Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 164

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر164)
قارئین کرام ! یہ تھے امت مسلمہ کے معروف مفسرین جن کی زبانی آپ نے اس آیت  کریمہ کی تفسیر ملاحظہ فرما لی ہے۔سب نے بالاتفاق وسیلے سے ذاتی نیک اعمال مراد لیے ہیں۔ کسی بھی تفسیر میں اس آیت کریمہ سے دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دینے کا اثبات نہیں کیا گیا۔ حیرانی تو یہ ہے کہ ہمارے جو بھائی فروعی مسائل میں تقلید شخصی کے لازم ہونے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم ازخود قرآن وسنت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے، وہی عقیدے کے اس مسئلے میں سب مفسرین کو ”بائی پاس“ کرتے ہوئے خود مفسر قرآن بن کر آیت مبارکہ کا ایسا بدعی اور خود ساختہ مفہوم لیتے ہیں جو اسلاف امت میں سے کسی نے بیان نہیں کیا۔ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ سے دعا میں فوت شدہ نیک لوگوں کی ذات یا اعمال کا وسیلہ پیش کرنے کا جواز قطعاً ثابت نہیں ہوتا، بلکہ یہ آیت تو علی الاعلان اس کی نفی کر رہی ہے، جیسا کہ :علامہ فخرالدین رازی (م : ۵۴۴۔ ۶۰۶ ھ) لکھتے ہیں :إنه تعالیٰ حكي عنھم، أنھم قالوا : ﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ﴾ (المائدة 18:5) أي : نحن أبناء أنبياء الله، فكان افتخار ھم بأعمال آبائھم، فقال تعالیٰ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ليكن مفاخرتكم بأعمالكم، لا بشرف آبائكم وأسلافكم، ﴿فاتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾۔”اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ : ﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ﴾ (المائدة 18:5) ”ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں“، یعنی یہود و نصاریٰ اس بات پر خوش ہوتے رہتے تھے کہ وہ انبیائے کرام کے بیٹے ہیں۔ وہ اپنے آباء و اجداد کے اعمال پر فخر کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایمان والو! اپنے آباء و اسلاف کے شرف پر فخر نہ کرو، بلکہ اپنے ذاتی اعمال ہی پر نظر رکھو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کا قرب تلاش کرو۔“ (مفاتيح الغيب : 349/11)معلوم ہوا کہ نیک بزرگوں کی شخصیات اور اسلاف امت کے اعمال کو اپنی نجات کے لیے وسیلہ بنانا یہود و نصاریٰ کی روش تھی جسے ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، لیکن داد دیجیے اس جرأت کی کہ بعض لوگ آج اسی آیت کریمہ سے فوت شدہ صالحین کا توسل ثابت کر رہے ہیں۔ العیاذباللہ !

دلیل نمبر ۲

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ (الإسراء 57:17 )”یہ لوگ جنہیں مشرکین پکارتے ہیں، یہ تو اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔“امام المفسرین، علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ (م : ۲۲۴۔ ۳۱۰ھ) اس آیت کریمہ کی تفسیر یوں فرماتے ہیں : يقول تعالیٰ ذكره : ھؤلاء الّذين يدعوھم ھؤلاء المشركون أرباباً ﴿يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ ، يقول : يبتعي المدعوّون أرباباً إلي ربھم القربة والزلفة لأنّھم أھل إيمان به، والمشركون بالله يعبدونھم من دون الله’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن ( نیک ) لوگوں کو مشرکین اپنے ربّ سمجھے بیٹھے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں، یعنی وہ نیک لوگ اپنے ربّ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح کہ وہ اللہ کے ساتھ ایمان لاتے ہیں،جبکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (جامع البيان في تأويل القرآن : 471/17)علامہ ابواللیث نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم سمرقندی رحمہ اللہ (م : ۳۷۳ھ) لکھتے ہیں : ﴿يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ يقول : يطلبون إلي ربھم القربة والفضيلة والكرامة بالأعمال الصالحة”یہ نیک لوگ اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں،یعنی وہ نیک اعمال کے ذریعے اپنے ربّ کا قرب، اس کے ہاں فضیلت اور کرامت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“ (بحرالعلوم : 317/2 )معروف مفسر قرآن، حافظ ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی فرماتے (م : ۶۷۱ھ) فرماتے ہیں : و ﴿يَبْتَغُونَ﴾ يطلبون من الله الزلفة والقربة، ويتضرعون إلي الله تعالیٰ في طلب الجنة، وھي الوسيلة”وہ نیک لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے جنت کی طلب کے لیے بڑی گریہ و زاری سے کام لیتے هیں، یہی وسیلہ ہے۔“ (الجامع لأحكام القرآن : 279/10 )علامہ ابوسعید عبداللہ بن عمر شیرازی بیضاوی (م : ۶۸۵ھ) لکھتے ہیں :﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ ، ھولاء الآلھة يبتغون إلي الله القرابة بالطاعة”فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾ ”یہ لوگ جنہیں مشرکین پکارتے ہیں، یہ تو اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں“، یعنی یہ نیک لوگ اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔“مشہور تفسیر ’’جلالین‘‘ میں اس آیت کی تفسیر یوں کی گئی ہے:يطلبون إلي ربھم الوسيلة، القربة بالطاعة”وہ نیک لوگ (جنہیں مشرکین اپنے معبود سمجھے بیٹھے ہیں ) اپنے ربّ کی طرف وسیلہ بناتے ہیں، یعنی نیک اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔“(تفسير الجلالين : 372)علامہ ابوالقاسم محمود بن عمرو زمخشری (م : ۵۳۸ھ) کی طرف سے اس آیت کی تفسیر یہ ہے: ضمن يبتغون الوسيلة معني يحرصون، فكانه قيل : يحرصون أيھم يكون أقرب إلى الله، وذلك بالطاعة، وازدياد الخير والصلاح”وسیلہ تلاش کرنے میں حرص و طمع کا معنی ہے، گویا کہ یوں کہا گیا ہے: وہ اس حرص میں ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل ہو جائے۔ اور یہ قرب اطاعت الٰہی اور خیر و بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھنے سے ملتا ہے۔“
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (م : ۱۳۵۲ھ) کہتے ہیں : أما وقله تعالیٰ : ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ، فذلك وإن اقتضى ابتغاء واسطة، لكن لا حجة فيه على التوسل المعروف، بالأسماء فقط، وذھب ابن تيمية إلي تحريمه، وأجازه صاحب الدرالمختار، ولكن لم يأت بنقل عن السلف”فرمانِ باری تعالیٰ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾اگرچہ کسی وسیلے کی تلاش کا متقاضی ہے لیکن اس آیت کریمہ میں ہمارے ہاں رائج ناموں کے توسل کی کوئی دلیل نہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں،جبکہ صاحب درمختار نے اسے جائز قرار دیا ہے، البتہ انہوں نے اس بارے میں سلف سے کوئی روایت بیان نہیں کی۔“ (فيض الباري : 434/3)جناب کشمیری صاحب کو اعتراف ہے کہ متاخرین احناف کا اختیار کردہ وسیلہ سلف سے منقول نہیں۔کسی ثقہ امام نے اس آیت کریمہ سے توسل بالاموات یا توسل بالذوات کا نظریہ ثابت نہیں کیا۔ قرآن مجید کی وہی تفسیر و تعبیر معتبر ہے جو سلف سے منقول ہے۔ اس کے علاوہ سب کچھ فضول ہے۔ صاحب درمختار کا سلف صالحین کی مخالفت میں اسے جائز قرار دینا درست نہیں۔اسلاف امت میں سے کسی نے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی کسی فوت شدہ شخصیت کا وسیلہ پیش نہیں کیا۔
لیکن آج بعض لوگ انہی کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کو وسیلہ پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی گنگا الٹی بہتی ہے-
 دليل نمبر ۳
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ (النساء 64:4)”اور (اےنبی !) اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو آپ کے پاس آئیں، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے۔“تبصرہ : اس آیت مبارکہ سے تو یہ ثابت ہو رہا ہےکہ گناہ گار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ خود اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کی سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا۔ ہم بتا چکے ہیں کہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا تو مشروع وسیلہ ہے۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں فوت شدگان کا وسیلہ پیش کرنے سے متعلق کوئی دلیل نہیں۔ یہ آیت کریمہ تو ہماری دلیل ہے جو وسیلہ کی مشروع صورت پر مبنی ہے، نہ کہ ان لوگوں کی جو وسیلہ ’’بالذوات و بالاموات ‘‘ کے قائل و فاعل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والا یہ معاملہ تو آپ کی زندگی تک محدود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابہ، تابعی یا ثقہ امام نے آپ کی قبر مبارک پر آ کر آپ سے سفارش کرنے کی درخواست نہیں کی۔ صدیوں بعد بعض لوگوں نے یہ بدعت گھڑلی اور اس کے ثبوت پیش کرنے کے لیے قرآن کریم میں تحریف معنوی شروع کر دی۔ان کی کارروائی ملاحظہ ہو:(1) ابن حجر ہیتمی (م : ۹۰۹۔ ۹۷۴ ھ) اس آیت کے متعلق کہتے ہیں : دلت على حث الأمة على المجيء إليه صلى الله عليه وسلم، والاستغفار عنده والاستغفار لهم، وهذا لا ينقطع بموته، ودلت أيضا علي تعليق وجدانھم الله توابا رحيما بمجيئھم، واستغفار ھم، واستغفار الرسول لھم”یہ آیت کریمہ امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ کے پاس آ کر استغفار کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں۔ یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے منقطع نہیں ہوا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ آپ کے پاس آئیں گے، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تو ہی اللہ ان کی توبہ قبول کر کے ان پر رحم فرمائے گا۔“ (الجوھر المنظم، ص : 12 )(2) حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے آداب کے ضمن میں لکھا ہے:ويبلغه سلام من أوصاه، فيقول : السلام عليك يا رسول الله ! من فلان بن فلان، يستشفع بك إلی ربك، فاشفع له ولجميع المسليمن” (قبرمبارک کی زیارت کےلیےآنےوالا) آپ کو سلام بھیجنے والے کا سلام پہنچاتے ہوئے کہے: یا رسول اللہ ! یہ فلاں بن فلاں کی طرف سے ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں آپ کی سفارش کا طلب گار ہے۔ آپ اس کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے سفارش فرما دیجیے۔“ (الفتاوي الھندية المعروف به فتاوي عالمگيري : 282/1، طبع مصر)(3) دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب محمدقاسم نانوتوی (م : ۱۲۴۸۔ ۱۲۹۷ ھ) اس آیت کریمہ کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :”کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں، آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو، آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں۔“ ( آب حیات، ص : 40)(4) جناب ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی (م : ۱۳۹ ھ) لکھتے ہیں : فثبت أن حكم الآية باق بعد وفاته صلي الله عليه وسلم”ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے۔“ (إعلاء السنن 330/10 )(5) علی بن عبدالکافی سبکی (م : ۶۸۳۔۷۵۶ھ) بھی لکھتے ہیں : ”کہ یہ آیت اس بارے میں صریح ہے۔“ (شفاء السقام، ص : 128)(6) علی بن عبداللہ بن احمد سمہودی (م :۸۴۴۔ ۹۱۱ ھ) نے لکھا ہے: والعلماء فھموا من الآية العموم بحالتي الموت والحياة، واستحبوا لمن أتي القبر أن يتلوھا ويستغفر الله تعالیٰ، وحكاية الأعرابي في ذلك تقلھا جماعة من الأئمة عن العتبي ”علماء نے اس آیت سے موت اور زندگی دونوں حالتوں کا عموم سمجھا ہے اور انہوں نے قبر مبارک پر جا کر اس آیت کی تلاوت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بدوی والی حکایت کو ائمہ کی ایک جماعت نے عتبي سےنقل کیا ہے۔“ (وفاء الوفا: 411/2)سلف صالحین میں سے تو کوئی بھی ایسا نہیں کہتا، بعد کے لوگوں کی تفسیر، فہم دین میں کوئی مقام نہیں رکھتی۔ سلف میں کون سے علماء نے اس آیت سے وفات نبوی کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرانے کا فہم لیا ہے؟
جاری ہے.... ..

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...