Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 154

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 154)
باطنیت​کتاب و سنت سے براہ راست متصادم عقائد وافکار پر پردہ ڈالنے کے لیے اہل تصوف نے باطنیت کا سہارا بھی لیا ہے- کہا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کے الفاظ کے دو دو معانی ہیں' ایک ظاہری اور دوسرا باطنی (یا حقیقی) یہ عقیدہ باطنیت کہلاتا ہے' اہل تصوف کے نزدیک دونوں معانی کو آپس میں وہی نسبت ہے جو چھلکے کو مغز سے ہوتی ہے' یعنی باطنی معنی ظاہری معنی سے افضل اور مقدم ہیں- ظاہری معانی سے تو علماء واقف ہیں لیکن باطنی معانی کو صرف اہل اسرار و رموز ہی جانتے ہیں- اس اسرار و رموز کا منبع اولیاء کرام کے مکاشے' مراقبے' مشاہدے اور الہام یا پھر بزرگوں کا فیض و توجہ قرار دیا گیا ہے-جس کے ذریعے شریعت مطہرہ کی من مانی تاویلیں کی گئيں مثلا قرآن مجید کی آیت:" واعبد ربک حتّی یاتیک الیقین""اپنے رب کی عبادت اس آخری گهڑی تک کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے (یعنی موت)"(سورۃ الحجرات آیت99)​
اہل تصوف کے نزدیک یہ علماء (اہل ظاہر) کا ترجمہ ہے اس کا باطنی یا حقیقی ترجمہ یہ ہے کہ:"صرف اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرو جب تک تمہیں یقین (معرفت) حاصل نہ ہوجائے"(یقین یا معرفت سے مراد معرفت الہی ہے یعنی جب اللہ کی پہچان ہو جائے تو صوفیاء کے نزدیک نماز، روزہ، زکواۃ، حج اور تلاوت وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی)​اسی طرح بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں ہے کہ:" وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ"(یعنی تیرے ربّ نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر اس کی)​یہ علماء کا ترجمہ ہے اور اہل اسرار و رموز کا ترجمہ یہ ہے:" تم نہ عبادت کرو گے مگر وہ اسی (اللہ) کی ہوگی جس چيز کی بھی عبادت کرو گے"​اس کا مطلب یہ ہے کہ تم خواہ کسی انسان کو سجدہ کرو یا قبر کو یا کسی مجسمے اور بت کو وہ درحقیقیت اللہ ہی کی عبادت ہوگی' کلمہ توحید:" لاالہ الااللہ" صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ "لا موجود الا اللہ"یعنی دنیا میں اللہ کے سوا کوئی چيز موجود نہیں- الہ کا ترجمہ موجود کرکے اہل تصوف نے کلمہ توحید سے اپنا نظریہ وحدۃ الوجود ثابت کردیا لیکن ساتھ ہی کلمہ توحید کو شرک میں بدل ڈالا:" فبدّل الذین ظلمو قولا غیر الذی قیل لھم"( جو بات ان سے کہی گئي تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا،سورہ بقرہ آیت 59)​باطنیت کے پردے میں کتاب و سنت کے احکامات اور عقائد کی من مانی تاویلوں کے علاوہ اہل تصوف نے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) جیسی اصطلاحات وضع کرکے جسے چاہا حلال کردیا جسے چاہا حرام ٹھرادیا، ایمان کی تعریف یہ کی گئی یہ دراصل عشق حقیقی (عشق الہی) دوسرا نام ہے اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ تراشا گیا کہ عشق حقیقی کا حصول عشق مجازی کے بغیر ممکن ہی نہیں چنانچہ عشق مجازی کے لوازمات، غنا، موسیقی، رقص وسرور، سماع، وجد، حال ، دهمال، ،چلے وغیرہ اور حسن و عشق کی داستانوں اور جام و سبو کی باتوں سے لبریز شاعری کو جائز  قرار دیا-اس خطرناک رجحان کے اسباب وطن عزیز کی موجودہ فلموں، ڈراموں، گانوں، قوالیوں اور صوفیاء کے کلام میں سب سے بڑا موضوع محض عشق مجازی ہی بن کر رہ گیا ہے-اور اس کو پروان چڑھانے میں قدیم اور جدید شاعری نے خاصا کردار ادا کیا ہے-سینکڑوں ، ہزاروں ایسے اشعار و واقعات موجود ہیں جہاں عشق مجازی کو زندگی کا سب سے اہم حصہ قرار دیا گیا ہے اور محبوب کی تعریف و توصیف میں حد درجہ مبالغے سے کام لیتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں-جس پر تفصیلی بحث آئندہ اقساط میں ہو گی،البتہ ایک مثال درج ذیل ہے:
شاہ حسین لاہوری المعروف مادھو لال جن کے ایک برہمن لڑکے کے ساتھ عشق کے بارے میں "خزینتہ الاصفیاء" میں لکھا ہے کہ "وہ بہلول دریائی کے خلیفہ تھے 36 سال ویرانے میں ریاضت و مجاہدہ کیا رات کو داتا گنچ بخش کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھے- آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا چار ابرو کا صفایا، ہاتھ میں شراب کا پیالہ، سرور و نغمہ،چنگ و رباب، تمام قیود شرعی سے آزاد جس طرف چاہتے نکل جاتے"​(شریعت و طریقت، ص:204)
​یہ ہے وہ باطنیت کہ جس کے خوشنما پردے میں اہل ہوا و ہوس دین اسلام کے عقائد ہی نہیں اخلاق اور شرم و حیا کا دامن بھی تار تار کرتے رہے اور پھر بھی بقول مولانہ الطاف حسین حالی رحمہ اللہ:"نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے"​
قارئین کرام! فلسفہ وحدۃ الوجود اور حلول کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گمراہی کا یہ مختصر سا تعارف ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو الحاد اور کفر و شرک کے راستہ پر ڈالنے میں اس باطل فلسفہ کا کتنا بڑا حصہ ہے؟
پاک و ہند کا قدیم مذھب' ہندومت1500 سال قبل مسیح، جہاں گرد آرین اقوام وسط ایشیاء سے آکر سندھ کے علاقے ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں آباد ہوئيں- یہ علاقے اس وقت برصغیر کی تہذیب و تمدن کا سر چشمہ سمجھے جاتے تھے- ہندوؤں کی پہلی مقدس کتاب "رگ وید" انہی آرین اقوام کے مفکرین نے لکھی جو ان کی دیوی دیوتاؤں کی عظمت کے گیتوں پر مشتمل ہے- یہیں سے ہندو مذھب کی ابتداء ہوئی- ( مقدمہ ارتھ شاستر،ص:59)​جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو مذھب گوشتہ ساڑھے تین ھزار سال سے برصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاھب پر اثرانداز ہوتا چلا آرہا ہے- ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت کا شمار بھی قدیم ترین مذاھب میں ہوتا ہے بدھ مت کا بانی گوتم بدھ 483 ق-م میں پیدا ہوا اور 563 ق-م میں 80 سال کی عمر میں فوت ہوا جبکہ جین مت کا بانی مہاویر جین 527 ق-م میں پیدا ہوا اور 72 سال کی عمر میں 599 ق-م میں فوت ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں مذاھب بھی کم از کم 4 یا 500 سال قبل مسیح سے برصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاھب پر اثر انداز ہو رہے ہیں- ہندو مت، بدھ مت اور جین مت تینوں مذاھب وحدۃ الوجود اور حلول کے فلسفہ پر ایمان رکھتے ہیں- بدھ مت کے پیروکار گوتم بدھ کو اللہ تعالی کا اوتار سمجھ کر اس کے مجسموں اور مورتیوں کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں، جین مت کے پیروکار مہاویر کے مجسمے کے علاوء تمام مظاہر قدرت مثلا سورج، چاند، ستارے، حجر، شجر، دریا، سمندر، آگ اور ہوا وغیرہ کی پرستش کرتے ہیں، ہندو مت کے پیروکار اپنی اپنی قوم کی عظیم شخصیات (مرد و عورت) کے مجسموں کے علاوہ مظاہر قدرت کی پرستش بھی کرتے ہیں ہندو مذہب میں اس کے علاوہ جن چيزوں کو قابل پرستش کہا گیا ہے ان میں گائے (بشمول گائے کا مکھن، دودھ، گھی، پیشاب اور گوبر) بیل، آگ پیپل کا درخت، ہاتھی، شیر، سانپ، چوہے، سور اور بندر بھی شامل ہیں ان کے بت اور مجسمے بھی عبادت کے لیے مندروں میں رکھے جاتے ہیں عورت اور مرد کے اعضاء تناسل بھی قابل پرستش سمجھے جاتے ہیں چنانچہ شوجی مہاراج کی پوچا اس کے مردانہ عصو تناصل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے اور شکتی دیوی کی پوجا اس کے زنانہ عضو تناسل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے- برصغیر میں بت پرستی کے قدیم ترین تینوں مذاھب کے محتصر تعارف کے بعد ہم ہندو مذھب کی بعض تعلیمات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ برصغیر پاک و ہند میں شرک کی اشاعت و توریج میں ہندومت کے اثرات کس قدر گہرے ہیں۔
جاری ہے......
گروپ میں شامل ہونے کیلئے رابطہ کریں!
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...