Thursday 30 November 2017

*واٹس اپ پر"لکھاری"مجتمع میں خوش آمدید*

*واٹس اپ پر"لکھاری"مجتمع میں خوش آمدید*

پاکستان کے معروف ممتاز عالم دین مصنف و مولف استاد المحترم فضیلتہ الشیخ ابراہیم بن بشیر الحسینوی (حفظہ اللہ) صاحب
رئیس: ابن حنبل انٹرنیشنل ٹرسٹ(قصور)
کو واٹس اپ پر "لکھاری" مجتمع میں ہم دل کی تھاہ گہرائیوں سے خیر مقدم کرتے ہیں۔

موصوف علم و فضل،علوم و فنون،تدریس و تحقیق ذوق کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران واماثل میں ممتاز ہیں ـ یعنی معقول اور منقول تدریسی علوم میں یکسان عبور و دسترس ہے۔ 
موصوف تدریسی و تصنیفی مصروفیات کے باوصف سب کو اپنے علم کے چشمہ صافی سیراب فرماتے ہیں ـ

اب"لکھاری" مجتمع میں مضمون نویسی کے حوالہ قارئین کے شیخ موصوف برائے راست سوال و استفسار کے جواب مرحمت فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ

مجتمع کا مقصد: قدرت نے ہر انسان کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ اپنے خیال کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔کیونکہ لفظوں کی اس سلطنت پر مخصوص انسانوں کی حکمرانی نہیں بلکہ تمام انسانیت کی میراث ہے۔زیرِ نظر سلسلہ خیالات اور لفظوں کے اسی استعمال اور تیکنیکس کا احاطہ کرنے کی ایک ادنی کاوش ہے کہ خیال اگر ہر انسان کی میراث ہے تو اس کا اظہار کیوں نہیں؟؟
اہل علم اپنے خیالات اور لفظوں ہی کی بدولت آج ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں کہ خیال کی بے لگام طاقت ٹائم اینڈ سپیس جیسے کسی اصول کی پابند نہیں۔
اگر انسانی زندگی خیال کے تانے بانے پر قائم ہے تو بنا لفظوں کے ان خیالات کی حیثیت ایک جوہڑ سے زیادہ نہیں جس کا پانی اس لئے آلودہ رہتا ہے کہ اسے بہنے کا راستہ نہیں ملتا۔

مجتمع میں شامل ہونے کے لنک یا موبائل نمبر فالو کریں ۔
https://chat.whatsapp.com/GylY0bxy8DUDbsBvfi3GUF

00923462115913

مجتمع ایڈمن:عمران شہزاد تارڑ

زیر اہتمام فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Wednesday 22 November 2017

*اندھی عقیدت اور مسلم معاشرہ*

بہت جلد آر رہا ہے۔۔۔۔

*اندھی عقیدت اور مسلم معاشرہ*

آنے والی آرٹیکل کی چند جھلکیاں باقی تفصیلات مکمل آرٹیکل میں پڑھیں!

قبل مسیح کے یونان میں دیوتاؤں کا راج تھا۔ یہ سب غیر حقیقی کردار ہوا کرتے تھے۔ اُن کی عبادت کی جاتی اور بڑی بڑی عبادت گاہیں تعمیر کر کے اُن میں اِن دیوتاؤں کے مجسمے رکھے جاتے۔ یونانی کبھی کبھار کسی غیر معمولی انسان کو بھی دیوتا کے درجے پر پہنچا دیا کرتے۔

وقت کا پہیہ گھوما اور دیوتاؤں یا مذہبی شخصیات پر عیاشی، شراب اور جنس حرام ٹھہری۔ مذہب جیسا طاقتور جذبہ بھی بعض اوقات انسانی فطرت کو بدلنے میں ناکام رہتا ہے چنانچہ ہزارہا سال کے عمل تطہیر کے بعد بھی تمام مذاہب میں ڈیانوسس دیوتا کی خوبیوں سے لبریز مذہبی شخصیات تواتر سے آتی رہی ہیں اور ڈرامہ بھی ہوتا ہی رہا۔ تمام مذاہب میں گناہ و جزا کا تصور مضبوط تر ہونے کے باوجود ایسے افراد آتے رہے جو اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر مذکورہ بالا کارروائیاں کرتے رہے۔ کچھ اُموی، عباسی، عثمانی اور مغل فرمانروا کردار میں کیا ڈیانوسس سے کم تھے؟
پھر خانقاہی دور آیا۔ اسلام نے ابتدا میں رہبانیت کی سختی سے تردید کی تھی اور اپنے پیروکاروں کو معاشرتی دھارے میں شامل رہ کر عبادات کا حکم دیا تھا، بہت کم عرصہ تک جاری رہ سکا۔ اس میں کچھ ایسے افراد اُبھر آئے جنہوں نے مذہبی احکامات کے متوازی ایک نظام بنا ڈالا۔ اس نظام میں راگ کی گنجائش بھی تھی اور تاریک الدنیا ہونے کی بھی۔ انہیں صوفیا کہا جانے لگا۔

وقت کا پہیہ پھر گھوما اور یہ خانقاہی نظام جو صدیوں کی محنت و ریاضت سے وجود میں آیا تھا اور شریعت و معاشرت کے درمیان ایک توازن قائم کر چکا تھا۔ نااہل، موقع پرست جاگیر داروں اور دولت کے پجارویوں کے ہتھے چڑھ گیا۔
ان لوگوں نے صوفیا کی قبروں کی مجاوری سنبھال لی، گدی نشین ،مخدوم اور پیر ذادے بن گئے اور اس کے پردے میں وہ سب ڈرامہ شروع کر دیا جو کبھی ڈیانوسس دیوتا ویرانوں میں کیا کرتا تھا۔

لیکن جب آستانوں کی باہمی رقابت شروع ہوئی تو حالات ایک نئی نہج پر چلنا شروع ہو گئے پیران کرام کی ایک فوج ظفر موج سامنے آگئی۔ ویرانوں میں بنے آستانے خواتین کی عصمت دری، فقیری بوٹی، بھنگ، چرس اور کبھی شراب کے بڑے ٹھکانے بن گئے۔ اس طرح ایک بدعت و خرافات کا ایک لمبا بازار گرم ہوتا چلا گیا جس کی تفصیلات مکمل مضمون میں پڑھیں ۔۔
سو فیصد ایسا بھی نہیں لیکن سوائے چند کے یہ آستانے ان قباحتوں میں سے کسی نہ کسی سے ضرور جڑے ہوتے ہیں۔ سادہ لوح اور اندھی عقیدت میں گوندھے خواتین و حضرات کی آواز وہیں دفن ہو جایا کرتی تھی اور ہے۔

وقت کا پہیہ اور گھوما۔ اب عقیدت کے آبگینے کچھ باشعور ہو گئے لیکن بنیادی فطرت اور خوف کی تلوار سر پر ہی رہی۔ خوف جو گناہ سرزد ہونے پر ضمیر کو خلش کے کچوکے لگاتا ہے۔ اب عقیدت مند گناہ جھاڑنے کے لیے اُدھر رُخ کرنے لگے۔ گناہ جو محض پیسوں اور کبھی کبھار عصمت کے سودے پر ہی جھڑ سکتے ہیں۔ پیران و مریدین نے مل کر عقیدت مندوں پر نذر نیاز کی اہمیت ثابت کر دی۔اس طرح کل کے ککھ پتی گدی نشین اور مخدوم آج کے لکھ پتی بنتے چلے گے اس کی تفصیلات بھی مکمل مضمون میں ہی پڑھیں ۔

پھر وقت کا پہیہ آج کے دور تک پہنچا۔ اب بات خلاؤں کے پار بھی جا پہنچی۔ انٹرنیٹ اور میڈیا نے لوگوں کے اذہان کی نئی پرتیں کھول دیں۔ لیکن عقیدت کے اندھے آبگینے جوں کے توں رہے۔ ذرا بھر فرق ضرور آیا لیکن اُس ذرا بھر فرق کے نہاں خانوں میں بھی خوف کا شائبہ باقی ہے۔

اور رہی بات سچے متقین ولی اللہ حضرات کی
تو اولیاء اللہ اور ان کے کارنامے اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کی شہرت و عظمت کئی صدیوں پر محیط ہے۔
دنیا سے رخصت ہوئے ، توچند سکے ان کی ملکیت میں تھے ،مگر ان کی یاد میں آنسو بہانے والوں کا ہجوم تھا ، ان کے کارناموں سے متأثر ہونے والے افراد بے شمار تھے۔دولت و شہرت عزت و ناموس کے حریص نہیں تھے ،دولت کا انبار نہیں لگاتے تھے۔عوام کا استحصال نہیں کرتے تھے۔ دھوکہ ان کی سرشت میں شامل نہیں تھا۔

باشعور ، باعقل اور باغیرت بندہ جو عورتوں کو اپنی عصمتوں کو گھر کی چاردیواری سے باہر نکالتے ہوئے شرماتا ہے ان کے معاشرتی حقوق سلب کر دیتا ہے ۔ صرف اس لیے کہ اس کی ماں ،بہن ، بیٹی پر کسی کی بری نظر نہ پڑے وہی مرد اپنی عورتوں کو اپنی عزتوں اور عصمتوں کو ایسے ہوس کے پجاریوں کے ہاتھوں میں خود جا کر سونپ دیتے ہیں کسی بھی اللہ کے نیک بندے کی تعلیمات میں اس کے طرزتخاطب ، طرزگفتاراور طرز معاشرت میں کہیں بھی ایسی بے ہودہ اور بے دین باتوں کا یا اعمال کا ذکر نہیں کہ عورتوں کو پانی کے تالاب سے شفا ملتی ہو یا کوئی روحانی بزرگ ایک نامحرم عورت کو گلے لگا کر دین و دنیا میں کامیاب و کامران کرتا ہو۔ اور عقل و فہم اس کو قبول کرے۔ یہ ہماری اندھی عقیدت اور دین سے مایوسی اور دوری کی نشانی ہے کہ ہم جانتے بوجھتے ایسے عاملوں ، جادوگروں ٹھگوں پیروں گدی نشینوں اور شعبدہ بازوں سے وہ کچھ مانگنے نکل پڑتے ہیں جو ہم خود صدق لب اللہ سبحانہ وتعالی سے مانگیں تو زیادہ آسانی سے مل سکتا ہے ۔
جعلی عاملوں اور پیروں فقیروں کی شکل میں معاشرے کا یہ مکروہ چہرہ کتنے بڑے معاشرتی مذہبی ، اخلاقی اور قانونی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ اس کی سرکوبی بے حد ضروری ہے ۔ بے راہ روی ، گمراہی اور جہالت کو فروغ دینے والے عناصر کا قلع قمع بے حد ضرور ی ہے اور ساتھ سب سے قابل ذکر اور اہم اقدام خود کو سنوارنا ،اپنے دین ، مذہب ، معاشرے ، اقتدار کو سمجھنا اور اپنے خاندان اور معاشرے کو اس جعلی خانقاہی نظام سے دور رکھنا ہے ۔ حکومت کا ہر برائی سے آنکھیں میچ لینا تو کوئی نئی بات نہیں کیونکہ حکمرانوں کو کرپشن ، پیسہ اور کرسی اقتدار کے علاوہ شاید ہی کسی کام سے غرض ہو ، ہرفرد کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا ، اچھے برے کی پہچان کرنی ہو گی اور حقیقی اللہ کے نیک بندوں اور بزرگوں کی پہچان کرنی ہو گی ، خود کو کم از کم اس حد باشعور کرنا ہوگا کہ اچھے برے کی پہچان کر کے اپنے خاندان اور اقرباء کو ایسی گمراہ کن برائیوں سے بچایا جا سکے ۔
ہماری اس ادنی سی کاوش کا حصہ بن کر اپنے بھٹکے ہوئے بھائیوں کی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔
ہمارا یہ آرٹیکل جو عنقریب مکمل پوسٹ کر دیا جائے گا اسے اپنے دوست آحباب تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

(مولف عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
واٹس اپ:00923462115913
www.dawatetohid.blogspot.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

غیبت کی اقسام و اسباب اور علاج

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)'قسط نمبر:124'

غیبت کی اقسام و اسباب اور علاج

غیبت ایک ایسا گناہ ہے جو ہماری مجلسوں اور ہمارے معاشرے پر چھا چکی ہے۔
معاشرے کا بیش تر حصہ بلا تفریق مرد و زن کے اس بیماری و اخلاقی برائی میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ عورتوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا تھا کہ یہ غیبت و چغل خوری کرنے ، رائی کا پہاڑ بنانے ، بات کا بتنگڑ بنانے ، ایک کے ساتھ دس لگانے اور اپنی غیبت و چغل خوری کا ماہرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گھروں میں فساد کروانے اور خاندانوں میں پھوٹ ڈلوانے میں یہ یدطولیٰ رکھتی تھیں ، لیکن اگر ہم اپنے گردوپیش کا بنظر غائر جائزہ لیں تو مرد حضرات بھی اس برے اور قبیح فعل میں عورتوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ سب کے سب واضح و پوشیدہ انداز یا اشارہ و کنایہ سے غیبت و چغل خوری میں مصروف نظر آئیں گے ۔
اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جو لوگ اسے گناہ سمجھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ فرق ہی نہیں کر پاتے کس برائی کوب یان کرنا غیبت ہے اور کس کا بیان غیبت نہیں۔ ایک اور قسم ان لوگوں کی ہے جو غیبت کو گناہ سمجھتے اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہوتے ہیں لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑنے سے قاصر رہتے ہیں۔
دوسری جانب قرآن و حدیث میں غیبت کی بڑے واشگاف الفاظ میں مذمت اور سخت وعید سنائی گئی ہے۔
ذیل کی اسطور میں ہم غیبت کی اقسام، و اسباب،نقصانات اور علاج کا مختصر جائزہ لیں گے ۔

غیبت کی تعریف:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرو جو اسے نا پسند ہو۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ عیب اس میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپ نے فرمایا کہ جو عیب تم نے بیان کیا ہے وہ اگر اس میں موجود ہے تب ہی تو غیبت ہے وگرنہ تو تم نے بہتان لگایا۔ (سنن ابوداود:4874،حکم الألبانی صحیح،صحیح مسلم:جلد سوم:2096)

غیبت کہتے ہیں آدمی کا کسی بھائی کے پیٹھـ پیچھے تذکرہ ایسے الفاظ میں کرنا جن کو وہ ناپسند کرتا ہو، خواہ برائی کا تذکرہ اس کے بدن سے متعلق ہو یا نسب سے، اوصاف سے متعلق ہو یا قول و فعل سے، یا دین سے یا دنیاوی معاملات سے، اگرچہ یہ تذکرہ اس کے لباس سے یا اس کے گھر یا سواری سے متعلق ہی کیوں نہ ہو،
(عبد العزیز ابن عبد اللہ ابن باز،alifta.com)

غیبت کسی کے پیٹھ پیچھے بُرائی کرنا اگر وہ بُرائی اس میں موجود ہے تو وہ غیبت ہے اور اگر نہیں ہے تو وہ بہتان ہے۔(فیرروز الغات)

لہٰذا غیبت وہ کلام،فعل یا اشارہ ہے جس میں کسی متعین غائب شخص میں موجود عیب کو دوسروں کے سامنے تحقیر و تذلیل کی نیت سے بیان کیا جائے اور اگر اس کا علم اس غائب شخص کو ہو تو اسے تکلیف پہنچے۔

غیبت کی حرمت و مذمت:
جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہچانا حرام ہے اسی طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ غیبت کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر خفیہ حملہ ہے جس کا مقصد کسی مخصوص شخص کی عزت کو نقصان پہچانا اور اس کی تحقیر کرنا ہے ۔ اسی بنا پر کتاب وسنت اور اجماع امت سے غیبت کا حرام فعل اور گناہ کبیرہ ہونا ثابت ہے،
قرآن نے غیبت سے نفرت دلانے کے لئے صاحب غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے والے کے مترادف قرار دیا ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ :
وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ۔ (سورہ الحجرات:12)
"اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے واﻻ مہربان ہے۔"

یہ آیت کریمہ اس پرسکون اور رحم دل معاشرہ میں شخصی عزت نفس، بزرگی اور آزادی کے ارد گرد ایک دیوار قائم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ موثر انداز میں ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ ہم نے اپنے نفس کو کیسے پاک کرنا ہے۔ بے شک لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کی پامالی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔۔۔۔

  انسانی گوشت کی مثال تو کجا یہاں اللہ تعالی انسان کے مردہ گوشت کی مثال دے رہے ہیں کیونکہ مردہ انسان تو زندہ سے بھی زیادہ حقیر ہو جاتاہے اور کراہت کا باعث بن جاتا ہے ، ذرا تصور میں جائیں اور انسانی گوشت کا کوئی حصہ اپنے منہ میں محسوس کریں کہ پھر دیں آپ کو کس قدر گھن محسوس ہوتی ہے، لیکن ہائے ناکامی ہم پھر بھی اس گناہ میں ایک بڑی تعداد میں مبتلا ہیں۔
غیبت اپنے بھائی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے جبکہ آبرو کو نقصان پہنچانے پر بڑِی سخت تنبیہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"ہر مسلمان کا مسلمان پر خون(جان)و مال اور عزت حرام ہے"(سنن ابن ماجہ:3933،قال الشيخ الألباني صحيح،مسلم:2564)

"ایک اور حدیث آپﷺ نے فرمایا: اے وہ لوگو! جن کی زبانیں تو ایمان لا چکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے، تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو، یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے ۔" (سنن ابوداود:4880،قال الشيخ الألباني حسن صحیح) 

"نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” جو شخص کسی مسلمان کا عیب بیان کر کے ایک نوالا کھائے گا تو اس کو اللہ اتنا ہی جہنم سے کھلائے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب بیان کر کے ایک کپڑا پہنے گا تو اللہ اسے اسی جیسا لباس جہنم میں پہنائے گا ، اور جو شخص کسی شخص کو شہرت اور ریا کے مقام پر پہنچائے گا تو قیامت کے دن اللہ اسے خوب شہرت اور ریا کے مقام پر پہنچا دے گا “ (یعنی اس کی ایسی رسوائی ہو گی کہ سارے لوگوں میں اس کا چرچا ہو گا۔"(سنن ابوداود:4881،قال الشيخ الألباني صحیح)

ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:کہ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے ۔ (سنن ابوداود:4878،قال الشيخ الألباني صحیح)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالیٰ پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہو جائے ۔ یہ حدیث ابوداؤد میں بھی ہے۔ (سنن ابوداود:4883،قال الشيخ الألباني:حسن) 

عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو نئی قبروں کے پاس سے ہوا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے ، اور یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے (کہ جس سے بچنا مشکل تھا) ، ایک شخص تو پیشاب (کی چھینٹوں) سے نہیں بچتاتھا ، اور دوسرا غیبت (چغلی) کیا کرتا تھا “(صحیح بخاری:6055،سنن ابن ماجہ:347، حکم البانی صحيح)

غیبت کرنے کا عام طور پر محرک کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا، اسے کمتر ثابت کرنا اور اسے کسی کی نظروں میں گرانا ہوتا ہے۔ اس روئیے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
 :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے۔"ترمذی:1927 حکم البانی صحيح )

گزشتہ اسطور میں تمام احادیث میں لوگوں کی برائی بیان کرنے والوں اور ان کی عزت و آبرو کو لوٹنے والوں کی ایک عبرت ناک تصویر پیش گئی ہے۔اسی طرح دیگر روایات میں بھی غیبت کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس سے روکا گیا ہے۔

غیبت کی اقسام:

علماء کرام نے غیبت کی چار اقسام بیان کی ہیں:

" غیبت کرنا کبیرہ گناہ:

اہل علم نے غیبت کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی غیبت کر رہا ہو تو جب اس سے کہا جائے کہ تو غیبت نہ کر تو وہ جواب میں کہے، یہ غیبت نہیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو ایسے شخص نے اللہ تعالی کی ممنوع کی ہوئی چیز کو جائز کیا اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی ممنوعہ چیزوں کو جائز قرار دے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔

" غیبت کرنا منافقت ہے: دوسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا منافقت ہے، وہ یہ ہے کہ انسان ایسے شخص کی غیبت کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کی ذاتی رائے یہ ہو کہ وہ نیک ہے تو اس صورت میں غیبت کرنا منافقت ہے۔

" غیبت کرنا معصیت ہے: تیسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا معصیت ہے کہ انسان کا یہ جانتے ہوئے کہ غیبت کرنا معصیت ہے پھر بھی غیبت کر رہا ہو اور جس شخص کی غیبت کر رہا ہو اس کا نام بھی لے رہا ہو تو اس صورت میں غیبت کرنا معصیت ہے۔ وہ گناہگار ہے۔ اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔

" غیبت کرنا جائز ہے: چوتھی وہ قسم جہاں غیبت کرنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا باعث بھی ہے، وہ یہ ہے کہ فاسق معلن (یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا) کے افعال و کردار کا ذکر، بدعتی کے کارناموں کا تذکرہ کرنا جائز ہے۔ اس میں ثواب ہے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاجر کے برے افعال کا تذکرہ کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں۔۔۔۔

غیبت کے اسباب:
غیبت کے کئی ایک سبب ہیں ،لیکن ان میں سے چند ایک کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، جو ہمیں غیبت پر مجبور کرتے ہیں اور ان اسباب کی وجہ سے غیبت میں جانے کا قوی امکان ہو جاتا ہے۔

*۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کی برائی اس کے منہ پر بیان کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ لہٰذا موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اس کی غیر موجودگی میں اس کے عیوب اور خامیاں بیان کی جائیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کو دوسروں کی نظروں میں گرانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے حسد کے جذبے کو تسکین دی جا سکے۔ اس کی ایک اور وجہ محض لذت کا حصول ہے جس کی وجہ سے ہم بلاوجہ اپنے بھائی کو تختۂ مشق بنا لیتے ہیں۔

*۔ نفرت اور کینہ جیسے کسی کے خلاف کینہ پیدا ہوجائے اور پھر اس کا بدلہ اسے دوسروں کی نظروں میں گرا کر لیا جاتا ہے۔

*۔ غصہ و جذبات پر قابو نہ ہونا اور غیبت کر جانا۔

*۔ دوسروں کے متعلق سوچنے کا منفی انداز مثلاً جب بھی لوگوں کے بارے میں بات کی جائے تو منفی پہلو ہی پیش نظر رکھا جائے۔

*۔ دوسروں کی تحقیر کرنے کے لئے لوگوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ، انہیں کم تر دکھانا اور ان کی کردار کشی کرنا۔

*۔ بنا سوچے سمجھے یا بلا ضرورت بہت زیاہ بولنے کی عادت۔

*۔ احساسِ کمتری اور اس کمتری کے احساس کو مٹانے کے لیے دوسروں کو کمتر ثابت کرنا اور ان کی برائیاں بیان کرنا۔

*۔ بدگمانی کرنا یا غلط فہمی کا شکار ہونا کہ فلاں شخص میرے خلاف ہے اور پھر اس کی برائیوں کو بیان کرنا۔

*۔ مخاطب کو خوش کرنے کے لیے کسی اور کی برائی کرنا اور غیبت کو گناہ نہ سمجھنا۔

*۔ غیبت کی تعریف اور مفہوم سے ناواقف ہونا۔

*۔ حسد کی وجہ سے انسان جس میں مبتلا ہو کر انسان لوگوں کو کسی سے متنفر کرنے کی غرض سے اس کی عیب جوئی کرتا جاتا ہے، بنا یہ سوچے کہ اس بات سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا لیکن وہ ہلاکت میں ضرور جا سکتا ہے۔

*۔ اس کا ایک سبب ہماری محفلوں کا انعقاد بھی ہے آج کے اس پر فتن دور میں ہم جب بھی جمع ہوتے ہیں تو ہمارا موضوع کسی دوسرے کی ذات ہی ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی طرح سے ہو بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ہماری محفلوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا، آج اگر آپ اپنی محفل میں کسی دوسرے کی ذات میں طعن یا عیب جوئی سے کام نہ لیں ایسی صورت میں یا تو آپ کی محفل کا رنگ ہی نہیں بنے گا یا لوگ جلد ہی اکتاھٹ کا شکار ہو جائیں گے اس کی ایک بڑی مثال ہمارے آج کے ٹاک شوز سے بھی لی جاسکتی ہے کہ ہر وہ ٹاک شو کامیاب ہے جس میں معین اشخاص پر تنقید کی جائے اور اس کے لئے ماہر نقاد کا سہارا لیا جاتا ہے۔اور اسی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔حقیت یہ ہونی چاہئے کہ جب ہم اپنی محفل میں بیٹھیں اول تو کسی کی بات کریں ہی نہ اگر کرنی ہے تو اس کی اچھائی بیان کریں نہ کے برائی کریں۔

*۔ غیبت کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب کثرت مزاح بھی ہے جب ہم لوگوں صرف ہنسانے کی خاطر کسی دوسرے کی عیب جوئی کرتے ہیں اس کے جسمانی نقائص کو عجیب اندز سے تشبیہ دیتے ہیں تو ہم بنا اس بات کو محسوس کیے غیبت جیسے گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں

*۔لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔

*۔ انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔

*۔ کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔

*۔ ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔

غیبت سے بچاؤ کی تدابیر :

*۔ بولنے سے پہلے سوچا جائے،اور جب آپ کسی دوسرے شخص کی برائی بیان کر رہے ہوں تو اطمینان کر لیجیے کہ کیا آپ کے پاس اس برائی کو بیان کرنے کا کوئی جواز موجود ہے۔

*۔ دوسروں کے متعلق گفتگو کرنے میں احتیاط برتی جائے اور ان کی پردہ پوشی کی جائے اور لوگوں کے بارے میں اچھا سوچنے اور اچھا بولنے کی عادت ڈالی جائے۔

*۔ حسد پر قابو پایا جائے اور محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے حق میں دعائے خیر کی عادت ڈالی جائے۔

ؓ*۔ نفرت، کینہ، غصہ اور دیگر اخلاقی آفات پر نظر رکھی جائے اور انہیں اپنی شخصیت اور نفسیات کا حصہ بننے سے روکا جائے۔

*۔ غیبت ہو جانے کی صورت میں اس کا فوری مداوا کیا جائے ۔ سب سے پہلے تو توبہ کی جائے اور پھر اگر ممکن ہو تو اس شخص سے معافی مانگی جائے یا اس کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی اپنے لیے جرمانے کا نظام نافذ کیا جائے مثلاً اس شخص کو تحفہ دیا جائے جس کی برائی سرزد ہو گئی ہو یا اس کی دعوت کی جائے، اس کے ساتھ کوئی خصوصی برتاؤ کیا جائے تا کہ اس احسان کی وجہ سے غیبت کا گناہ دھل جائے۔
*۔ غیبت سے قبل ایک لمحے کے لئے خود کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر سوچ لیں کہ اگر میری اس طرح برائی کی جاتی تو کیا مجھے اچھا لگتا؟

*۔ یہ تصور راسخ کیا جائے کہ غیبت کرنے سے دوسرے کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ الٹا اپنی نیکیاں دوسرے کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہیں۔
لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے گا۔

*۔ برائی بیان کرنے سے پہلے ہمیشہ یہ سوچ لیا جائے کہ اس کا مقصد جائز ہے یانہیں۔ اگر جائز نہیں ہے یا آپ شک و تردد میں ہیں تو پھر برائی بیان کرنے سے رک جایا جائے۔

*۔ قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کو اپنے ذہن میں رکھے۔اور معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔

*۔ انسان اکثر اوقات دشمنوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی عادت کی بنا پر دوستوں کی غیبت بھی ہو جاتی ہے لہذا یہ تصور پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر میرے دوست کو میری غیبت کا علم ہو گیا تو دوستی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔

*۔ جو لوگ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، مجھے ان پر تو رشک نہیں آتا لیکن ان لوگوں سے میں ہمدردی ضرور محسوس کرتا ہوں جو میری نسبت کم تعلیم یافتہ ہیں۔

*۔ اگر کسی مجلس میں غیبت ہو رہی ہو تو آدمی کو چاہیے کہ اس کو روکے، اگر روکنے کی طاقت نہ ہو تو کم از کم اس گفتگو میں شریک نہ ہو بلکہ اٹھ کر چلا جائے۔

*۔ اگر کوئی شخص جو نہ غیبت کرنے والے کو روک سکتا ہے اور نہ ہی محفل کو چھوڑ سکتا ہے تو پھر وہ غیبت کو توجہ سے نہ سنے بلکہ دل و زبان سے اللہ کا ذکر شروع کر دے۔ اس طریقہ پر عمل کے باوجود اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑ جائے تو اس کا مواخذہ نہ ہو گا۔

*۔ جو شخص غیبت سن رہا ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کے قول کو رد کرے اور کہنے والے کا انکار کرے۔ اور اگر وہ انکار نہیں کر سکتا یا یہ کہ غیبت کرنے والا اس کی بات کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر اگر ممکن ہو تو اس محفل کو چھوڑ دے۔ جس طرح غیبت کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں کی، اسی طرح غیبت سننے والے سے بھی پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں سنی۔

*۔ اگر غیبت کو سننے والا شخص بھی صحت مند اور طاقتور ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کو منع کرے اور اگر اتنی ہمت و جرأت نہیں ہے تو دل میں اس کے کہنے کو برا جانے۔۔ بعض اوقات بظاہر انسان کسی کو غیبت سے روک رہا ہوتا ہے مگر دلی طور پر وہ چاہتا ہے کہ غیبت ہوتی رہے۔ ایسا شخص منافق اور گناہگار ہے۔

*۔ غیبت کرنے والے کو اس عمل سے روکنے اور خود گناہ میں ملوث ہونے سے بچنا چاہئے لیکن اس کے لئے حکمت لازمی ہے۔ بعض اوقات غیبت کرنے والے کو براہ راست سختی سے ٹوک دینے پر بات بگڑ سکتی خے اور لڑائی جھگڑے کی نوبت پیدا ہو سکتی ہے۔ نیز اس طرح منع کرنے سے غیبت کرنے والے کی انا مجروح ہوتی ہے اور وہ اپنی اصلاح کی بجائے رد عمل کے طور پر مزید اس عمل میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہوشیاری سے موضوع کو بدل دیا جائے ۔ دوسرا حل یہ ہے کہ جس کی غیبت کی جارہی ہو اس کا مدلل دفاع کیا جائے اور اسکی اچھائیاں بیان کی جائیں۔یا پھر غیبت کرنے والے شخص کو باڈی لینگویج سے توجہ دلائی جائے کہ غلط کام کر رہا ہے۔

*۔ غیبت کرنے والے کو جس وقت بھی اسے احساس ہو جاۓ کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے۔ دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے۔ اگر اس نے کسی مرے ہوۓ آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعاۓ مغفرت کرے۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کر چکا ہے۔اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی۔ علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جب کہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو، ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتاۓ کہ میں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہو گی۔اور جس سے اختلافات و نفرت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

*۔ اگر غیبت سننے والا جان بوجھ کر غیبت کو سن رہا، اس سے لطف اندوز ہورہا اور کرید کرید کر سامنے والا کو اکسا رہا ہےتو یہ گناہ ہے۔ لیکن اگر وہ بحالت مجبوری یہ کام کررہا ہے تو قابل گرفت نہیں۔

* غیبت کی باتیں سننا، غیبت کی مجالس میں موجود رہنا، غیبت کرنے والے کو اس کے عمل سے منع نہ کرنا یہ سب غیبت میں شرکت کرنے کے مترادف ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی میں)بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا“(الترمزی:1931حسن۔)
بعض احادیث میں "عن عرض أخيه"کے بعد"بالغيب: کا اضافہ ہے، مفہوم یہ ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرے اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اس کی بڑی فضیلت ہے، اور اس کا بڑا مقام ہے، اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب العالمین اسے جہنم کی آگ سے قیامت کے دن محفوظ رکھے گا۔(قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام 431)

*۔ حدیث کی اس تشبیہ میں بہت گہرائی ہےذرا غور کریں کہ اگر ایک حاضر شخص پر حملہ کیا جائے تو وہ اپنا بھر پور دفاع کر سکتا ہے۔
لیکن جب کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کی جاتی اور اس کی عزت پر حملہ کیا جاتا ہے تو وہ اس برائی کا دفاع کرنےاور اس کا جواب دینے کے لئے موجود نہیں ہوتا۔ نتیجہ کے طور پر اس غائب شخص کی عزت کو تار تار کیا جاتا، اس کی دھجیاں بکھیری جاتیں اور اس کی آبرو کو بھنبوڑ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں خوشخبری  ہے اس شخص کے لئے جو اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرتا ہے۔

غیبت کی بعض جائز صورتیں:

*۔ کیا کسی شخص کی دل میں برائی سوچنا غیبت ہے؟
نہیں کیونکہ غیبت کے لئے اظہار ضروری ہے خواہ وہ الفاظ سے ہو یا باڈی لینگویج سے۔ البتہ یہ بغض و بدگمانی کے زمرے میں آسکتا ہے۔

*۔ اگر ہم غیبت نہ کریں تو پھر تو ہم محفلوں میں کوئی بات ہی نہیں کر سکتے۔؟
ایسا نہیں ہے بلکہ ایسا سوچنا ایک شیطانی فریب ہے۔ مثال کے طور پر ایک دوکاندار یہ سوچے کہ اگر ہم ایمانداری کرنے بیٹھ گئے تو بھوکے مر جائیں گے۔لیکن اگر آپ مغربی ممالک میں تجارت کو دیکھیں تو ان کی کامیابی کا راز ہی ایمانداری ہے ۔ چنانچہ یہ سوچنا کہ غیبت چھوڑ دینے سے محفلیں ویران ہو جائیں گی ایک مغالطہ ہے۔ انسان کو ابتدا میں چیزیں مشکل لگتی ہیں لیکن جب ان کی عادت ہو جائے تو پھر معاملات آسان ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا غیبت چھوڑنے کے بعد محفلوں میں اچھی باتیں ہوں گی، مثبت رویے پیدا ہونگے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کی جانب نظریں اٹھیں گی۔
جہاں تک رویے پر تنقید کے غیبت ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کا جواب وہ شخص دے گا جو یہ کام کر رہا ہے۔ اگر وہ یہ کام اس شخص کی تذلیل و تحقیر کے لئے کر رہا ہے تو غیبت ہے۔ اگر اس کا مقصد باقی لوگوں کو اس کوتاہی سے ۔آگاہ کرنا ہے یا کوئی اورجائز محرک ہےتو غیبت نہیں۔

*۔ کسی کی غیر موجودگی میں کی گئی علمی تنقید تو کسی طور غیبت نہیں کیوں کہ علمی تنقید کا بنیادی محرک اصلاح ہوتی ہے تحقیر نہیں۔ لیکن اگر یہ تنقید تحقیر کے لئے ہے تو غیبت ہے۔

*۔ اگر ایک شخص لاعلمی میں کوئی گناہ یا غیبت کر بیٹھتا ہے تو لازمی طور پر وہ مکلف نہیں اور اسے اس گناہ کی وہ سزا نہیں ملے گی جو اس شخص کو ملتی ہے جو اسے جانتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا فعل گناہ ہی شمار ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو علم نہیں کہ پاکستان میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہوتی ہے اور یہاں آکر رائٹ ہینڈ ڈرائیو شروع کر دے اور ایکسڈنٹ کردے  تو ایسا نہیں کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا البتہ لاعلمی کی بنا پر ہو سکتا ہے عدالت اس سے نرم رویہ اختیار کر سکتی۔
لیکن اس سوال کے ایک اور پہلو ہے۔ اس طرح تو بظاہر وہ لوگ فائدہ میں رہیں گے جو لاعلم ہیں۔ لیکن لاعلم شخص کی پکڑ دوسرے میدان میں ہو رہی ہے ۔ اس سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ اس نے علم کیوں حاصل نہیں کیا؟ اسلام کی بنیادی باتیں جاننا ہر شخص پر فرض ہے۔ اب اگر ایک شخص یہ علم تو حاصل کر لیتا ہے کہ زہر کھانے سے وہ ہلاک ہو جائے گا اور زہر کیا ہوتا ہے۔ تو اسے یہ علم بھی حاصل کرنا چاہئے کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ لاعلمی بذات خود ایک بڑی کوتاہی ہے۔

*۔ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں ڈسکس کرنا غیبت نہیں۔ اسی طرح آپ کے کیس میں ملازمین یا گھر والوں کی کارکردگی پر اظہار خیال اور ان کی برائی بیان کرنا بھی غیبت نہیں کیونکہ اس ساری ایکٹوٹی کا مقصد ان کی کارکردگی کو بیان کرنا ہے ان کی تحقیر و تذلیل نہیں۔ محض اطلاع دینے ، شکایت کرنے اور اصلاح کرنے کی ہے۔

*۔ غیبت سے مستثنیٰ وہ صورتیں بھی  ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جاۓ تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو۔
  آپ ﷺ نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے:
"سعید بن زید ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ آدمی ناحق کسی مسلمان کی بے عزتی کرے۔"(سنن ابي داود: 4876،حکم البانی صحيح)

اس ارشاد میں ’’ ناحق‘‘ کی قید یہ بتاتی ہے کہ ’’حق‘‘ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’حق‘‘ سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے۔
ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر‘‘۔ حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھواضلّ ام بعیرہ؟ الم تسمعو ا الیٰ ما قال؟ ’’ تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کی اونٹ؟تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا۔
(سنن ابي داود: 4885،حکم البانی ضعيف) 
اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کی تائید دیگر احادیث کرتی ہیں ۔
یہ بات آپﷺ کو اس کے بیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ آپﷺ کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں۔
اسی طرح ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم۔ انہوں نے آ کر آپﷺ سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا ’’ معاویہ مفلس ہیں اور ابولجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:3697،سنن ترمذی:1134،ابن ماجة:1869حکم البانی صحيح )

یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں۔
ایک روز آپﷺ حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لے گۓ اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لاۓ تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا : انّشرّالناس منزلۃً عند اللہ یوم القیٰمۃ من ودعہ (اونزکہ) الناس اتقاء فحشہ۔ ‘’
اللہ کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں‘‘(صحیح بخاری:6032)

اس واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ آپ ﷺ  نے اس شخص کے متعلق بُری راۓ رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہربانی برتتے دیکھ کر کہیں سے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاۓ۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبر دار کر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔
ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور سے عرض کیا کہ ’’ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو‘‘ (صحیح بخاری:5370, 7180)

بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگرچہ غیبت تھی، مگر آپ ﷺ  نے اس کو جائز رکھا، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جاۓ جو اس کو رفع کرا سکتا ہو۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ان نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاءو محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جب کہ ایک صحیح(یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو‘‘۔
چنانچہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیبت کا اطلاق کن باتوں پر ہوتا ہے اور کن پر نہیں۔ بہت سے ایسے مواقع ہیں جو بظاہر غیبت سے ملتے جلتے ہیں لیکن چونکہ ان کا مقصد تحقیر و تذلیل نہیں بلکہ کچھ اور ہوتا ہے اس لئے یہ غیبت نہیں کہلاتے۔
پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوۓ علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں :

1۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔

2۔ اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے۔

3۔ استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جاۓ۔
4۔ لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبر دار کرنا تا کہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں۔ مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے، اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھاۓ۔
5۔ ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔
6۔ جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص۔
(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری جلد 10،ص 362۔ شرح مسلم للنودی، باب تحریم الغیبۃ۔ ریاض الصالحین، باب کایباح من الغیبۃ)

7۔کوئی معلومات فراہم کرنا جیسے ایک نیوز کاسٹر ایک خبر بیان کرتی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی پر تشدد کیا تو یہ غیبت نہیں کیونکہ اس کا مقصد اطلاع دینا ہے۔ اسی طرح کوئی عورت اپنے شوہر کو دن بھر کی روداد سنا ئے کہ اس کی ساس اور نندوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا تو یہ تو غیبت نہیں بشرطیکہ عورت کا مقصد صرف واقعہ بیان کرنا ہے اور تحقیر و تذلیل مقصود نہیں۔ اسی طرح کسی واقعے کی خبر دینا کہ فلاں کی لڑکی فرار ہوگئی ہے غیبت نہیں ۔ لیکن یہ غیبت ہو بھی ہوسکتی ہےاگر بتانے کا مقصد اس واقعے کی تشہیر کرکے لڑکی یا اس کے اہل خانہ کو بدنا م کرنا ہو۔ اس بات کا فیصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جو یہ عمل کررہا ہے کہ اس کا محرک کیا ہے،آیا وہ کردار کشی ، تحقیر اور لطف اندوزی کی نیت سے یہ بات بیان کررہا ہے یا محض ایک اطلاع دے رہا ہے۔
ان مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہ اس کی تردید کرے، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو اللہ سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے۔
اس بحث سے یہ پتہ چلا کہ غیبت حرام ہے کیونکہ اس کے ذریعہ لوگوں میں فساد، پھوٹ، انتشار، بدامنی، انارکی ، عداوت، کینہ، بغض، حسد اور نفاق کی آگ بھڑکتی ہے، اور دو بھائیوں کے درمیان انس ومحبت کی جگہ تفرقہ، دشمنی اور منافرت پیدا ہو جاتی ہے، اور اسی طرح ان دونوں چیزوں میں جھوٹ، دھوکہ، خیانت، بے قصور پرتہمت، گالی گلوچ اور برائیوں کا تذکرہ ہوتا ہے، نیز یہ چیزیں بزدلی، کمینگی اور کمزوری کی پہچان ہوتی ہیں، مزید برآں ایسا کرنے والوں سے اتنے بے شمار گناہ سرزد ہو جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کے غضب، ناراضگی، اور اس کے دردناک عذاب کے مستحق ثابت ہوتے ہیں۔

اگر آپ ہماری تحاریر ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...