Wednesday 4 May 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 31

(قسط نمبر 31)
عقیدہ ایصال ثواب:
سنی بریلوی اور سنی دیوبندی حضرات کے ایک بڑے گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اگر کوئی نیکی کرے تو اس کا ثواب دوسرے مسلمانوں کو منتقل کر سکتا ہے ۔ اسے عقیدہ ایصال ثواب کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ان حضرات کے ہاں یہ عام رسم ہے کہ مختلف تاریخوں پر ختم قرآن، ذکر یا دیگر دینی رسوم کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، کھانا پکا کر یا دیگر کهانے کی اشیاء کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے ایک اقلیتی گروہ کا نقطہ نظریہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے، کوئی اپنی نیکیاں دوسرے کو منتقل نہیں کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر اس عقیدے کو مان لیا جائے تو پھر آخرت اور جزا و سزا کا تصور ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح ایک شخص جتنے بھی گناہ کرے، مرنے کے بعد (یا اس کی زندگی میں) اس کی آل اولاد اور احباب اسے ایصال ثواب کرتے رہیں گے۔ اس طرح اس کے اکاؤنٹ میں نیکیاں برائیوں پر غالب آ جائیں گی اور ہر شخص بخشا جائے گا۔
جانبین کے دلائل یہ ہیں:
سنی بریلوی حضرات کے دلائل
اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں سنی بریلوی حضرات چند احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا محمد بن عبد الرحیم : حدثنا معاویۃ بن عمرو: حدثنا زائدۃ، عن الاعمش، عن مسلم البطین، عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال: جاء رجل الی النبی ﷺ فقال: یا رسول اللہ ، ان امی ماتت و علیھا صوم شھر، افاقضیہ، عنھا؟ (نعم قال: فدین اللہ احق  ان  یقضی)
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:" یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو گئی ہیں ان کے ذمے ایک ماہ کے روزے باقی تھے۔ کیا میں ان کی جانب سے اسے پورا کر دوں۔ "فرمایا:"ہاں، اللہ کا قرض پورا ہونے کا زیادہ حقدار ہے۔ (بخاری کتاب الصوم حدیث 1852)
اسی طرح سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے بارے میں سوال کیا کہ کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کر سکتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی امت کی جانب سے قربانی فرمائی اور آپ کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہی قربانی کرتے رہے۔
سلفی حضرات کے دلائل
اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں سلفی حضرات  قرآن مجید کی یہ آیات پیش کرتے ہیں:
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى 38 وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39 وَاَنَّ سَعْيَهٝ سَوْفَ يُرٰى 40 ثُـمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى 41
"کہ کوئی جان دوسری کا بوجھ نہ اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی ہے۔ اس کی کوشش کو عنقریب جانچا جائے گا، پھر اسے پوری پوری جزا دی جائے گی۔"
یہ مضمون قرآن مجید میں متعد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات سے واضح ہے کہ ہر شخص کو اسی عمل کی جزاو سزا ملے گی جس کے لیے اس نے خود کوشش کی ہو گی۔ اس وجہ سے نہ تو ایصال ثواب کا کوئی تصور ممکن ہے اور نہ ایصال عذاب کا۔
ایصال ثواب کے قائلین جو احادیث پیش کرتے ہیں، سلفی حضرات ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے موقع پر دوسرے کی جانب سے عمل کرنے کی اجازت عطا فرمائی جب وہ شخص خود وہ عمل کرنا چاہتا تھا مگر کر نہ پایا تھا۔ جیسے سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ صدقہ کرنا چاہتی تھیں، مگر کر نہ سکیں، اسی طرح بخاری کی حدیث میں مذکورہ شخص کی والدہ روزہ رکھنا چاہتی تھیں مگر رکھ نہ سکیں۔ انہوں نے اس عمل کی کوشش کی مگر پورا نہ کر سکیں، اس وجہ سے ان کی اولاد نے ان کی وصیت یا خواہش کے مطابق اگر وہ عمل کر دیا تو اللہ تعالی انہیں ان کی اپنی کوشش اور وصیت کا اجر دے دے گا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا قربانی کا ثواب امت میں ان لوگوں کو ملے گا جو قربانی نہ کر سکتے ہوں مگر اس کی خواہش رکھتے ہوں۔ اس طرح سے ایصال ثواب ان لوگوں کے لیے تو ممکن ہے جو کوئی نیک عمل کرنا چاہتے تھے مگر کر نہ سکے لیکن اور لوگوں کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔
اب ہم سنی بریلوی اور بعض سنی دیوبندی ، سلفی حضرات اور ماورائے مسلک کی جانب سے تین ضمیمہ پیش کرتے ہیں-البتہ ان میں شرعی ایصال و ثواب کی حیثیت پر بهی بات کی جائے گی اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے گا....-نوٹ:اس پروگرام میں ضمیمہ مصنف کی طرف سے نہیں راقم الحروف کی طرف سے  پیش کیا جاتا ہے- 
جاری ہے.....
مصنف:ڈاکٹر مبشر نذیر صاحب
مزید معلومات کیلئے درج ذیل لنک وزٹ کریں
www.mubashirnazir.org
www.aqilkhan.org
www.islamicstudiesprogram.com
www.islamic-studies.info
www.islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
تقابلی مطالعہ کیلئے گروپ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر 0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...