Wednesday 25 May 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 163

"اسلام اور خانقاہی نظا"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 163)
تبصرہ :  باتفاقِ مفسرین اس آیت  کریمہ میں وسیلے سے مراد ذاتی نیک اعمال کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ بعض لوگوں کا اس سے فوت شدگان کے وسیلہ پر دلیل لینا قرآنِ مجید کی معنوی تحریف کے مترادف ہے۔ آئیے اب مفسرین کرام کے اقوال بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں :امام المفسرین، علامہ ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ (م : ۳۱۰ھ) لکھتے ہیں :﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ يقول : واطلبو القربة إليه بالعمل بما يرضيه، والوسيلة : ھي الفعيلة من قول القائل : توسلت إلي فلان بكذا، بمعني : تقربت إليه۔۔۔۔ وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أھل التاويل، ذكر من قال ذلك : حدثنا ابن بشار، قال : ثنا أبو أحمد الزبيدي، قال : ثنا سفيان،۔۔۔ عن منصور، عن أبي وائل : ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾(المائدہ 35:5 )، قال : القربة في الأعمال۔” ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ (المائدہ 35:5 )”اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“، یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو راضی کرنے والے اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرو۔ وسیلہ توسل سے فعيلة کا وزن ہے جس کا معنی ہوتا ہے: کسی چیز کے ذریعے کسی ذات کا تقرب حاصل کرنا۔۔۔ وسیلے کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کرام وہی کہتے ہیں جو کچھ ہم نے کہہ دیا ہے۔ ان کا تذکرہ ہم یہاں (اپنی سند سے) کیے دیتے ہیں۔ ہمیں محمد بن بشار (ثقہ،حافظ ) نے بتایا۔ انہیں ابواحمد زبیری (ثقہ،ثبت) نے اور انہیں امام سفیان ثوری (ثقہ،حجۃ، فقیہ،عابد) نے بیان کیا، وہ منصور (ثقہ،ثبت) کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ (ثقہ تابعی) امام ابووائل شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ (المائدہ 35:5 ) ”اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“ کا مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرو۔“نحو و لغت اور عربی ادب کے امام، معروف مفسر، علامہ زمخشری (م : ۵۳۸ ھ) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : الوسيلة : كل ما يتوسل به، أي، يتقرب من قراية أو صنيعة أو غير ذلك، فاستعيرت لما يتوسل به إلي الله تعالىٰ، من فعل الطاعات وترك المعاصى، وأنشد للبيد : أري الناس لا يدرون ما قدر أمرھم۔۔۔ ألاكل ذى لب إلي الله واسل’’وسیلہ (لغوی معنی کے اعتبار سے) ہر وہ رشتہ داری یا عمل ہے جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جا سکے۔ پھر اس کا استعمال نیک اعمال کی بجا آوری اور معاصی سے اجتناب پر ہونے لگا اور اسی کے وسیلے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔ لبید کے ایک شعر کا مفہوم ہے: میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنی حیثیت کا احساس نہیں کرتے، ہر عقل مند کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔‘‘ (الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل : 628/1 )مشہور مفسر و متکلم، فلسفی و اصولی،علامہ فخرالدین رازی (م : ۶۰۶ھ) فرماتے ہیں : وقال : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ، كأنه قيل : قد عرفتم كمال جسارة اليھود علی المعاصي والذنوب، وبعدھم عن الطاعات التي ھي الوسائل للعبد إلي الرب، فكونو ياأيّھاا المؤمنون ! بالضد من ذلك، وكونوا متقين عن معاصي الله، متوسلين إلي الله بطاعات الله۔”فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“، یعنی مسلمانو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ یہود معصیت و نافرمانی کے ارتکاب میں کس قدر جرأت سے کام لیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری، جو کہ بندے کے لیے اپنے ربّ کے تقرب کا وسیلہ ہوتا ہے، سے کتنا دور تھے۔ تم اس کے بالکل برعکس ہو جانا، اللہ کی معصیت و نافرمانی سے بچنا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو وسیلہ بنا کر اس کا تقرب حاصل کرتے رہنا۔“ (مفاتيح الغيب، المعروف بالتفسير الكبير : 348/11، 349)معروف مفسر، علامہ ابوالحسن،علی بن محمد، المعروف بہ خازن (م : ۷۴۱ھ) لکھتے ہیں :قوله تعالىٰ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ أي خافو الله بترك المنھيات، ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ يعني : واطلبوا إليه القرب بطاعته والعمل بما يرضي، وانما قلنا ذلك، لأن مجامع التكاليف محصورة في نوعين، لا ثالث لھما، أحد النوعين : ترك المنھيات، وإليه الإشارة بقوله : ﴿اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ، والثاني : التقرب إلي الله تعالي بالطاعات، وإليه الإشارة بقوله: ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾”فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ”ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو“، یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی تمام منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ۔ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو“، یعنی اس کی فرمانبرداری اور خوشنودی والے اعمال کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرو۔ ہم نے یہ اس لیے کہا ہے کہ تمام شرعی پابندیاں آخر کار دو قسموں میں منقسم ہو جاتی ہیں۔ ایک قسم ممنوعات سے احتراز ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دوسری قسم احکامات  الٰہی پر عمل کر کے اس کا تقرب حاصل کرنا ہے اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اس کا تقرب حاصل کرو۔“ (لباب التأويل في معاني التنزيل : 38/2 )سنی مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م :۷۷۴ ھ) لکھتے ہیں :وھذا الذي قاله ھولاء الأئمة، لا خلاف بين المفسرين’’ان ائمہ دین نے جو فرمایا ہے، یہ مفسرین کرام کا اتفاقی فیصلہ ہے۔‘‘ (تفسير ابن كثير 535/2)
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...