Sunday 13 August 2017

مادی جسم کی پیدائش

مادی جسم کی پیدائش

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#94 حصہ اول

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

عام روز مرہ اور سائنس کی زبان میں  جسم گوشت پوست کے وجود کا نام ہے  جو نہایت ہی کم مقدار کے  نطفہ سے  وجود میں  آتا ہے۔ سائنس کے  مطابق انسانی جسم 156  عناصر سے  مرکب ہے انسانی مادی وجود میں  وہ تمام عناصر پائے  جاتے  ہیں  جو زمین میں  پائے  جاتے  ہیں۔ دل جگر گردے ، رگ پٹھوں  کے  علاوہ انسان کے  اندر بے  شمار مادی و برقی نظام کام کر رہے  ہیں  انسان کائنات کی پیچیدہ ترین مشینری ہے۔ اور آج ہم اس تمام نظام سے واقف ہیں۔ لیکن اس کے  باوجود کہ ہم انسانی اعضاء، عناصر، عوامل سب سے  واقف ہیں  پھر بھی ہم ان سب کو صحیح مقداروں اور تناسب سے  اکٹھا کر کے  انسانی شکل دینے  سے قاصر ہیں۔ نہ ہی ہم خلیوں  کو مربوط کر کے  جسم تخلیق کر سکتے  ہیں۔ مٹی سے  بت تو بنا لیا جاتا ہے  کینوس پر تصویر تو بنالی جاتی ہے۔ لیکن یہ انسان نہیں  بے  جان و بے  حرکت ہیں  ان میں  انسانوں  کی سی حرکت اور انسانی خصوصیات پیدا کرنا انسان کے  بس کی بات نہیں۔ روبوٹ بھی انسان کے  ہم پلہ نہیں وہ محض مشین ہے۔ جب کہ سائنسدان کلون انسان تیار کر کے  اس خوش فہمی میں  مبتلا ہو گیا کہ اس نے  از خود انسان تیار کر لئے۔ جب کہ یہ کلوننگ سے  تیار شدہ انسان کسی بھی اعتبار سے  اصل انسان کے  ہم پلہ نہیں اور نہ ہی ہو سکتے  ہیں۔ بحر حال یہ ہر لحاظ سے  منفرد خون و گوشت، عضلات، رگ پٹھوں  خلیوں  و عناصر کا مجموعہ جسم مادی جب موت کا شکار ہوتا ہے  تو یہ انتہائی پیچیدہ متحرک مشینری یکلخت غیر متحرک ہو جاتی ہے۔ اور پھر موت کے  بعد کچھ ہی دنوں  میں  یہ متحرک وجود مٹی میں  مل کر مٹی ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب شناخت مشکل ہے  کہ مٹی کونسی ہے اور جسمانی ذرات کونسے  ہیں۔ پورا وجود جو جسمانی صورت میں  موجود تھا چند ہی دنوں  میں  اس کا وجود بھی نہ رہا کیوں ؟  یہی انسانی مادی جسم کی حقیقت ہے ، ہڈیاں  خون، گوشت، دماغ پورے  وجود کی حقیقت یہ ہے  کہ پورے وجود کا نشان مٹ جاتا ہے  فقط موت کی صورت میں  پورا انسان مٹی ہو جاتا ہے۔ بظاہر نظر آنے  والا وجود درحقیقت اسی مٹی (مادہ ) ہی کی ایک شکل تھا یعنی پہنچی وہیں  پہ خاک جہاں  کا خمیر تھا۔ اسی مٹی کے  وجود اسی حضرتِ  انسان کے  دم قدم سے  ہیں  دنیا کے  تمام تر کاروبار۔

مادی جسم کے  بارے  میں  سائنسدانوں  کا یہ خیال ہے  کہ جسم ایک نطفے  سے  خود بخود صحیح و سالم انسان بن جاتا ہے  مزید یہ کہ جسمانی نظام کی اندرونی و بیرونی انتہائی پیچیدہ حرکت و عمل بھی خود کار ہے۔ اگر میں  یہ کہہ دوں  کہ سوئی کا بنانے والا کوئی نہیں  ہے  بلکہ یہ خود بخود بن گئی ہے  تو یہ بات ہر عقلمند کے  لیے  ناقابل قبول ہو گی جب ہر جاننے  والا یہ جان سکتا ہے  کہ ایک سوئی تک خود نہیں  بن سکتی تو آپ کی سمجھ میں  یہ بات کیوں  سما گئی ہے  کہ دنیا کی سب سے  پیچیدہ مشینری مادی جسم خود بخود بن جاتا ہے  ا اور کوئی اس کا بنانے والا اور ڈیزائن کرنے  والا نہیں  ہے۔ اور یہ کیسے  آج تسلیم کر لیا جاتا ہے  کہ دنیا کی سب سے  پیچیدہ مشینری کی اندرونی و بیرونی انتہائی پیچیدہ حرکت و عمل محض خود کار ہے۔ سائنسدان مادی جسم کے  اندرونی و بیرونی نظاموں  کی تو بڑی وضاحت کرتے  ہیں، یہ نہیں  بتایا جاتا کہ وہ کیا شے  ہے  جس سے  یہ مشینری خود کار متحرک ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں  کہ یہ انتہائی متحرک پیچیدہ مشینری محض موت کی صورت کیسے یکلخت پتھر سے  بھی زیادہ بے  جان اور بے  حرکت ہو جاتی ہے۔ تمام تر دماغی، جسمانی صلاحیتوں  کے  باوجود ایک تندرست و توانا متحرک وجود کیسے  یکلخت ہی موت کے  سبب بے  جان بے حرکت ہو جاتا ہے  کیسے  ایک عظیم الشان انسان چند دنوں  میں ہی مٹی میں  مل کر بے  نشان ہو جاتا ہے ؟کہ پورے  وجود کا کوئی وجود ہی نہیں  رہتا۔ سوال یہ ہے  کہ کیسے  جسمانی مشینری کی اندرونی و بیرونی حرکات خود کار ہیں۔؟

وہ کیا شے  ہے  جس کی موجودگی سے  مادی جسم زندہ و متحرک ہے۔؟

وہ کیا شے  ہے  جس کی غیر موجودگی سے  جسم جسم ہی نہ رہا بے  نشان ہو گیا؟

کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے۔؟

اب اگرچہ ان سوالوں  کے  جواب میں کچھ لوگ انسانی جسم کی زندگی اور حرکت و عمل کا سبب روح کو سمجھنے  لگے  ہیں لیکن وہ اس کا نہ تو اعتراف کرتے  ہیں  نہ ہی انہیں  روح پر یقین ہے  اس لیے  کہ روح ان کے  لیے  ایک معمہ ہے  اس لیے  کہ بے تحاشا تحقیق کے  باوجود بھی وہ روح کو شناخت نہیں  کر پائے لہذا آج بھی مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے  والے  بلا تعامل یہ کہتے  ہیں  کہ جسمانی نظام میں  روح جیسی کسی شے  کی گنجائش نہیں  ہے۔ اگر جسمانی نظام میں  روح کا کوئی عمل دخل نہیں  تو پھر ان تمام سوالوں  کے  کیا جواب ہیں۔؟ ظاہر ہے  روح کا انکار کرنے  والے  مادی جسم سے  متعلق ان سوالوں  کے  جواب نہیں  دے  سکتے۔

اگرچہ مادی جسم پر بے  تحاشا سائنسی کام ہو چکا ہے اور مزید جاری ہے  لیکن یہ سمجھ لیجیے  کہ روح کے  تذکرے  کے  بغیر مادی جسم کا علم نا مکمل ہے۔ اس لیے  کہ روح ہے  تو جسم ہے روح نہیں  تو جسم بھی نہیں  ہے۔ اور اس بات کے  تو سائنسی شواہد میسر آ گئے  ہیں  کہ انسان محض جسم نہیں  ہے اور انسان کے  باطنی لطیف وجود کی نہ صرف تصویر کشی کر لی گئی ہے بلکہ اس پر کافی تحقیق اور تجربات بھی ہو رہے  ہیں۔ اگرچہ انسان کا باطن ابھی اسرار میں  ہی لپٹا ہوا ہے اور غیر واضح ہے   پھر بھی آج انسان کو صرف جسم نہیں  بلکہ روح و جسم یعنی دو نظاموں  ظاہری و باطنی کا مجموعہ تصور کیا جا رہا ہے۔

مادی جسم کی پیدائش

رحم مادر میں  مادی جسم روح کے  پروگرام سے ترتیب پا رہا ہے

پیدائش کا عمل

 ہم تخلیق کے  عنوان سے  تفصیلی وضاحت سابقہ قسط میں کر چکے  ہیں  کہ صرف پہلا انسان یا پہلا جوڑا" تخلیق " کے  عمل سے  گزرا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی انسان تخلیق کے  عمل سے  نہیں  گزرا۔ تمام تر انسان "پیدا  " ہوتے  ہیں۔ یا"  پیدائش "کے  عمل سے  گزرتے  ہیں۔

سائنسی تحقیقات کی بدولت پیدائش کے  عمل سے  تو آج سبھی واقف ہیں  لیکن یہاں  ہم پیدائش کے  کچھ مزید مراحل کا تذکرہ ایک نئے  انداز میں  اپنے  نئے  نظریات کے  ذریعے  کرنے  جا رہے  ہیں۔

آج ہر شخص جانتا ہے  کہ ہر بچہ ماں  کی کوکھ سے   ۹  ماہ کے  عرصہ میں  جنم لیتا ہے اور جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے  ہم نے  اس  ۹  ماہ کے  دورانِ حمل کی تمام تر تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔ مثلاً   انزال کے  وقت جسم سے  خارج ہونے  والے  مادہ حیات (منی Semen  )  کی قلیل مقدار 300 سے  400 ملین اسپرمز (Sperms) یا اندازاً ایک مکعب سینٹی میٹر مادہ حیات میں  2کروڑ سپرمز(Sperms)  ہوتے  ہیں  ان کروڑوں  خلیوں  میں  سے  ہر ایک بچے  کی تشکیل کی صلاحیت رکھتا ہے  جب کہ ان کروڑوں  سپرمز(Sperms) میں  سے  بمشکل ایک عورت کے  بیضے  میں  داخل ہو کر اسے  بارور کرتا ہے اور ایک خلیہ ایک ملی میٹر کا دس ہزارواں حصہ ہے۔ فیلوپین ٹیوب  (Flopion Tube)سے  رحم تک آنے میں  اس بارور بیضے  کو کم و بیش تین دن لگتے  ہیں۔ اس سفر کے  دوران یہ بیضہ بڑی تیزی کے  ساتھ مختلف خلیوں میں  تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے  یہاں  تک کہ ان خلیوں  کا ایک گچھہ سا بن جاتا ہے  یہ گچھا چلتا ہوا رحم کے  استر تک پہنچتا ہے اور اس میں  داخل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس گچھے میں  تقریباً دو سو خلیے  ہوتے  ہیں  جسے  اب  "جنین " (Embryo)کہتے  ہیں۔ اس وقت اس کی جسامت ایک نقطے کے  برابر ہوتی ہے۔ جب بیضہ بارآور ہوتا ہے  تو یہ رحمی نالی کے  ساتھ ساتھ اس جگہ سے  گزرتا ہے  جہاں  کروموسوم کی تیاری اور خلیوں  کی تقسیم کا عمل جاری ہوتا ہے۔ یہ بارور بیضہ تقریباً ایک ہفتے  بعد رحم کی رطوبت دار جھلی (Endometrium) میں  اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ رحم میں موجود جنین پر دو تہیں  ہوتی ہیں  ان میں  سے  اندرونی تہہ تو آگے  چل کر بچے  میں  تبدیل ہو جاتی ہے  جب کہ بیرونی تہہ بچے  کی آنول نال (Placenta) کی شکل اختیار کر لیتی ہے 

ابتدائی ہفتوں  میں  مضغہ یا جنین محض ایک چھوٹی سی مچھلی کی مانند نظر آتا ہے ، حمل کے  چوتھے  ہفتے  کے آغاز پر اس کا برائے  نام دل بن کر دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ عصبی نظام اور اندرونی اعضاء بھی بننا شروع ہو جاتے  ہیں۔ اسی ہفتے  کے  اختتام پر دماغ، ریڑھ کی ہڈی، آنکھیں، کان اور ناک نیز گردے اور پھیپھڑے  بھی تشکیل پانے  لگتے  ہیں۔ وہ جنین جس کا آغاز ایک نقطے  سے  ہوا تھا، اب تقریباً تین ملی لیٹر 0.12"  تک بڑھ چکا ہوتا ہے اور اس کا وزن پانچ سو گنا زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ تیسرے  مہینے  کے  آخر تک یہ ایک واضع انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے  اس مرحلے  پر اس کو (FETUS)  کہتے  ہیں۔ تین مہینے  کے  اس جنین کا وزن تقریباً ۲۸ گرام (ایک اونس) اور لمبائی ۷ سینٹی میٹر (2.75" انچ )ہوتی ہے۔ اب اس کے  بازو اور ٹانگیں  بھی واضع ہو جاتی ہیں  جن میں  انگلیاں  بھی نظر آتی ہیں  اب یہ ٹانگوں  کو چلا سکتا ہے  انگلیوں  کو بند کر سکتا سر کو گھما سکتا اور اپنا منہ کھول اور بند کر سکتا ہے  چوتھے  مہینے  میں  یہ اپنے بازو اور ٹانگیں  پھیلا بھی سکتا ہے  اب اس کی ماں  اپنے پیٹ میں  بچے  کی نیند اور جاگنے  کو محسوس بھی کر سکتی ہے۔ اس مرحلے  پر وہ ہچکی بھی لیتا ہے۔ ساتویں مہینے  میں  بچے  کی نمو کا آخری مرحلہ شروع ہوتا ہے آٹھویں اور نویں  مہینے  میں  اس کے  جسم پر چربی بنتی ہے اور قدرت اس کے  اندرونی اور بیرونی اعضاء پر آخری نقاشی کرتی ہے۔ استقرارِ حمل کے  نویں  مہینے  میں بچے  کا وزن 2.25 سے  5.5 کلوگرام  ( 5 سے  12 پاؤنڈ) اور لمبائی 43 سے   56 سینٹی میٹر ( 17 سے  22 انچ) ہوتی ہے۔ یعنی نو ماہ پہلے  ایک نقطے  سے  آغاز کر کے  آج حرکت کرتا ہوا انسان وجود میں  آ گیا۔

لیکن کیا واقعی یہ سارا کارنامہ محض ایک نطفے  کا ہے ؟

یہ تو بتایا جاتا ہے  کہ ایک نطفے  سے  آغاز کر کے  کیسے  کیسے مرحلوں  سے  گزر کر بچہ پیدائش کے  عمل سے  گزرتا ہے۔  یہ نہیں  بتایا جاتا کہ یہ اتنا پیچیدہ اتنا منظم نظام کیسے  انجام پا رہا ہے  سائنسدانوں  کا خیال ہے  کہ  پیدائش کایہ نو ماہ پر مشتمل تمام عمل خود کار ہے۔

یہ کیسا خود کار عمل ہے  جو قرنوں  سے  خود بخود جاری ہے اس میں  کوئی خامی کوئی کمی پیشی نہیں  ہوتی یہ کیسی مشین ہے  جو خود بخود بے  نقص انسان تیار کیئے  ہی چلی جا رہی ہے۔ اگر دنیا کا سب سے  ذہین انسان یہ کہہ دے  کہ یہ سوئی خود بخود بنی ہے  تو یقیناً سب اس ذہین آدمی کو خبطی قرار دے  دیں گے  کیونکہ کوئی یہ تسلیم نہیں  کر سکتا کہ سوئی خود بخود بھی بن سکتی ہے۔

جب ایک سوئی خود بخود نہیں  بن سکتی تو دنیا کی سب سے پیچیدہ مشین جس کے  اسرار صدیوں  برس سے  کھلتے  ہی چلے آ رہے  ہیں  وہ خود بخود کیسے  بن سکتی ہے۔ آخر وہ کیسے  لوگ ہیں جو یہ تسلیم کرنے  کو تیار نہیں کہ سوئی خود بخود بن سکتی ہے  لیکن یہ تسلیم کر لیتے  ہیں  کہ انسان خود بخود بن جاتا ہے اور کوئی اس کا بنانے  والا ڈیزائن کرنے  والا نہیں ہے۔

آج سب جانتے  ہیں  کہ خود بخود کچھ بھی نہیں  ہوتا اور اس حقیقت کی سب سے  بڑی گواہ خود جدید سائنس ہے  جدید سائنس نے  آج ہر قسم کے  اتفاقات کی سو فیصد نفی کر دی ہے۔ کائنات کا سب سے  چھوٹا وجود ہو یا بڑے  سے  بڑا وجود کچھ بھی اتفاقات کا نتیجہ نہیں  ہر وجود اپنی جگہ پر فٹ اور بڑا خاص ہے  سب کچھ پری پلینڈ اور سوچے  سمجھے  منصوبے  کا حصہ ہے  کسی بڑے  دماغ کی بڑی کارستانی۔ لہذا اتفاق سے  یا خود بخود کچھ نہیں  ہوتا

لہذا انسان کی پیدائش کا عمل بھی خود کار نہیں  بلکہ پری پلینڈ ہے اور باقاعدہ پروگرام کے  تحت بڑی سخت نگرانی میں  انسان پیدائش کے  طویل اور انتہائی مشکل مراحل سے  گزرتا ہے۔  اگرچہ بظاہر ہم سائنسی تحقیقات کی بدولت پیدائش کے  ہر عمل سے پوری واقفیت حاصل کر چکے  ہیں  لیکن یہ معلومات ادھوری معلومات ہیں۔ کیونکہ جسم کو روح ترتیب دے  رہی ہے  جب کہ موجودہ پیدائشی عمل میں  روح کا کہیں  تذکرہ ہی نہیں  بلکہ سائنسدان کہہ دیتے  ہیں  کہ اس عمل میں  روح کی کہیں گنجائش ہی نہیں۔ لہذا مادی جسم کی پیدائش کے  مراحل پہ بڑی بڑی کتابیں  تو موجود ہیں  لیکن ان میں  کہیں  بھی روح کا تذکرہ نہیں اور مادی جسم کی رحم مادر میں  پیدائش کا عمل روح کے تذکرے  کے  بغیر کبھی بھی مکمل نہیں  ہو سکتا۔
لہذا اب ہم مادی جسم کے  پیدائشی مراحل کو اپنے  نئے  نظریات کے  ذریعے  ایک نئے  انداز سے  پیش کرتے  ہیں۔

مادی جسم کی پیدائش کا آغاز

﴿ مادی جسم کی پیدائش کا آغاز نطفے  سے ہوتا ہے۔ لیکن فقط نطفہ جسم تیار نہیں  کر سکتا انسان فقط چند گرام کے  نطفے  سے  وجود میں  نہیں  آ سکتا۔ نطفہ طویل اور پیچیدہ پیدائشی عمل کا فقط ایک جز اور ایک مرحلہ ہے۔ اور یہ مرحلہ بھی مادی جسم کی پیدائش کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ ﴾

آج تک کی تمام تر سائنسی و تجرباتی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے  کہ ہم فقط یہ جان پائے  ہیں  کہ چند گرام کے  نطفے  سے  انسان وجود میں  آ جاتا ہے۔

لیکن کیا یہ بالکل درست بات ہے؟   ہرگز نہیں !

تخلیق کے  عمل سے  گزرنے  والے  پہلے  جوڑے  کے  ذریعے  ہی پیدائش کے  عمل کا آغاز ہوا۔ لہذا اب ہر جسم پیدائش کے  ذریعے  ہی تخلیق پاتا ہے  لیکن یہ کام فقط نطفے  کا نہیں۔ نطفہ فقط ایک مرحلہ ہے پیدائش کے  عمل کا۔ جب کہ پیدائش کے  بہت سے  دیگر مراحل طے  کر کے  انسانی مادی وجود مکمل ہوتا ہے ، کام کرتا ہے ، متحرک ہوتا ہے ، زندہ رہتا ہے۔ جب کہ موجودہ سائنس محض نطفے  کی کارکردگی کو ہی جان پائی ہے۔ اب یہ کہ دینے  سے  کام نہیں چلے  گا کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے  اب ہمیں  ان سوالات کے  جواب دینا ہوں  گے  کہ کائنات کی یہ سب سے  پیچیدہ مشینری مادی جسم کیسے  خود کار ہے ؟کیسے  متحرک ہے ؟  اس کا اندرونی نظام کیسے  خود کار ہے ؟
یہ وجود کیسے  بن رہا ہے؟کیسے  ہر کل پرزہ اپنی جگہ فٹ بیٹھا ہے ؟
کیسے  ہر کام بڑے  موقع کی مناسبت سے  ہو رہا ہے؟
کیسے  جسمانی اعمال ہو رہے  ہیں؟ اور اس انتہائی منظم اور خود کار سسٹم کو ہدایات کہاں  سے  مل رہی ہیں؟
کیسے  جنین کا تعین ہو رہا ہے؟ 

کیسے  جسم ایک دوسرے  سے  مشابہ بھی ہیں  مختلف بھی؟ کیسے  یہ مشینری متحرک ہے اور کیسے  موت کی صورت میں خودکار حرکت خود بخود رک جاتی ہے ؟  یہ سب کیسے  ہو رہا ہے؟جسمانی تعمیر کا اتنا بڑا اتنا پیچیدہ منصوبہ ظاہر ہے  خود بخود یا اتفاقاً نہیں  ہو سکتا نہ ہی یہ سب محض نطفے  کا کمال ہے۔ جب کہ موجودہ سائنس محض نطفے  کی کارکردگی کو ہی جان پائی ہے۔ اب یہ کہ دینے  سے  کام نہیں  چلے  گا کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے  بلکہ نطفے  کی کار کر دگی کے  علاوہ مادی جسم کے  دیگر پیدائشی مراحل کو جاننا انہیں  الگ الگ شناخت کرنا انتہائی ضروری ہے  درحقیقت پیدائش کا عمل اتفاقاً یا خود بخود یا محض نطفے  سے  مکمل نہیں  ہوتا بلکہ پیدائش کا پورا عمل ایک بہت ہی خاص فارمولے  کے  تحت انجام پاتا ہے اور اب ہم یہاں  اسی خاص فارمولے  کو بیان کرنا چاہتے  ہیں۔ لہذا پیدائش کے  مخصوص عمل کو بیان کرنے  کے  لئے  یہاں  ہمیں  ایک پیدائشی فارمولہ پیش کرنا ہو گا۔

پیدائشی فارمولہ

﴿ہر مادی جسم کی پیدائش کا فارمولہ درج ذیل چار نکات پر مشتمل ہے۔

  ( ۱)۔ تخلیق  (2)۔ تناسب  (3)۔ تقدیر  (4۔ ہدایات

تمام تر انسانوں  کے  مادی اجسام کی پیدائش کا عمل اس چار نکاتی فارمولے  کے  تحت انجام پاتا ہے  یہ چاروں  نکات بھی مزید مراحل پہ مشتمل ہیں  جن کا تفصیلی تذکرہ آگے  آئے  گا۔

چار نکاتی فارمولے  کے  تحت کیسے  جسم پیدائش کے  عمل سے دوچار ہوتا ہے اور یہ فارمولہ کہاں  سے  آیا؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
لہذا یہ کہہ دینا ہرگز کافی نہیں کہ پیدائش کا عمل محض ایک نطفے  سے  خود بخود مکمل ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ جاننا ضروری ہے کہ چار نکاتی فارمولے  کے  تحت یہ پیدائش کا عمل کیسے  انجام پا رہا ہے۔

اب ہم  ہر انسان کے  پیدائشی عمل کے  اس چار نکاتی( تخلیق، تناسب، تقدیر، ہدایات )فامولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے 

لہذا مادر رحم میں  پیدائش کے  عمل میں  پہلا مرحلہ ہے  تخلیق کا۔

  ۱۔ تخلیق

 مادی جسم کی پیدائش کا پہلا مرحلہ

  ﴿روح جسم تخلیق کر رہی ہے ﴾

۱۔ تخلیق                         

  رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کا پہلا مرحلہ ہے  تخلیق

﴿نطفہ نہیں  بلکہ روح جسم تخلیق کر رہی ہے۔ ﴾

یہ روح ہی ہے  جو نطفے  سے  لے  کر جسم کی تکمیل تک ہر لمحہ جسم ترتیب دے  رہی ہے اور ہر لمحہ جسم تخلیق کر رہی ہے۔

روح خالق کائنات کا حکم (پروگرام ) ہے۔ یعنی سادہ لفظوں  میں ہر جسم کا تخلیق کار خود خالق کائنات ہے۔

انرجی کے  ا ختلاط سے  خلیات اور خلیات کے  اختلاط سے  جسم بن رہا ہے۔

روح ہی وہ شے  ہے  جس سے  وجود عدم سے  وجود کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئیے  دیکھتے  ہیں روح  کے  پروگرام پر رحم مادر میں جسم کیسے  تخلیق پا رہا ہے 

۲۔ جسم کی تیاری

﴿روح جسم کی تیاری کا پروگرام دے  رہی ہے۔ ﴾

  اگرچہ بظاہر یہ عمل فقط نطفے  کے  ذریعے  انجام پا رہا ہے  لیکن اس تمام عمل کا مکمل پروگرام روح مہیا کر رہی ہے۔ نطفہ درحقیقت جسم کی تیاری کا پہلا نہیں  دوسرا مرحلہ ہے۔

روح بچے  کی جسمانی تیاری کا مکمل فارمولہ مکمل پروگرام ہے۔ جیسا پروگرام ہے  جیسی ہدایات ہیں  ویسا ہی بچہ تیار ہو گا۔

مرد، عورت، کالا یا گورا، لمبا، چھوٹا، خوبصورت یا بدصورت جیسا روح کا پروگرام جسم کی تیاری کے  لئے  ملا ہے  ویسی ہی تخلیق ترتیب پا کر انسانی صورت میں  ظاہر ہو گی۔ نطفے  سے  لیکر آخری مرحلے  تک جسمانی پیدائش کا تمام پروگرام روح کا پروگرام ہے۔ یعنی ہر لمحہ خالق مخلوق کو تخلیق کر رہا ہے  اپنے  ذاتی ارادے اور ذاتی اختیار اور ذاتی پروگرام (روح ) کے  ذریعے۔ لہذا چند گرام کے  نطفے  سے  آغاز کر کے  جس پیدائشی عمل سے گزر کر پورا انسان ابھر کر سامنے  آتا ہے  اس پیدائشی عمل کا تمام تر دارومدار روح پر منحصر ہے۔

 محض نطفے  کی کارکردگی کو سامنے  رکھا جائے اور وہ اپنا کام پورا کرے اور جسم تیار ہو جائے  پھر بھی روح کی عدم موجودگی سے  یہ تخلیقی عمل تکمیل نہیں  پا سکتا۔ مثلاً تخلیقی عمل کے مکمل ہونے  کے  باوجود بچہ مردہ پیدا ہو گا۔ (روح کی عدم موجودگی کے  سبب)۔

اور اگر روح پورا پروگرام نہ دے  تو بچہ مردہ ہونے  کے  ساتھ ساتھ ادھورا پیدا ہو گا۔ لہذا روح اس جسم کی زندگی بھی ہے 

انسانی جسم کی مکمل تیاری کا پروگرام بھی دے  رہی ہے  یا انسانی جسم تیار کر رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے  کہ روح یہ کام کیسے  کر رہی ہے۔ ہم نے  یہاں  یہ کہا ہے  کہ جسم روح تیار کر رہی ہے۔

جب کہ سائنسدانوں  کا خیال یہ ہے  کہ جسم کروڑوں  سیلز سے مل کر بنتا ہے  جیسے  عمارت بلاکس سے  بنتی ہے  ایسے  ہی جسم سیلز سے  بنتا ہے  اسی لئے  وہ سیلز کو جسمانی بلڈنگ کے  بلاکس کہتے  ہیں۔ سائنسدانوں  کا یہ خیال درست ہے  لیکن یہ مکمل بیان نہیں  ہے۔ کروڑوں  سیلز سے  مل کر جسم تو بنتا ہے  لیکن کیسے؟ 

سیل جسم کا بہت چھوٹا یونٹ ہے  جسے  مائیکرواسکوپ کی مدد سے  دیکھا جاتا ہے۔ سائنسدانوں  نے  سیل کے  مرکز میں نیوکلیس کے  اندر کروموسوم اور کروموسومDNA   پر مشتمل ہے  دریافت کر لیا ہے۔ اور اب DNA   کی تفصیلات سامنے  آ رہی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مختلف اقسام کے  خلیے مختلف طریقوں  سے  اپنے  اپنے  کام انجام دے  رہے  ہیں۔ لیکن کیسے؟  کیسے  ہرخلیہ اپنا اپنا کام خود بخود کر رہا ہے ؟  نظام عصبی کیسے  کام کر رہا ہے ؟  DNA کے  پاس معلومات کہاں  سے  آئیں؟  رگ، پٹھے، دل، گردے  سب کیسے اپنے  اپنے  کام میں  لگے  ہوئے  ہیں؟
یہ سب تو انسان سے  بھی زیادہ سمجھدار ہیں  کوئی غلطی نہیں کرتے  ایسا کام کر رہے  ہیں  کہ ایک انتہائی پیچیدہ مشینری (جسم) خود بخود کام کر رہی ہے۔ اور وہ کیا وجوہات ہیں  کہ یہ انتہائی خودکار مشینری فقط موت کی صورت میں  ہر قسم کا کام بند کر دیتی ہے ، دل، جگر، گردے، پھیپھڑے ، نظام عصبی، خلیے سبھی کچھ تو ہے  ٹھیک ٹھاک ہے  اپنی جگہ موجود ہے  اپنی جگہ قائم ہے  پھر یہ حرکت کیوں  رک گئی ہر خلیے  ہر عضو نے  اپنا کام کیوں  بند کر دیا؟  کیسے  کروڑوں  خلیوں  سے  مل کر بننے  والا مضبوط جسم فقط موت کی صورت میں  بے  نشان ہو گیا بالکل ایسے  جیسے  تھا ہی نہیں۔

کیا واقعی کروڑوں  سیلز کے  جڑنے  سے  انسانی جسم بنتا ہے ؟ کیا ہم ایسے  سیلز اکھٹے  کر کے  انسان تشکیل دے  سکتے  ہیں؟
حقیقت یہ ہے  کہ یہ جسمانی عمارت سیلز  تیار نہیں  کر رہے  بلکہ یہ جسمانی عمارت روح تعمیر کر رہی ہے۔

لیکن کیسے؟

مادہ پرست تو آج بھی اس سامنے  کی دریافت شدہ سائنسی حقیقت یعنی روح کو جھٹلا دیتے  ہیں اور کہہ دیتے  ہیں  کہ مادی جسم میں  روح کی کہیں  کوئی گنجائش نہیں۔

جب کہ ہم یہاں  نہ صرف مادی جسم اور روح کے  تعلق کی مسلسل وضاحت کریں  گے  بلکہ یہ بھی بتائیں  گے  کہ روح جسم کیسے  تیار کر رہی ہے۔

۳۔ جسم کی ترتیب:

﴿دو اجسام کو یکجا کر کے  ترتیب دینے  والی روح ہے۔ ﴾

یعنی خلیے  نہیں  بلکہ روح جسم ترتیب دے  رہی ہے۔ دو خلیوں کو روح مرکب کرتی ہے  اس کے  علاوہ دو اجسام کو مرکب کر کے جسم ترتیب دینے  کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں  ہے۔

یعنی روح  (انرجی Energy  ) خلیوں  کو مرکب کر کے  اجسام ترتیب دے  رہی ہے۔

جب کہ سائنسدانوں کا خیال ہے  کہ جسم کروڑوں  سیلز سے  مل کر بنتا ہے  جیسے  عمارت اینٹوں  سے  بنتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔

سیلز محض جسم کی اینٹیں  تو ہیں لیکن صرف اینٹوں  سے عمارت کی تعمیر ممکن نہیں  اگر ان اینٹوں  کے  درمیان انہیں جوڑنے  والا مسالہ نہ ہو۔ اس مسالے  کے  بغیر صرف اینٹوں سے  پوری عمارت کھڑی نہیں  ہو سکتی۔ اینٹیں  تو فقط ایک جز ہیں  عمارت کی تعمیر کا۔

اسی طرح سیلز بھی فقط ایک مرحلہ ایک جز ہے  جسمانی عمارت کی تعمیر کا اور فقط اس ایک جز سے  پوری جسمانی عمارت مکمل نہیں  ہو سکتی جب تک ان سیلز کو جوڑنے  والی روح (Energy) نہ ہو۔

روح کے  بغیر سیلز یکجا ہو کر جسمانی عمارت تعمیر نہیں  کر سکتے۔

یہ روح ہی ہے  جو خلیوں  کو باہم مربوط کر رہی ہے  یہ روح ہی ہے  جو کروڑوں  خلیوں  کو ترتیب دے  کر باہم مربوط کر کے جسمانی عمارت تعمیر کر رہی ہے۔

۴۔ جسم کا نقشہ

جسم کا نقشہ جسم کی تیاری کا تمام پروگرام روح فراہم کر رہی ہے۔ ہر خلیے  کے  پاس روح کا پروگرام ہے  جس کے  مطابق ہر خلیہ وجود پاہا ہے اور اپنا کام کر رہا ہے۔ ﴾

خلیہ جسم کا بہت چھوٹا یونٹ ہے    سائنسدانوں  نے  اس ننھے  وجود کی اندر کی دنیا بھی دریافت کر لی ہے۔

اتنے  ننھے  وجود میں  اتنی پیچیدگی اور اس کے  پاس اتنی معلومات کہاں  سے  آئیں؟

مختلف قسم کے  خلیے  مختلف قسم کے  کام سر انجام دے  رہے ہیں۔ ہر خلیہ کے  پاس روح کا پروگرام ہے  ہر خلیہ اسی پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ ہر خلیے  کو اس کے  کام کا پروگرام دے  رہی ہے  روح

   DAAکی معلومات

 DNA  کے  پاس معلومات روح کی معلومات ہیں۔

جسم کروڑوں  سیلز سے  مل کر بنتا ہے۔ سیلز کے  مرکز میں نیوکلیئس ہوتا ہے۔ نیوکلیئس کے  اندر کروموسوم (Chromosomes)۔ کروموسوم  DNA  یعنی ڈی اوکسی رائبو نیوکلیئک ایسڈ پر مشتمل ہوتا ہے  اسی DNA کو جین بھی کہتے  ہیں۔ ہمارے  جسم کے  بارے  میں  تمام معلوماتDNA   میں  چھپی ہوئی ہیں۔ اس لئے  ماہرین اسے  کتاب زندگی "Book Of Life"   کہتے  ہیں۔ مثلاً  اس جین میں آپکے  بالوں  کا رنگ، آنکھوں  کی پتلیوں  کا رنگ، جسم اور چہرے  کے  خدوخال۔ آپ کا قد، جسم میں  سیلز کی تقسیم، ہڈیوں ، گوشت، پٹھوں  کی ساخت غرض جسم کے  حوالے سے  تمام معلومات DNA   میں  درج ہوتی ہیں۔ جسمانی معلومات کے  ساتھ بعض وراثتی عادات و اطوار بھی ریکارڈ ہوتی ہیں۔ سائنسدان  DNA  کو جسم کی ڈائیریکٹری قرار دیتے  ہیں  جسے  وہ ابھی تک پڑھ نہیں  سکے  ہیں۔ صرف ایک سیل میں  موجود  DNA  کی تفصیلات لکھنے  کیلئے اخبار کے  ایک لاکھ صفحات سیاہ کرنے  ہوں  گے  ایک انسانی DNA  کے  لئے   3  ارب  10 کروڑ الفاظ درکار ہوں گے۔  DNA  چار اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔

(1)                     (G - Guanine)

(2)                     (T - Thymine)

(3)                     (C - Cytocine)

(4)                     (A - Adenine)

ان اجزا ء کو جنیوم کہا جاتا ہے۔ انہی کے  الٹ پلٹ سے  جسم کی پوری عمارت بنتی ہے۔ مثلاً کون کون سے  کوڈ سے  ہڈیاں بنتی ہیں  کون کون سے  کوڈ سے  رگ پٹھے، بال، خون، ناخن اور دیگر اعضا کون سے  کوڈ سے  ہوتی ہے۔ ان کوڈز کے  سیٹ کو جنیوم پروجیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کے  اندر جنیوم کے  تیس لاکھ جوڑے  ہوتے  ہیں  جو تقریباً50   سے 100   خلیاتی جینز میں  مرتسمCode   ہوتے  ہیں  لیکن ابھی ان کوڈز کو پڑھنے  کی کوشش جاری ہے۔

DNA کے  پاس اتنی معلومات کہاں  سے  آئیں۔

DNA کے  پاس معلومات روح کی معلومات ہیں  لہذا جسم کا ہر خلیہ اسی روح کے  پروگرام پر اپنا اپنا کام انجام دے  رہا ہے  روح ہر خلیے  کو اس کا پروگرام مہیا کر رہی ہے۔

6۔ نظام عصبی:

 ﴿نظامِ عصبی روح کے  پروگرام پر کام کر رہا ہے۔ روح نظام عصبی کو قائم اور متحرک رکھے  ہوئے  ہے۔ ﴾

جسم انسانی ہڈیوں  کے  ڈھانچہ سے  پیوستہ عضلات و اعصاب کا مجموعہ ہے  جوخلیات سے  مرکب ہے۔ اگرچہ خلیات بناوٹ کی اکائی کے  لحاظ سے  یکساں  ہوتے  ہیں لیکن کارکردگی کے  لحاظ سے  مختلف مثلاً  اعصابی خلیے ، گوشت کے  خلیے اور ہڈی کے  خلیے  اپنے  اپنے  کام اپنے  اپنے طریقوں  سے  سر انجام دیتے  ہیں۔  زندہ رہنا، مختلف افعال سرانجام دینا اور مناسب وقت پر آنے  والے  نئے  خلیوں  کے لئے  جگہ خالی کرنا پرانے  خلیوں  کی خودکشی ان ذہنی احکامات کے  تحت ہوتا ہے  جو خودکار اعصابی نظامParasympathetic System   کے  تحریکی اشاروں  کی صورت میں  انہیں  موصول ہوتے  رہتے  ہیں۔ یہ اشارے  خلیے کو تین اطراف سے  موصول ہوتے  ہیں۔ اول خود خلیے  کا نیوکلیئس اور اس میں  موجود DNA اور جینز دوسرا دیگر خلیے اور ان کا ترسیلی نظام، تیسرا اعصابی خلیے اور ان کا ترسیلی نظام۔ یہ تمام ترسیلی نظام دو طرفہ کام کرتے  ہیں یعنی دماغ اور مختلف مقامات پر واقع مراکز سے  احکامات کی وصولی اور خلیوں  کو ترسیل، خلیوں  کے  حالات، احکامات کی تعمیل بصورت عمل و رد عمل کے  ذریعے  متعلقہ کارٹیکس کو مطلع رکھنا۔ یہ تمام اعصابی افعال کیمیائی برقی قوت سے  تشکیل پاتے  ہیں۔ ان برقی کیمیائی لہروں  کی رفتار عام برقی لہروں  سے  بہت کم ہوتی ہے۔ یہ رو عصبانیوں سے  گزر کر حرام مغز کو اور وہاں  سے  دماغ کو پہنچتی ہے اور وہاں  سے  حرکی اعصاب میں  منتقل ہو جاتی ہے۔ مختصراً جانداروں  میں  نظام عصبی کی بدولت کام کرنے  یا روکنے  کی سکت اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے  کہ وہ کیا چیز ہے  جو اس نظام عصبی کو قائم اور متحرک رکھے  ہوئے  ہے۔ اور کیسے؟  خلیوں  کو تین اطراف سے  موصول ہونے  والے  تحریکی اشارے  دماغ اور مختلف مقامات پر واقع مراکز سے  احکامات کی وصولی اور خلیوں کو ترسیل اور خود خلیہ اور DNA کی معلومات یہ سب روح کی بدولت ہے۔ یہ سارا نظام روح کے  مرتب پروگرام پر کام کر رہا ہے۔

۷۔ خلیہ مادہ اور روح:

﴿خلیہ اور جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ مادہ اور روح ہے۔ ﴾

خود جسم اور جسم کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا یونٹ اور بڑے سے  بڑا یونٹ مادہ اور روح  (Energy)  ہے۔

لہذا ہر خلیہ ہر یونٹ اسی روح  (انرجی)  سے  زندہ ہے  متحرک ہے اور جب اس خلیے  میں  سے  یہ روح یہ انرجی نکل جاتی ہے تو یہ خلیہ مردہ ہو جاتا ہے  جسے  ہم خلیے  کی خودکشی کہتے ہیں  اب خلیہ وہ کام سر انجام نہیں  دے  سکتا جو وہ روح کے پروگرام پہ انجام دے  رہا تھا۔ لہذا

(1)  ہر خلیہ یا جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ روح اور مادہ ہے۔

(2)   ہر خلیہ یا جسم کا ہر چھوٹا بڑایونٹ روح  (Energy) سے  زندہ ہے۔

(3)    ہر خلیے  کے  پاس حرکت و عمل کا پروگرام ( روح کا پروگرام ) ہے۔

۸۔ جسم میں  روح:

 ﴿روح (Energy)   پورے  جسم میں  ہر جگہ موجود ہے۔ ﴾

جسم کے  ہر عضو، ہر یونٹ ہر ذرے  میں  روح ہے۔

پورے  جسم میں  ہر جگہ روح موجود ہے۔

 DNA کے  پاس روح کا پروگرام موجود ہے۔

نظام عصبی کو تحریک دینے  والی روح ہے۔

ہر خلیے  ہر عضو کے  پاس روح کا پروگرام ہے۔ جس پہ وہ عمل پیرا ہے اور  روح کی انرجی سے  زندہ اور متحرک ہے۔

دو خلیوں  کو مرکب کر کے  جسم تعمیر کرنے  والی بھی روح ہے۔

انفرادی روح

 ﴿جسم کے  ہر چھوٹے  بڑے  یونٹ کے پاس انفرادی روح  (Energy)  ہے۔ ﴾

 جسم کے  ہر بڑے  سے  بڑے  عضو اور ہر چھوٹے  سے  چھوٹے یونٹ چاہے  وہ خلیہ ہو یا عضو سب کے  پاس اپنی انفرادی انرجی (روح)ہے۔

لہذا جسم کے  ہر یونٹ کے  پاس اپنی انفرادی روح (زندگی، انرجی)ہے  جسم کے  ہر یونٹ کے  پاس اپنا انفرادی حرکت و عمل کا پروگرام ہے  ہر خلیہ اپنا کام جانتا ہے  ہر خلیے  کے  پاس حرکت و عمل کا اپنا انفرادی پروگرام موجود ہے  روح کی صورت میں۔ اسی اپنے  اپنے  انفرادی پروگرام کے  تحت جسم کا ہر عضو ہر یونٹ زندہ ہے، متحرک ہے۔ اپنا اپنا کام سرانجام دے  رہا ہے۔ لہذا خود جسم اور جسم کا ہر بڑا یا چھوٹا یونٹ

(1)   مادہ اور روح ہے۔

(2)   روح کے  ذریعے  زندہ ہے۔

(3)   روح کے  پروگرام پر عمل پیرا ہے۔

(4)   روح کی عدم موجودگی سے  مردہ ہے۔

(5)   ہر یونٹ اسی روح  (انرجی)  کی ایک (مادی) صورت ہے

 یعنی درحقیقت خلیہ اور ہر یونٹ (چاہے  وہ بڑا ہو یا انتہائی چھوٹا)فقط   انرجی  (روح) ہے۔

جسم کی روح

﴿پورے  جسم میں  ایک ہی روح (Energy)  ہے۔ ﴾

یہ بھی عجیب بات ہے  کہ جسم کے  ہر ذرے  ہر عضو ہر چھوٹے بڑے  یونٹ کے  پاس اپنی اپنی انفرادی روح (حرکت و عمل کا پروگرام) ہے  یعنی جسم کا ہر ذرہ اپنی انفرادی حیثیت، اپنا ذاتی حرکت و عمل کا پروگرام اپنی ذاتی زندگی اور اپنی انفرادی روح رکھتا ہے۔ اور جسم کے  لا شمار ذروں  میں  تقسیم در تقسیم ہونے کے  باوجود پورے  جسم کی ایک ہی واحد روح ہے۔

یعنی جسم کا ہر یونٹ اپنی اپنی انفرادی روح بھی رکھتا ہے اور پورے  جسم میں  بھی ایک ہی روح (Energy) ہے۔

اور یہی پورے  جسم کی "ایک روح" جسم کے  ہر عضو ہر ذرے  کو انفرادی روح ( زندگی، انرجی، حرکت و عمل کا پروگرام) بھی دے رہی ہے اور یہی روح ہر ذرے  کی انفرادی روح میں  تقسیم ہونے کے  باوجود بھی واحد ہی ہے  ناقابل تقسیم ہے۔ اور ہر حالت میں اپنی وحدانیت بھی برقرار رکھے  ہوئے  ہے۔ لہذا

(1)   جسم کے  ہر ذرے  ہر یونٹ کے  پاس انفرادی روح (Energy  پروگرام) ہے۔

(2)   پورے  جسم میں  بھی ایک ہی انفرادی واحد روح ہے۔

(3)   یہی واحد روح جسم کے  ہر یونٹ میں بھی ہر یونٹ کی انفرادی روح (انرجی، پروگرام) کی صورت میں  بھی موجود ہے۔

۱۱۔ روح کا مرکز

﴿جسم میں  روح کا مرکز دل ہے۔ ﴾

یا یوں  کہنا درست ہو گا کہ جسم کے  ہر یونٹ میں  روح کا  "ہر مرکز "  ( ہر دل)  ہے۔

روح انرجی ہے۔

ہر مرکز۔ ہر مرکز سے  مراد جسم کے  ہر چھوٹے  بڑے  یونٹ کا درمیان یا اس کا مرکز ہے۔

ہر دل۔ اور ہر یونٹ کا مرکز ہی در اصل جسم کے  ہر چھوٹے  بڑے یونٹ کا دل ہے۔

جسم کے  ہر یونٹ کے  ہر مرکز کو یہاں  ہم نے  ہر دل کہا ہے

اسکا مطلب یہ ہے  کہ جسم کے  ہر چھوٹے  سے  چھوٹے یونٹ کے  مرکز میں  روح (Energy)  ہے 

یعنی جسم کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا یونٹ مادہ (جسم) اور روح (Energy) پر مشتمل ہے۔

لہذا جسم کے  ہر یونٹ کے  مرکز میں  روح  (Energy)  ہے۔ لہذا جسم میں  روح کا ہر مرکز اپنی جگہ دل ہے۔

صرف جسم کے  ہر مرکز میں  ہی دل نہیں  ہے  بلکہ مجموعی جسم کا مرکز بھی دل ہی ہے۔

اور پورے  مجموعی جسم میں  روح کا مرکز وہ دل ہے  جو سینے کے  بائیں  جانب دھڑک رہا ہے۔ اور یہ مجموعی جسم کا دل تمام مرکزوں  کا مرکز ہے۔ یعنی جسم میں اور جسم کے  ہر مرکز کو سپلائی ہو رہی انرجی (روح) کا مین پاور اسٹیشن یا مرکز یہی دل ہے  یہیں  سے  انرجی ( روح) تمام جسم کے  تمام تر مراکز(تمام دل) کو سپلائی ہو رہی ہے۔

لہذا جسم میں  روح (Energy)  کا مرکز یہی مرکزی دل ہے۔ جو جسم کے  ہر مرکز کا مرکز ہے۔ یعنی جسم کے  ہر یونٹ کے مرکز کا مرکز دل ہے اور دل روح کا مرکز ہے۔

سادہ الفاظ میں  یوں  کہنا ہو گا کہ جسم کے  ہر ذرے  میں  روح ہے اور جسم کے  ہر ذرے  کی روح کا مرکز دل ہے  یعنی دل وہ پاور اسٹیشن ہے  جہاں  سے  انرجی جسم کے  ہر یونٹ  کے  مرکز کو سپلائی ہو رہی ہے۔ یہ روح جس کا مرکز دل ہے  اگرچہ روح کا مرکز دل ہے  لیکن جسم کے  ہر ذرے   کے  مرکز یا دل میں  موجود روح اپنے  مرکز(دل) میں  نہیں  ہے۔ جسم کے  ہر ذرے  میں  موجود روح جسم میں  ہے  ہی نہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے  کہ یہ جسم کے  ہر ذرے  کے  مرکز میں  موجود روح خود کہاں  ہے۔

۱۲۔ جسم کی روح خود کہاں  ہے 

 ﴿پورے  جسم کے  اندر ہر خلیے  ہر ذرے میں  موجود روح جسم میں  نہیں  ہے  بلکہ جسم سے  باہر ہے۔﴾

اگرچہ روح کا مرکز دل ہے  لیکن روح دل میں  نہیں  ہے۔ اگرچہ پورے  جسم میں  ہرجگہ ہر خلیے  ہریونٹ کے  مرکز میں  روح (Energy) اور اس کا پروگرام موجود ہے اور ہر خلیہ ہر عضو روح کے  اسی پروگرام پر عمل پیرا ہے  لیکن یہ جسم کی روح جسم میں  ہر جگہ موجود ہونے  کے  باوجود بذات خود جسم کے  اندر نہیں  ہے   بلکہ یہ جسم سے  باہر ہے۔ یہ بھی شائد عجیب اور سمجھ میں  نہ آنے  والی بات ہے  کہ روح جسم کے ہر یونٹ میں  موجود بھی ہے  لیکن جسم کے  باہر بھی ہے۔ یعنی روح خود تو جسم کے  باہر ہے  لیکن اس کی انرجی اس کا پروگرام جسم کے  ہر گوشے  میں  موجود ہے۔ اس کی مثال بجلی کے  نظام کی سی ہے۔  مثلاً
سارے  گھر میں  بجلی دوڑ رہی ہے  گھر کے  اندر کی ہر شے  اسی بجلی سے  متحرک ہے  فریج کے  اندر بھی بجلی ہے  پنکھے اور ٹی وی میں  بھی لیکن ہر شے  میں  موجود بجلی کہیں  باہر سے  آ رہی ہے  مین بورڈ  بھی اس کا منبع نہیں  ہے  بلکہ گھرکے  اندر دوڑنے والی بجلی کہیں  باہر سے  آ رہی ہے۔

لہذا جسم کے  اندر دوڑنے  والی بجلی جسم کے  ہر عضو ہر یونٹ میں  موجود بجلی (روح) بھی دراصل باہر سے  آ رہی ہے۔ اگرچہ جسم میں  اس کا مرکز دل ہے  لیکن اس مرکز میں  روح خود موجود نہیں  بلکہ روح جسم میں  نہیں  روح جسم کے  باہر ہے۔

انسان کی روح

 ﴿کائنات کے  ہر انسان کے  پاس اپنی انفرادی روح ہے ﴾

دنیا میں  اربوں  انسان ہیں۔ ہر انسان کے  اندر انفرادی روح ہے۔ مثلاً جو روح  (Energy) میرے  یعنی  "عمران شہزاد تارڑ"  کے جسم میں  ہے  وہ روح  (Energy) میرے  جسم اور حرکت و عمل کا ایک مکمل پروگرام ہے  ایک مکمل مقداری فارمولہ ہے۔

میرے  اندر یہ روح یہ انرجی ایک انفرادی مقداری فارمولہ ہے۔ اتنی مقدار کا اور ایسا ہی مقداری فارمولہ یا حرکت و عمل کا پروگرام کوئی اور نہیں  ہو سکتا۔

کسی بھی رابعہ رضوی یا سلیم یا درخت یا پہاڑ کا مقداری فارمولہ "عمران شہزاد تارڑ "  کے  مقداری فارمولے  سے  مختلف مقداری فارمولہ ہے۔

ان فارمولوں  میں  چاہے  تھوڑا ہی فرق ہو لیکن فرق ضرور ہے۔ اور یہی مقداری فرق انفرادیت پیدا کر رہا ہے   عمران شہزاد تارڑ  یا  رابعہ رضوی میں۔ یا مرد اور عورت میں  انفرادیت بھی اسی فارمولے کے  فرق سے  ظاہر ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ اسی فرق کے  سبب جڑواں  بچوں  میں  حد درجہ مماثلت کے  باوجود انفرادیت برقرار رہتی ہے 

اگر ہر وجود کے  مقداری فارمولے  میں  یہ فرق نہ ہو تو دو انسانوں  میں  ہم فرق نہیں  کر سکتے  یا دو جنسوں  میں  فرق کرنا ممکن نہ رہے  یا درخت اور پہاڑ کو الگ سے  شناخت کرنا دشوار ہو۔ لہذا ہر وجود ایک مکمل اور منفرد فارمولہ ہے۔

اور ہر فارمولے  کی انرجی (روح) کی مقدار میں  واضع فرق ہے۔ لہذا کائنات کے  ہر شخص کی روح واحد اور منفرد روح ہے۔

تمام انسانوں  کی روح

﴿تمام انسانوں  میں  ایک ہی روح (Energy) ہے۔ ﴾

اگرچہ ہر انسان کے  پاس انفرادی روح ہے اور ہر روح ایک الگ اور منفرد مقداری فارمولہ ہے اور ہر مقدار ہمیشہ اپنی انفرادیت اور وحدانیت برقرار رکھتی ہے 

پھر بھی ہر جسم کی انفرادی روح اور ہر جسم کے  ہر یونٹ کی انفرادی روح میں  تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود تمام انسانوں  میں  فقط ایک ہی روح  (Energy)ہے۔ اور یہ ایک ہی روح ہر حیثیت میں  اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے  یعنی۔

(1)   تمام انسانوں  کی روح بھی واحد ہے۔

(2)   ہر جسم کی روح بھی واحد ہے۔

(3)   جسم کے  ہر ذرے  کی روح بھی واحد ہے۔

(4)   یعنی ایک ہی روح تمام انسانوں کی ہر انفرادی روح کی صورت میں  بھی موجود ہے اور ہر ذرے  کی انفرادی روح کی صورت میں  بھی موجود ہے۔

  کائنات کی روح

 ﴿پوری کائنات یا کائناتوں  کی ایک ہی روح  (Energy) ہے۔ ﴾

اگرچہ جسم کے  ہر یونٹ کے  پاس انفرادی روح (Energy)ہے اور ہر جسم کی بھی اپنی انفرادی روح (Energy)ہے  اور تمام انسانوں  کی بھی ایک ہی روح (Energy)ہے اور پوری کائنات کی بھی ایک ہی روح (Energy)ہے۔

 ہر جسم کی انفرادی روح اور جسم کے  ہر یونٹ کی انفرادی روح اور کائناتوں  کی روح میں  تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود کائنات کی روح واحد ہے۔

کائنات اور اس کا ہر ذرہ وہ بڑے  سے  بڑا وجود ہو یا چھوٹے سے  چھوٹا ذرہ تمام میں  ایک ہی روح (Energy)ہے۔ اور ہر ذرے  کی روح منفرد روح ہے اور ہر حالت میں  اپنی انفرادیت اور اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے۔ اور ہر ذرے  کی وحدانیت اور انفرادیت برقرار رہنے  کے  باوجود اور انرجی تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود اجتماعی حیثیت میں  بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے۔ یعنی

(1)   جسم کے  ہر ذرے  کی روح(Energy) بھی واحد ہے۔

(2)   ہر جسم کی روح(Energy) بھی واحد ہے۔

(3)   تمام انسانوں  میں  بھی ایک ہی واحد روح (Energy)ہے۔

(4)   کائنات کے  ہر وجود میں  واحد روح (Energy)ہے۔

(5)   پوری کائنات میں  ایک ہی روح(Energy) ہے ، اور یہ پوری روح واحد ہے۔

لہذا یہ کہنا درست نہیں  کہ انسان میں  کوئی اور روح(Energy) ہے  جانور میں  کوئی اور روح (Energy)درخت میں  کوئی اور یا انسانوں  کی روح اعلی ہے اور حیوانات میں  کوئی کمتر روح ہے۔ ہر وجود میں  ایک ہی روح((Energyہے  ہاں  لیکن ہر وجود کی روح (Energy)کی مقدار میں  فرق ہے   ہر وجود کی روح (Energy)کی مرکب حالت میں  فرق ہے۔ ہر وجود کا پروگرام منفرد اور مختلف پروگرام ہے۔ اور اسی انفرادیت کی وجہ سے  کائنات کا ہر وجود دوسرے  سے  مختلف ہے  منفرد ہے۔ انسانوں  کا پروگرام منفرد ہے  درختوں  کا الگ، جانوروں  کا الگ لہذا کائنات کا ہر وجود اسی انفرادی پروگرام کی وجہ سے  منفرد ہے۔ لہذا ایک ہی روح (Energy)مختلف اور منفرد موجودات کی صورت میں  ہمارے  سامنے  موجود ہے۔

ایک ہی روح (Energy)پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی صورت میں  موجود ہے  کیسے؟

روح کا منبع

﴿روح کا منبع پاور اسٹیشن ہے۔ ﴾

یہ ہمارے  جسم کی روح جو جسم کے  ہر یونٹ میں  بھی ہے  دل میں  بھی ہے اور جسم کے  باہر بھی  ہر جگہ موجود ہے  اس روح کا منبع ایک مین پاور اسٹیشن ہے۔

واحد روح

﴿ کائنات کے  ہر وجود کی روح واحد (Energy)(نا قابل تقسیم)ہے۔ ﴾

 ﴿پوری کائنات میں بھی ایک ہی روح (Energy)ہے۔ انرجی اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے۔﴾

﴿روح (Energy)اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے اور کائنات کی تمام تر موجودات میں  منقسم ہونے  کے  باوجود بھی اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے۔ ﴾

ایک ہی روح یا واحد روح کائنات کی واحد روح کیسے  ہر ذرے  کی حیثیت میں  بھی واحد ہے اور اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے  اب ہم اس کی وضاحت کرتے  ہیں۔

یہ توانائی مرکب نہیں  ہے۔

اس انرجی کے  علاوہ توانائی کی جتنی بھی اقسام سے  ہم واقف ہیں  وہ مرکب توانائیاں  ہیں۔ لہذا کائنات کا ہر وجود اسی واحد انرجی کے  مرکبات کا مجموعہ ہے۔

فقط کائنات کی یہ اصل "انرجی"  (روح) ہی غیر مرکب ہے۔ یعنی پوری کائنات میں  ایک ہی انرجی ہے۔ یہاں  ہم نے  انرجی کی دو حیثیتوں  کا تذکرہ کیا ہے

(1)   اجتماعی حیثیت

(2)   انفرادی حیثیت

(1)   اجتماعی حیثیت:  انرجی اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے۔ لہذا پوری کائنات میں  ایک ہی روح (Energy)ہے۔

(2)   انفرادی حیثیت:  ہر ذرے  میں  انفرادی روح ہے  ہر ذرہ اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے اور یہ وحدانیت کہیں  نہیں  ٹوٹتی اسی انفرادیت کے  سبب ہم  مرد عورت، درخت، پہاڑ غرض کائنات کی ہر شے  کو انفرادی حیثیت میں  شناخت کرتے  ہیں۔

یعنی ایک ہی روح مختلف مقداروں  میں  منقسم بھی ہے ، مختلف مقداروں  میں  مرکب بھی ہے  پھر بھی تقسیم در تقسیم ہونے  کے  باوجود ہر وجود میں  بھی واحد ہے اور اجتماعی حیثیت میں  بھی واحد ہے  یعنی روح (Energy) کی وحدانیت انفرادی یا اجتماعی کسی حیثیت میں  نہیں  ٹوٹتی۔

یہ شائد نہ سمجھ میں  آنے  والی بات ہے  لیکن ہم اس کی وضاحت ایک سادہ سی مثال سے  کرتے  ہیں۔

ہمارے  گھر میں  بجلی آ رہی ہے  پورے  گھر میں  دوڑ رہی ہے گھر کی ہر شے  فریج پنکھے ، ٹی وی وغیرہ سب اسی بجلی سے چل رہے  ہیں  ہم یہ نہیں  کہہ سکتے  کہ بلب میں  کوئی اور بجلی ہے اور ٹی وی میں  کوئی اور ایک ہی بجلی ہر وجود میں  مختلف مقداروں  میں  موجود ہے  (اسی طرح ایک ہی روح جسم کے  ہر ذرے  میں  موجودہ ہے )۔

یہ بجلی تاروں  کھمبوں  کے  ذریعے  ہمارے  گھر میں  دوڑ رہی ہے۔ یہ تاریں  اور کھمبے  بھی بجلی کا منبع نہیں  بلکہ یہ کہیں مین پاور اسٹیشن سے  آ رہی ہے۔ یعنی مین پاور اسٹیشن سے  لیکر ہمارے  گھر تک جو بجلی کا سلسلہ ہے  وہ تمام ایک ہی سلسلہ ہے یوں  نہیں  کہ کھمبوں  میں  کوئی اور بجلی مین پاور اسٹیشن میں  کوئی اور گھر میں  کوئی اور ہے  بلکہ بجلی ایک ہی ہے اور یہ تسلسل کہیں  ٹوٹا نہیں  لہذا ایک ہی بجلی ہر وجود میں  مختلف مقدار میں  موجود بھی ہے اور مختلف قسم کی موجودات کو حرکت میں  بھی رکھے  ہوئے  ہے۔

بالکل ایسا ہی تسلسل ہے  کائنات میں  کائناتی انرجی(روح) کا لہذا ایک ہی مین پاور اسٹیشن سے  ایک ہی انرجی(روح) پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کو مختلف مقداروں  میں  میسر آ رہی ہے  نہ کم نہ زیادہ۔

اور یہ تسلسل برقرار ہے  انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی لہذا

(1)   واحد روح (یا ایک ہی انرجی(Energy))۔

(2)   ہر وجود میں  انفرادی حیثیت میں  بھی موجود ہے۔

(3)  اور اجتماعی حیثیت میں  اپنی واحدانیت بھی برقرار رکھے ہوئے  ہے۔

حصہ دوم پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک وزٹ کریں

ماخواذ علم الانسان حذف و ترمیم کےساتھ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...