Saturday 20 January 2018

میں نے تقلید کیوں چھوڑی

میں نے تقلید کیوں چھوڑی

(از عمران شہزاد تارڑ )

کچھ لوگ تقلید کو ضروری قرار دینے کے لئے عوام کے ذھن میں ایک خاص وسوسہ یہ بھی ڈالتے ھیں کہ ہر شخص خود قران و حدیث سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ھے۔اس لیے اسے کسی دوسرے امام کی تقلید کرنا ضروری ہوتا ہے۔

ہم کہتے ھیں بیشک ہر عام آدمی قران و حدیث خود سے نھیں سمجھ سکتا، لیکن یہ بتاؤ جناب کیا ھر شخص ائمہ کی کتب سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟ جس امام کی تقلید کو آپ ضروری قرار دے رھے ھو کیا اُس کی فقہ کی طرف منسوب کتابوں کو پڑھنے کی ہر عام آدمی صلاحیت رکھتا ھے ؟؟؟
جواب : نھیں ہے۔بلکہ آپ کے ہر مدرسہ میں فقہ پڑھانے اور سمجھانے کے لئے اساتذہ کرام موجود ہوتے ہیں۔

تو جناب علماء سے پوچھ کر وہ اتباع کیوں نھیں کر سکتا ؟؟؟
آخر وہ علماء سے یہی کیوں پوچھے کہ " حنفی فقہ کے مطابق یہ مسئلہ کیسے ھے "
وہ یہ کیوں نھیں پوچھ سکتا کہ حدیث رسول کے مطابق یہ مسئلہ کیسے ھے ؟
اور مولوی اسے حنفی فقہ کے مطابق ھی کیوں مسئلہ بتائے ؟ اگر حنفی قول کے خلاف زیادہ صحیح دلیل موجود ھو تو وہ فقہ حنفی کے خلاف مسئلہ کیوں نھیں بتا سکتا ؟؟؟
اسی لئے ہم کہتے ھیں کہ یہ محض ایک وسوسہ ھے کہ کیا ہر شخص خود قرآن و حدیث خود پڑھ اور سمجھ سکتا ھے۔۔۔
حقیقت یہ ھے کہ وہ جس طرح علماء سے پوچھ کر امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتا ھے اُسی طرح علماء سے پوچھ کر حدیث رسول کی بھی اتباع کر سکتا ھے۔
ہم بھی تمام مسائل اپنے علماء سے ہی پوچھتے اور سمجھتے ہیں لیکن اندھی تقلید نہیں کرتے بلکہ اتباع کرتے ہیں ۔  
فقہ کے بھی ہم منکر نھیں ، فقہ کا اقرار ھے،فقہ کا احترام ھے،فقہ ہمارے ہر مدارس میں بھی  پڑھائی جاتی ہے۔
لیکن وہ فقہ جو قران و حدیث کے مطابق ھو۔
وہ فقہ نھیں کہ جس میں فقہ کے نام پر صحیح احادیث کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اور نہ وہ فقہ کہ جس کے بیشتر مسائل قرآن و صحیح حدیث سے ٹکراتے ھوں ۔
" متعصب لوگوں نے معاملے کو برعکس کر دیا اور جو حدیث اپنے ائمہ کے اقوال کے مطابق ملی، اسے لے لیا اور جو ان کے خلاف معلوم ہوئی، کسی نہ کسی حیلے سے اسے ردّ کر دیا، اس کا معنیٰ و مفہوم بدلنے کی کوشش کی، اس سے بہت کمزور سند والی اور کمزور دلالت والی حدیث اگر ان کے مذہب کے موافق معلوم ہوئی تو اسے قبول کر لیا، اس کو ردّ کرنے والوں کے سر ہو گئے اور اپنے مخالف کے سامنے اس پر ڈٹ گئے، اس کے لیے تمام جتن کر ڈالے، حالانکہ خود اپنے امام کے خلاف پا کر اس سے بہت واضح دلالت والی حدیث کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے پورے زور سے اسے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔

تمام محدثین کے نزدیک تقلید حرام ہے کسی مسلمان کے لیئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین میں (کسی کی) تقلید کرے۔ 
"بلکہ یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے (مضبوطی سے) پکڑ لو اور جو بات اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ میں پھینک دو۔"(مسندالدارمی۶۰۲ وسندہ صحیح)

جب مقلد قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی عالم کی بات کو مانے اور قرآن و حدیث سے یکسر اعراض کرے۔ قرآن مجید کو صرف تبرک کے لیے پڑھے لیکن عملاً اس کو’’ دستور حیات‘‘ ماننے سے انکار کرے اور یہ گمان کرے کہ ہمارے امام سے غلطی اور خطا ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور صواب ہے اور اپنے دل میں یہ بات جما رکھے کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہ چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن وحدیث سے دلیل قائم بھی ہو جائے ۔
ایسی تقلید بعض اوقات اسلام سے انحراف کا سبب بن جاتی ہے ۔

وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام و ممنوع ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔

مگر صد افسوس !ایسی تقلید کے اثرات ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔

نوٹ:تفصیلی مضمون "تقلید کیا ہے ؟ تقلید کی شرعی حیثیت"میں مطالعہ فرمائیں
www.dawatetohid.blogspot.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان 

Friday 5 January 2018

حلالہ کے موضوع پر دارالعلوم دیوبند کے چند فتاویٰ جات: فتوی نمبر:1 سے 12


حلالہ کے موضوع پر دارالعلوم دیوبند کے چند فتاویٰ جات: فتوی نمبر:1 سے 12

یہ فتاویٰ جات بالا مضمون کے ساتھ پیش کرنے کا ایک خاص مقصد ہے
پہلے تو یہ سب کو معلوم ہی ہے کہ ہمارے برصغیر پاک و ہند کی عوام میں مروجہ حلالہ یا لفظ حلالہ سے مراد وہی حلالہ لیا جاتا ہے جس میں پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کی نیت سے عورت کے ساتھ وقتی نکاح کیا جائے۔ بلکہ یہ ایک طرح کا عرف بن چکا ہے۔ راہ چلتے کسی شخص سے پوچھئے ، آپ کو کم و بیش یہی جواب ملے گا۔
رہا شرعی حلالہ، تو شاید ہزاروں یا لاکھوں میں کوئی ایک یا دو کیسز ایسے ہوں گے، جن میں خاتون کو طلاق ہوئی ہو، اس نے گھر بسانے کی نیت سے دوسری شادی کی ، اور پھر اسے طلاق ہو گئی یا خاوند کی وفات ہو گئی اور پھر سے اس نے پہلے شوہر سے نکاح کر لیا ہو۔ شاید فورم پر موجود کسی شخص کے ذاتی مشاہدہ میں ایسا کوئی کیس نہیں آیا ہوگا، واللہ اعلم۔
اب یہ فتاویٰ جات ملاحظہ کیجئے، جن میں ایسے جوڑوں کو جو طلاق کے عمل سے گزر چکے ہیں، اور حلالہ کرانا چاہتے ہیں، مفتی صاحب نے کہیں پر بھی یہ نہیں کہا کہ ایسا کرنا شریعت کے خلاف ہے، حرام ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہوتی ہے اس نیت سے یا اس شرط سے ایسا کام کرنے والے پر۔ ہاں، آپ کو یہ اصطلاح ضرور ملے گی کہ یہ مکروہ تحریمی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی کہیں نہ کہیں، اس سے بھی بچنے کا کوئی حیلہ ہوگا، جس سے وہ مکروہ تحریمی بھی نہ رہے۔
آپ کو کہیں یہ نہیں ملے گا، کہ آپ نے جو حلالہ کی شرط سے نکاح کیا، یہ لعنتی فعل ہے۔ آپ زنا کے مرتکب ہوئے ، وغیرہ، ایسی کوئی بات نہیں ملےگی، الاما شاءاللہ کہ کسی فتوے میں اس کا کوئی ذکر ہو، میں نے دارالعلوم دیوبند کی فتویٰ سائٹ سے اس مسئلے پر کم و بیش سارے ہی فتوے چھان مارے مجھے تو ایسا کچھ نہیں ملا۔

سوال: اکثر علماء کہتے ہیں کہ اسلام میں حلالہ جائز نہیں ہے، مطلب اگر کوئی عورت کے ساتھ نکاح اس نیت سے کرے کہ اس کے ساتھ ہمبستری کے بعد وہ اسے طلاق دیدے گا تاکہ وہ اپنے سابق شوہر کے واپس چلی جائے، تو یہ حرام ہے اور اس طرح سے نکاح نہیں ہوگا۔ جب کہ کچھ علماء کہتے ہںو اس نیت سے جائزہے ہاں نکاح کے وقت نیت کا اظہار نہ ہو۔ مگر اس نیت سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔ براہ کرم، مع حوالہ جواب دیں تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔
Oct 26,2011
Answer: 34981
فتوی(د): 1839=1155-11/1432
حلالہ کرنے کی شرط پر نکاح کرنا تو مکروہ تحریمی ہے اگرچہ بعد عدت ثانی زوج اول کے لیے جائز ہو جائے گی، اور اگر شرط نہیں لگائی بس نکاح کرلیا تو چاہے دل میں ایسا ارادہ ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے۔ لہٰذا دوسرے بعض علماء کا قول قرآن حدیث اور فقہ کے موافق ہے، قال في الدر وکرہ تحریمًا  بشرط التحلیل وإن حلت للأول أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا لقصد الإصلاح (شامي: ۲/۵۸۷)واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
****
میرے ابو اور بہنوئی وہابی (غیر مقلدین) گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے بہنوئی نے میری بہن کی لڑائی جھگڑے کے دوران کہا کہ: (۱)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (۲)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں (۳)میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)۔ پھر چند دن بعد یہ کہہ کر رجوع کرلیا کہ ہمارے یہاں مجلس واحد میں تین طلاق ایک گنی جاتی ہے۔ چونکہ میرے ابو بھی اسی گروپ کے تھے لہذا انھوں نے میری بہن کو واپس بہنوئی کے پاس بھیج دیا۔ اس واقعہ کے بعد ان کے یہاں دو بچے اور ہوئے اور وہ دونوں آج تک ساتھ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ فقہ حنفی کے مطابق جواب دیں کہ کیا وہ دونوں میاں بیوی ہیں او راگر نہیں تو ان کے ساتھ میں میل جول رکھوں یا ترک کردوں اور اگر میاں بیوی ہیں تو شرعی دلیل اس کی روانہ کریں؟
Jun 09,2009
Answer: 13283
فتوی: 820=637/ل
ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مذہب یہ ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت مغلظہ بائنہ ہوکر شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور بغیر حلالہ شرعی وہ شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی، قرآن شریف، احادیث، ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلَف وخلَف کے اقوال سے یہی ثابت ہے، تین طلاق کے بعد آپ کی بہن اور بہنوئی کے درمیانرشتہ زوجیت ختم ہوگیا اور بغیر حلالہ شرعی کے ان دونوں کا حسب سابق مثل زوجین رہنا غلط اور گناہ کبیرہ ہے، ان دونوں کے درمیان تفریق ضروری ہے، اگر دونوں تفریق پر راضی نہ ہوں تو ان سے قطع تعلق کرنا جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

سوال: اگر کسی عورت کے تین بچے ہیں اور اس کے شوہر نے صاف الفاظ میں خط کے ذریعہ تین طلاق لکھ کر بھیج دیا ہو ، لیکن بعد میں وہ اسے اپنی غلطی بتاکر کہ میں نے غصہ کی حالت میں طلاق دی تھی ، پھر سے مطلقہ کو دوبارہ رجوع ہونے کا آفر کرتاہوں۔ دوسری جانب بیوی اپنے والدین کی نصیحتوں کو ٹھکرا کر اپنی مرضی سے گھر سے باہر جا کر اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کرکے رجوع کرلیتی ہے تو اس عورت کے بارے میں شریعت کاکیا حکم ہے؟کیا اس عورت سے والدین اور بھائی بہن سب تعلق رکھ سکتے ہیں یا پھر قطع تعلق کرلینا چاہئے؟بغیر حلالہ کیئے ہوئے اس شوہر سے نکاح کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟براہ کرم، اس بارے میں تفصیلی جواب دیں ۔
Mar 03,2011
Answer: 30515
فتوی(ب):345=314-3/1432
تین طلاقیں لکھنے کے بعد طلاق مغلظہ ہوگئی، اس میں حلالہ شرعی کے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں جاسکتی۔عورت نے جو کچھ کیا وہ ناجائز وحرام کام کیا اور قرآن کے خلاف کام کیا۔قرآن میں دو طلاقوں کے دینے کے بعد مذکورہے کہ ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ یعنی تین طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کیے بغیر پہلے شوہر کے یہاں عورت نہیں رہ سکتی۔ یہ حرام کام ہوگا۔ دونوں کو فوراً علاحدہ ہونا چاہیے، اگر نہ مانیں تو ان دونوں سے تعلق قطع کرنا درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ: درج بالا تینوں فتاویٰ جات میں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ حلالہ کئے بغیر مطلقہ خاتون کو پہلے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دینا، جبکہ تین طلاق بھی بدعی طریقہ سے دی گئی ہوں، مسند افتاء کے گدی نشینوں کے لئے کس قدر تکلیف کا ذریعہ بنی ہیں، کہ فتویٰ میں جگہ جگہ حرام، فوری علیحدگی کا حکم ، قطع تعلق کی تلقین، ناجائز و غلط، قرآن کے خلاف، الفاظ استعمال کئے ہیں۔
جبکہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے پر امت کا ایک بڑا طبقہ قائل بھی رہا ہے۔

دوسری جانب گزشتہ پوسٹس میں حلالہ سے متعلق جن فتاویٰ جات کی نشاندہی کی گئی ہے، وہاں آپ کو ایسی سختی کہیں نظر نہیں آتی۔ بلکہ مفتی کا انداز بیان ایسا ہوتا ہے کہ جس سے عام سائل خود بخود اس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ حلالہ کروانا بالکل درست و جائز فعل ہے اور اس کے حرام، لعنتی، کبیرہ گناہ کا شائبہ تک نہیں گزرتا۔ نہ مفتی ہی ایسے لعنتی فعل میں ملوث ہونے والوں سے قطع تعلق کی کوئی بات کرتے ہیں، نہ آئندہ اس سے بچنے کے لئے کوئی نصیحت دیتے ہیں۔۔۔!
ہم نے پوری ایمانداری سے فتاوی جات آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ غلط کیا ہے اور درست کیا ہے۔

ان فتاوی کی اصل کاپی کے لئے دارالافتاء دیوبند کی ویب سائٹ وزٹ کریں ۔
http://www.darulifta-deoband.com
تبصرہ:
ملاحظہ کیجئے، مفتی صاحب یہی کہتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہے کہ حلالہ کروا لو؟؟؟
تین طلاق کی تفصیلات میرے بلاگ  یا اس  کتاب میں موجود ہے۔۔۔
******

سوال: طلاق کے بعد حلالہ کروانا کیا ہے؟ اگر طلاق کے بعد حلالہ کروانے کے لیے نکاح کیا گیا اور یہ نکاح اس نیت سے کیا گیا کہ ایک یا دو دن بعد طلاق کرا دی جائے گی تو کیا یہ نکاح جائز ہے؟

May 05,2009
Answer: 12235
فتوی: 956=726/ھ
(۱) تین طلاق واقع ہوجانے کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، مرد کو نہ حق رجعت رہتا ہے نہ تجدید نکاح کا استحقاق رہتا ہے، عورت کو بعد انقضائے عدت حق ہوجاتا ہے کہ علاوہ اس شخص کے کہ جس نے طلاق مغلظہ دی ہے کسی سے بھی اپنا نکاح ثانی کرلے پھر دوسرا شوہر بعد جماع کے بقضائے خداوندی وفات پاجائے یا بعد جماع کے طلاق دیدے اور بہرصورت عدت گذرجائے تب اس کو اپنے نکاح جدید کا پھر حق حاصل ہوجاتا ہے اس وقت اگر وہ چاہے تو سابق شخص (تین طلاق دینے والے) سے بھی نکاح کرسکتی ہے، یہ حلالہ ہے، بخاری شریف: ۷۹۱ اور دیگر کتب حدیث، شروح حدیث میں مصرح ۔
(۲) نکاح جائز ہے اور یہ نیت لغو ہے اور شوہر ثانی کو بعد جماع طلاق دینے یا نہ دینے کا پورا اختیار ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ: یہاں جواب سے زیادہ سوال پر نظر رکھیں۔ سائل نے وضاحت سے پوچھا ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح کیا جا رہا ہے۔ مفتی صاحب نے جواب میں نکاح کو جائز قرار دیا، پورے عمل کو حدیث کی روشنی میں ایک طرح سے درست و جائز ثابت کیا۔ لیکن کہیں سائل کو یہ نہیں بتایا کہ تم گناہ گار ہوگے، یہ لعنتی فعل ہے، اور غیرت اور ایمان کے منافی عمل ہے۔۔! اب بتائیے، آپ سائل ہوتے تو اس سے کیا سمجھتے؟ اور یہ فتویٰ لے لینے کے بعد کیا کرتے؟
*****

سوال: حلالہ کا کیا مطلب ہے؟
کیا ایسا کرنا درست ہے؟
May 10,2007
Answer: 420
(فتوى: 184/ل=184/ل)
حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔

حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی: وکرہ التزوج للثاني تحریما بشرط التحلیل وإن حلت للأول (شامي: 5/47 ط زکریا دیوبند) لیکن اگر حلالہ کیشرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا (شامي: 5/48، ط زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ: یہاں بھی واضح طور پر حلالہ کے فعل کے بارے میں سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا یہ فعل درست ہے۔ بجائے اس کے کہ اس فعل کی قباحت و شناعت سائل پر واضح کی جائے، اسے اول تو اصطلاحی معنوں میں مکروہ تحریمی قرار دیا ، جس کی شاید سائل کو ویسے ہی سمجھ نہ ہو، اور پھر اس مکروہ سے بچنے کا حیلہ بھی خود ہی بتا دیا کہ دل میں چھپا کر حلالہ کروا لو، تو مکروہ بھی نہیں ہوگا۔
******
سوال: حلالہ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے، کیوں کہ میں نے ایک حدیث میں پڑھا ہے کہ حلالہ کرنے اورکروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے؟ (۲) اگر تین طلاقیں دی جائیں اوراسی مہینہ کے دوران شوہر رجوع کرلے ․․․․کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور ِ خلافت سے پہلے اکٹھی تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا؟ (۳)حلالہ اور متعہ میں کیا فرق ہے، اگر دونوں میں کچھ وقت کے لیے رشتہ ازدواج مقصود ہو اور اس رشتہ کے بعد میاں اوربیوی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں؟ از راہ مہربانی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
Nov 08,2008
Answer: 7794
فتوی: 1681/د= 99/ک
حدیث مذکور صحیح ہے، جب نکاح میں حلالہ کرنے کی شرط کردی جائے تو وہ نکاح موقت کے مشابہ ہوجاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے، اگر شرط لگاکر نکاح نہ کیا گیا ہو اگر چہ اس کی نیت ہو تو یہ مذموم نہیں ہے۔ لمعات شرح مشکاة میں لکھا ہے المکروہ اشتراط الزوج التحلیل في القول لا في النیعة بل قد قیل إنہ ماجور بالنیة لقصد الإصلاح (حاشیة مشکاة، ص:۲۸۴)
(۲) تین طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے اس لیے اسی مہینہ میں شوہر کا رجوع کرنا درست نہیں، ہے طلاق واقع ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تین طلاق تین ہی ہوتی تھی۔ عمدة الأثاث فی حکم الطلاق الثلاث کا مطالعہ فرمائیں۔
(۳) متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو کہ ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ: یہاں بھی سائل کا سوال مدنظر رکھئے۔ کہ کیا حلالہ کرنے کرانے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ جواب میں اس حدیث کو درست تسلیم کرنے کے باوجود، حیلہ خود ہی بتایا جا رہا ہے کہ شرط لگا کر نکاح نہ کیا جائے تو یہ مذموم بھی نہیں، کجا یہ کہ لعنتی فعل ہو۔ متعہ کے ساتھ مشابہت کا جواب بھی عجیب ہے۔ یعنی نیت کا تو گویا اعتبار ہی نہیں، بس نکاح نامہ پر اسے بطور شرط نہ لکھوایا جائے تو سب جائز و درست ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی نکاح متعہ کی نیت کرے، لیکن اس کو بطور شرط کاغذ پر نہ لکھوائے ، تو یہ دیوبندی حضرات کے نزدیک جائز و درست ہے۔ واللہ اعلم۔

سوال: مفتی صاحب میں جاننا چاہتاہوں کہ اگر ایک لڑکا اور لڑکی دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں یعنی نکاح کر لیں اور ان کا آپس میں جھگڑا ہو جائے اور غصہ میں لڑکا تین بار طلا ق دے دے تو کیا حلالہ کے بعد وہ پھر سے آپس میں شادی کرسکتے ہیں؟ انھوں نے ایک بندے کو حلالہ کے لیے راضی کرلیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں او رغلط فہمی میں جھگڑے کی وجہ سے طلاق ہوئی۔ طلاق دئے ہوئے دس مہینہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور لڑکی اپنے والدین کے گھر ہی ہوتی ہے اور سوائے لڑکے کے دو دوستوں اورلڑکی کی بہن کے ان کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ پہلے ان کے گھر والے ان کے رشتہ کے لیے راضی نہیں تھے تبھی انھوں نے چھپ کر شادی کرلی اب ان کے گھر والے ان کی ضد کی وجہ سے ان کی شادی کے لیے مان گئے ہیں۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اب لڑکی کی عدت کا کیا ہوگا؟ کیا ا س کی عدت طلاق کے تین مہینوں بعد پوری ہوگئی تھی جب کہ وہ دونوں آپس میں اب تک ملتے رہے طلاق کے بعد بھی؟
Sep 02,2009
Answer: 15520
فتوی: 1581=1301/1430/د
تین طلاق کے بعد عورت حرام ہوجاتی ہے، البتہ حلالہ کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، صورت مذکورہ میں شوہر بیوی کے ساتھ ملتا رہا تو اب عورت سے بالکلیہ متارکت اختیار کرلے۔ اور بعد متارکت تین ماہواری گذرجانے کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے اپنا نکاح کرلے، بعد نکاح شوہر ثانی ہمبستری کرے، پھر کسی وجہ سے طلاق دیدے تو عورت دوسری عدت گذارنے کے بعد اس لڑکے سے شادی کرسکتی ہے۔ ہکذا في فتاوی دار العلوم: ۱۰/۳۴۵، وفي الشامي وإذا وطئت المعتدة بشبہة ولو من المطلق وجب عدة أخری لتجدد السبب وتداخلتا (شامي)

تبصرہ:
سائل واضح طور پر بتا رہا ہے کہ وہ حلالہ کی نیت سے کسی شخص کو راضی کر چکا ہے۔ اب حلالہ کے بعد نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اور پورے جواب میں کہیں اس قسم کے فعل کو حرام، غلط، ناجائز، لعنتی نہیں قرار دیا گیا ۔ بلکہ سائل کو مطمئن کر دیا گیا ہے کہ اس نیت سے نکاح جائز و درست ہے ۔ پھر اس جواب میں "کسی وجہ سے" کے الفاظ بھی بہت خوب استعمال فرمائے۔ سائل نے واضح کر دیا کہ وہ حلالہ کی نیت سے نکاح کروانے لگا ہے، پھر مفتی صاحب کسی وجہ سے فرما کر خود ہر قسم کے فرض سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

----
آن لائن لنک
سوال: اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کوطلاق مغلظہ دی ، اور اس کے بعد حلالہ کیا اور اس سے دوبارہ شادی کر لی۔ اب اگر وہ بیوی کو دوسری مرتبہ طلاق دیتا ہے تو کیاوہ دوسری مرتبہ حلالہ کرسکتا ہے؟
Oct 21,2009
Answer: 16721
فتوی(ل):1628=1292-10/1430
اگر وہ اپنی بیوی کو دوسری مرتبہ تین طلاق دیدیتا ہے تو تیسری بار نکاح کرنے کے لیے دوبارہ حلالہ شرعیہ ضروری ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
یہاں بھی ملاحظہ کیجئے کہ نہ تو پہلے حلالہ کو غلط قرار دیا گیا، نہ بعد میں ایسی سوچ رکھنے کو غلط کہا گیا۔ بلکہ دوبارہ حلالہ شرعیہ کی اجازت دے دی گئی۔

غور کیجئے کہ مسلمانوں کی چودہ صد سالہ تاریخ میں ایسا کتنی بار ہوا ہوگا کہ میاں نے بیوی کو طلاق دیں، خاتون نے کہیں اور نکاح کیا، وہاں سے طلاق یا خاوند فوت ہوا، پھر پہلے شوہر سے نکاح کر لیا۔ پھر اس نے طلاق دے دی، پھر خاتون نے کسی تیسرے سے نکاح کیا، پھر وہاں سے طلاق یا خاوند کی وفات ہوئی، اور اس نے پھر پہلے شوہر سے نکاح کر لیا۔ اگر نکاح کا مقصد واقعی گھر بسانے کی نیت سے نکاح لیا جائے تو شاید ایسا ایک بھی واقعہ نہ مل سکے۔
لیکن قرآن کے ظاہری الفاظ سے عوام کو گمراہ کرنے والے ان حضرات کے فتاویٰ سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے گڑیا گڈے کے درمیان نکاح و طلاق کروا رہے ہیں۔

-----
آن لائن لنک
سوال: فوزیہ کو انور نے ایک سانس میں تین بار طلاق، طلاق، طلاق، کہا۔ اس وقت فوزیہ اپنے پیٹ سے تھی اس کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا وہاں پر کوئی گواہ موجود نہیں تھا مگر انور صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اسے طلاق کہا (ان کا طلاق ہوا یا نہیں)؟ اب انور صاحب پھر سے فوزیہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اسے حلالہ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ میں بس انتا جاننا چاہتا ہوں کہ اگر غصہ میں گوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کہہ دے اور بعد میں اس کو ایسا لگے کہ نہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور میں پھر سے اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تو ان کو کیا کرنا چاہیے اورشریعت کے حساب سے ان کو کیا کرنا چاہیے (اب انور اور فوزیہ کو ساتھ میں رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے)؟ برائے کرم اس مسئلہ کا صحیح حل بتائیں۔
Dec 22,2009
Answer: 17900
فتوی(ب):384tb=2517-1/1431
جب انور نے صریح الفاظ میں اپنی بیوی کو تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ دیا تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہوکر مغلظہ ہوگئیں۔ کرر لفظ الطلاق وقع الکل (در مختار) طلاق حمل کی حالت میں بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اورغصہ کی حالت میں بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اب حلالہ شرعی کے بغیر بیوی کو اپنی زوجیت میں لانے کی کوئی اور صورت نہیں۔ حلالہ کے بعد اس کو اپنی زوجیت میں رکھ سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
ان فتاوی کی اصل کاپی کے لئے دارالافتاء دیوبند کی ویب سائٹ وزٹ کریں ۔
http://www.darulifta-deoband.com
تبصرہ:
ملاحظہ کیجئے، مفتی صاحب یہی کہتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہے کہ حلالہ کروا لو؟؟؟
تین طلاق کی تفصیلات میرے بلاگ  یا اس  کتاب میں موجود ہے۔۔۔
******

سوال: زید کے طلاق دینے کے بعد، سارہ (بیوی) اور لڑکی حیا زید کے والدین کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں میں رہتے ہیں۔جب کہ زید ایک دور کے شہر میں کام کرتا ہے اوروہیں رہتا ہے۔اب ان دونوں کواپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، اور لڑکی حیاء ، پر ان کی جدائی کے برے اثر کی وجہ سے حلالہ کرنا چاہتے ہیں (غیر منصوبہ بند طریقہ سے)۔ لیکن ان کے والدین ان کے خلاف ہیں۔ سارہ کے والدین کہتے ہیں کہ یہ شریعت کے مطابق جائز نہیں ہے۔ زید کے والدین کہتے ہیں کہ اگر چہ غیر منصوبہ بند طریقہ پر حلالہ شریعت میں جائز ہوسکتا ہے، لیکن دوسرے سماجی وجوہات کی بناء پر وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بڑی سماجی وجہ یہ ہے کہ اس حلالہ کا منفی اثر ان کی خاندان کی دوسری لڑکیوں کی شادی کی تجویز پر پڑے گا، نیز ان کی لڑکی حیاء کی نفسیات اور زندگی پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔لیکن دوسرے رشتہ داروں اور دوستوں سے بحث و مباحثہ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس طرح کے منفی سماجی اثر ظاہر نہیں ہوں گے اوریہ بہت اہم نہیں ہوں گے۔ خاص طور سے زید اورسارہ اپنی لڑکی حیاء کی خاطر حلالہ کرانا چاہتے ہیں۔ (۱۱) کیا شریعت اس طرح کی سماجی وجوہات کی بناء پر والدین کے راضی نہ ہونے کی وجہ سے حلالہ کرنے سے منع کرتی ہے؟ (۲) اگر زید اور سارہ والدین کی خواہش کے برخلاف حلالہ کراتے ہیں تو کیا زید اورسارہ شریعت کی رو سے والدین کی نافرمانی کا گناہ پائیں گے؟
Jul 15,2008
Answer: 4834
فتوی: 936/ د= 54/ ک
(۱) زید کی جانب سے سارہ کو طلاق مل جانے پر بعد عدت سارہ کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا وہ جس مرد سے نکاح کرنا چاہے کرسکتی ہے، بلا کسی شرط کے دوسرے شخص سے نکاح ہوجانے کے بعد اگر وہ بعد ہمبستری طلاق دیدیتا ہے تو سارہ اپنی عدت دوبارہ پوری کرکے زید سے بھی نکاح کرنے کی مجاز ہوجائے گی۔سارہ کا اس طرح دوسری جگہ اپنا نکاح کرنا ذاتی حق ہے والدین کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
(۲) بربنائے ضرورت نافرمانی کا گناہ نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
غور کیجئے کہ سائل کو بھی اب معلوم ہے کہ غیرمنصوبہ بند طریقے سے حلالہ کروایا جا سکتا ہے یعنی شرط عائد کئے بغیر، اور وہ اسے شریعت میں جائز بھی سمجھ رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مفتی صاحب کے جواب میں کہیں حرام، گناہ، مکروہ تحریمی، وغیرہ جیسے الفاظ نہیں۔ بلکہ ان کے جواب سے خودبخود محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایک دن بعد طلاق کی نیت سے نکاح کرکے، پہلی بیوی کے لئے حلال کرنا بالکل جائز و درست بلکہ عین مطلوب و مقصود شریعت ہے۔
دوسری بات یہ دیکھئے کہ اس مقصد کے لئے لڑکی اپنے والدین کی نافرمانی کی گناہ گار بھی نہیں ہوگی۔!!!؟
یعنی نکاح متعہ کی طرح یہ بھی کوئی گویا مقدس فریضہ ہے، کہ جس کو انجام دینے کے لئے والدین کی نافرمانی بھی جائز و درست قرار پاتی ہے۔ گناہ گار ٹھہرانا تو رہی دور کی بات۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

---------

سوال: حلالہ کے بارے میں بتائیں۔ اگر کوئی (محلل) کنڈوم کے ساتھ عورت سے ہمبستری کرتاہے تو کیا اس سے حلالہ صحیح ہوجائے گا؟کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ?حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ? أوکما قال۔ براہ کرم، باحوالہ جواب دیں۔
Apr 03,2008
Answer: 3287
فتوی: 358/ ب= 321/ ب
بہتر تو یہی ہے کہ شوہر ثانی کنڈوم کے بغیر صحبت کرے اور اگر کنڈوم کے ساتھ ہمبستری کی تو بھی حلالہ صحیح ہوجائے گا، کیوں کہ اس میں صرف ادخال کافی ہے، منی کا نکلنا شرط نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

تبصرہ:
لیجئے اب حلالہ کے احکام بھی ملاحظہ فرما لیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والوں میں کچھ درجات ہوتے ہیں، جو افضل درجے کا حلالہ کرنا چاہتے ہوں ان کے لئے بہتر ہے کہ کنڈم کا استعمال نہ کریں، جنہیں ثواب سے زیادہ غرض نہیں ہے، تو وہ کنڈم استعمال کر لیں تب بھی حلالہ جائز اور صحیح ہو جائے گا۔ استغفراللہ۔

سوال:ایک مرد نے اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق کہا او روہ لوگ ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور بارہ سال گزر چکاہے۔ کیا یہ طلاق ایک شمار کی جائے گی؟اس وقت وہ شرابی تھا لیکن اب اس نے توبہ کرلیا ہے اور اس وقت وہ پابند ی سے پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے۔
Oct 27,2009
Answer: 16823
فتوی(م):1591=1591-10/1430
اگر مرد اقرار کرتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق تین مرتبہ کہا ہے یا اس پر شرعی گواہ موجود ہیں تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں پڑگئیں، اور بیوی اس کے لیے بالکلیہ حرام ہوگئی، تین طلاق کے بعد شرعی حلالہ کے بغیر ایک ساتھ رہنا حرام وناجائز اور سخت گناہ ہے، درمختار میں ہے: لو کرر لفظ الطلاق وقع الکل إلخ مرد کو چاہیے کہ فوری بیوی سے علاحدگی اختیا رکرے اور گناہوں سے میاں بیوی دونوں توبہ واستغفار کریں، اور آئندہ اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو حلالہ کے بعد نکاح جدید کرکے رہ سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
تبصرہ:
فتویٰ کے آخری جملہ پر غور کیجئے۔ کہیں سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ قرآن کے بیان کردہ شرعی حلالہ کی بات ہے۔ جب مفتی خود سائل کو کہہ رہا ہے کہ آئندہ اگر اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حلالہ کے بعد نکاح جدید کر کے رہ سکتے ہو، تو سائل اگر ایسا کرتا ہے اور شریعت کی اجازت سمجھ کر کرتا ہے، تو اس کا کیا قصور؟ اور مفتی صاحب نے یہاں بھی بالآخراشماریہ صاحب کی زبان میں خود اقرار نہیں کیا کہ "حلالہ کروا لو"۔۔۔اب اور کس طرح سے اقرار ہوتا ہے بھلا؟

ان فتاوی کی اصل کاپی کے لئے دارالافتاء دیوبند کی ویب سائٹ وزٹ کریں ۔
http://www.darulifta-deoband.com
تبصرہ:
ملاحظہ کیجئے، مفتی صاحب یہی کہتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہے کہ حلالہ کروا لو؟؟؟
تین طلاق کی تفصیلات میرے بلاگ  یا اس  کتاب میں موجود ہے۔۔۔
******
(بشکریہ محدث فورم )
حلالہ سے متعلقہ کتاب کو ڈاونلوڈ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل لنکس وزٹ کریں۔

http://kitabosunnat.com/kutub-library/aik-majlas-me-3-tlaakain-aur-us-ka-shari-hal
دوسری کتاب 

https://drive.google.com/drive/folders/1Lf0vpFNtaUyxpI4osE5hqZdYzHa4AKg6?usp=sharing
یا مضامین پڑھنے کے لئے نیچے والا لنک وزٹ کریں
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...