Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 150

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 150)
شرک کے بارے میں چند اہم مباحث:
عقیدہ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے ہم یہ لکھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کرنا شرک فی الذات' اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا شرک فی العبادت' اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی کو شریک کرنا' شرک فی الصفات کہلاتا ہے۔ شرک کے موضوع پر مزید گفتگو کر نے سے قبل درج ذیل مباحث کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
1۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کو جانتے اور مانتے تھے ہر زمانے کے مشرک اللہ تعالیٰ کو جانتے اور مانتے ہیں حتی کہ اسی کو معبود اعلیٰ اور رب ‌اکبر تسلیم کرتے ہیں اور جو کچھ کائنات میں ہے ان سب کا خالق' مالک اور رازق اسے ہی سمجھتے ہیں-
کائنات کا مدبر اور متنظم ‌بھی اسی کو مانتے ہیں جیسا کہ سورہ یونس کی درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَىِّ وَمَنْ يُّدَبِّـرُ الْاَمْرَ ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّـٰهُ
ترجمہ: ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟ کون بے جان میں سے جاندار کو جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے کون اس نظام‌ عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے'' اللہ'' (سورہ‌یونسں‌آیت‌31)
اور سورہ عنکبوت کی آیت میں ارشاد ‌باری تعالیٰ ہے۔
فَاِذَا رَكِبُوْا فِى الْفُلْكِ دَعَوُا اللّـٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الدِّيْنَۚ فَلَمَّا نَجَّاهُـمْ اِلَى الْبَـرِّ اِذَا هُـمْ يُشْرِكُـوْنَ
ترجمہ'' جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک شرک کرنے لگتے ہیں‌۔ (سورہ‌عنکبوت‌آیت 65)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشرک نہ صرف اللہ تعالیٰ کو کائنات کا مالک اور مدبر تسلیم کرتے تھے
بلکہ مشکل کشائی اور حاجت ‌روائی کے لئے اسی کو بار گاہ آخری اور بڑی با رگاہ سمجھتے تھے۔
2۔ مشرکین اپنے معبودوں کے اختیارات عطائی سمجھتے تھے شرک جنہیں اپنا مشکل کشائی اور حاجت روا سمجھتے تھے' ان کے اختیارات کو ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ سمجھتے تھے- دوران حج مشرکین جو تلبیہ ‌پڑھتے تھے اس سے مشرکین کے اس عقیدہ پر روشنی پڑتی ہے جس کے الفاظ یہ تھے۔
لبیک لا شریک لک لبیک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک
ترجمہ: اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایک تیرا شریک ہے جس کا تو ہی مالک ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں''۔ قلبیہ کے ان الفاظ سے تین باتیں بالکل واضح ہیں‌۔
اولاً‌۔ شرک اپنے ٹهہرائے ہوئے( خداؤ ں اور معبودوں‌) کا مالک اور خالق بھی رب ‌اکبر کو ہی سمجھتے تھے-
ثانیاً‌۔ مشرک یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شرکاء ذاتی حیثیت میں کسی چیز کے مالک و مختار نہیں بلکہ ان کے اختیارات اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں جس سے وہ اپنے پیروکاروں کی مشکل کشائی اور حابہت‌روائی کرتے ہیں‌۔
یاد رہے مشر کین کی تلبیہ ‌سے ظاہر ہونے والے اس عقیدہ کو رسول اکرم ﷺ نے شرک قرار دیا ہے۔
3۔ قرآن مجید کی اصطلاح من دون اللہ کیا مراد ہے؟
مشرکین میں پائے جانے والے مختلف عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ کائنات کی ہر چیز میں خدا موجود ہے یا کائنات کی مختلف اشیاء دراصل خدا کی قوت اور طاقت کے مختلف روپ اور مظاہر ہیں اس عقیدہ کو سب سے زیادہ پذیرائی مشرکین کے قدیم تدینی مذہب'' ہندو مت'' میں حاصل ہوئی جن کے ہاں سورج' چاند' ستارے' پانی' ہوا' سانپ' ہاتھی' گائے' بندر' اینٹ' پتھر ' پودے اور درخت گویا ہر چیز خدا ہی کا روپ ہے....-
1) من دون اللہ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے جن کی پوجا اور پرتش ‌کی جاتی ہے وہ دوسرے' کون ‌کون ہیں ان سطور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
جو پوجا اور پرستش کے قابل ہیں اس عقیدہ کے تحت مشرکین اپنے ہاتھوں سے پتھروں کے خیالی خوبصورت مجسمے اور بت تراشتے ہیں پھر ان کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں اور انہیں کو اپنا مشکل اور حاجت روا مانتے ہیں بعض مشرک پتھروں کو تراشتے اور کوئی شکل دیئے بغیر قدرتی شکل میں اسے نہلا دھلا کر پھول وغیرہ پہنا کر اس کے آ گے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور اس سے دعائیں فریاد کرنے لگتے ہیں‌۔ اس قسم کے تمام تراشیدہ ‌بت مجسمے' مورتیاں اور پتھر وغیرہ قرآن مجید کی اصطلاح میں'' من دون اللہ" کہلا‌تے ہیں‌۔
جاری ہے.....
طالب دعا فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...