Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر 27

"مسلمانوں کے مذہبی مسالکا"
(قسط نمبر 27)
باب 6: عقیدہ نور و بشر اور ایصال ثواب
اس باب میں ہم دو اختلافی عقائد کا جائزہ لیں گے۔ ایک ہے عقیدہ نور و بشر اور دوسرا ہے عقیدہ ایصال ثواب۔
عقیدہ نور و بشر:
سنی بریلوی اور اہل حدیث دیوبندی حضرات کے مابین ایک اہم اختلاف عقیدہ نور و بشر کا ہے۔ سنی بریلوی حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام مخلوقات سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اور پھر اس کائنات کو آپ کے لیے پیدا کیا۔ اسی بنیاد پر وہ آپ کے لیے "نور اللہ" یعنی اللہ کا نور کا اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ نعوذ باللہ آپ کو اللہ تعالی کے وجود کا کوئی حصہ سمجھتے ہوں، ان کا کہنا یہ ہے کہ نور اللہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالی نے براہ راست اپنے نور سے پیدا فرمایا، جیسے چراغ سے چراغ جلایا جاتا ہو۔ بریلوی رسول اللہ ﷺ کے بشر یعنی انسان ہونے کا مانتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ آپ کو بشر یا بھائی کہنا آپ کی بے ادبی ہے۔
اس کے برعکس سلفی حضرات کا نقطہ نظریہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعلی ترین درجہ کے انسان تھے۔آپ کو نور ہدایت یا نور نبوت کہا جا سکتا ہے مگر اپنی اصل میں آپ انسان ہی تھے اور ایسا کہنے سے کوئی بے ادبی نہیں ہوتی ۔ آپ کو اللہ کا نور ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
سنی بریلوی حضرات کے دلائل:
اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں سنی بریلوی حضرات قرآن مجید کی کچھ آیات اور چند احادیث پیش کرتے ہیں:
يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ
اے اہل کتاب! تحقیق تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو بہت سی چیزیں تم پر ظاہر کرتا ہے جنہیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔ (المائدہ 5:15)
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِئُـوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْ وَيَاْبَى اللّـٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِـمَّ نُـوْرَهٝ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ
چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر نہیں رہے گا اور اگرچہ کافر ناپسند ہی کریں۔
بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ کے نور سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔
اس کے برعکس اہل حدیث اور اکثر دیوبندی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ قرآن میں نور سے مراد بلعموم کتاب اللہ ہوتی ہے، جیسا کہ تورات کو بھی نور کہا گیا ہے، مگر اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کو بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہ نور ہدایت ہے جس سے ہم سب روشنی پاتے ہیں۔ اس نور سے مراد یہ نہیں کہ آپ معاذ اللہ نور کے میٹریل سے بنے ہوئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نور ہدایت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر؛ بلکہ افضل البشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لیے مینارہٴ نور ہیں، یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کوخدا تعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے اور جس کی روشنی تاقیامت درخشندہ وتابندہ رہے گی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع کے اعتبار سے بشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے نور ہیں۔
سنی بریلوی حضرات اس ضمن میں یہ احادیث بھی پیش کرتے ہیں:
حدثنا عبد اللہ بن عبدالرحمن قال: حدثنا ابراھیم بن المنذر الحزامی، قال حدثنا عبدالعزیز بن ابی ثابت الزھری قال: حدثنی اسماعیل بن ابراھیم ابن اخی موسی بن عقبۃ عن موسی بن عقبۃ عن کریب عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم افلج اثنیتین اذا تکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کے دو دانتوں میں جھری تھی۔ جب آپ کلام فرماتے تو گویا کہ ایک نور تھا جو ان دونوں دانتوں کے مابین نکل رہا ہوتا تھا۔ (شمائل ترمذی حدیث 15)
اخبرنا محمود بن غلان ثنا یزید بن ھارون انا مسعر عن عبدالملک بن عمیر قال قال بن عمر ما رایت احدا انجد ولا اجواد ولا اشجع ولا اضوا واوضا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو نہ تو بلند مرتبہ دیکھا، نہ ہی سخی، نہ ہی بہادر اور نہ ہی پرنور (سنن دارمی حدیث 59)
سلفی حضرات کہتے ہیں کہ ان احادیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تو  وہ نبی ﷺ کی ہستی کے نورانی جہت کے انکاری نہیں ہیں۔ وہ آپ کو انسان سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالی سے نبوت کے تعلق کے باعث آپ کی نورانی صفات کا انہیں انکار نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بعض بریلوی حضرات دو احادیث " لولاک لولاک ما خلقت الا فلاک" یعنی " اے محمد! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا" اور "اول ما خلق اللہ نور نبیک یا جابر" یعنی " اے جابر! اللہ نے سب سے پہلے جو چیز تخلیق کی وہ تمہارے نبی کا نور تھا" پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ احادیث ہیں جنہیں قدیم محدثین نے بھی موضوع یعنی جعلی اور باطل قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بریلوی علماء جنہیں علوم حدیث میں مہارت حاصل ہے، کبھی ان احادیث کو پیش نہیں کرتے ہیں۔
غلام مہر علی بریلوی خطیب چشتیاں نے لکھا ہے"
"ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا کے پیدا کیے ہوئے نور ہیں (فتاویٰ ثنائیہ حصہ اول:۴۳۷) ہم کہتے ہیں ہمارا بھی عقیدہ یہی ہے۔ باقی یہ کہ ہم اہل سنت حضور کو نور قدیم یا خدا کا جز مانتے ہیں یہ محض افترا٫ اور صریح بہتان ہے (دیوبندی مذہب :۲۴۳)
سلفی حضرات کے دلائل:
سلفی حضرات اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت اور متعدد احادیث پیش کرتے ہیں:
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ )
ترجمہ:آپ کہہ دیں: میں یقینا تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہےکہ بیشک تمہارا الہ ایک ہی ہے۔ الكهف/110

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے دیگر انبیاء اور رسولوں کی تھی۔
ایک مقام پر اللہ تعالی نے [انبیاء کی بشریت کے متعلق ] فرمایا:

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

ترجمہ:اور ہم نے ان[انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا۔ الأنبياء/8

جبکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر تعجب کرنے والوں کی تردید بھی کی اور فرمایا:

( وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ )

ترجمہ:[ان کفار نے رسول کی تردید کیلئے کہاکہ ] یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ الفرقان/7
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور ابلیس کو دہکتی ہو آگ سے، اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلادی گئی ہے
مسلم (299) قرآنی آیات میں اس بات کی واضح تصریح موجود ہے کہ آپ ﷺ بشر تھے۔اور اسی طرح قرآن ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ کفار سابقہ انبیاء و رسل علیھم السلام کی رسالت پر جو اعتراضات کرتے تھے ،ان میں ایک اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر کو اپنی ترجمانی کے لیے منتخب فرما لیا ہو اور اس کے سر پر تاج نبوت رکھ لیا ہو؟اس کام کے لیے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ نوری مخلوق میں سے کسی فرشتے کو منتخب فرماتا ۔تو گویا انبیاء و رسل علیھم السلام کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ہدایت میں مانع قرار دیا۔
انسانیت کو رسالت کے قابل نہ سمجھنا انسانیت کی توہین ہے،اور اس عقیدے کے بعد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔یہ خلاف عقل بات ہے کہ انسان تمام مخلوقات سے افضل بھی ہو اور پھر اس میں نبوت و رسالت کی اہلیت بھی موجود نہ ہو۔
ایک بریلوی امام لکھتے ہیں:
"رسول ﷺ اللہ کے نور میں سے ہیں اور ساری مخلوق آپ ﷺ کے نور سے ہے۔(مواعظ نعیمیہ،احمد یار بریلوی ص14)
مزید ارشاد ہوتا ہے:
بے شک اللہ ذات کریم نے صورت محمدی ﷺ کو اپنے نام پاک بدیع سے پیدا کیا اور کروڑ ہا سال ذات کریم اسی صورت محمدی ﷺ کو دیکھتا رہا۔اپنے اسم مبارک منان اور قاہر سے،پھر تجلی فرمائی اس پر اپنے اسم پاک لطیف ،غافر سے۔(فتاوی نعیمیہ ص37)
خود بانی بریلویت نے رسول اللہ ﷺکی بشریت کے انکار میں بہت سے رسالے تحریر کیے۔ان میں سے ایک رسالے کا نام ہے "صلوۃ الصفا فی نور المصطفی"۔اس کا خطبہ انہوں نے شکستہ عربی میں لکھا ہے ۔اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
"اے اللہ تیرے لیے سب تعریفیں ہیں ۔تو نوروں کا نور ہے۔سب نوروں سے پہلے نور،سب نوروں کے بعد نور،اے وہ ذات جس کے لیے نور ہے،جس کے ساتھ نور ہے،جس سے نور ہے،جس کی طرف نور ہے اور جو خود نور ہے۔درود و سلامتی اور برکتیں نازل فرمااپنے روشن نور پر جسے تو نے اپنے نور سے پیدا کیا ہےاور پھر اس کے نور سے ساری مخلوق کو پیدا کیا۔اور سلامتی فرما اس کے نور کی شعاعوں پر،اس کی آل ،اصحاب اور اس کے چاندوں پر۔"(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل ص33)
مزید ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ
"رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے جابر،بے شک بالیقین اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔نبی ﷺ کا نور اپنے قدرت الہی سے جہاں خدا نے چاہا،دورہ کرتا رہا۔اس وقت لوح و قلم،جنت و دوزخ،فرشتگان،آسمان،زمین،سورج،چاند،جن،آدم کچھ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے فرمائے۔پہلے سے قلم،دوسرے سے لوح،تیسرے سے عرش بنایا،پھر چوتھے کے چار حصے کیے۔(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل ص33)
حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
" اس حدیث کو امت نے قبول کر لیا ہے۔اور امت کا قبول کرنا وہ شئے عظیم ہےجس کے بعد کسی سند کی حاجت نہیں رہتی،بلکہ سند ضعیف بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کرتی۔(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل )
سلفی عالم علامہ احسان الہی کہتے ہیں:
خان صاحب بریلوی قبول کرنے والی امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں؟
اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال اور گمراہ لوگوں کی امت ہےتو خیر،اور اگر ان کی اس سے مراد علماء و ماہرین حدیث ہے،تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔اور پھر یہ کس نے کہا ہے کہ امت کے کسی حدیث کو قبول کرلینے سے اس کی سند دیکھنی کی حاجت نہیں رہتی؟
اور یہ روایت توقرآنی نصوص اور احادیث نبویہ (ﷺ) کے صریح خلاف ہے۔
(بریلویت از علامہ احسان)​
حدثنا عبد اللہ بن صالح قال: حدثنا معاویۃ بن صالح، عن یحیی بن سعید، عن عمرۃ، قالت: قیل لعائشۃ: ماذا کان یعمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی بیتہ؟ قالت: کان بشرا من البشر یفلی ثوبہ، ویحلب شاتہ، ویخدم نفسہ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا: "وہ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں چاول چھانتے، اپنی بھیڑ کا دودھ دوہتے اور اپنے کام خود کیا کرتے تھے۔" (شمائل ترمذی حدیث 342)
اس کے جواب میں سنی بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بشریت کے منکر نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں آپ کو جو"تمہارے جیسا انسان" کہا گیا ہے، ایسا اللہ تعالی ہی کہہ سکتا ہے، ہمارا اس طرح سے کہنا بے ادبی ہے۔ اس کے جواب میں سلفی حضرات کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے بھی آپ کو اپنے جیسا انسان کہا، تو کیا یہ بے ادبی نہ تھی؟ نبی کریم ﷺ جسمانی اعتبار سے دیگر انسانوں جیسے ہی تھے اور ایسا کہنے سے ہرگز آپ کی کوئی بے ادبی نہیں ہو سکتی ہے۔
اس اختلاف کا ایک پہلو رسول اللہ ﷺ کا بے مثل ہونا بھی ہے۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضور ﷺ بے مثل انسان تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سلفی حضرات کے نزدیک آپ جسمانی اعتبار سے انسان تھے-
آپ آدم علیہ السلام کی نسل میں سے بشر ہیں، اور ماں باپ سے پیدا ہوئے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے، اور آپ نے شادیاں بھی کیں، آپ بھوکے بھی رہے، اور بیمار بھی ہوئے، آپکو بھی خوشی و غمی کا احساس ہوتا تھا، اور آپکے بشر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپکو بھی اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی جیسے وہ دیگر لوگوں کو موت دی، لیکن جس چیز سے آپ کو امتیاز حاصل ہے وہ نبوت، رسالت، اور وحی ہے۔
بریلوی حضرات کے نزدیک آپ جسمانی اعتبار سے بھی مختلف تھے، اصلاً آپ نورانی تھے مگر آپ کو بشری قالب میں دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
جاری ہے....
مصنف:ڈاکٹر مبشر نذیر صاحب
مزید معلومات کیلئے یہ لنک وزٹ کریں
www.mubashirnazir.org
www.aqilkhan.org
www.islamicstudiesprogram.com
www.islamic-studies.info
[یہ پروگرام واٹس اپ پر اور سوشل میڈیا پر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان کے تعاون سے نشرکیا جا رہا ہے.اگر آپ تفرقہ پرستی سے پاک غیرجانبدرانہ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر رابطہ کریں اور خواتین کیلئے علیحدہ گروپ موجود ہے0096176390670]

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...