Tuesday 31 May 2016

جادو جنات اور علاج، قسط نمبر33

(جادو جنات اور علاج:قسط نمبر34)

سجدہ سے ابلیس کا انکار:
اسباب واعذار - ایک جائزہ؛

قرآن مجید کی متعدد آیات میں قصۂابلیس کا ذکر آیا ہے، ابلیس نے جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب دریافت کیا، ابلیس نے اس موقعہ پر اپنی کم عقلی وکج فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی افضلیت کو سجدے سے انکار کا سبب بتایا، آیئے پہلے ہم ان چند آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن میں اس قصہ کا بیان ہوا ہے۔

١۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ترجمہ [اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم نے ہی تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو، سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعالی نے فرمایا: تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے، جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے،الاعراف: ١١ – ٢ا ]۔
٢۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ [اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدہ میں گرپڑنا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟ وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تونے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے،الحجر: ٢٨ – ٣٣]۔
٣۔ ﷲ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ[جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نےسجدہ  کیا، اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلوں گا ،الاسراء: ٦١ – ٦٢]۔
۴۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ[جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔ سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ (اﷲتعالی نے) فرمایا: اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ہے، ص: ٧١ – ٧٦]۔

خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کا یہ عذر پیش کیا کہ وہ آدم علیہ السلام سے افضل ہے اور ایک افضل کو اس سے کمتر کا سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا جانا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ تھا۔ابلیس نے صرف یہ دیکھا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے۔اس نے یہ نہیں دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو اللہ نے کتنی عزت بخشی ہے۔ انھیں اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ان میں اپنی روح پھونکی ہے۔ابلیس نے کبر و غرور، فخر وعناد اور حسد سے کام لیا، اور وہ اس برے انجام تک اپنے فاسد قیاس سے پہنچا۔ اس نے اپنے اور آدم علیہ السلام کے اصل عنصر پر نظر کی اور یہ فیصلہ کرلیا کہ آگ مٹی سے بہترہے۔حالانکہ اس کا یہ قیاس فاسد , اس کی یہ رائے باطل اور اس کی یہ سوچ غلط تھی ؛ کیونکہ:
 (١)یہ قیاس اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تھا۔جب اللہ کا صریح حکم موجود ہو اس وقت قیاس کرنا اور اللہ کے حکم کے آگے اپنی عقل دوڑانا انتہائی حماقت اور نادانی کی بات ہے۔اور یہ عمل کسی اللہ والے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
ابلیس کی عقل نے کیوں ٹھوکر کھائی؟
یہاں  یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر مخلوق کی عقل خالق کے حکم کے خلاف سوچتی ہے تو یقینی طور پر ٹھوکر کھاتی ہےجیسے کہ شیطان کی عقل نے اس کا ساتھ نہیں دیا، جس طرح درست طور پر دیکھنے کے لئے آنکھ کو اللہ کی پیدا کی ہوئی روشنی سورج یا چاند یا کسی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح درست طور پر سوچنے کے لئے عقل کو بھی وحی کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصارت کے لئے بیرونی روشنی درکار ہے اور بصیرت کے لئے وحی کا نور مطلوب ہے۔
(٢)ابلیس کا یہ دعوی کہ وہ آدم علیہ السلام سے بہتر ہے خود ابلیس کے ذلیل وپست ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا پست وحقیر ہونے کی دلیل ہے۔
(٣)ابلیس کا یہ دعوی بھی غلط تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مٹی آگ سے کئی اعتبارسے افضل ہے۔

آگ اور مٹی کا موازنہ:

١۔ مٹی کی شان، حلم،ثبات، وقار اور سنجیدگی ہے۔آدم علیہ السلام کے عنصر مٹی نے ان کو نفع دیا۔آپ نے گناہ کے بعد توبہ کیا اور جنت سے نکلنے کے بعد دوبارہ جنت کے مستحق ہوئے۔آگ کی شان طیش واضطراب، سوزش واشتعال، بھڑک اور جلانا ہے۔ ابلیس کے عنصر آگ نے اسے نقصان پہنچایا چنانچہ اس نے گناہ کے بعد توبہ نہ کی اور ہمیشہ کے لئے مردود ٹھہرا۔مٹی کی طبیعت میں سکون اور ٹھہراؤ ہے جبکہ آگ کی طبیعت میں حرکت اور اشتعال ہے۔

٢۔ آگ کا مزاج فساداور تباہی وہلاکت ہے جبکہ مٹی کا مزاج ایسا نہیں۔

٣۔ مٹی میں اور مٹی سے انسانوں اور حیوانوں کی خوراک وپوشاک کا انتظام ہوتا ہے۔ان کے مکانات اور ضرورت کے سامان اسی سے تیار ہوتے ہیں جبکہ آگ سے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

٤۔ مٹی انسان وحیوان کے لئے ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جبکہ آگ کی ضرورت حیوانات کو تو بالکل نہیں اور انسان بھی کئی مہینوں اور کئی دنوں تک اس سے بے نیاز رہ سکتا ہے۔کہاں آگ سے کبھی کبھی نفع اٹھانا اور کہاں مٹی سے ہمیشہ نفع اٹھانا کیا دونوں برابر ہو سکتا ہے؟؟۔

٥۔ مٹی میں کوئی دانہ ڈالا جائے تو مٹی کی بر کت یہ ہے کہ وہ دانہ کئی گنا ہو کر واپس ملتا ہے۔ جبکہ آگ میں جتنے دانے ڈالے جائیں آگ سب کو کھالیتی ہے۔ بڑھانا تو دور کی بات ہے خود اس میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتی۔

٦۔ مٹی از خود قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لئے کسی دو سری چیز کی محتاج نہیں۔ جبکہ آگ کو قائم رہنے کے لئے کوئی جگہ چاہئے۔

٧۔ آگ مٹی کی  محتاج ہے اور مٹی آگ کی محتاج نہیں کیونکہ آگ جس جگہ رکھی جائے گی وہ یا تو مٹی ہو گی یا مٹی سے بنی ہوئی کوئی چیز ہو گی۔

٨۔ مٹی میں خیر وبرکت پوشیدہ ہے جتنا اسے الٹ پلٹ کریں گے اور اس کی کھدائی کریں گے اس کی خیر وبرکت ظاہر ہو گی۔اس کے بر خلاف آگ میں اگرچہ تھو ڑا سا نفع ہے لیکن اس میں شر ومصیبت پوشیدہ ہے۔ جب تک اسے باندھ کے اور بند کر کے رکھیں گے اس سے مستفید ہوتے رہیں گے اور جونہی آگ آزاد ہو ئی اور اس پر سے رکاوٹ ختم ہوئی تو تباہی وبربادی یقینی ہوجائے گی۔

٩۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں زمین کا بکثرت ذکر کیا ہے اور اس کی نفع رسانیوں کی وضاحت کی ہے جبکہ آگ کاذکر سزا اور عذاب کے طور پر آیا ہے سوائے ایک دو جگہوں کے کہ جہاں پر مسافرکے لئے اسے مفید بتایا گیا ہے۔

 ١٠۔ قرآن مجید کے اندر زمین کے بہت سے مقامات کو بابر کت قرار دیا گیا ہے لیکن آگ کو کہیں بھی با برکت نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ آگ تو برکت مٹانے والی ہے۔

١١۔ اللہ تعالی نے زمین میں بہت سے منافع رکھے ہیں۔نہریں، چشمے، باغات، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ ایسی کوئی چیز آگ میں نہیں۔

١٢۔ ابلیس کا مادہ آگ کا شعلہ ہے اور وہ کمزور ہے۔ خواہشات اسے جہاں چاہتے ہیں پھیرتے رہتے ہیں۔اسی لئے اپنے خواہشات کا غلام بن کر ابلیس نے نافرمانی کی۔جبکہ آدمی کا مادہ مٹی ہے اور مٹی ایک طاقتور چیز ہے۔ خواہشات اس پر قابو نہیں پاسکتے۔تھوڑی دیر کے لئے اگر خواہش غالب بھی آجائے تو پھر جلدہی زائل ہو جاتی ہے۔

١٣۔زمین ہی میں اللہ کے گھر پائے جا تے ہیں۔کعبہ اور مسجدیں پائی جاتی ہیں۔ اور آگ میں ایسا کچھ نہیں۔

١٤۔ آگ کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمین میں پیداہونے والی چیزوں کی خادم رہے۔ جب آگ کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے کسی خادم کی طرح بلایا جاتا ہے اور ضرورت پوری ہو نے پر اسے بجھا دیا جاتا ہے۔

١٥۔ ابلیس نے اپنی بے عقلی کی بنا پر یہ دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو گیلی مٹی سے بنایا گیا ہے اس لئے ان کو حقیر خیال کیا۔ کاش اس بیوقوف کو معلوم ہوتا کہ گیلی مٹی دو چیزوں سے مرکب ہے ایک تو پانی جس سے اللہ نے ہر زندہ چیز کو بنایا ہے اور دو سری چیز مٹی جو نعمتوں کا خزینہ اور منا فع کا گنجینہ ہے۔

١٦۔ مٹی آگ پر غالب آتی ہے اور اسے بجھا دیتی ہے لیکن آگ مٹی پر غالب نہیں ہے۔

١٧۔ اللہ نے زمین کو سجدہ گاہ اور پاکی حاصل کر نے کا ذریعہ بنا یا ہے اور آگ کو ایسی کوئی فضیلت نہیں۔

١٨۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے تو اصل کے افضل ہونے سے فرع کا افضل ہونا لازم نہیں آتا۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ دادا بہت شریف اور با عزت ہوتے ہیں لیکن ان کی اولاد نہایت ذلیل اور بدتر ہوتی ہے۔

١٩۔ آدم علیہ السلام اگرچہ مٹی سے بنائے گئے تھے لیکن اللہ نے ان میں اپنی طرف سے روح پھونک کر انھیں عزت بخشی۔ابلیس کو یہ فضیلت تو ہرگز حاصل نہیں تھی۔

٢٠۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تعا لی نے اپنے دست مبارک سے بنا یا تھا۔

٢١۔ اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ ابلیس ہی افضل تھا تو کہا جائے گا کہ افضل کا اپنے سے کمتر کی تعظیم وتکریم کرنا کوئی تعجب اور انکار کی بات نہیں۔
جاری ہے......
ہماری دیگر اسلامی سروس حاصل کرنے کیلئے رابطہ:
whatsApp:0096176390670
Whatapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr
 طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...