Wednesday 18 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظا:148

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 148)
اولاً :مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہی بیت اللہ شریف کے اردگرد اور چھتوں پر موجود تین ‌سو ساٹھ بتوں کو اپنے دست مبارک سے گرایا۔
ثانیاً :بیت اللہ شریف کے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تصاویر بنی ہوئی تھیں انہیں مٹانے کا حکم دیا ایک لکڑی کی کبوتری اندر رکھی تھی اسے خود اپنے دست مبارک سے ٹکڑے ٹکڑے کیا۔
ثالثاً :حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ بیت اللہ شریف کی چهت پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تکبیر اور توحید کی دعوت (اذان‌) بلند کرو۔ یا درہے کہ بیت اللہ شریف کا چھت کے بغیر والا حصہ' حطیم' کی دیوار ایک میٹر سے زیادہ بلند ہے مسجد الحرام کے اندر موجود مجمع ‌عام کو سنوانے کیلئے حطیم کی دیوار پر کھڑے ہو کر اذان دینا بھی کافی تھا لیکن بیت اللہ شریف کی قریبا سولہ میٹر بلند و بالا پر شکوہ عمارت'  کی ‌چھت ‌سےصدائے توحید بلند کرنے کا حکم دراصل واضح اور دو ٹوک فیصلہ تھا اس مقدمے کا جو فریقین کے درمیان گزشتہ بیس اکیس سال سے باعث نزاع چلا آ رہا تھا اور اب یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ کائنات پر حاکمیت اور فرمانروائی کا حق صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے- کبریائی اور عظمت صرف اسی کیلئے ہے- اطاعت اور بندگی صرف اسی کی ہو گی پوجا اور پرستش کے لائق صرف اسی کی ذات ہے' کار ساز اور مشکل‌کشا صرف وہی ہے کوئی دیوی و دیوتا' فرشتہ یا جن' نبی یا ولی'پیر' اس کی صفات اختیارات اور حقوق میں ذرہ برابر شرکت نہیں رکھتا۔
رابعا: قیام مکہ کے دوران ہی آپ ﷺ نے یہ اعلان کروا دیا جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے گھر میں کوئی بت نہ رکھے بلکہ اسے توڑ ڈالے۔
خامسا: فتح مکہ کے بعد بیشتر عرب قبائل سپر ڈال چکے تھے جزیرہ‌العرب کی قیادت آپ ﷺ کے ہاتھ میں آ چکی تھی چنانچہ جہاں آپ ﷺ نے بحیثیت سربراہ مملکت عبادات' نکاح و طلاق' حلال و حرام' قصاص و حدود وغیرہ کے قوانین نافذ فرمائے وہاں پورے جزیرۃ‌العرب میں جہاں کہیں مراکز شرک قائم تھے انہیں مسمار کرنے کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کی جماعتیں روانہ فرمائیں مثلاً
1۔ قریش مکہ اور بنو کنانہ کے بت 'سواع' کے معبد کو مسمار کرنے کیلئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تیسں افراد کے ساتھ نخلہ‌(جگہ کا نام ) کی طرف روانہ فرمایا۔
2۔ قبیلہ بنو ہذیل کے بت 'سواع' کا معبد مسمار کر نے کیلئے حضرت عمر و بن عاص کو روانہ فرمایا۔
3۔ قبیلہ اوس،خزرج اور فسان کے بت'منات'‌کا بتکدہ منہدم کر نے کے لئے حضرت سعد بن زید اشہلی ‌رضی اللہ عنہ کو بیس افراد کے ساتھ قدید(جگہ کا نام ) کی طرف روانہ فرمایا۔
4۔ قبیلہ طے کے بت 'قلس' ‌کا بتکدہ منہدم کرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ڈیڈھ سو سواروں کا دستہ دے کر یمن روانہ فرمایا۔
5۔ طائف سے بنو ثقیف ‌قبول اسلام کیلئے حاضر ہوئے تو ان کا بت 'لات' مسمار کر نے کے لئے وفد کے ساتھ ہی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک دستہ روانہ فرمایا۔
6۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پورے جزیرۃ العرب میں یہ مشن دے کر بھیجا کہ جہاں کہیں کوئی تصویر نظر آئے اسے مٹا دو اور جہاں کہیں اونچی قبر نظر آئے اسے برابر کر دو۔
مذکورہ بالا اقدامات اس بات کی واضح نشان دہی کرتے ہیں کہ مکی دور ہو یا مدنی‌آپ ﷺ کی تمام تر جد و جہد کا مرکز اور محور عقیدہ توحید کی تنفیذ‌ اور شرک کا استیصال(قلع قمع) تھا۔
ایک نظر اسلامی عبادات پر ڈالی جائے تو تو پتہ چلتا ‌ہے کہ تمام عبادت کی روح در اصل عقیدہ توحید ہی ہے روزانہ پانچ مرتبہ ہر نماز سے قبل اذان بلند کر نے کا حکم ہے جو تکبیرتوحید کی تکرار کے خوبصورت کلمات کا انتہائی پر اثر محبوعہ ہے۔ وضو کے بعد کلمہ توحید پڑھنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ابتدائےنماز اور دوران نماز میں بار بار کلمہ تکبیر پکارا جاتا ہے۔ سورۃ فاتحہ کو ہر رکعت کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے جو کہ توحید کی مکمل دعوت پر مشتمل سورۃ ہے۔ رکوع و سجود میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بلندی کا بار بار اعادہ اور اقرار کیا جاتا ہے اور عقیدہ توحید کی گواہی دی جاتی ہے، گویا شروع سے لے کر آخر تک ساری نماز عقیدہ توحید کی تعلیم اور تذکیر پر مشتمل ہے-
بیت‌اللہ شریف کے ساتھ مخصوص عبادت حج یا عمرہ پر ایک نظر ڈالیے' احرام باندھنے کے ساتھ ہی عقیدہ توحید کے اقرار اور شرک کی نفی پر مشتمل تلبیہ
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَشَرِيْكَ لَكَ
‌(ترجمہ: میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں بیشک ‌تعریف تیرے ہی لائق ہے ساری‌ نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں اور ملک تیرا ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں) پکار نے کا حکم ہے۔ منیٰ' مزدلفہ اور عرفات ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی توحید تکبیر، تہلیل' تقدیس اور تحمید پر مشتمل کلمات پڑھتے رہنے کو ہی حج مبرور کہا گیا ہے گویا یہ ساری کی ساری عبادت مسلمانوں کو عقیدہ ‌توحید میں پختہ تر کرنے کی زبردست ‌تربیت ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ امت کو قدم قدم پر جس طرح عقیدہ توحید کے تحفظ کی تعلیم دی اسے بھی پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے' چند مثالیں ملاحظہ ہوں‌۔
ایک آدمی نے دوران گفتگو عرض کیا'' جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں'' رسول اکرم ﷺ ‌نے فرمایا'' کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا ہے۔'' (مسنداحمد) ایک آدمی نے آپ سے بارش کی دعا کروانی چاہی اور ساتھ عرض کیا'' ہم اللہ تعالیٰ کو آپ کے ہاں اور آپ کو اللہ تعالی کے ہاں سفارشی بناتے ہیں‌۔'' آپ ﷺ ‌کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا اور فرمایا'' افسوس تجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کی شان کتنی بلند ہے اسے کسی کے حضور سفارشی نہیں بنایا جا سکتا۔'' (ابوداؤ‌د) بعض صحابہ کی منافق کے شر سے بچنے کے لئے رسول اکرم ﷺ سے استغاثہ ‌کرنے حاضر ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا'' دیکھو مجھ سے استغاثہ‌(فریاد) نہیں کیا جا سکتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہی استغاثہ کیا جا سکتا ہے۔'' (طبرانی‌)10ھ‌ میں ‌رسول‌اکرم ﷺ‌کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو اسی روز سورج گرہن لگ گیا بعض لوگوں نے اسے حضرت ابراہیم کی وفات کی طرف منسو‌ب کیا آپ کو معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا'' لوگو سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انہیں کسی کی موت اور زندگی کی وجہ ‌سے گرہن نہیں لگتا ‌لہذا جب ‌گرہن لگے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور نماز پڑھو یہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔ (صیحیح‌مسلم‌) یہ بات ارشاد فرما کر آپ ﷺ نے اس مشرکانہ عقیدے کی جڑ کاٹ دی -کہ نظام کائنات پر کوئی نبی' ولی یا بزرگ اثر انداز نہیں ہو سکتا ہے یا امور کائنات چلانے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا عمل دخل بالکل نہیں ہو سکتا ہے۔
ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ ‌نے صحابہ کرام رضوان علیہم اجمین کو یہ نصیحت فرمائی'' میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا بے شک میں ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو'' ۔ (بخاری و مسلم‌) ایک حدیث میں ارشاد مبارک ہے۔
'' افضل ترین ذکر ؟ لا الہ ال اللہ  ہے (ترمذی‌) افضل ترین ذکر میں محمد رسول اللہ کے الفاظ شامل نہ کر کے آپ نے گویا امت کو یہ تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کبر‌یائی اور عظمت میں دوسرا تو کیا نبی بھی شریک نہیں ہو سکتا آخر میں ایک نظر رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے ایام مرض ‌الموت پر بھی ڈال لیجئے' ایام علالت میں آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جو پندو نصائح فرمائے ان کی اہمیت محتاج وضاحت ‌نہیں‌ وفات ‌اقدس سے پانچ دن قبل بخار سے کچھ افاقہ محسوس ہوا تو مسجد تشریف لائے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی منبر پر جلوہ افروز ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمدو وثنا کے بعد فرمایا'' یہود و نصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء
کی قبروں کو مساجد بنا لیا(صحیح‌بخاری‌)
ایام‌ علامت میں ہی اپنی امت کو جو دوسری وصیت ارشاد فرمائی وہ یہ تھی کہ تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے-(موطاامام‌مالک‌) وفات ‌اقدس کے آخری روز عالم نزاع میں آ پ ﷺ کے سامنے پیالے میں پانی رکھا تھا آپ ﷺ دونوں ہاتھ پانی میں ڈال کر چہرہ پر ملتے اور فرماتے لا الہ الا اللہ
ان للموت سکرات-اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور موت کیلئے سختیاں ہیں(صحیح‌بخاری) یہی الفاظ دہراتے دہرا تے حیات طیبہ کے آخری کلمات اللھم اٖغفرلی وارحمنی والحقنی بالرفیق: ‌ترجمہ: اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے ) تین مرتبہ ادا فرمائے اور رفیق‌اعلیٰ کے حضور پہنچ گئے گویا آپ کی زندگی کے آخری الفاظ بھی کلمہ توحید پر مشتمل تھے۔
سیرت طیبہ کے یہ تمام سلسلہ وار اہم واقعات اسلامی انقلاب کی غرض و غایت کا ٹھیک ٹھیک تعین کر دیتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ ﷺ ‌کا برپا کیا ہوا انقلا‌ب بنیادی طور پر عقیدے کا انقلا‌ب تھا جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کے باقی ‌تمام ‌گوشوں معیشعت معاشرت' مذہب' سیاست' اخلاق و کردار میں از خود انقلا‌ب آتا چلا گیا۔ پس صحیح اسلامی انقلا‌ب صرف وہی ہو گا جس کی بنیاد خالص عقیدہ توحید پر ہو گی جس انقلا‌ب کی بنیاد عقیدہ توحید پر نہیں ہو گی وہ اصلاحی' معاشی صنعتی' جمہوری یا سیاسی ہر طرح کا انقلا‌ب تو ہو سکتا ہے-مگر اسلامی انقلاب ہر گز نہیں ‌ہو سکتا۔
جاری ہے.....
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...