Wednesday 25 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 42

Tarar:
"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر42)
باب 11: ماورائے مسلک مسلمان اور ان کے نظریات:
اب تک ہم سلفی اور غیر سلفی حضرات کے اختلافات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس باب میں ہم ماورائے مسلک مسلمانوں اور ان کے نظریات کا مطالعہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ وہ سلفی اور غیر سلفی حضرات سے کن امور پر اختلاف کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ماورائے مسلک مسلمان سے ہماری مراد وہ لوگ ہیں جو کسی مخصوص مسلک پر یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ خود کو ان مسلکی حد بندیوں سے ماوراء سمجھتے ہیں۔ ہماری اس تعریف میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے یا حدیث و سنت کا انکار کرتے ہیں۔ اس میں وہ گروہ بھی شامل نہیں ہیں جو سبھی فرقوں کی تردید اور تکفیر کرتے کرتے خود ایک الگ فرقہ بن جاتے ہیں اور اپنی مساجد اور معاملات الگ کر لیتے ہیں۔
ماورائے مسلک مسلمان کوئی ایک منظم گروہ نہیں ہیں۔ اس میں متعدد انفرادی علماء اور ان کے معتقدین کے حلقے، بعض صوفی گروہ، اور ایسی تحریکیں شامل ہیں جو خود کو کسی ایک مسلک سے وابستہ نہیں سمجھتیں۔ اس کے علاوہ ہم ان عام دنیا دار لوگوں کا شمار بھی ان میں کر سکتے ہیں جنہیں مسلکی اختلافات کا زیادہ علم نہیں ہے۔ ماورائے مسلک مسلمانوں میں زیادہ تر جدید تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں۔جن کے نام سابقہ اقساط میں گزر چکیں ہیں-
تمام ماورائے مسلک مسلمانوں کے نظریات ایک جیسے نہیں ہیں، اس وجہ سے ان کا موازنہ دیگر مسالک سے بحیثیت ایک گروہ کے نہیں کیا جا سکتا ہے البتہ ان میں چند ایسی خصوصیات ہیں جو انہیں مختلف مسالک سے وابستہ لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان کے عقائد و نظریات کا تفصیلی جائزہ ہم قدامت پرست اور جدت پسند مسلمانوں سے متعلق ماڈیول میں لیں گے مگر یہاں ہم ان کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کریں گے جو انہیں مسالک سے وابستہ لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
پہلا فرق یہ ہے کہ مسالک سے وابستہ لوگ اپنے اپنے مسلک اور ان کی اہم شخصیات سے شدید محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی زندگیوں کو مسلک کی بقا کے لیے وقف کرتے ہیں۔ اپنے مسلک کے دفاع کو وہ اسلام کا دفاع اور اس کی بقا کو اسلام کی بقا سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ماورائے مسلک مسلمان اسلام کو مسلک اور فرقے سے ماورا سمجھتے ہیں ۔ یہ کسی مخصوص مسلک کی تائید نہیں کرتے ہیں۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ مسالک سے وابستہ لوگ بلعموم اپنے سے مختلف نقطہ نظر کو برداشت نہیں کرتے ۔ ان کے نزدیک مسلکوں کی جنگ، اسلام اور کفر کی جنگ ہوا کرتی ہے۔ دوسرے مسلک کے پھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک پھیل رہا ہے یا بدعات فروغ پا رہی ہیں۔ چنانچہ یہ ہر قیمت پر دوسرے مسلک کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے دین کی صحیح خدمت تصور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ماورائے مسلک مسلمانوں کی پالیسی "جیو اور جینے دو" کی رہی ہے۔ یہ لوگ پلورل ازم پر یقین رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معاملے میں ایک سے زائد نقطہ نظر موجود ہو سکتے ہیں اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلائل کی بنیاد پر جس نقطہ نظر کو چاہے اختیار کر لے۔
تیسرا فرق یہ ہے کہ ماورائے مسلک حضرات عام طور پر ان مسائل کو اپنی تقریر و تحریر کا موضوع نہیں بناتے ہیں جو کہ مختلف مسالک کے لیے کفر و ایمان اور زندگی و موت کا مسئلہ ہیں۔ ویسے زیادہ تر ماورائے مسلک حضرات، ان اختلافی عقائد میں سلفی نقطہ نظر کے قریب ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالی ہے، صرف وہی حاضر و ناظر ہے اور اسی سے مدد مانگنی چاہیے۔ یہ لوگ مزارات پر جا کر وہ رسوم انجام نہیں دیتے جو کہ سلفی حضرات کے نزدیک شرک و بدعت کے دائرے میں آتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر  مگر افضل البشر مانتے ہیں-اولیاء کرام کو اپنی دعاؤں کی قبولیت کیلئے وسیلہ بهی نہیں بناتے-
ان سب کے باوجود ماورائے مسلک حضرات ایک جانب خود کو سبھی مکاتب فکر سے الگ رکھتے ہیں اور دوسری طرف سب سے ملتے جلتے ہیں، سبھی کے ساتھ نماز پڑھ لیتے ہیں، ان سے رشتہ داریاں کرتے ہیں، اور انہیں اپنا مسلمان بھائی سمجھتے ہیں۔
چوتھا فرق یہ ہے کہ عام طور پر ہر مسلک نے اپنی اپنی مساجد الگ بنا لی ہیں اور ان میں کسی اور دعوت و تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے ۔ یہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس ماورائے مسلک مسلمانوں کی اپنی الگ مساجد نہیں ہیں۔ یہ ہر مسلک کی مسجد میں نماز ادا کر لیتے ہیں۔
پانچواں فرق یہ ہے کہ ماورائے مسلک حضرات نے زیادہ تر اپنی تقریر و تحریر کا موضوع ان مسائل کو بنایا ہے جو دین اسلام کو بحیثیت مجموعی درپیش ہیں جیسے مستشرقین کے اسلام پر اعتراضات اور ان کا جواب، قرآنی علوم، حدیث سے متعلقہ علوم، دور جدید میں پیدا ہونے والے فقہی مسائل، جدید اسلامی سیاسیات و معاشیات، جدید فلسفہ کے اسلام پر اعتراضات اور ان کا جواب، تاریخ اسلام وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس مسالک سے وابستہ افراد نے زیادہ تر ان موضوعات پر لکھا ہے جو ان کے مسلکی اختلافات پر مبنی ہیں۔ مسالک سے وابستہ بعض علماء نے بھی ان گلوبل مسائل پر لکھا ہے البتہ ان کی تعداد کم رہی ہے۔ اب اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چھٹا فرق ان ماورائے مسلک حضرات کے تفردات ہیں۔ بعض ایسے مسائل ہیں جن میں تمام مسالک ایک نقطہ نظر پر متفق ہیں مگر ماورائے مسلک حضرات کے بعض لوگوں کی رائے ان سے کچھ مختلف اور منفرد ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام کے تمام مسالک مل کر ان افراد کی تردید کرتے ہیں۔
ساتواں فرق یہ ہے کہ مسالک سے وابستہ افراد اپنے اپنے اکابرین کا مانتے ہیں اور ان کے فیصلوں کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ ہر مسلک میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو اس مسلک کے بڑے علماء کہلاتے ہیں، بقیہ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ماورائے مسلک حضرات میں ایسی کوئی متفق علیہ شخصیات نہیں ہیں۔ یہ لوگ سبھی مکاتب فکر کی شخصیات کا احترام کرتے ہیں، ان کے علمی کام سے استفادہ کرتے ہیں مگر اپنے ذہین سے سوچتے ہیں اور سابقہ علماء سے اختلاف رائے کر لیتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ماورائے مسلک حضرات اور مسالک سے وابستہ افراد کے درمیان بنیادی اختلافی مسائل یہ ہیں۔
٭ کیا خود کو کسی مسلک سے وابستہ کرنا ضروری ہے؟
٭ جس شخص کے عقائد ہمارے نزدیک غلط ہوں، کیا اس پر کفر کا فتوی عائد کرنا ضروری ہے؟
٭ جن افراد کے عقائد و اعمال میں کوئی غلطی ہو، کیا ان کے ساتھ ملنا جلنا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟
٭ کیا کسی مسئلے میں انفرادی رائے اختیار کی جاسکتی ہے؟
ان مسائل کے علاوہ ماورائے مسلک حضرات اور مسلک سے وابستہ مسلمانوں میں سب سے بڑا اختلافی مسئلہ اجتہاد اور تقلید کا ہے۔ اس کی CS07 تفصیل کا مطالعہ ہم ماڈیول میں کریں گے-
اوپر بیان کردہ مسائل کے بارے میں اس سطح کا لٹریچر موجود نہیں ہے جیسا کہ سابقہ مسائل میں موجود ہے، مگر جو کچھ جانبین کی تحریروں میں بکھرا پڑا ہے، اس کا ہم جائزہ لیتے ہیں۔
مسلک اور فرقہ سے وابستگی:
ہر مسلک اور فرقہ سے وابستہ لوگوں کا یہ نقطہ نظر ہے کہ انسان جس مسلک کو درست سمجھے، اسے اس کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہو جانا چاہیے اور اس مسلک کا نام اپنا لینا چاہیے۔ مسالک سے وابستہ لوگ چونکہ اپنے مسلک کو حق اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں، اس وجہ سے ان کے ہاں اپنے مسلک سے وابستگی آخری درجے میں ہوتی ہے اور دوسرے مسالک کو بڑی مشکل برداشت کیا جاتا ہے۔ اگر ایک مسلک کو کسی مقام پر قوت و اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے کہ ہر اس مسلک کو جسے وہ غلط سمجھتا ہو، دبانے کی ہر ممکن کوشش کرے اور اس کے لیے حکومت کے تمام وسائل سے کام لے۔ مسالک سے وابستہ بعض حضرات تو دوسرے مسالک کے لوگوں کا قتل بھی جائز سمجھتے ہیں اور ان کی مساجد میں خود کش حملوں کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔
اس کے برعکس ماورائے مسلک حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمیں وہی ٹائٹل اختیار کرنا چاہیے جو اللہ تعالی نے ہمیں دیا ہے یعنی کہ "مسلم"۔ مسلمان کوئی فرقہ یا گروہ نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کو مسلم کہا جائے گا جس نے اپنا سر اللہ تعالی کے حکم کے آگے جھکایا اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام پر وہ ایمان لے آیا۔ اگر کوئی شخص ہمارے خیال میں کسی غلط عقیدے یا عمل میں مبتلا ہے تو اسے خیر خواہی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وہ مان جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس ضمن میں حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کسی پر اپنا مسلک مسلط نہ کرے بلکہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کے تحت ایسی نیکیوں کو ترویج دے جسے تمام مسلمان نیکی مانتے ہیں جیسے نماز، زکوۃ، عدل وغیرہ اور ایسی برایئوں سے منع کرے جو تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہیں جیسے ناانصافی، ظلم وغیرہ۔
مسالک سے وابستہ افراد کے دلائل:
ترجمہ"جو شخص رسول کی مخالفت کرتا ہے  بعد اس کے کہ ہدایت کو اس کے لیے واضح کر دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے راستے سے ہٹ کر راستہ اختیار کرتا ہے، تو اسے ہم اسی جانب چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جگہ ہے۔ (النسا 4:115)
مسالک سے وابستہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان جس راہ پر چل رہے ہوں، سبھی کو اسی راہ پر چلنا چاہیے، جو ایسا نہ کرے وہ غلط اور گمراہ ہے۔ ماورائے مسلک لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی اکثریت گناہوں اور فسق و فجور میں پڑ جائے تو کیا اس آیت کا حکم یہ ہے کہ پھر بھی انہی کی پیروی کی جائے؟ ایسا نہیں ہو سکتا اس لیے یہ وضح ہے کہ آیت میں سبیل المومنین سے مراد دین ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اسی سے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہوتی ہے۔
ماورائے مسلک حضرات کے دلائل:
اپنے نقطہ نظر کے حق میں ماورائے مسلک حضرات یہ آیت پیش کرتے ہیں:
ترجمہ" اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہارا انتخاب کر لیا ہے اور دین میں تمہارے لیے کوئی تنگی نہیں چھوڑی۔ یہ تمہارے والد ابراہیم کا دین ہے۔ اس نے تمہارا نام اس سے پہلے بھی اور اب بھی مسلم ہی رکھا ہے تا کہ رسول تم پر گواہ ہو جائیں اور تم انسانوں پر گواہ ہو جاؤ۔ تو نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھامے رہو، وہی تمہارا مولا ہے، کتنا ہی اچھا مولا اور کتنا ہی اچھا مددگار۔ (الحج 22:78)
ماورائے مسلک حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اپنا نام "مسلم" ہی رکھنا چاہیے اور دوسرے مسلمانوں کے بارے میں اچھے گمان سے کام لینا چاہیے۔ اگر ان میں کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی احسن انداز میں اصلاح کر دینی چاہیے اور دوسروں کی غلطیوں کی بجائے اپنی غلطیوں کی اصلاح کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
مسالک سے وابستہ لوگ ماورائے مسلک حضرات کی اس پالیسی پر ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ایسا کر کے وہ ایک نئے فرقے کا اضافہ کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ فرض کیجیے کہ کسی مقام پر مسلمانوں کے تین فرقے موجود ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہم ان تینوں سے الگ ہیں اور خود کو صرف مسلمان کہلائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہاں عملاً چار فرقے بن جائیں گے، تین روایتی اور چوتھے وہ جو خود کو "صرف مسلمان" کہتے ہیں۔ ماورائے مسلکی حضرات اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ایسا اس وقت ہو گا جب خود کو صرف مسلمان کہلانے والے باقی سب کو گمراہ اور بے دین قرار دیں، ان سے اپنی مساجد الگ کر لیں، ان کی دن رات تردید کرتے رہیں اور ان سے رشتے ناطے توڑ لیں۔ اس کے برعکس اگر وہ سب سے ملیں گے، ان تک مثبت انداز میں اپنا پیغام پہنچائیں گے، ان کے ساتھ نماز پرھیں گے تو اس سے کسی نئے فرقے کا اضافہ نہ ہو گا۔
یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ اسی آیت کی بنیاد پر "جماعت المسلمین" نامی ایک گروہ نے ہر طرح کی فرقہ بندی کو شرک قرار دیتے ہوئے ان تمام مسالک سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ اس کتاب میں ہم نے ان کا شمار ماورائے مسلک افراد میں نہیں کیا کیونکہ وہ باقی سب مسالک سے الگ اپنی مساجد تعمیر کرتے ہیں اور الگ زندگی بسر کرتے ہیں۔
کفر کا فتوی:
تمام مسالک سے وابستہ افراد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص پر کفر کا فتوی عائد کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو مسلمانوں کی برادری سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اس سے متعلق ایک حدیث بھی ہے جس میں کسی مسلمان کو کافر قرار دینے پر شدید وعید سنائی گئی ہے۔ حدیث یہ ہے۔
حدثنا محمد و احمد بن سعید قالا: حدثنا عثمان بن عمر: اخبرنا علی بن المبارک، عن یحی بن ابی کثیر، عن ابی سلمۃ، عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: اذا قال الرجل لاحیہ یا کافر، فقد باء بہ احدھما۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنے بھائی کو "اے کافر" کہہ کر پکارتا ہے تو وہ کفر ان  دونوں میں سے ایک جانب پلٹ آتا ہے۔ (بخاری، کتاب الصوم، حدیث 1852)
اس حدیث سے معاملے کی نزاکت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص کو کافر کہا گیا ہے، اگر وہ کافر نہیں ہے تو پھر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اگر کسی شخص کے بیان کے سو طریقے سے توجیہ کی جا سکتی ہو، ان میں سے ننانوے توجیہات کفریہ مفہوم رکھتی ہوں اور صرف ایک توجیہ تیمان کے مطابق ہو تو اس شخص کو کافر نہ کہا جائے۔
اس احتیاط کے باوجود مسالک سے وابستہ بہتے سے لوگوں کے ہاں یہ عام معمول ہے کہ وہ خود سے مختلف رائے رکھنے والے کے لیے کافر، مشرک، بے دین، گمراہ، فاسق، فاجر اور بدمذہب کے الفاظ عام استعمال کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ دوسری جانب سے بھی پیش آتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ جس شخص یا گروہ کے عقائد ان کے خیال میں غلط ہوں، وہ لازماً اس شخص یا گروہ کی غلطی کو واضح کر دیں تا کہ دوسرے لوگ گمراہی سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے حق میں وہ سابق مسلم علماء کے طرز عمل کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جنہوں نے بعض افراد کو کافر قرار دیا۔
اس کے برعکس ماورائے مسلک حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کو کافر قرار دینے سے پرہیز کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے لیے اوپر بیان کردہ منفی القابات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے باہمی اختلافات تاویل کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ شرک کوئی بڑی اچھی چیز ہے یا شان رسالت میں گستاخی بڑا نیکی کا کام ہے۔ جو لوگ ایک فریق کے خیال میں شرک میں مبتلا ہیں، وہ اپنے عقائد و افعال کو شرک نہیں سمجھتے  بلکہ ان کے خیال میں یہ عقائد و افعل توحید سے متصادم نہیں ہیں۔ اگر ان کی سمجھ میں یہ بات آ جائے یہ عقائد یا افعال شرک ہیں تو وہ فوراً انہیں چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح دوسرے فریق کے خیال میں جو لوگ شان رسالت میں گستاخی کے مرتکب ہیں، وہ ان عبارات کی ایسی تاویل کرتے ہیں جس سے وہ عبارتیں گستاخانہ نہیں رہ جاتیں۔ اگر ان پر یہ واضع ہو جائے کہ یہ عبارتیں گستاخانہ ہیں تو وہ ان سے فوراً توبہ کر لیں۔
ماورائے  مسلک حضرات کے نزدیک کفر کا فتوی عائد کرنے کا منصب صرف اور صرف حکومت کی اتھارٹی کے تحت ہونا چاہیے تا کہ اس کا نہ تو غلط
استعمال ہو سکے اور نہ ہی مسلمانوں  میں پھوٹ پڑ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ماورائے مسلک حضرات کی غالب اکثریت پاکستانی پارلیمنٹ کے اس فیصلے کی توثیق کرتی ہے جس کے تحت احمدی حضرات کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا مگر وہ مختلف مسالک سے وابستہ انفرادی علماء کے ایک دوسرے پر جاری کردہ کفر کے فتاویٰ کی تائید نہیں کرتی ہے۔
جاری ہے....
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
islamicstudies267@gmail.com
www.mubashirnazir.org
طالب دعا:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...