Saturday 30 September 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#111

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

تزکیہ نفس کا ہدف : 

تزکیہ کا مطمع نظر صرف اسی قدر نہیں ہےکہ ہمارا نفس کسی نہ کسی شکل میں ٹھیک راہ پر لگ جائے بلکہ تزکیہ اس سے آگے بڑھ کر نفس کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ تزکیہ صرف اتنا ہی نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں خدا اور اس کی شریعت کا کچھ علم حاصل ہو جائے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ بھی چاہتا ہے کہ ہمیں خدا اور اس کی صفات کی سچی اور پکی معرفت حاصل ہو جائے۔ تزکیہ صرف یہی نہیں پیش نظر رکھتا ہے کہ ہماری عادتیں کسی حد تک سنور جائیں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم تمام مکارم اخلاق کے پیکر مجسم بن جائیں۔ تزکیہ صرف اتنے پر ہی قناعت نہیں کرتا کہ ہمارے جذبات میں ایک ہم آہنگی اور رابط پیدا ہو جائے بلکہ وہ اس پر مزید ہمارے جذبات کے اندر رقت و لطافت اور سوزوگداز کی مٹھاس بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا اصلی مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا نفس خدا اور اس کے رسول کے ہر حکم کو اس طرح بجا لائے جس طرح اس کے بجا لانے کا حق ہے۔ اس کا مطالبہ ہم سے صرف خدا کی بندگی ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس بات کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم خدا کی اس طرح بندگی کریں گویا ہم اسے  دیکھ رہے ہیں۔یا وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔
یعنی تزکیہ ایمان، اسلام اور احسان تینوں کے تقاضے بیک وقت ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے خدا کو اس کی تمام صفتوں کے ساتھ مانیں، پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اس کے تمام احکام کی زندگی کے ہر گوشہ میں اطاعت کریں اور پھر اس کا مطالبہ ہم سے یہ بھی ہے کہ یہ ماننا اور اطاعت کرنا محض رسمی اور ظاہری طریقہ پر نہ ہو بلکہ پورے شعور اور گہری للہیت کے ساتھ ہو جس میں ہمارے اعضاء و جوارح کے ساتھ ہمارا دل بھی پورا پورا شریک ہو۔
تزکیہ کے اس عمل میں کوئی وقفہ یا ٹھیراؤ نہیں ہے، اس سفر میں کوئی موڑ یا مقام ایسا نہیں آتا ہے جہاں پہنچ کر آدمی یہ سمجھ سکے کہ بس اب یہ آخری منزل آ گئی ہے۔یہ بہتر سے بہتر کی تلاش و جستجو ہے، اس جستجو میں نگاہ کو کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہیں ملتی جس رفتار سے اعمال و اخلاق اور ظاہر و باطن میں جلا پیدا ہوتا جاتا ہے، اسی رفتار سے مذاق(خوش طبعی اور دلچسپی) کی لطافت، حس کی ذکاوت اور آنکھوں کی بصارت بھی بڑھتی جاتی ہے۔
 
غفلت کا شکار ہونا:

غفلت ایسے "سہو" کو کہتے ہیں، جو دل پر طاری ہوتا ہے تو اسے نفع پہنچانے والی چیز کے اپنانے اور تکلیف پہنچانے والی چیز کے چھوڑنے سے اندھا کردیتا ہے ، یعنی دل میں ارادۂ خیر یا اچھائی سے لگاؤ نہ ہو تو غفلت کہلاتا ہے،
پس غفلت بہت ساری برائيوں کی جڑ ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے درمیان یہ خصلت و عادت بہت زیادہ رواج پا چکی ہے، اللہ جل و علا کا ارشاد ہے:
]وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ[
اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔(یونس 92)

مسلمان، منافق اور غیر مسلم سب میں غفلت کا مخصوص عنصر موجود ہوتا ہے،  غفلت کے باعث اللہ تعالی سے بے اعتنائی، کامل عقیدے سے محرومی، نماز ,روزہ، زکاۃ حج وغیرہ کے ثواب میں کمی، والدین کی نافرمانی، قطع تعلقی، ظلم و زیادتی، دہشت گردی الغرض تمام برائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اور اچھا کام کرنے کا ارادہ کیا جائے اور نہ ہی اچھے کاموں سے لگاؤ ہو، مزید برآں دل میں علم نافع اور عمل صالح بھی نہ ہو، یہ ٖانتہا درجے کی غفلت ہے جو کہ تباہی کا سبب ہے، ایسی غفلت کفار اور منافقین میں پائی جاتی ہے، جس سے بچاؤ اور خلاصی صرف توبہ کی صورت میں ہے، جب انسان پر ایسی غفلت غالب آ جائے تو وہ صرف گمان اور ہوس کے پیچھے ہی چلتا ہے، شیطان ان چیزوں کو مزین کر کے دکھاتا اور من مانیاں اس کے دل میں ڈال دیتا ہے، یہ ہے وہ غفلت جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے منافقوں اور کفار کو دنیا و آخرت میں سزا دی، فرمانِ باری تعالی ہے: 

{وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ} 
"بہت سے ایسے جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ ان کے دل تو ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے اور یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ [الأعراف: 179]"
جبکہ مسلمان کی غفلت یہ ہوتی ہے کہ وہ چند ایسے نیک کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن کا ترک کرنا اسلام کے منافی نہیں ہوتا ، یا ایسے گناہوں میں وہ ملوث ہو جاتا ہے جو کفریہ نہیں ہوتے، اسی طرح مسلمان گناہوں کی سزاؤں سے غافل ہو جاتا ہے۔
مسلمان کے غافل ہونے کا نقصان اور خمیازہ بہت سنگین ہوتا ہے، اس کے خطرناک نتائج تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، غفلت کی وجہ سے مسلمان کیلیے نیکی کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے فرمایا: 

{ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} 
:اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ تعالی نے انہیں ان کا اپنا من ہی بھلا دیا ، یہی لوگ فاسق ہیں۔[الحشر: 19]"

اسی طرح فرمایا: 

{نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} 
"وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ انہیں بھول گیا، بیشک منافقین فاسق ہیں۔[التوبہ: 67]"

نیز اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:

وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطاً(الکھف: 28)
دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گذر چکا ہے۔

کامل عقیدہ توحید کی معرفت سے غافل انسان کامل عقیدے سے محروم رہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ} 
"اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔ [يوسف: 106]"

جو لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان شرک نہیں کر
قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عرب کے مشرکین جو دعوت توحید کے مخاطب اوّل تھے ، وہ یہ مانتے تھے کہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق و مالک اور پروردگار صرف اللہ ہے اور وہی واحد ہستی ہے جس کے ہاتھ میں کائنات کی تدبیر اور تصرف ہے۔ لیکن اس کے باوجود قرآن نےان عربوں کو مشرک کہا۔ سوال یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود مشرک کیوں قرار پائے؟
یہی وہ نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے شرک کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مشرکین عرب نے خدا کے سوا جن ہستیوں کو معبود اور دیوتا مان رکھا تھا وہ ان کو خدا تعالیٰ کی مخلوق، اس کا محلوک اور بندہ ہی مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ چونکہ یہ لوگ اپنے اپنے وقتوں میں اللہ کے نیک بندے اور اس کے چہیتے تھے، اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں خاص مقام حاصل ہے، اس بنا پر وہ بھی کچھ اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ہم ان کی عبادت پوجا اس لئے نہیں کرتے کہ یہ خدائی اختیارات کے حامل ہیں، ہم تو ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور بطور وسیلہ اور سفارش ان کو پکارتے ہیں اور ان سے استغاثہ کرتے ہیں۔
خود قرآن کریم میں مشرکین کے یہ اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ سورہ یونس میں فرمایا گیا:
﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَضُرُّ‌هُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰٓؤُلَآءِ شُفَعَـٰٓؤُنَا عِندَ ٱللَّهِ..﴿١٨﴾...سورۃ یونس
''اور (وہ مشرکین عرب) اللہ کے سوا ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نقصان پہنچا سکے او رنہ نفع۔ او رکہتے (یہ) ہیں کہ یہ تو ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس۔''

دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوامِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ...﴿٣﴾...سورۃ الزمر
''جن لوگوں نے اللہ کے سوا اپنے حمایتی پکڑ رکھے ہیں (ان کا کہنا ہے) کہ ہم تو ان کی صرف اس واسطے عبادت کرتے ہیں کہ ہم کو یہ اللہ کے قریب پہنچا دیں۔''

بہرحال! غفلت حقیقت میں تمام برائیوں کی کنجی ہے، غفلت کی وجہ سے مسلمان بہت سے اجرو ثواب سے محروم رہ جاتا ہے، مسلمان کے اجر و ثواب میں کمی غفلت کی وجہ سے ہی آتی ہے، لہذا غفلت سے نجات میں سعادت ہے، بندگی کے اعلی درجوں تک جانے کیلیے غفلت سے دوری لازمی امر ہے،
یعنی غفلت نفس کا تزکیہ کرنے والی، اسے نفع پہنچانے والی، اسے پروان چڑھانے والی اور اس کی اصلاح کرنے والی اور اسے برائیوں سے دور رکھنے والی چیزوں سے بے پروا کر دیتی ہے۔
لہذا جسے ان عظیم آفات اور بلاؤں سے بچنے کی خواہش اور آرزو ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ غفلت سے بچاؤ کے راستے کو اپناۓ۔

شکوک و شبہات میں گرفتار ہونا:

شکوک و شبہات نفس کو اندھا کر دیتے ہیں جس سے انسان گمراہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یاد رکھیے کہ شبہ ایک تباہ کن اور خطرناک مرض ہے جو آدمی سے ایمان کی لذت و چاشنی کو ختم کر دیتا ہے۔ اور شیطان کے وسوسوں کو بڑھاوا دیتا ہے اور اس کے شکار شخص کو قرآن و سنت سے نفع اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۔(آل عمران 7)
"پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے۔"

پس وہ لوگ اللہ تعالی کی کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کیونکہ وہ کتاب و سنت میں ہدایت کی طلب کے لیے نظر نہیں ڈالتے، بلکہ وہ تو لوگوں کو شک و شبہ میں ڈالنے اور گمراہ کرنے اور تشبیہ و تمثیل میں مبتلا کردینے کے لیے کتاب و سنت کو استعمال کرتے ہیں، اور یہ چیزین بتلاتی ہیں کہ شبہ اور شبہ پیدا کرنے والوں سے بچنا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ نفس پر شکوک و شبہات وارد ہوتے رہتے ہیں یہات تک کہ اسے ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈال دیتے ہیں چنانچہ اس کا آخری انجام یا تو کفر ہوتا ہے یا نفاق۔اور شکوک و شبہات کی ہی وجہ سے ملحدین انحراف کا شکار ہوئے ۔جو کہ ہمارا اصل  موضوع زیر بحث ہے۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ اہل شبہات ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح سے مومن کو اس کے دین اور ان چیزوں کے متعلق جن کی خبر اللہ نے اپنے رسول کو دی ہے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیں، اور ان کی تگ و دو یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مخالفت کو اپنی فاسد آراء، بے بنیاد شبہات اور جھوٹے خیالات کے ذریعہ نہایت بنا سنوار کے پیش کریں، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
]فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْراً لَهُمْ[
"تو اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے رہیں تو ان کے لیے بہتری ہے۔"(محمد 21)

آخرت سے  غفلت:

یقینا آخرت سے غفلت و لاپرواہی ہر خیر اور نیکی سے روک دیتی ہے، اور ہر شر اور فنتہ کو کھینچ لاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا:

مسلم 976
((زوروا القبور فإنها تذكركم الموت))
تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاۓ گی۔ اور ابن ماجہ کی روایت ہے:

ابن ماجہ 1571
((فإنها تزهد في الدنيا، وتذكر الآخرة))
یہ تمہیں دنیا سے بے رعبت کرے گی اور آخرت کی یاد دلاۓ گی۔

چنانچہ نفس کے تزکیہ  کے لیے قبروں کی زیارت اور موت و آخرت کی یاد سے زیادہ نفع بخش کوئی اور چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں شہوتوں کو جڑ سے کاٹ دینے والی اور غفلتوں سے بیدار کرنے والی ہیں، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لذتوں کو جڑ سے کاٹ دینے والی چیز یعنی موت کو بہ کثرت یاد کرنے کا حکم دیا ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ فی زمانہ زائرین کی اکثریت مقصد اولیٰ یعنی خشیت کو پسِ پشت ڈال چکی ہے۔ ۔۔۔بعض درگاہوں اور مزارات پر عام دنوں میں بالعموم اور اعراس کے مواقع پر بالخصوص ناچ گانے بھنگڑے دھمال،خرید و فروخت اور دیگر خرافات کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے۔۔۔ان اعمال غیر شرعیہ کا ارتکاب قطعاً ناجائز اور نامناسب ہے۔
بلکہ وہاں کے حالات سے تو یہ کہنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دین وایمان کے تحفظ کی خاطر موجودہ حالات میں مردوں و عورت کے لئے بھی وہاں جانا غیر شرعی ہے ؛ کیونکہ اس مقام سے عبرت وموعظت تو درکنار وہاں کے خرافات سے بچنا مشکل ہے ، اور شریعت کا مزاج ہے کہ معصیت کی جگہوں سے دوری اختیار کی جائے۔رہی بات فکر آخرت اور موعظت وعبرت اور اپنی موت کی یاد کی تو یہ عام قبرستان سے توحاصل ہوسکتا ہے جہاں کی ویرانگی اورقبروں کی بوسیدگی انسانی قلب کو جھنجھوڑتی ہے ،مگر موجودہ عالی شان درگاہوں اور مزاروں سے تو عبرت اور فکر آخرت اور موت کی یاد نہیں آتی ،بلکہ انسان وہاں کی خرافات اورشور وہنگامہ میں خود اپنی موت کو بھول جاتا ہے، اور وہاں کی بدعات اورغیر شرعی اعمال میں مبتلا ہوکر دین وایمان کو بھی ضائع کرلیتا ہے۔

اللہ تعالی سے دعا اور بہ کثرت سوال کرنا:

دُعا کے معنی اور تعریف
فرھنگ آصفیہ میں دُعا کے لغوی معنی’’ حاجت، درخواست، التجا، استدعا، التماس، عرض، ارداس، وظیفہ، مناجات، مغفرت کی طلب ‘‘ بیان کیے گئے ہیں۔ جامعہ پنجاب کے شائع کردہ ’’اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ‘‘ میں دُعا کے لغوی معنی’’ بلانا، پکارنہ، منسوب کرنا، عبادت کرنا اور مدد طلب کرنے ‘‘ کے ہیں ۔ لفظ دُعا نام رکھنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے جیسے’’ دَعَوت ْاِبنی 
صائم‘‘ یعنی میں نے اپنے بیٹے کا نام ’صائم‘ رکھا۔دعا کے اصطلاحی معنی پروردگار سے اپنے یا کسی اور کے لیے استمداد و استغاثہ ہے۔

دُعا کی عظمت قر آن کریم کی روشنی میں
دُعا کے بارے میں قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے متعدد جگہ ہدایت دی ان آیات مبارکہ سے دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ سورۃ البقریٰ ۲، آیت ۱۸۶ میں ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:
’’وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِباَدِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاِ ج اِذَدَعَانِ لا فَلْیَستَجِیْبُوْ الِیْ وَلْیُؤْ مِنُوْ ا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ں 
ترجمہ : ’’ اور( اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہُوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہُوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں‘‘۔قرآن مجید کی سورۃ الا عراف۷ ،آیت ،۵۵، ۵۶ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے۔

اُدْعُوْ ارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ج وَلَاتُفْسِدُوْ ا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَا حِھَا وَدْعُوْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اﷲِ قَرِیْبُٗ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ں (سورۃ الا عراف۷ ،آیت ،۵۵، ۵۶)
ترجمہ: لوگوں اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ ’’اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خداسے خوف کرتے ہوئے اور اُمید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے‘‘۔ اسی سورۃ مبارکہ کی آیت ۲۰۵ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّ عًا خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰ صَا لِ وَلَاتَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ں 
تر جمہ: اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا ۔

حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دعَا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے ۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے بطور دلیل قرآن کریم کی سورۃ ’المؤمن ‘ (۴۰) آیت ۶۰ کی تلاوت فرمائی ( وَقَالَ رَبُّکُمُادْعُوْنیِْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ْ) ، تر جمہ ’’ اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرومیں تمہاری دعا قبول کرونگا‘‘۔(مسند احمد، جامع ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، النسائی)

حدیث مبارک جامعہ ترمذی ، سنن ابی داؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں نقل کی گئی ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ دعا عین عبادت ہے ‘‘ اور حدیث مبارک حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے جس میں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)

حضر جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
ایک اور حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مردی ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اﷲ سے اس کا فضل مانگو یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و کرم فر مائے، کیونکہ اﷲ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں ‘‘ اور فرما یا کہ ’’ اﷲ تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فر مائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ‘‘ (جامع ترمذی)

دُعا ﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے ، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے ، اپنے گناہوں کی معافی طلب کر تا ہے ، بخشش کی درخواست کرتا ہے ،نفس کے شر سے پناہ مانگتا ہے۔
اس لیے کہ دعا دلوں کی اصلاح کے ابواب میں سے ایک عظیم باب ہے، اللہ جل و علا کا ارشاد ہے:

الانعام43
]فَلَوْلا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[
:سو جب ان کہ ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیا ر کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگۓ اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا۔"

شہوات کی پیروی کرنا اور گناہوں کا ارتکاب کرنا:

شہوات اور گناہ و برائیاں انسان کے نفس کو فاسد اور ہلاک و برباد کرنے کی عظیم ترین اسباب میں سے ہیں۔ اللہ تعالی نے شہوتوں کی محبت اور ان کی اتباع کے نتیجہ میں جو اثر مرتب ہوتا ہے اسے بیان کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا:

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلا تَذَكَّرُونَ۔( الجاثیہ 23)
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کو ہدایت دے سکتا ہے؟ کی اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے۔

قارئین  غور و فکر کرو! کہ کس طرح شہوتوں کی پیروی دل پر مہر لگنے کا سبب بن گئ پھر تم نظر ڈالو اور سوچو اور غور و فکر کرو اور گہرائی میں ذرا اتر کر تدبر سے کام لو کہ کس طرح سے اس مہر اور دل پر پڑے ہوۓ پردے کا اثر جسم کے تمام حصوں تک سرایت کر گیا۔

پس اے وہ شخص جو اپنے نفس کی سلامتی چاہتا ہے تو اپنے نفس کو شہوت کے مرض سے بچا، کیونکہ یہ مرض ہلاکتوں اور تباہیوں کے گڑھے میں گرانے والا ہے، اللہ جل و علا کا فرمان ہے:
المطففین 14
كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ۔
یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إلاَّ خَسَاراً:(اسراء:82)
یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لیے تو سراسر شفا اور رحمت ہے، ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئ زیادتی نہیں ہوتی۔

پس یہ قرآن اس شخص کے لیے سب سے مؤثر اور بلیغ ترین موعظت و نصیحت ہے جو صاحب دل ہے اور جو دل سے متوجہ ہو کر کان لگاۓ اور وہ حاضر ہو، اور اللہ کی قسم! یہ قرآن ان آفات و امراض کے لیے جو دلوں اور سینوں میں موجود ہیں سب

دواؤں سے بڑھ کر نفع بخش دوا ہے، اس میں شہوات اور خواہشات نفس کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور اس میں تمام شکوک و شبہات کی بیماریوں کے لیے بہتریں علاج وشفا ہے۔ نیز اس میں خواب غفلت میں پڑے ہوۓ لوگوں کے دلوں کو بیدار کرنے کے لیے بہترین نسخہ الہی ہے۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" دلوں کی جملہ بیماریوں اور روگوں کا نچوڑ دراصل شبہات اور شہوات کی بیماریاں ہے، اور قرآن دونوں قسم کی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ اس میں ایسی روشن دلیلیں اور قطعی براہین ہیں جو حق کو باطل سے بالکل واضح کردیتی ہیں جن سے شبہ کا تمام روگ اور مرض ختم ہو جاتا ہے ، اور رہی بات شہوات اور خواہشات نفس کے روگ اور مرض کے لیے شفا و علاج کامل ہونے کی، تو وہ اس طرح کہ اس میں حکمت اور موعظت حسنہ یعنی دل پذیر نصیحت ہے اور اس میں دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی ترغیب کی چیزیں بدرجہ اتم موجود ہیں"۔

ہر وہ شخص جو اپنے نفس کی اصلاح کی رغبت رکھتا ہے اس کے لیے اس بات کی آگاہی حاصل کرنا نہایت اہم ہے کہ قرآن کریم سے شفا حاصل کرنا صرف اس کی تلاوت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن میں تدبر کرے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے احکام کی مکمل پابندی و تابعداری کرے۔"جاری ہے۔۔۔

اس سے متعلقہ سابقہ قسط کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_17.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_23.html

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/09/blog-post_30.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...