Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 33

(قسط نمبر33)
سنی بریلوی اور بعض سنی دیوبندی حضرات کے نزدیک" ایصال ثواب " کی شرعی حیثیت
از: محمد حفیظ نقشبندی اور
مفتی احسان ﷲ حسن ان کی کتب اور ویب سائٹ مزید دیکھ سکتے ہیں-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم
زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے اس کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیئے ،
اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کر آنے والے صفحات پڑھیں گے تو انشاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔ ( راقم الحروف)
والذین جآءوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا الاخواننا الذین سبقونا بالایمان ط “
وہ جو ان کے بعد آئے وہ یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے با ایمان گزر چکے ہیں ۔“
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے :
الدعاء مخ العبادۃ ۔
“ دعا عبادت کا مغز ہے۔“
ایک اور جگہ ہے۔
الدعاء ھو العبادۃ
“ دعا عبادت ہے۔“
ثابت ہوا زندوں کی عبادت دنیا سے جانے والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ حضرت امام جلالالدین سیوطی رحتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر)
“ اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے
اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔ ( مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا) ( شرح الصدور ، ص 127)
شرح عقائد نسفی میں ہے :
وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ۔
“ زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔“
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ۔ ( مسلم شریف)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قال حجی عنہا۔ ( بخاری)
“ تم اس کی طرف سے حج کرو ۔“
فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است۔
“ ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال ثواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے
اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے۔‘ اور دیکھئے:
ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ۔ ( ابو داؤد)
“ اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے۔“
بخاری، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے:
“ دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ( مشکوۃ)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے۔“
فائدہ!
معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ ( کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اور اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کر اٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ملفوظات عزیزی ، ص 55 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجہ کے متعلق فرماتے ہیں۔ روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود “ کہ تیسرے دن لوگوں کے بیرون از حساب است بہشتاد ویک کا ہجوم اسقدر تھا کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ یا شد کہ شمار سے باہر ہے ۔ وکلمہ سا حضر نیست اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمہ طیبیہ کا تو ابدازہ ہی نہیں۔“
      حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو۔ ( جامع صغیر)
      حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو۔ ( بخاری جلد اول)
     حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ ( مسلم، جلد دوم) بفضلہ تعالٰی اہل سنت و جماعت کا یہی معمول ہے۔
ساتواں :
حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔ ( شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ) چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ) “ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے۔“
دسواں:
فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو۔ ( بخاری شریف، جلد اول)
     حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے فرمایا دس دنوں میں۔ ( ابو داؤد مترجم جلد اول) لہذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں!
چہلم:
دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکم یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
چالیس کا قرآن سے ثبوت:
واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ۔ ( سورہ بقرہ۔ آیت 50)
“ اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا“
اقراء القرآن فی اربعین۔ ( ترمذی شریف)
“ قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو۔“
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سے‌خاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چناچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔ ( ثواب العبادات از خطیب پاکستان، بحوالہ شرح الصدور ، ص 24) اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات)
چہلم کا ایک اور حوالہ
وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ۔
“ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ ( شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64)
عرس۔ ۔۔۔ ( برسی)
حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی :
وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 15)
“ اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا۔“
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں:
والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ہ ( سورہ مریم: آیت 33)
“ اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر۔“
تفسیر ابن جریر ( طبری) دیکھئے: حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کیا خبر دی ابن مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابھی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہداء کی قبروں پر ہر سال پھر فرماتے: سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبور شہداء پر جایا کرتے تھے ۔ ( تفسیر ابن جرید مطبوعہ مصر، جلد 13)
     اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔ ( تفسیر کبیر مطبوعہ مصر، جلد 5)  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال میں قبور شہداء پر پس فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ( تفسیر کشاف طبوعہ بیرون لبنان، جلد دوم) تفسیر کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیئے۔ مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شھدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ ( البدایہ و النہایہ مطبوعہ مصر، جلد سوم) سرور کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر سال شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفاء کا اپنے اپنے زمانہ میں اس سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا رہنا عرائس بزرگان دین کیلئے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے۔ ( گیارھویں شریف ، صائم چشتی) فاطمہ خزائیہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبور شہداء پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبر حمزہ رضی اللہ عنہ پر سلام کریں ۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھرے ۔ ہم نے کہا ۔ السلام علیک یا عم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا۔ ( اخرج البیہیقی) ( طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ ) ( سید ذوالفقار احمد وہابی تلمیذ سدیق حسن بھوپالی) دیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں ۔ اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں۔
ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت
ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصال ثواب کرتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے۔ ( صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاھیئے۔) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں۔ مزید تفصیل کے لئے ممتاز اسلامی اسکالر جناب ڈاکٹر نور احمد شاہتاز صاحب کی کتاب کڑوی روٹی کا مطالعہ فرمائیں۔
نوٹ:
بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رھمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔ (ربدۃ النصائح،ص 132) “ اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے۔“
http://www.nooremadinah.net
مفتی احسان اﷲ حسنؔ
۔ ایصالِ ثواب زندہ اور مردوں دونوں کو ہوسکتا ہے۔ مثلاً آپ دو رکعت نماز پڑھ کر اس کا ثواب اپنے والدین کو یا پیرو مرشد کو ان کی
زندگی میں بخش سکتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد بھی۔ عام رواج مردوں کو ایصال ثواب کا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ زندہ آدمی کے اپنے اعمال کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مرنے کے بعد صدقہ جاریہ کے سوا آدمی کے اپنے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اس لیے مرحوم کو ایصالِ ثواب کا محتاج سمجھا جاتا ہے اور ویسے بھی زندوں کی طرف سے مردوں کے لیے اگر کوئی تحفہ ہوسکتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب ہی ہے-
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایصال ثواب کا عقیدہ قرآن پاک سے بالکل خلاف ہے۔ قرآن پاک میں صاف طور پر آیا ہے۔ لیس للإنسان إلا ما سعیٰ۔ (اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا) اور دوسری جگہ ہے۔ ولا تجزون إلا ما کنتم تعملون (اور وہی بدلہ پاؤگے جو کرتے تھے)
اس کا جواب یہ ہے کہ ایصال ثواب قرآن کی کئی آیات سے ثابت ہے۔ مثلا وقل رب ارحمھما کما ر بینیٰ صغیراً (اور کہہ اے رب! ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا) اس آیت مبارکہ میں والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے چاہے زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ اس دعا سے ان کو فائدہ بھی پہنچے گا اس لیے کہ قرآن بے فائدہ کام کا حکم نہیں دیتا۔ یہی ایصال ثواب ہے۔ اس میں سعی اور کوشش بیٹے بیٹی کی ہے اور فائدہ والدین کو پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی آیات سے بھی ایصال ثواب ثابت ہے۔ باقی رہے وہ آیات جن کو لے کر اعتراض کیا گیا تو اس کا مطلب صاف اور واضح ہے۔ جیسے کوئی شخص پورا مہینہ مزدوری کرے تو اس کی تنخواہ کا حق دار بھی وہی ہوگا اور اسی کی ہی ملکیت ہوگی۔ کوئی اور اس تنخواہ کا حق دار نہیں بن سکتا۔ لیکن اگر وہ خود تنخواہ لے کر کسی محتاج کو صدقہ یا دوست کو ہدیہ کردے تو اب وہ اس کا مالک بن جائے گا۔ اسی طرح کسی انسان کی سعی، کوشش اور محنت کا ثواب اسی کو ملے گا۔ لیکن اگر اس کے بعد وہ یہ بھی سعی کرے کہ اے اﷲ! اس کا جو ثواب مجھے ملا ہے وہ فلاں کو پہنچا دے تو وہ اس کو مل جائے گا۔
یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ ماں، باپ اولاد کی کوشش کا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ ان کی پیدائش کا سبب ہیں۔ باقی کسی اور کو دوسرے کے عمل کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ لہٰذا کسی اور کے لیے ایصال ثواب درست نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا مذکور ہے۔ رب اغفرلی والوالدی ولمن دخل بیتی مؤمنا و للمؤمنین و المؤمنات (اے رب معاف کر مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو آئے میرے گھر میں ایماندار اور سب ایمان والے مردوں اور عورتوں کو) اس آیت کریمہ میں سب مؤمن مردوں اور عورتوں کے لیے دعا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نوح! میں نے تیرے اور تیرے والدین کے حق میں دعا قبول کرلی کیونکہ وہ تیری پیدائش کا سبب ہیں اور باقی مؤمن جو تیرے گھر میں ہیں اور گھر سے باہر کے سب مؤمن مرد اور عورتوں کے لیے تیری دعا بے فائدہ، عبث اور فضول ہیں۔ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔ اس لیے کہ تیری کوشش کا فائدہ کسی اور کو پہنچانا میرے قانون کے خلاف ہے۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا نقل فرما کر ہمیں دعا کا طریقہ سکھلایا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں بھی تمام مؤمنین کے لیے دعا ہے۔
ایصال ثواب کی مختلف
صورتوں کی تفصیل:
ذخیرہ احادیث میں ایصال ثواب کے مختلف طریقے منقول ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1 نماز جنازہ:
انسان کی وفات کے بعد سب سے پہلے جس عمل کی ادائیگی ہوتی ہے وہ نماز جنازہ ہے اور نماز جنازہ بھی ایصال ثواب کی ایک صورت ہے اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: إذا صلیتم علی المیت فأخلصوالہ الدعاء (ابن ماجہ)
’’جب مردہ پر نماز پڑھو تو خلوص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔‘‘ اسی طرح آپ ﷺ سے کئی دعائیں کتب احادیث میں منقول ہیں جو آپ ﷺنے جنازوں میں پڑھیں، اس سے مقصود صرف ایصال ثواب ہے۔
چونکہ نماز جنازہ سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لیے مؤمن کے بارے میں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر نیک و بد پر نماز جنازہ پڑھو، مگر کافروں کو ثواب نہیں پہنچتا، اس لیے ان کی نماز جنازہ سے سختی سے منع کردیا گیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولا تصل علیٰ أحد منہم مات أبداً ولا تقم علیٰ قبرہ انھم کفروا باﷲ ورسولہ وما تواوھم فٰسقون۔ (اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مر جائے کبھی اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر۔ وہ منکر ہوئے اﷲ سے اور اس کے رسول سے اور وہ مر گئے نافرمان)
2 قبر پر دعا:
عن عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قال کان النبی ﷺ إذا فرغ من دفن المیت فقال استغفر وا لأخیکم واسئلوالہ التبثیت فإنہ الأن یسئل۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مردہ کے دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش مانگو اور اس کی ثابت قدمی کی دعا کرو۔ کیونکہ اب اس سے سوال ہورہا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو دفنانے کے بعد اس کے لیے استغفار اور بخشش طلب کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی ایصال ثواب ہے۔ اور زندوں کی سعی و کوشش ہے جس سے مردوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے نیز اس میں یہ بھی قید نہیں کہ صرف بیٹا دعا کرے اور کوئی نہ کرے۔
3زیارت قبور:
زیارت قبور مسنون ہے اور زیارت کے وقت بھی مردہ کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ یہ دعا بھی ایصال ثواب ہی ہے۔ اس میں بھی یہ کوئی تخصیص نہیں کہ صرف بیٹا ہی دعا مانگے، باقی دعا نہ مانگیں۔ مسلم شریف میں دعا کے الفاظ یہ ہیں: السلام علیکم أھل الدیار من المؤمنین والمسلمین وانا إن شاء اﷲ بکم لا حقون نسأل اﷲ لنا ولکم العافیۃ (سلام ہو تو پر اے ان گھروں والے مؤمنو اور مسلمانو! اور ہم بھی ان شاء اﷲ تم سے ضرور ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں۔)
4 صدقات:
عن عائشہرضی اللہ عنہ ا أن رجلاً اتی النبی ﷺ فقال یا رسول اﷲ ان امی افتتلت نفسھا ولم توص وأظنھا لو تکلمت تصدقت أفلھا أجر إن تصدقت عنھا؟ قال نعم (بخاری ص ۳۸۶) ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس کی والدہ اچانک فوت ہوگئی اور اس نے کوئی وصیت نہ کی اورمیرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو صدقہ کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو اس کا ثواب پہنچے گا؟ فرمایا ہاں۔‘‘
اسی طرح کی ایک حدیث مسلم اور مسند احمد میں بھی مذکور ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔
5 حج:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنھا ان امراۃ من جھینۃ جاء ت الی النبی ﷺ فقالت إن أمی نذرت أن تحج فلم تحج حتی ما تت أفاحج عنھا؟ قال جحی عنھا۔ (بخاری: ج ۱ ص ۲۵۰)
’’حضرت عبداﷲ بن عباس ررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی، اور وہ منت پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئیں کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا اس کی طرف سے حج کر۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کی طرف سے حج کرکے اس کو اس کا ثواب پہنچانا صحیح ہے اور یہ ایصال ثواب ہے۔
6 تلاوت قرآن:
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ من دخل المقابر ثم قرأ فاتحۃ الکتاب وقل ھو اﷲ أحد و الٰھکم التکاثر ثم قال اللھم إنی جعلت ثواب ہذا ما قرأت لأ ھل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء لہ إلی اﷲ تعالیٰ۔ (شرح الصدور للسیوطیؒ : ص ۱۳۵)
’’حضرت ابوہریرہ رضیرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے۔ پھر کہے اے اﷲ میں نے جو تیرا کلام پڑھا اس کا ثواب اس قبرستان کے مؤمن مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں تو وہ سب اس کی شفاعت کریں گے۔ ‘‘
عن أنسرضی اللہ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قال من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰسین خفف اﷲ عنھم وکان لہٗ بعدد من فیھا حسنات۔ (شرح الصدور للسیوطی: ص ۱۳۵)
حضرت انسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو قبرستان میں داخل ہوا اور اس نے سورت یٰسین کی تلاوت کی، مردوں سے اﷲ تعالیٰ عذاب ہلکا فرما دیں گے اور اس پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملیں گی۔ ‘‘
حماد مکی کا بیان ہے کہ میں ایک رات مکہ کے ایک قبرستان میں گیا۔ میں ایک قبر پر سر رکھ سو گیا میں نے دیکھا کہ قبرستان والے مختلف ٹولیوں میں بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا قیامت قائم ہوگئی؟ انہوں نے کہا نہیں۔ ہمارے ایک بھائی نے ’’قل ھو اﷲ أحد‘‘ پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخشا تھا اور ہم ایک سال سے وہ ثواب تقسیم کر رہے ہیں۔
مندرجہ بالا روایت امام سیوطی  نے شرح الصدور میں نقل فرمائی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ان روایات میں اگرچہ ضعف ہے لیکن ان کا مجموعہ اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی اصل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جا سکتاہے۔
7قربانی:
امام ابوداؤد نے ابوداؤد شریف میں ایک باب باندھا ہے‘‘ باب الأضحیۃ عن المیت‘‘ یعنی میت کی طرف سے قربانی کرنا اور اس میں حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجھہ حضرت ﷺ کے وصال کے بعد ہر سال دو دنبے قربانی کیا کرتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کرکے ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ مطلق ایصال ثواب کا اہل سنت و الجماعت میں سے کوئی منکر نہیں۔ معتزلہ جیسا بدعتی فرقہ اس کا منکر رہا ہے۔ اہل سنت کا مسلک نہایت واضح ہے کہ ایصالِ ثواب درست اور جائز ہے، خواہ بدنی عبادت کا ہو یا مالی عبادت کا۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ شریعت کے موافق ہو۔ شریعت کا مزاج اور ذوق یہ ہے کہ فرائض میں اعلان و اجتماع ضروری ہے اور نوافل میں انفرادیت اور اخفاء محبوب و مطلوب ہے۔ مثلاً فرض نماز باقاعدہ اذان و اقامت کے ساتھ با جماعت ادا کرنے کی تاکید ہے، مگر نوافل اور سنن اگر مسجد کے بجائے گھر میں پڑھی جائیں تو زیادہ محبوب ہے۔ اسی طرح ایک ایصال ثواب تو فرض کفایہ ہے اور وہ ہے نماز جنازہ۔ یہ باجماعت ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ساری عمر ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس میں اجتماع اور اعلان شریعت کے مخالف ہے۔ اس کے لیے دن مقرر کرنا، اعلان کرکے لوگوں کو جمع کرنا اور اجتماعی رنگ دینا، یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے اور خصوصاً احناف کے ہاں یہ بدعت ہے اور بدعت سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح ایک اور احتیاط بھی بہت اہم ہے کہ اگر ایصال ثواب کرنے والا اپنی ملکیت سے کر رہا ہے تو خیر، لیکن اگر میت کے ترکہ سے ترکہ تقسیم کیے بغیر کر رہا ہے تو سب وارثوں کا رضا مند ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے کوئی وارث غائب یا نا بالغ نہ ہو ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا۔ اس لیے میت کا مال پہلے شرعی طریقے سے تقسیم کیا جائے۔ پھر اپنے حصہ میں سے ایصالِ ثواب کیا جائے۔ http://darseislam.pk
جاری ہے....
گروپ میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر 0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...