سلفی حضرات میں جو سب سے بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، وہ مسئلہ بدعت کا ہے۔ بدعت کا لغوی معنی ہے نئی چیز۔ شرعی علوم کی اصطلاح بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو دین میں کوئی نیا اضافہ ہو۔ اس بات پر سبھی مسلمان متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر دین مکمل ہو گیا اور اب اس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں ہے۔ اکثر سنی بریلوی اور بعض سنی دیوبندی حضرات (فریق اول) بعض اسے افعال بڑی پابندی سے سر انجام دیتے ہیں جس کے بارے میں اکثر دیوبندی اور اہل حدیث حضرات (فریق دوم) کا یہ نقطہ نظر ہے کہ چونکہ ان کاموں کا سراغ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہیں ملتا، اس وجہ سے یہ بدعت ہیں۔
سنی بریلوی حضرات کا نقطہ نظر:
سنی بریلوی حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ اعتقد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ حیات ظاہری نہ ہوں، بعد میں ایجاد ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی۔ بدعت اعتقادی اور بدعت عملی۔ بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے۔ عیسائی، یہودی، مجوسی اور مشرکین کے عقائد بدعت اعقائد بدعت اعتقادی نہیں کیونکہ یہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ پاک میں موجود تھے۔ نیز ان عقائد کو عیسائی وغیرہ بھی اسلامی عقائد نہیں کہتے ہیں اور جبریہ ، قدریہ، مرجیہ، چکڑالوی، غیر مقلد، دیوبندی عقائد بدعت اعتقادیہ ہیں کیونکہ یہ سب بعد کو بنے اور یہ لوگ ان کو اسلامی عقائد سمجھتے ہیں۔۔۔۔
بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد ایجاد ہوا خواہ وہ دنیاوی ہو یا دینی، خواہ صحابہ کرام کے زمانہ میں ہو یا اس کے بھی بعد۔ مرقات باب الاعتصام میں ہے: " بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو حضور علیہ السلام کے زمانہ میں نہ ہو۔" اشعۃ اللمعات میں بھی یہ ہی بات" جو کام حضور علیہ السلام کے بعد پیدا ہو، وہ بدعت ہے۔" ان دونوں عبارتوں میں نہ تو دینی کام کی قید ہے نہ زمانہ صحابہ کا لحاظ۔ جو کام بھی ہو، دینی ہو یا دنیاوی، حضور علیہ السلام کے بعد جب بھی ہو، خواہ زمانہ صحابہ میں یا اس کے بعد وہ بدعت ہے۔ ہاں عرف عام میں ایجادات صحابہ کرام کو سنت صحابہ کہتے ہیں، بدعت نہیں بولتے۔ یہ عرف ہے ورنہ خود فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت مقرر فرما کر نعمۃ البدعۃ ھذہ، یہ تو بہت ہی اچھی بدعت ہے۔
بدعت عملی دو قسم کی ہے، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت حسنہ وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو، جیسے محفل میلاد اور دینی مدارس اور نئے نئے عمدہ کھانے اور پریس میں قرآن و دینی کتب کا چھپوانا۔ اور بدعت سیئہ وہ جو کسی سنت کے خلاف ہو یا سنت کو مٹانے ولی ہو، جسے کہ غیر عربی میں خطبہ جمعہ و عیدین پڑھنایا کہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنا پڑھانا کہ اس میں خطبہ یعنی عربی میں نہ ہونا اور تبلیغ تکبیر کی سنت اٹھ جاتی ہے، یعنی بذریعہ مکبرین کے آواز پہنچانا بدعت حسنہ جائز بلکہ بعض وقت مستحب اور واجب بھی ہے اور بدعت سیئہ مکروہ تنزیہ یا مکرہ تحریمی یا حرام ہے۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مفتی صاحب کے نزدیک بدعات کی دو اقسام ہیں: اچھی اور بری بدعت۔ اچھی بدعت پر عمل اچھی بات ہے بلکہ بعض صورتوں میں فرض و واجب ہے جبکہ بری بدعتوں پر عمل بری بات ہے جو کہ مکروہ تنز یہی، تحریمی یا حرام کے درجے میں آتا ہے۔

سلفی،بعض دیوبندی اور ماورائے مسلک حضرات کا نقطہ نظر:
اس کے برعکس اہل حدیث، اکثر دیوبندی اور اکثر ماورائے مسلک حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر بدعت ، خواہ وہ اچھی ہو یا بری، غلط ہے۔ مشہور دیوبندی عالم سید سلیمان ندوی (1953-1884) لکھتے ہیں:
"سنت" کا مقابل لفظ"بدعت" ہے۔ بدعت کے لغوی معنی"نئی بات" کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس کے یہ معنی ہے کہ مذہب کے عقائد یا اعمال میں کوئی ایسی بات داخل ہو، جس کی تلقین صاحب مذہب نے نہ فرمائی ہو، اور نہ ان کے کسی حکم یا فعل سے اس کا منشاء ظاہر ہوتا ہو، اور نہ اس کی نظیر اس میں ملتی ہو۔ خود آنحضرت ﷺ اور صحابہ نے ان دو لفظوں کو انہی معنوں میں مستعمل فرمایا ہے۔۔۔ آنحضرت ﷺ دنیا میں تشریف لائے، جن عقائد کی تلقین آپ نے اپنی امت کو فرمائی، مذہب کا جو طریقہ عمل آپ  نے متعین فرمایا، اس میں باہر سے اضافہ بدعت ہے۔"
ماورائے مسلک عالم مولانا امین احسن اصلاحی (1997-1904) بیان کرتے ہیں:
بدعت نام ہے اس چیز کا کہ جو دین کی نہیں ہے، وہ دین میں لاگھسائی جائے۔ کسی چیز کے دین کی چیز ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ قرآن میں بیان ہوئی ہو۔ اگر قرآن میں نہ بیان ہوئی تو تو کسی قابل اعتماد حدیث ہی میں آئی ہو، اگر حدیث میں بھی نہ ہو تو کم از کم قیاس و اجتہاد سے یہی ثابت ہو کہ یہ بات قرآن و حدیث سے موافقت اور مناسبت ہی رکھتی ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی تعلق بھی اس کا کتاب و سنت سے ثابت نہ پایا جائے تو پھر یہ بات دین کے بات نہیں ہو سکتی۔ اگر دین کے ساتھ اس کا خواہ مخواہ جوڑ ملانے کی کوشش کی گئی تو یہ بدعت ہو گی اور اس طرح کی ہر بدعت ضلالت اور گمراہی ہے۔
اس امر کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس طرح کی کوئی بات بدعت اس صورت میں قرار پائے گی جب اس کا پیوند دین سے لگانے کی کوشش کی جائے۔ اگر دین سے اس کا جوڑ نہ ملایا جائے تو اس پر بدعت کا اطلاق نہ ہو گا۔ فرض کیجیے ایک شخص گانا سنتا ہے لیکن وہ اس بات کا مدعی نہیں ہے کہ یہ چیز دین کا کوئی جزء ہے یا معرف الہی کا کوئی ذریعہ ہے، یا شریعت سے یہ ثابت ہے تو اس کے فعل کو بدعت نہیں کہیں گے کیونکہ اس نے اس چیز کا جوڑ دین سے نہیں ملایا ہے۔ اس کو شریعت کے احکام کی روشنی میں جانچیں گے اور فیصلہ کریں گے کہ اس کا فعل جائز ہے یا نا جائز اور اگر ناجائز ہے تو کس درجہ میں ناجائز ہے تو کس درجہ میں ناجائز ہے۔ لیکن اگر وہی شخص اپنے اس گانے سننے کے متعلق یہ دعوی کر بیٹھے کہ یہ معرفت الہی کا کوئی زریعہ یا تزکیہ نفس و اصلاح باطن کا کوئی نسخہ ہے تو اس سے سوال ہو گا کہ اس نے کتاب و سنت کی کس دلیل یا ان کے کس اشارہ سے یہ بات اخذ کی ہے؟ اگر وہ کسی نص یا اشارہ کا حوالہ دے گا تو اس کی روشنی میں اس کا فیصلہ ہو گا اور اگر وہ حوالہ نہ دے سکے بلکہ محض اپنے وجدان یا ذوق یا تجربہ کو اس کی دلیل ٹھیرائے تو یہ بدعت ہو گی کیونکہ وہ دین کے حرام میں ایک ایسی چیز گھسا رہا ہے جس کے لیے اس کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔
سلفی عالم پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی بیان کرتے ہیں کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عقائد، عبادات، منہج، شریعت اور صلاحیت کے اعتبار سے بہترین حالت پر چھوڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
میں نے تمہیں روشن شریعت پر چھوڑا ہے، اس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں، چنانچہ میرے بعد صرف وہی گمراہ ہوگا جو خود ہلاک ہونا چاہے( ابن ماجہ)
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے امر سے خبردار فرمایا جو دین سے متصادم اور دینی تباہی کا باعث بنے، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:
بیشک بہترین بات کتاب اللہ ہے، اور بہترین منہج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج ہے، جبکہ خود ساختہ امور بد ترین امور میں سے ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے( مسلم)
لوگوں میں تفرقہ اور گروہ بندی صرف گمراہ کن بدعات کی وجہ سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے تابعداروں کو بدعتی لوگوں کے افکار سے بالکل بری قرار دیا، چنانچہ فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ}
بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقہ بندی کی اور کئی گروہ بن گئے آپ کسی حال میں بھی ان میں سے نہیں ہیں ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے [الأنعام : 159]
"کوئی بھی شخص کسی خود ساختہ چیز کو دین کی طرف منسوب کرے، اور دین میں اس کے اثبات کیلئے کوئی دلیل نہ ہو، تو وہ گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے، چاہے اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے یا ظاہری یا باطنی اقوال سے"
شرعاً بدعت سے مراد ہر وہ کام ہے جس کی اصل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو اور اسے اجر کی نیت سے بجالایا جائے۔چنانچہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ
’’ کُلُّ مُحْدَثةٍ بِدْعَةٌ ‘‘ [سنن أبوداؤد:۴۶۰۷]
    ’’دین میں ہر نیاایجاد کردہ کام بدعت ہے۔‘‘
یہاں یہ بات واضح رہے کہ بدعت کامفہوم سمجھنے کے لیے اس کی دینی و دنیاوی اعتبار سے تقسیم بھی ضروری ہے، کیونکہ شرعاً صرف وہ بدعت مذموم ہے جس کا تعلق دین اور عبادت سے ہو اور اگر بدعت دنیوی امور سے متعلق ہو تو پھر وہ قابل مذمت نہیں،بالفاظ دیگر ہر وہ نیا کام گمراہی ہے جس کا تعلق دین (جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج وغیرہ)سے ہو اور اگر نیا کام دنیاوی امور (جیسے جدید اسلحہ جات، ہوائی جہاز، گاڑیاں، ٹرینیں اور کمپیوٹر وغیرہ) سے متعلق ہوتو پھر مباح و جائز ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ ’’عبادات میں اصل حرمت ہے اور معاملات میں اصل اباحت ہے۔‘‘ ہے-
حضرت ابن عمر﷜ کا  قول ہے کہ
’’ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالةٌ وَإنْ رَآھَا النَّاسُ حَسَنَةً ‘‘ [تلخیص أحکام الجنائز للألبانی: ص۸۴]
    ’’ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔‘‘,,,دین اسلام میں بدعت کو گمراہی کہا گیا ہے اور جوشخص اس گمراہی میں مبتلا ہوجاتاہے وہ درحقیقت بہت سی قباحتوں میں مبتلا ہوجاتاہے۔
ارشاد نبویﷺ ہے کہ
’’ مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أمْرٍنَا ھَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ ‘‘[صحیح البخاري:۲۶۹۷]
    ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا کام ایجاد کیاجو اس میں نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
بدعت اللہ کی لعنت کا سبب ہے۔ چنانچہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ
  ’’ مَنْ أَحْدَثَ فِیْھَا حَدْثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَةٌ اﷲِ وَالْمَلَائِکَة وَالنَّاسِ أجْمَعِیْنَ‘‘[صحیح البخاري:۷۳۰۶]
    ’’اللہ تعالیٰ کسی بھی بدعتی کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں فرماتے جب تک وہ اپنی بدعت چھوڑ نہ دے۔‘‘ [صحیح الترغیب والترہیب:۵۴]
مفتی نعیمی،ڈاکٹر علی، سید سلیمان ندوی اور مولانا اصلاحی کے ان اقتباسات سے واضح ہے کہ ان سب کے نزدیک بدعت کی تعریف پر اتفاق ہے یعنی ہر وہ چیز جو دین کی کسی دلیل سے ثابت نہ ہو مگر اسے دین میں شامل کیا جائے۔ مفتی نعیمی صاحب اسے اچھی اور بری بدعت کے خانوں میں تقسیم کرتے ہیں جبکہ ڈاکٹرعلی ندوی و اصلاحی صاحبان کے نزدیک سب کی سب بدعتیں ہی بری ہیں۔ نقطہ نظر کے اس اختلاف کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متعد ایسے امور ہیں جو سنی بریلوی حضرات کے نزدیک بدعت حسنہ ہونے کے باعث اچھے اور مستحسن ہیں جبکہ سلفی اور دیگر حضرات کے نزدیک وہ بدعت ہونے کے باعث غلط ہیں۔ ان میں سے بعض اہم مسائل یہ ہیں:
. اولیاء اللہ کی قبور پر مزارات کی تعمیر کرنا-
. عید میلاد النبی ﷺ منانا-
. مرنے کے بعد رسم قل، دسواں، چالیسواں وغیرہ کرنا-
. بزرگان دین کے مزارات پر عرس منعقد کرنا
. اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا اور قبر پر آذان دینا؛
. اذان میں بنی کریم ﷺ کا اسم مبارک سننے پر انگوٹھے چومنا اور بزرگوں کے پاوں چومنا-
. نماز جنازہ کے بعد الگ سے دعا کرنا وغیرہ وغیرہ. ....
جاری ہے. ...
گروپ هذا میں شامل ہونے کیلئے اس نمبر پر رابطہ کریں:
0096176390670
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...