Thursday 31 August 2017

زندگی اور موت ؟

زندگی اور موت ؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#103

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

موت کے متعلق تمام ادیان اور سائنس متفق تو ہے ۔کہ موت اٹل ہے ۔اسلام، یہودیت اور عیسائیت ان تینوں مذہبوں میں دیگر کے نسبت موت پر ذیادہ زور دیا گیا ہے۔لیکن ایک حد ایسی آتی ہے جہاں سے آگے سوائے اسلام کے کوئی مذہب یا سائنس جواب نہیں دے سکتا۔اور اسلام نے موت کو سب سے تفصیلاً بیان کیا ہے اور اپنے پیروؤں کو ہمیشہ موت کے بعد کی زندگی کو حقیقی زندگی مان کر دنیا میں صالح کردار پیش کرنے کی نصیحت کی ہے۔

زندگی سے محبت اور موت سے فرار ہر جاندار کی کوشش رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے انسان کو جہاں جینے کے آداب بتائے وہیں  مرنے کے ڈھنگ بھی سکھائے ۔جس طرح اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص  بے مقصد زندگی گزارے اسی طرح اسلام یہ بھی نہیں چاہتا کہ کوئی شخص بے مقصد موت کے منہ میں چلاجائے۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ‌ ۔(الملک:2)

اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے ۔

آج جدید تحقیقات کی روشنی میں  ہم انسانی جسم کا بہت زیادہ علم رکھتے  ہیں اور اسی علم کی روشنی میں  آج ہم انسانی اعضاء عناصر جسمانی عوامل سب سے واقف ہیں لیکن ہر لحاظ سے منفرد یہ خون گوشت عضلات رگ پٹھوں  خلیوں  کا مجموعہ جسم جب موت کا شکار ہوتا ہے  تو یہ کائنات کی انتہائی پیچیدہ مشینری مادی جسم موت کی صورت یک لخت غیر متحرک ہو جاتی ہے۔ اور نہ صرف غیر متحرک ہوتی ہے  بلکہ موت کے  بعد کچھ ہی دنوں  میں  پانچ چھ فٹ کے  متحرک وجود کا نشان ہی نہیں  رہتا۔ کچھ ہی دنوں  میں  پورا وجود بے  نشان ہو جاتا ہے۔ یا مٹی میں  مل کر مٹی ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب شناخت مشکل ہے  کہ مٹی کونسی ہے اور جسمانی ذرات کونسے  ہیں۔
پورا متحرک وجود جو چند دن پہلے  موجود تھا موت کے  بعد اس وجود کا نشان ہی نہ رہا۔ ہڈیاں خون گوشت پوری جسمانی مشینری فقط موت کی صورت میں  ہر شے  کا نشان مٹ گیا۔ آخر کیسے؟

تمام تر دماغی و جسمانی صلاحیتوں  والا تندرست و توانا وجود کیسے  موت کی صورت میں  یکلخت بے  حرکت اور بے  نشان ہو جاتا ہے۔

آخر کیا ہے  یہ موت؟

 خلیوں  کی تخریب، بیماری، حادثہ، طبعی موت سائنسدان موت کی یہ اور اس جیسی بہت سی وجوہات بیان کرتے  ہیں لیکن درحقیقت یہ اور اس جیسی تمام وجوہات موت کی وجوہات نہیں ہیں  نہ ہی کسی بیماری یا حادثے  سے  موت واقع ہوتی ہے۔ اس لئے  کہ ان  تمام وجوہات کی موجودگی میں  بھی بعض اوقات انسان زندہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ تمام وجوہات موت کی وجوہات نہیں  ہیں۔ درحقیقت موت کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔

سائنسدان جسم پہ صدیوں  کی تمام تر سائنسی تحقیق و تجربات کے باوجود جسم کے  وجود اور موت کی صورت میں  وجود کی عدم موجودگی کا سبب دریافت نہیں  کر پائے  ہیں ، نہ ہی ابھی تک  زندگی یا موت کی تعریف کر پائے  ہیں۔ آئیے  جاننے  کی کوشش کرتے  ہیں  کہ جسم کی زندگی کیا ہے ؟ اور موت کیا ہے؟

زندگی:
﴿مادی جسم میں  روح کی موجودگی کا نام زندگی ہے۔ ﴾

جب تک اجسام میں  روح موجود ہے  اجسام زندہ ہیں اور جب روح جسم میں  سے  نکل جاتی ہے  تو جسم بے  حرکت اور مردہ ہو جاتا ہے۔

بیماری، حادثہ یا معذوری ہونے  کے  باوجود انسان زندہ ہوتا ہے بعض اوقات مہلک بیماری کا شکار مریض جس کی زندگی کی امید نہیں  برسوں  زندہ رہتا ہے۔

 بعض اوقات طبعی طور پر انسان پہ موت طاری ہو جاتی ہے  لیکن وہ زندہ ہوتا ہے۔

بعض دفعہ کوما کی حالت میں  ہوتا ہے  لیکن زندہ ہوتا ہے۔

بعض دفعہ کسی سنگین حادثے  میں  جسمانی اعضاء ضائع ہو جاتے  ہیں  بعض دفعہ دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے  بعض دفعہ حرکت و عمل سے  محروم ہو جاتا ہے  لیکن زندہ  ہوتا ہے ، زندہ رہتا ہے۔
نیند کی حالت بھی کوما یا موت کی سی ہے  لیکن انسان زندہ ہے کیوں اور کیسے؟
جب تک روح جسم میں  ہے  ٹکڑے  ہی کیوں  نہ کر دیں جسم زندہ ہی رہے  گا، معذور ہو یا بوڑھا یا بیمار وہ زندہ رہنے  پہ مجبور ہے  جب تک اس کے  جسم میں  روح باقی ہے  وہ زندہ ہے۔ لہذا جسم یا اجسام میں  زندگی کا سبب روح ہے۔
سادہ سے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ ایک جاندارکی روح سے مراد اس کی وہ قوت حیات ہوتی ہے جو اس کو غیرجاندراوں اور بےجان شدہ جانداروں سے منفرد بناتی ہے اسکے لیے انگریزی میں لفظ Spirit آتا ہے۔

روح سے ملتا ہوا مفہوم رکھنے والا ایک اور لفظ جو لفظ روح کی طرح قرآن میں آتا ہے، وہ نفس ہے جس کی انگریزی Soul کی جاتی ہے۔ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی لفظ ہیں جبکہ دیگر ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ بیان کرتے ہیں۔ان دو الفاظ کے اس متبادل استعمال کی مثالیں قرآن کے مختلف انگریزی تراجم سے بھی ملتی ہیں مثلا؛ سورہ النساء آیت ایک سو اکہتر(171) میں روح کے لیے بعض اہل علم  نے soul کا جبکہ بعض نے spirit کا لفظ اختیار کیا ہے۔اس کی وضاحت آئندہ اقساط میں پیش کی جائے گی۔

موت کی تعریف

  ﴿مادی جسم سے  روح کے خارج ہو جانے  کا نام موت ہے۔ ﴾

موت جسم پہ طاری ہوتی ہے  یا اجسام موت کا شکار ہوتے  ہیں۔ کسی بھی جسم سے  روح کے  خارج ہو جانے  پر جسم موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ بے  ہوشی، بیماری، نیند، کوما کی کیفیت موت نہیں  ایسی تمام حالتوں  میں  انسان زندہ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ جسم تندرست ہوتا ہے  کوئی بیماری نہیں  لیکن انسانی جسم موت کا شکار ہو جاتا ہے ایسا جسم سے  روح کے  خارج ہو جانے  سے  ہوتا ہے۔
موت کی توجیہات پہلے  شاید کچھ مختلف بیان کی جاتی تھیں یعنی طبعی موت، پیدائش میں  پیچیدگی، کوئی حادثہ، بیماری یا قتل، کوئی نہ کوئی سبب موت کا ضرور بیان کیا جاتا ہے  لیکن یہ تمام وجوہات موت کے  اسباب تو ہو سکتے  ہیں  لیکن یہ اسباب موت کی وجہ نہیں  ان اسباب کے  سبب موت واقع نہیں  ہوتی۔ ان تمام وجوہات کے  باوجود روح جسم میں  ہے  تو انسان زندہ ہے۔ روح کے  جسم سے  نکل جانے  کا نام موت ہے  وہ جسم چاہے  کتنا ہی تندرست و توانا اور زندگی سے  لبریز کیوں  نہ ہو، جسم چاہے کسی بچے  کا ہو یا بوڑھے  کا یا کسی جوان کا  روح کے  اس جسم سے  خارج ہونے  سے  یہ جسم مردہ ہے۔  جو چند دن بعد نابود ہو جائے  گا۔ جسم کے  اعضاء مٹ جائیں  گے  خلئے  منتشر ہو جائیں  گے  ایک نظر آنے  والا حقیقی وجود نظروں  سے اوجھل ہو جائے  گا، ایسے  کہ نشان بھی نہ رہے  گا۔ روح جسم میں تھی تو جسم جسم تھا موجود تھا نظر آ رہا تھا حرکت کر رہا تھا اور جب روح جسم سے  خارج ہو گئی تو جسم بے  حرکت ہو گیا اور پھر بے  نشان ہو کر مٹ گیا جیسے  کچھ تھا ہی نہیں۔

موت کے بعد جسم میں ہونے والی تبدیلیاں

کسی جاندار کے تمام تر حَيَوِی افعال کے خاتمے کو طبی لحاظ سے موت کہا جاتا ہے۔ گویا عموما موت کے بارے میں یہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ یہ زندگی کا ایک آخری مرحلہ ہے جو طبیعی یا حادثاتی طور پر حیات کو موقوف کردیتا ہے لیکن دراصل موت کی جانب سفر کا عمل زندگی کے آغاز کے ساتھ پیدائش سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور اس بات کو جدید سائنسی تحقیق میں حیاتیاتی اور طبی لحاظ سے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے کہ تمام عمر انسان (اور تمام جانداروں) کے خلیات کے اندر ایسے کیمیائی تعملات جاری رہتے ہیں کہ جو آہستہ آہستہ موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ اور اب تو طبیب اور سائنسداں یہاں تک جان چکے ہیں کہ زندگی کے لئے سب سے اہم ترین کیمیائی سالمے یعنیDNA میں موت کے لئے ایک طرح کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی شامل کی جاچکی ہے جو ایک گھڑی کی طرح موت کے لمحات گنتی رہتی ہے۔جس کی تفصیلات سابقہ اقساط میں گزر چکی ہے ۔

 خلیہ (ضرر اور موت)

زندہ خلیات کے عام افعال کے لئے آزاد توانائی درکار ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے حیوی استِقلاب (vital metabolism) کو جاری رکھ سکیں اور حیات کے لئے درکار خامرے اور دیگر ساختی لحمیات بناتے رہیں۔ مجموعی طور پر اس کا نتیجہ ، نفوذی استِتباب (osmotic homeostasis) کے قیام کی شکل میں سامنے آتا ہے جو نہ صرف زندہ خلیے بلکہ اس جاندار کے لئے بھی زندگی برقرار رکھنے کے لئے لازمی ہے۔

اوپر بیان کردہ تمام افعال کو انجام دینے کے لئے اور استتباب یا ہومیواسٹیسس کو قائم رکھنے کے لیے ایک بہت ہی نازک اور محرک توازن کا مستقلا موجود رہنا ضروری ہوتا ہے اور جب کسی صدمہ یا چوٹ کی وجہ سے خلیہ اپنے اندرونی اور بیرونی ماحول میں توازن برقرار نہ رکھ پائے تو اس کی زندگی قائم رہنا محال ہوجاتا ہے۔ خلیے کو پہنچنے والا یہ صدمہ یا ضرر مختلف اقسام کا ہوسکتا ہے

مختصرا یوں کہ خلیات کو اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لئے عناصر اور مرکبات کے ایک توازن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ عناصر (جن میں چند؛ آکسیجن ، نائٹروجن،کاربن، آبساز اور گندھک وغیرہ ہیں) جب تک خلیہ میں موجود آلات کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہیں تو خلیہ کا استتباب بھی قائم رہتا ہے اور خلیہ کی جھلی کے اندر کی فضا یعنی خلیہ کے اندر اور بیرونی فضاء یعنی پلازمہ یا خون ، کے درمیان مختلف کیمیائی عناصر اور مرکبات کا تبادلہ ضرورت کے تحت ہوتا رہتا ہے، جب تک یہ ہم آہنگی قائم رہتی ہے زندگی بھی اور جب جوہروں اور عناصر کی یہ ترتیب بگڑ جائے تو خلیہ کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی جاندار کی۔

بعد از موت تبدیلیاں

موت کے بعد ، جسم کا لُبی درجہ حرارت گر جاتا ہے اس مظہر کو طب میں بُرُودۂ موت (algor mortis) کہا جاتا ہے۔ اور اس برودۂ موت (یعنی بعد از موت جسم کا سرد ہوجانے) کی شرح کا انحصار مختلف ماحولی (بیرونی) اور جسم الموت کے (اندرونی) عوامل پر ہوتا ہے مثلا، موسم کا درجہ حرارت، لاش کا لباس، موت واقع ہونے سے پہلے جسم کا درجہ حرارت اور لاش یا جسم الموت کی جسامت وغیرہ۔

پستاندار (میمیلیا) جانداروں میں ، لاش کے تَفکّک یعنی تعفن پیدا ہونے یا decomposition سے پہلے ایک اور عمل واقع ہوتا ہے جس کو صَمَل موت یعنی مرنے کے بعد جسم کا اکڑنا یا rigor mortis کہتے ہیں۔ لاش کے اس طرح اکڑ جانے کے عمل میں مختلف کیمیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں ATP کا ناپید ہوتے چلے جانا اورحُماض لَبَنی (lactic acidosis) اہم ہیں (لبنی ، دودھ کو کہتے ہیں اور حماض تیزابیت کو)۔ درج بالا دونوں کیمیائی عوامل کی وجہ سے عضلات (مسلز) بتدریج سخت ہوتے جاتے ہیں کیونکہ انکے ریشیچوں (fibrils) میں آزاد توانائی یا ATP باقی نہیں رہتا اور لبنی حماض کی وجہ سے پیدا شدہ تیزابیت ان کے عمومی کام کو روک دیتی ہے۔ عام طور پر صمل موت کا یہ عمل ہلاکت کے 2 تا 4 گھنٹے کے بعد شروع ہوتا ہے مگر مزید پہلے بھی واقع ہوسکتا ہے۔ 9 تا 12 گھنٹے بعد ، یا گرم آب و ہوا میں ، یہ تبدیلی اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ مزید یہ کہ صمل موت کا واقع ہونا ، ماحول کے درجہ حرارت پر بھی منحصر ہوتا ہے اور موت سے پہلے اس جاندار کی عضلاتی حرکت کی نوعیت پر بھی۔

بعد از موت ایک اور تبدیلی ازرق موت (livor mortis) یعنی نیلے پن کا ظہور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ موت کے بعد مختلف مصلی جھلیوں سے ریش تحلیلی(تحلیلی خامرے) نکلتے ہیں جو خون کو جمانے والے ایک لحمیہ یا پروٹین جس کو ریشیچہ گر (fibrinogen) کہا جاتا ہے کو تحلیل کر کے ختم کردیتے ہیں جس کی وجہ سے موت کے 30 تا 60 منٹ بعد خون کے جمنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور یہ خون، کشش ثقل کی وجہ سے جسم کے نچلے حصوں میں جمع ہو کرجلد کی نیلگوں رنگت پیدا کر دیتا ہے ، اسی وجہ سے اس کو ارزق موت کہا جاتا ہے کہ ارزق کے معنی نیلے کے ہوتے ہیں۔ یہ مظہر موت کے 2 گھنٹے بعد واضع دیکھا جاتا ہے اور 8 تا 12 گھنٹے تک اپنی انتہاء پر پہنچ جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جب انسانی جسم میں جان نکلتی ہے تو اس کے بعد سب سے پہلا عمل یہ ہوتا ہے کہ انسانی جسم کا درجہ حرارت ماحولیاتی درجہ حرارت کے مطابق ہو جاتا ہے یعنی اگر کمرے میں درجہ حرارت 25 یا 35 ڈگری سینٹی گریڈ ہے تو جسم کا درجہ حرارت بھی اس کے مطابق ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
دوسرا عمل یہ ہوتا ہے کہ زمین کی کشش ثقل کا جسم پر دبائو بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پورے جسم کا خون ایک مرکز میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے یعنی جسم کو جس طرف موڑیں گے خون کا بہاؤ اس طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ صمل موت یا جسم کا اکڑ جانا جو 12 گھنٹے تک خاصہ نمایاں ہوسکتا ہے اور پھر اس کے بعد اگلے 24 گھنٹے میں ختم ہوجاتا ہے۔ جب خامرے جسم کی نسیج کی توڑپھوڑ شروع کرتے ہیں۔ ایک روز میں جسم تفکک یا تعفن کے آثار نمایاں کرنے لگتا ہے اس عمل میں دو بنیادی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

1- خود تحلیلی (autolytic) تبدیلیاں جو خود جسم کے اندر نمودار ہوتی ہیں مثلا خامروں کا عمل اور
2- تعفن اور خرابی پیدا کرنے والے بیرونی یا ماحولی جسیمے مثلا بیکٹیریا ، فطریات (fungi) ، حشرات وغیرہ۔

اب جسم اندرونی طور پر بھی منہدم ہونا شروع ہوجاتا ہے اس کی جلد کے نچلی چربی اور گوشت سے روابط ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور بیکٹیریا وغیرہ کی وجہ سے بننے والی ہوا جسم کو مزید پھلا سکتی ہے۔ مختلف اقسام کے بیرونی اور اندرونی عوامل کے باعث جسم کے خستہ اور بوسیدہ ہوجانے کا عمل خاصہ متغیر ہوتا ہے بعض اوقات چند روز میں ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے اور بعض اوقات جسم کئی ماہ یا کئ سال تک اپنی بنیادی ساخت میں برقرار رہ سکتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق مرنے کے ایک ماہ بعد یا اس سے بھی کم وقت میں انسانی جسم پھولنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک وہ پھٹ جاتا ہے اور پھر گلنے سڑنے کا عمل سالوں جاری رہتا ہے انسانی جسم میں صرف ڈھانچہ سلامت بچتا ہے۔بعض اوقات وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مٹی میں مل جاتا ہے۔اگرچہ کچھ ڈھانچے کئی صدیوں تک بھی اپنی اصلی حالت میں ہی رہتے ہیں ۔

دماغی موت

آج کی جدید طرزیات یعنی ٹیکنالوجی اور طب کی موجودہ ترقی سے قبل ، موت کو دل اور سانس کی حرکت رک جانے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ مگر آج کے دور میں جبانعاش قلبی ریوی (CPR) اور ازالۂ رجفان(defibrillation) کی بہترین سہولیات طب کے ہاتھ میں ہیں تو اب موت کی پرانی تعریف اکثر پریشانی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ اب اوپر بیان کردہ دونوں ٹیکنالوجی یا ٹیکنالوجی کی وجہ سے ، دل اور سانس رک جانے کے بعد بھی زندگی واپس آجانے کے امکانات ہوتے ہیں لہذا اس سانس اور دل کی بندش کو آجکل سریری موت(Clinical death) کہا جاتا ہے اور دھڑکن اور سانس رکنے کی وجہ سے موت کی صورتحال میں بھی انسان یا کسی جاندار کو کمک حیات (life support) کے آلات کی مدد سے طویل عرصے تک سہارا دیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے آج جب ایک طبیب یا طبیب قانونی (coroner) کسی موت کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو وہ دماغی موت (Brain death) یاحیاتیاتی موت کی بات کرتا ہے۔ اور کسی بھی شخص کو صرف اسی حالت میں قانونی طور پر مردہ قرار دیا جاتا ہے کہ جب اس کے دماغ میں برقی تحریک ناپید ہوجائے۔ اب یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جب دماغ میں برقی تحریک کا خاتمہ ہوجائے تو حالت شعور یا آگہی موقوف ہوجاتی ہے۔ مگر موت کا اعلان کرنے کے لئے اس شعور کی موقوفیت کو دائمی یا مستقل ہونا لازمی ہے نا کہ عارضی ، جیسا کہ نیند یا بے ہوشی کی حالت میں ہوتا ہے۔ نیند یا سونے کی حالت میں برقی دماغی تخطط (electroencephalography) باآسانی اس بات کو ظاہر کردیتی ہے کہ شعور کا غائب ہوجانا عارضی ہے یا دائمی۔ موت کے درست وقت کا تعین کرنا اس لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ آج اعضاء کی پیونکاری بہت ترقی کرچکی ہے اور پیوندکاری کے لئے کسی بھی عضو کو جس قدر جلد ہو قطف یا جمع (harvest) کرلیا جائے۔

فعلیاتی انجام

انسان میں موت کے بعد واقع ہونے والی فعلیاتی تبدیلیاں جسم کے پھول جانے سے شروع ہوتی ہیں اور پھر اس کے بعد تفکک یعنی خراب ہوجانا اور پھر بعد از تفکک ہونے والی تبدیلیاں جو بالاخر ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلیوں تک جاتی ہیں۔ 15 تا 120 منٹ تک ہونے والی تبدیلیاں۔لاش کا رنگ پھیکا یا تبدیل ہو جاتا ہے جسےشحوب موت (pallor mortis) کہتے ہیں اور اس کا لبی درجہ حرارت گرجاتا ہے جسے برودہ موت یا انجماد موت کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مصرات (sphincter) یعنی جسم کے وہ عضلات جو دائرے یا چھلے کی صورت میں ہوتے ہیں ڈھیلے ہوجاتے ہیں جسم سے براز ، پیشاب اور معدہ کے اجزاء باہر آسکتے ہیں۔ پھر ارزق موت کی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔(وقت مختلف عوامل پر منحصر ہوتا ہے جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے)۔
یہ تو تھی مادی جسم کی موت اور موت کے بعد پیدا ہونے والی جسم میں تبدیلیاں لیکن روح کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے بلکہ مادی جسم کی موت کے بعد روح عالم برزخ میں زندہ رہتی ہے۔

جسم میں  روح کی عدم موجودگی

﴿ جسم میں  روح کی عدم موجودگی کی مزید صورتیں  بھی ہیں  جو کہ موت نہیں  ہیں۔ ﴾

موت کے  علاوہ جسم میں  روح کی عدم موجودگی کی مزید درج ذیل صورتیں  بھی ہیں

خلیاتی تخریب:

﴿خلیہ میں  روح کی عدم موجودگی سے خلیہ کی موت واقع ہو جاتی ہے ، یا خلیات میں  روح کی عدم موجودگی سے  خلیات کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن خلیہ یا خلیات کی موت جسم کی موت نہیں  ہے۔ ﴾

جب کہ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے  کہ موت حیاتیاتی خلیات کی تخریب کا وقت ہے۔

جسم انسانی میں  تمام تر خلیات کی تخریب و تعمیر کا عمل پوری زندگی میں تقریبا ً سات بار ہوتا ہے  یعنی پرانے  خلیے  مرجاتے ہیں  نئے  ان کی جگہ لے  لیتے  ہیں۔ اگر ہم خلیات کی تخریب کو موت تصور کریں  تو اس حساب سے  انسان پوری زندگی میں  سات بار مرتا ہے اور سات بار جیتا ہے۔ خلیوں  کی تعمیر و تخریب کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے  لہذا خلیوں  کی تخریب و تعمیر کا عمل موت کا عمل نہیں  ہے  بلکہ زندگی کا عمل ہے  یعنی نہ تو خلیے کی موت انسان کی موت ہے  نہ ہی خلیاتی تخریب موت کا سبب ہے۔ بلکہ خلیوں  کی تخریب و تعمیر کا عمل زندگی میں  جسم میں جاری رہتا ہے۔

درحقیقت خلیہ یا خلیات میں  روح کی عدم موجودگی سے  محض خلیہ یا خلیات کی موت ہوتی ہے۔ یعنی خلیہ ایک جاندار وجود ہے جو اپنا کام جانتا ہے  اپنا کام کر رہا ہے اور ہر خلیے  کے  پاس یہ حرکت و عمل کا پروگرام روح کا پروگرام ہے۔ لہذا خلیہ میں  روح کی عدم موجودگی سے خلیہ اپنا کام بند کر دیتا ہے ۔ بے  حرکت ہو جاتا ہے اور  مر جاتا ہے۔

لیکن محض خلیہ یا خلیات کی موت سے  جسم مردہ نہیں  ہوتا خلیہ میں  روح کی عدم موجودگی محض خلیہ کی موت ہے۔ اور محض خلیہ کی موت جسم کی موت نہیں  ہے۔

موت کو ڈیفائن کرنا:
انسان پورے کا پورا جاندار ہے بلکہ انسان کے جسم کا ہر خلیہ اپنے اندر ایک اکائی ہے اور ہر خلیہ جاندار ہے۔اسی وجہ سے موت کو ڈیفائن کرنا بہت مشکل ہے۔ آج کل موت کو دو طریقوں سے ڈیفائن کیا جاتا ہے

1۔ کلینیکل موت، سانس بند، دل کی دھڑکن بند، دماغ کا کام بند
2۔ طبیعاتی موت،جب جسم کے تمام اعضا اور خصوصاً دماغ کے تمام خلیے تباہ ہو جائیں

کلینیکل موت کے بعد انسان کو زندہ کرنے کے چانسز کافی زیادہ ہیں۔آج کل دل کے آپریشن کے دوران مریض کے جسم کو ٹھنڈا کر کے اسکا دل بند کر کے اسکا تمام خون نکال لیا جاتا ہے اس سے مریض کا دماغ بھی کام کرنا بند کر دیتا ہے اور مریض کی کلینیکل موت واقع ہو جاتی ہے۔تاہم اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض کے جسم اور خاص طور پر دماغ کے خلیات مرنے نہ پائیں۔ سرجری ختم ہونے کے بعد مریض کے جسم میں اسکا خون دوبارہ داخل کیا جات ہے اور جسم کا درجہِ حرارت نارمل کیا جاتا ہے۔ اس سے دل دوبارہ دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور دماغ بھی دوبارہ کام شروع کر دیتا ہے۔ ایسا ہر بڑے ہارٹ ہاسپٹل میں روز ہوتا ہے۔

اگر کلینیکل موت کے بعد چند منٹ کے اندر اندر دماغ کو دورانِ خون بحال نہ کیا جائے تو دماغ کے بیشتر خلیے پانچ سے دس منٹ کے اندر مر جاتے ہیں اور جو خلیے ایک دفعہ مر جائیں انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا – اگر دورانِ خون فوراً بحال نہ ہو سکے تو جسم کو ٹھنڈا کرنے سے خلیوں کی موت کی رفتار کم پڑ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ برف میں دھنس کر مرنے والے لوگ بعض اوقات کلینیکل موت کے دو تیں گھنٹے کے بعد بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ جسم کے کچھ حصوں کے خلیے مر جائیں لیکن انسان زندہ رہے۔ ایسا اکثر ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ یا پھر جسم کے کچھ حصوں کے یخ بستہ ہونے سے ہوتا ہے جسے گینگرین کہا جاتا ہے۔ گینگرین سے جسم کا جو حصہ متاثر ہو اس کے خلیے مر جاتے ہیں اور اگر اس حصے کو کاٹ کر جسم سے الگ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ تمام جسم مر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ طبیعاتی موت واقع ہو جائے یعنی دماغ کے تمام خلیے مر جائیں تو پھر دماغ میں خون کی گردش دوبارہ شروع کرنے سے بھی انسان زندہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکمل موت صرف اس وقت واقع ہوتی ہے جب دماغ کے تمام خلیے مر جایئں۔ ایسے انسان میں اگر دل دھڑکتا رہے تو جسم کے باقی اعضا تو زندہ رہتے ہیں لیکن دماغ مر چکا ہوتا ہے۔ ایسے مریضوں کو برین ڈیڈ کہا جاتا ہے اور ان کے جسم کو مشینوں کے ذریعہ سے سالوں تک زندہ رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ اسرائیل کے وزیرِاعظم ایرئل شیرون کے جسم کو ان کی دماغی موت کے بعد آٹھ سال تک زندہ رکھا گیا تھا کیونکہ ان کی فیمیلی کو امید تھی کہ شاید ان کا دماغ دوبارہ کام کرنے لگے۔اس طرح کے اکثر سین ہالی وڈ فلموں میں بھی دکھائے جاتے ہیں۔
دوبارہ زندہ ہوجانے کی خواہش میں خود کومنجمد کرانے والے افراد؛

خود کو مستقبل میں زندہ کرنے کی امید پر دنیا کی ہزاروں شخصیات اب تک لاکھوں ڈالرز ادا کر کے خود کو منجمد کرا چکے ہیں۔

لاس اینجلس کی ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مردوں کے دماغ کو منجمد کر کے اور مصنوعی ذہانت کی بدولت ، لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ہومائی(Humai) نامی اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ جب مستقبل میں ٹیکنالوجی میں مزید جدت آجائے گی تو انہیں موت کے منہ سے نکال لیا جائے گا اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

لیکن اس شعبے کے مخلص ماہرین کا کہنا ہے کہ ہومائی کے پاس کوئی ایسا قابل عمل طریقہ نہیں، جس سے مردہ افراد کو زندہ کرنا ممکن ہو سکے، اس لیے یہ سب افواہ ہے۔ اور لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ کسی طرح ہومائی یا اس جیسی دیگر کمپنیوں کے جھانسے میں آ کر اپنی دولت کو ضائع نہ کریں یہ فضول کوشش ہے۔ایسا ہونا ناممکن ہے۔
مزید امریکا اور برطانیہ کے ماہرین نے بھی ہومائی کے اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ دماغ کو زندہ کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا، دماغ کوئی پلگ اینڈپلے ڈیوائس نہیں جو یوایس بی سے کنکٹ ہوجائے گا۔

اسی کے پیشِ نظر ہزاروں افراد مرنے کے بعد خود کو خاص برفیلے چیمبرز میں جما رہے ہیں یہ عمل کرائیو پریزرویشن کہلاتا ہے جس میں جسم کے تمام اعضا حیرت انگیز طور پر محفوظ رہتے ہیں اور جسمانی ٹوٹ پھوٹ بھی بہت کم ہوتی ہے۔
مرنے کے بعد پورا خون نچوڑ کر اسے ایک خاص مائع سے بھر دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ کرائیو پریزرویشن کے تصور نے سب سے پہلے امریکہ میں جنم لیا جب ‘پروسپیکٹ آف ایموریلیٹی’ نامی کتاب شائع ہوئی جس میں بحث کی گئی ہے کہ موت کے وقت اگر انسان کو منجمد کر دیا جائے تو اسے بعد میں دوبارا زندگی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
بہرحال! اتنی کوششوں و تجربات کے باوجود آج تک کسی مردہ کو زندہ نہیں کیا جا سکا۔اور نہ ہی مستقبل میں کیا جا سکے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ يُحْيِيهَا ٱلَّذِىٓ أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍۢ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ۔
ترجمہ: کہہ دو انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ سب کچھ بنانا جانتا ہے (سورۃ یس،آیت 79)
کاش کہ ان کا آخرت پر ایمان ہوتا کہ ایک بار مرنے کے بعد کوئی شخص دوبارہ دنیا میں زندہ نہیں ہو سکتا۔الا کہ جسے اللہ چاہے اپنی نشانیاں ظاہر کرنے کیلئے۔ جاری ہے۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...